دینی مدارس کے موجودہ نظام کی بنیاد امدادِ باہمی اور عوامی تعاون کے ایک مسلسل عمل پر ہے جس کا آغاز ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد اس جذبہ کے ساتھ ہوا تھا کہ اس معرکۂ حریت کو مکمل طور پر کچل کر فتح کی سرمستی سے دوچار ہوجانے والی فرنگی حکومت سیاسی، ثقافتی، نظریاتی اور تعلیمی محاذوں پر جو یلغار کرنے والی ہے اس سے مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ اور تہذیب و تعلیم کو بچانے کی کوئی اجتماعی صورت نکالی جائے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے دیوبند میں مدرسہ عربیہ (دارالعلوم دیوبند)، سہارنپور میں مظاہر العلوم اور مراد آباد میں مدرسہ شاہی کا آغاز ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان کے طول و عرض میں ان مدارس کا جال بچھ گیا۔ ان مدارس کے لیے بنیادی اصول کے طور پر یہ بات طے کر لی گئی کہ ان کا نظام کسی قسم کی سرکاری یا نیم سرکاری امداد کے بغیر عام مسلمانوں کے چندہ کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انتہائی سادگی اور قناعت کے ساتھ ان مدارس نے برصغیر کے مسلمانوں کی بے پناہ دینی و علمی خدمات سرانجام دیں۔
ان مدارس کے منتظمین اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ایسے مردانِ باصفا کی تھی جو وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کا ارادہ کر لیتے تو دنیاوی زندگی کی سہولتیں اور آسائشیں بے دام غلام کی طرح ان کے دروازے پر قطار باندھے کھڑی نظر آتیں، لیکن غیور و جسور فقراء کے اس گروہ نے مسلمان کو مسلمان باقی رکھنے کے عظیم مشن کی خاطر نہ صرف ان آسائشوں اور سہولتوں کو تج دیا بلکہ اپنی ذاتی انا اور عزتِ نفس کی قیمت پر صدقات، زکوٰۃ و عشر اور ایک ایک دروازے سے ایک ایک روٹی مانگنے کے لیے اپنی ہتھیلیاں اور جھولیاں قوم کے سامنے پھیلا دیں۔ اور ہر قسم کے طعن و تشنیع اور تمسخر و استہزاء کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے انتہائی صبر و ثبات کے ساتھ ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جس نے برصغیر میں اسپین کی تاریخ دہرانے کی فرنگی خواہش اور سازش کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا۔ اور برطانوی حکمران بالآخر یہی حسرت دل میں لیے ۱۹۴۷ء میں یہاں سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہوگئے۔
دینی مدارس کی جدوجہد کے نتائج و ثمرات کے حوالہ سے اگر معاشرے میں ان مدارس کے اجتماعی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو تمام تر خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود اس کی شکل کچھ اس طرح سامنے آتی ہے کہ:
- لارڈ میکالے نے مسلمانوں کی نئی نسل کو ذہنی لحاظ سے انگریز کا غلام بنانے اور نوآبادیاتی فرنگی نظام کے کل پرزوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے جس نظامِ تعلیم کی بنیاد رکھی تھی اس کے مقابلے میں دینی مدارس ایک مستحکم اور ناقابل شکست متوازی نظام تعلیم کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اور اس طرح فرنگی تعلیم و ثقافت سے محفوظ رہنے کی خواہش رکھنے والے غیور مسلمانوں کو ایک مضبوط نظریاتی اور تہذیبی حصار میسر آگیا۔
- جدید عقل پرستی کی بنیاد پر دینی عقائد و روایات سے انحراف، انکارِ ختم نبوت، انکارِ حدیث اور اس قسم کے دیگر اعتقادی اور مذہبی فتنوں نے سر اٹھایا تو یہ دینی مدارس پوری قوت کے ساتھ ان کے سامنے صف آرا ہوگئے اور ملت اسلامیہ کی راسخ الاعتقادی کا تحفظ کیا۔
- فرنگی تہذیب اور یورپی ثقافت کی طوفانی یلغار کا سامنا کرتے ہوئے دینی مسلم ثقافت کو ایک حد تک بچانے اور بطور نمونہ باقی رکھنے میں ان مدارس نے کامیابی حاصل کی۔
