علماء کی شہادت

   
۲۱ مارچ ۲۰۱۰ء

کراچی ایک بار پھر علماء کی قتل گاہ بن گیا ہے اور مولانا سعید احمد جلال پوریؒ اور مولانا عبد الغفور ندیم کی اپنے بہت سے رفقاء سمیت المناک شہادت نے پرانے زخموں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا اور اس عفریت نے ابھی کتنے اور قیمتی لوگوں کی جان لینی ہے۔

مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے قافلے کے فرد تھے، ان کے تربیت یافتہ تھے اور انہی کی مسند پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ بڑی شخصیات کا خلا تو کبھی پورا نہیں ہوا کرتا، لیکن اگر ان کے مشن کا تسلسل جاری رہے اور خود ان کے تربیت یافتہ لوگ ان کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہوں تو دلوں کو تسلی رہتی ہے اور خلا کا احساس کسی قدر کم ہو جاتا ہے۔ مولانا سعید احمد جلال پوریؒ کو حضرت لدھیانویؒ کی مسند پر بیٹھا دیکھ کر کچھ اسی قسم کی کیفیت دل میں ابھرتی تھی اور خوشی کے ساتھ ان کے لیے دل سے دعائیں بھی اٹھتی تھیں۔ ان کا حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ بھی خصوصی تعلق تھا اور حضرت والد محترم نے انہیں اپنے خلفاء کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔ قادیانیت کے خلاف محاذ کو سرگرم رکھنے کے ساتھ نئے ابھرنے والے فکری اور اعتقادی فتنوں کی نشاندہی اور ان کا تعاقب ان کے ذوق و مشن کا اہم حصہ تھا۔ کراچی میں اس محاذ کو جس طرح حضرت لدھیانویؒ اور ان کی راہنمائی میں مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ اور مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ نے منظم کر رکھا تھا اور ایک پورا حلقہ اپنے ساتھ جوڑا ہوا تھا، اسے دیکھ کر تسلی ہوتی تھی کہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کے ذوق کے لوگ ابھی موجود ہیں اور یہ محاذ خالی نہیں ہوا۔

مولانا سعید احمد جلال پوریؒ ہمارے باذوق دوست اور ساتھی تھے۔ ان کے ساتھ کئی تحریکوں اور اسفار میں رفاقت رہی، باہمی مشاورت کا سلسلہ بھی رہتا تھا اور ان کا یہ ذوق بہت اچھا تھا کہ جس بات پر ضروری سمجھتے تھے ٹوک دیتے تھے اور گرفت کرتے تھے، مگر کسی بات کو مسئلہ نہیں بناتے تھے۔

مولانا عبد الغفور ندیم شہیدؒ کے ساتھ میرا کچھ زیادہ رابطہ نہیں تھا، شاید ایک آدھ دفعہ کہیں ملاقات ہوئی، مگر اتنی بات کافی تھی کہ وہ مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے قافلے کے رکن تھے اور ان کے مشن کو جاری رکھنے والے راہنماؤں میں سے تھے۔ اس قافلے نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ناموس صحابہؓ کے تحفظ کے عنوان سے شہادتوں کی لائن لگا دی ہے۔ ان کے طریق کار سے اختلاف کے باوجود ان کا خلوص اور استقامت ہمیشہ مسلمہ رہی ہے۔