- قرآن و سنت کے علوم، عربی زبان اور دینی لٹریچر کو نہ صرف زمانہ کی دستبرد سے بچا کر رکھا بلکہ ملک میں ان علوم کے حاملین اور مستفیدین کی ایک بڑی تعداد پیدا کر کے اگلی نسلوں تک انہیں من و عن پہنچانے کا اہتمام کیا۔
- دینی مدارس کے اس نظام نے تحریک آزادی کو شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمدؒ مدنی، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا عبد الرحیم پوپلزئیؒ، مولانا تاج محمودؒ امروٹی، مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، مولانا عبد القادر قصوریؒ اور صاحبزادہ سید فیض الحسن، جبکہ تحریک پاکستان کو علامہ شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا ظفر احمدؒ عثمانی، مولانا اطہر علیؒ، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، اور مولانا محمد ابراہیمؒ سیالکوٹی جیسے بے باک، مخلص اور جری راہنماؤں کی صورت میں ایک مضبوط نظریاتی قیادت مہیا کی جن کے ایثار، قربانی اور جدوجہد نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کیا۔
- اور اب افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں کمیونزم کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا جائزہ لے لیا جائے جس نے روسی افواج کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کرنے کے علاوہ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں میں دینی بیداری کی لہر دوڑا دی ہے اور روسی استعمار کے آہنی پنجے کو ڈھیلا کر کے مشرقی یورپ پر کمیونزم کی گرفت کو کمزور کر دیا ہے۔ افغانستان کے غیور مسلمانوں کے اس عظیم جہاد کی قیادت کا ایک بڑا اور فیصلہ کن حصہ انہی دینی مدارس کا تربیت یافتہ ہے۔ اور اس طرح افغانستان کو روسی کمیونزم کے لیے ’’پانی پت‘‘ کا میدان بنا دینے کا کریڈٹ دینی مدارس کے اسی نظام کے حصہ میں آتا ہے۔
الغرض دینی مدارس کی یہ عظیم جدوجہد اور اس کے نتائج و ثمرات تاریخ کے صفحات پر اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ کوئی ذی شعور اور منصف مزاج شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ فرنگی اقتدار کے تسلط، مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار اور صلیبی عقائد و تعلیم کی ترویج کے دور میں یہ مدارس ملی غیرت اور دینی حمیت کا عنوان بن کر سامنے آئے اور انہوں نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں سیاست، تعلیم، معاشرت، عقائد اور تہذیب و ثقافت کے محاذوں پر فرنگی سازشوں کا جرأت مندانہ مقابلہ کر کے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کو اسپین بننے سے بچا لیا ۔ اور یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آج اس خطہ زمین میں مذہب کے ساتھ وابستگی اور اسلام کے ساتھ وفاداری کے جن مظاہر نے کفر کی پوری دنیا کو لرزہ براندام کر رکھا ہے، عالم اسباب میں اس کا باعث صرف اور صرف یہ دینی مدارس ہیں۔ لیکن مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کے دوسرے رخ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے اور ارباب فہم و دانش کی ان توقعات اور امیدوں کا مرثیہ بھی پڑھ لیا جائے جن کا خون ناحق ہمارے دینی مدارس کی اجتماعی قیادت کی گردن پر ہے۔
تفصیلات و فروعات تک گفتگو کا دائرہ وسیع کرنے کی بجائے ہم اپنی گزارشات کو صرف دو اصولی باتوں کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے:
- جدید مغربی فلسفہ حیات کے اثرات سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے دینی مدارس کا کردار کیا ہے؟
- مسلم معاشرے میں نفاذ اسلام کے ناگزیر علمی و فکری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان دینی مدارس کا نظام کار اور حکمت عملی کیا ہے؟
ایک دور تھا جب یونانی فلسفہ نے عالم اسلام پر یلغار کی تھی اور عقائد و افکار کی دنیا میں بحث و تمحیص کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اگر اس وقت عالمِ اسلام کے تعلیمی مراکز اور اہلِ علم یونانی فلسفہ کی اس یلغار کو وقتی طوفان سمجھ کر نظرانداز کر دیتے اور اپنے کان اور منہ لپیٹ کر اس کے گزر جانے کا انتظار کرتے رہتے تو اسلامی علوم و عقائد کا پورا ڈھانچہ فلسفۂ یونان کی حشر سامانیوں کی نذر ہو جاتا۔ لیکن علمائے اسلام نے اس دور میں ایسا نہیں کیا بلکہ یونانی فلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کر کے خود اس کی زبان میں اسلامی عقائد و افکار کو اس انداز سے پیش کیا کہ یونانی فلسفہ کے لیے پسپائی کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہا اور اس کے بپا کیے ہوئے فکری اور نظریاتی معرکوں کے تذکرے آج ابوالحسن اشعریؒ، ابو منصور ماتریدیؒ، رازیؒ، غزالیؒ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ کی تصنیفات میں یادگار کے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔
یورپ کے جدید فلسفۂ حیات کی یلغار بھی یونانی فلسفہ کے حملہ سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہ فلسفۂ حیات جس نے انقلابِ فرانس کے ساتھ اپنا وجود تسلیم کرایا اور پھر یورپ کے سائنسی و صنعتی انقلاب کے زیر سایہ اپنا دائرہ وسیع کرتے ہوئے آج دنیا کے اکثر و بیشتر حصہ کو لپیٹ میں لے چکا ہے، خود کو انسانی زندگی کے ایک ہمہ گیر فلسفہ کے طور پر پیش کرتا ہے اور انسان کی پیدائش کے مقصد سے لے کر انسانی معاشرت کے تقاضوں اور مابعد الطبعیات کی وسعتوں تک کو زیر بحث لاتا ہے۔ ڈارون، فرائیڈ، نطشے اور دیگر مغربی فلاسفروں اور سائنس دانوں کی گزشتہ دو صدیوں پر محیط فکری کاوشوں اور نظریاتی مباحث کا خلاصہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کلیسا کی بدکرداریوں اور مظالم کے ردعمل کے طور پر جنم لینے والے اس فلسفہ کو یورپ نے ایک مکمل فلسفۂ حیات کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے ذریعے وہ دنیا میں موجود اسلام سمیت تمام فلسفہ ہائے حیات کو مکمل شکست سے دوچار کر کے فنا کے گھاٹ اتارنے کے درپے ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے یورپ کی اس فکری یلغار کی ماہیت اور مقاصد کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور اسے محض اقتصادی اور سیاسی بالادستی کا جنون سمجھ کر اسی انداز میں اس کا سامنا کرتے رہے اور اس کی فکری اور اعتقادی پہلوؤں کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ یونانی فلسفہ کے در آنے سے ہمارے ہاں عقائد کے نئے مباحث چھڑ گئے تھے جنہیں علمائے اسلام نے اپنے فکری اور علمی مباحث میں سمو دیا اور ہمارے عقائد کی بیشتر کتابیں ان مباحث سے بھرپور ہیں۔ حتیٰ کہ دینی مدارس کے نصاب میں آج کے طلبہ کو بھی عقائد کے حوالے سے انہی مباحث سے روشناس کرایا جاتا ہے جو یونانی فلسفہ کی پیداوار ہیں اور جن میں سے زیادہ تر کا آج کے نئے فکری اور اعتقادی تقاضوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن جو اعتقادی اور فکری و تہذیبی مباحث یورپ کے فلسفۂ حیات نے چھیڑے ہیں، نہ ہماری عقائد کی کتابوں میں ان کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہم طلبہ کو ان مباحث کی ہوا ہی لگنے دیتے ہیں۔
ڈارون کا نظریۂ ارتقا، انسان کے مقصدِ وجود میں کششِ جنسی کی محوری حیثیت کے بارے میں فرائیڈ کے تصورات، اجتماعی زندگی سے مذہب کی مکمل لاتعلقی اور غیر محدود فکری آزادی کا نعرہ آخر اعتقادی مباحث نہیں تو اور کیا ہیں؟ اور کیا انہی افکار و نظریات کا شکار ہو کر مسلمان کہلانے والوں کی ایک بڑی تعداد اسلام کے اجتماعی کردار سے منکر یا کم از کم مذبذب نہیں ہو چکی ہے؟ اس اعتقادی فتنہ کی روک تھام کے لیے ہمارے دینی مدارس کا کیا کردار ہے؟ ہمارے نصاب میں تفسیر، حدیث، فقہ اور عقائد کی کون سی کتاب میں یہ مباحث شامل ہیں اور ہم اپنے طلبہ کو ان مباحث سے روشناس کرانے اور انہیں ان کے جواب کی خاطر تیار کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
یہ وقت کا ایک اہم سوال اور دینی مدارس کی اجتماعی قیادت پر مسلم معاشرہ اور نئی نسل کا ایک قرض ہے جس کا سامنا کیے بغیر ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ فروعی اور جزوی مسائل ہمارے ہاں بنیادی اور کلیدی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور جو امور فکر و اعتقاد کی دنیا میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی ہماری نظر میں کوئی وقعت ہی باقی نہیں رہی۔ ہماری پسند و ناپسند اور وابستگی و لاتعلقی کا معیار جزوی مسائل اور گروہی تعصبات ہیں۔ ایک مثال بظاہر معمولی سی ہے لیکن اس سے ہماری فکری ترجیحات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ ہمارے ایک دوست نے جنہوں نے ہمارے دینی ماحول میں تربیت حاصل کی ہے گزشتہ دنوں ایک بڑے سیاسی لیڈر کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار یوں کیا کہ وہ بہت اچھا اور صحیح العقیدہ لیڈر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ میں برسیوں اور عرسوں میں شریک ہونے کا قائل نہیں ہوں۔ ان سے عرض کیا گیا کہ وہ سیاسی لیڈر تو سیکولر نظریات کا قائل ہے اور اجتماعی زندگی میں نفاذ اسلام کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتا۔ اس کے جواب میں ہمارے دوست کا کہنا یہ تھا کہ یہ تو سیاسی باتیں ہیں، اصل بات یہ ہے کہ وہ عرسوں اور برسیوں کا مخالف ہے اس لیے وہ ہمارے مسلک کا ہے اور صحیح العقیدہ ہے۔ یعنی اسلام کے اجتماعی زندگی میں نفاذ کا مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے اور عرسوں میں شریک ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ اعتقادی ہے۔ آخر یہ سوچ کہاں سے آئی ہے؟ کیا یہ ہمارے دینی مدارس کی غلط فکری ترجیحات کا ثمرہ نہیں ہے؟
اب آئیے دوسرے نکتہ کی طرف کہ نفاذ اسلام کے علمی و فکری تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہمارے دینی مدارس کا کردار کیا ہے؟
جہاں تک نفاذ اسلام کی اہمیت کا تعلق ہے کوئی مسلمان اس سے انکار نہیں کر سکتا اور علمائے اہلِ سنت نے اسے اہم ترین فرائض میں شمار کیا ہے۔ بلکہ ابن حجر مکیؒ اور دیگر ائمہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ نظام اسلام کے نفاذ کے لیے خلافت کا قیام ’’اہم الواجبات‘‘ ہے جسے حضرات صحابہ کرامؓ نے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین پر ترجیح دی اور آنحضرتؐ کے جنازہ اور تدفین سے قبل حضرت ابوبکرؓ کا بطور خلیفہ انتخاب کیا۔ پھر برصغیر میں ہمارے اکابر کی جنگِ آزادی کا بنیادی مقصد بھی حصولِ آزادی کے بعد نظامِ اسلام کا غلبہ و نفاذ رہا ہے اور پاکستان کا قیام بھی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نعرہ پر شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کے لیے عمل میں آیا۔ لیکن اسلام کو ایک اجتماعی نظام کے طور پر ہمارے دینی مدارس میں نہ پڑھایا جا رہا ہے اور نہ طلبہ کی اس انداز میں ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ ایک نظام کے طور پر کریں۔ حالانکہ حدیث اور فقہ کی بیشتر کتابیں محدثین اور فقہاء نے اس انداز سے لکھی ہیں کہ ان میں اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کا الگ عنوان کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ عقائد، عبادات اور اخلاق کے علاوہ تجارت، خلافت، جہاد، دوسری اقوام سے تعلقات، صنعت، زمینداری، حدود و تعزیرات، نظامِ عمل، نظامِ عدالت، معاشرت اور دیگر اجتماعی شعبوں کے بارے میں حدیث اور فقہ کی کتابوں میں مفصل اور جامع ابواب موجود ہیں جن کے تحت محدثین اور فقہاء نے احکام و ہدایات کا بیش بہا ذخیرہ جمع کر دیا ہے۔ لیکن ان ابواب کی تعلیم میں ہمارے اساتذہ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں ہمارے اساتذہ کے علم اور بیان کا سارا زور کتاب الطہارت اور صلوٰۃ کے جزوی مباحث میں صرف ہو جاتا ہے، جبکہ خلافت و امارت، تجارت و صنعت، جہاد، حدود و تعزیرات اور اجتماعی زندگی سے متعلق دیگر مباحث سے یوں کان لپیٹ کر گزر جاتے ہیں جیسے ان ابواب کا ہماری زندگی سے کوئی واسطہ نہ ہو یا جیسے ان ابواب کی احادیث اور فقہی جزئیات منسوخ ہو چکی ہوں اور اب صرف تبرک کے طور پر انہیں دیکھ لینا کافی ہو۔
حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اجتماعی زندگی سے متعلق ابواب کو زیادہ اہتمام سے پڑھایا جاتا۔ قانون، سیاست، خارجہ پالیسی، جنگ اور معاشرت کے مروجہ افکار و نظریات سے اسلامی تعلیمات کا تقابل کر کے اسلامی احکام کی برتری طلبہ کے ذہنوں میں بٹھائی جاتی اور انہیں اسلامی افکار و نظریات کے دفاع اور اس کی عملی ترویج کے لیے تیار کیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس اہم ترین دینی و قومی ضرورت سے مسلسل صرف نظر کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی پچانوے فیصد اکثریت خود اسلامی نظام سے ناواقف اور جدید افکار و نظریات کو سمجھنے اور اسلامی احکام کے ساتھ ان کا تقابل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کے اعتراف میں کسی حجاب سے کام نہیں لینا چاہیے اور اس کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تلافی صورت نکالنی چاہیے۔
آج نفاذ اسلام کی راہ میں ایک بڑی عملی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اس نظام کو چلانے کے لیے رجال کار کا فقدان ہے۔ اسلامی نظام کو سمجھنے والے اور اسے چلانے کی صلاحیت سے بہرہ ور افراد کا تناسب ضرورت سے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اور یہ خلا آخر کس نے پر کرنا ہے؟ جس نظامِ تعلیم کو ہم لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم کہتے ہیں اس سے تو یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ اسلامی نظام کے لیے کل پرزے فراہم کرے گا۔ اور اگر دینی نظامِ تعلیم اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کردار ادا نہیں کر رہا تو اسلامی نظام کے لیے رجالِ کار کیا آسمان سے اتریں گے؟
دینی مدارس کے اجتماعی کردار کے منفی پہلوؤں کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی گنجائش موجود ہے بلکہ بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے لیکن ہم صرف مذکورہ دو اصولی مباحث کے حوالے سے توجہ دلاتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، دینی مدارس کی اجتماعی قیادت بالخصوص وفاق المدارس العربیہ، تنظیم المدارس اور وفاق المدارس السلفیہ کے ارباب حل و عقد سے گزارش کریں گے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور یورپ کے لادینی فلسفۂ حیات کو فکری محاذ پر شکست دینے اور نفاذِ اسلام کے لیے رجال کار کی فراہمی کے حوالہ سے اپنے کردار کا ازسرنو تعین کریں۔ ورنہ وہ اپنی موجودہ کارکردگی اور کردار کے حوالہ سے نہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں گے اور نہ ہی مؤرخ کا قلم ہی ان کے اس طرز عمل کے بارے میں کسی رعایت اور نرمی سے کام لے گا۔