علماء کرام کی ان مسلسل شہادتوں کو ہر طبقہ اور ہر فرد اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے اسباب و عوامل کے بارے میں بھی مختلف حلقوں کی مختلف آراء ہیں۔ میرے نزدیک ان سب واقعات کے پیچھے ”ماسٹر مائنڈ“ ایک ہی ہے، جس کا مقصد دینی حلقوں کو کمزور کرنا، علماء کو خوف زدہ کرنا، ملی وحدت کو نقصان پہنچانا اور دینی مدارس کے وسعت پذیر دائروں کو محدود کرنا ہے۔ ایسا کرنا ان قوتوں کے نزدیک ضروری ہے جو پاکستان کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست اور عالم اسلام میں نفاذِ اسلام کے حوالہ سے ایک راہنما ریاست کے طور پر دیکھنا پسند نہیں کرتیں اور اسے عالمی استعمار اور بھارت کے ساتھ ایک طفیلی ریاست کے طور پر نتھی کر دینا چاہتی ہیں۔ اس سمت پیشرفت کے لیے وہ سب کچھ ضروری ہے جس کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔ اس کے لیے کون کون کہاں کہاں استعمال ہو رہا ہے؟ اس پر غور کرنا ہر طبقے اور ہر حلقے کی ذمہ داری ہے۔ ضروری نہیں کہ سب لوگ شعوری طور پر استعمال ہو رہے ہوں، مگر کسی بھی محنت کے نتائج ملی مقاصد اور قومی مفادات کے تناظر میں دیکھنے کا اگر مزاج بن جائے تو بہت سی خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

بہرحال مولانا سعید احمد جلال پوریؒ، مولانا عبد الغفور ندیمؒ اور ان کے رفقاء کی شہادت پورے اہل دین کے لیے باعث صدمہ ہے اور دینی جدوجہد کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے والوں کو اس سے دکھ پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی قربانیاں قبول فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

شہدائے کراچی کی تازہ کھیپ پر تعزیت اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے میں اپنے ایک اور ساتھی کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتا ہوں اور وہ اچھڑیاں ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے مولانا شمس الحق مشتاق ہیں، جن کا گزشتہ شب انتقال ہو گیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

ان کی زندگی کا بھی ایک متحرک دور کراچی میں گزرا ہے اور وہ کچھ عرصہ پہلے تک کراچی میں جمعیت علماء اسلام کے سر گرم حضرات میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے والد محترم مولانا محمد معین اچھڑیاں کے خطیب تھے اور جمعیت علماء اسلام کے متحرک راہنماؤں میں سے تھے۔ مولانا شمس الحق مشتاقؒ کے ایک بھائی مولانا قاری اسرار الحقؒ بھی گزشتہ عید الفطر کو اچھڑیاں میں نماز عید کا خطبہ دیتے ہوئے وفات پا گئے تھے۔ مولانا شمس الحق مشتاقؒ نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیم پائی اور کراچی کو اپنی جماعتی اور دینی سرگرمیوں کا جولانگاہ بنا لیا، اچھے مقرر اور انتھک کار کن تھے، چند سال قبل برطانیہ چلے گئے جہاں وہ برمنگھم کی ایک مسجد میں خطابت کے فرائض سر انجام دیتے تھے، جماعتی سرگرمیاں وہاں بھی ان کے ساتھ ساتھ رہیں، جمعیت علماء برطانیہ میں متحرک رہے اور اس میں اپنا ایک گروپ تشکیل دے کر اس کی امارت کے منصب پر فائز تھے۔

گزشتہ سال میری برطانیہ حاضری کے موقع پر انہوں نے اپنے سفر فلسطین کی تفصیلی روداد سنائی کہ جب غزہ کا محاصرہ کیا گیا اور اسرائیل نے اس مظلوم شہر کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کر دیا تو برطانیہ سے علماء کرام اور سماجی کارکنوں کا ایک بھرپور قافلہ امدادی سامان لے کر بائی روڈ فلسطین پہنچا اور غزہ میں محصور فلسطینی بھائیوں کی امداد کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس قافلہ کے راہنماؤں میں مولانا شمس الحق مشتاقؒ بھی تھے، انہوں نے اپنے سفر کی خاصی تفصیلات بیان کیں، جن کے میں نے نوٹس بھی لیے، خیال تھا کہ یہ ساری روداد اپنے قارئین کو بتاؤں گا مگر وہ نوٹس کہیں ادھر ادھر ہو گئے اور میرے ذہن سے بھی بات نکل گئی۔

مولانا مشتاق کچھ دنوں سے بیمار تھے، چند دن کراچی میں علاج ہوتا رہا، پھر اسلام آباد آگئے اور گزشتہ شب ان کا انتقال ہو گیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter