ایک اور ’’دینِ الٰہی‘‘؟

   
اگست ۱۹۹۰ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ جولائی ۱۹۹۰ء کی رپورٹ کے مطابق حکمران پارٹی کی سربراہ بیگم بے نظیر بھٹو نے لاہور ایئرپورٹ پر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے شریعت بل کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ:

’’ہم ایسا اسلام چاہتے ہیں جو واقعی اللہ کی ہدایات کے مطابق ہو۔ پوری دنیا اللہ کی ہے۔ عوام اللہ کے نمائندے ہیں۔ منتخب پارلیمنٹ اللہ کی امانت ہوتی ہے۔ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی قائم رکھیں گے۔ ہم انسانوں کے کان یا ہاتھ کاٹنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔‘‘

قومی اسمبلی میں ’’شریعت بل‘‘ کے زیر بحث آنے سے قبل حکمران پارٹی کی سربراہ کا یہ بیان جہاں حکمران پارٹی کی پالیسی اور عزائم کی عکاسی کرتا ہے وہاں ملک کے دینی حلقوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ بھی مہیا کرتا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے اسلام کے بارے میں خود ان کا نقطۂ نظر کیا ہے اور وہ اسلام کا نام لے کر ملک کو کس ڈگر پر چلانا چاہتے ہیں۔ بیگم بے نظیر بھٹو اور ان کے وزیر قانون اس سے قبل بھی اسلامی قوانین اور شرعی حدود کو متعدد مواقع پر وحشیانہ اور انسانی حقوق کے منافی قرار دے چکے ہیں اور اب پھر قدرے نرم الفاظ کے ساتھ ان کی طرف سے اسی موقف کا اظہار کیا گیا ہے۔

ہم اس موقع پر حکمران پارٹی سے صرف یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے پاس ’’اللہ تعالیٰ کی واقعی ہدایات‘‘ حاصل کرنے کے متبادل ذرائع آخر کونسے ہیں؟ کیونکہ جو ہدایات اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم میں مسلمانوں کو عطا فرمائی ہیں ان میں ہاتھ، کان، ناک اور دیگر اعضا (بطورِ قصاص) کاٹنے کے واضح احکام موجود ہیں اور شرعی احکام کے بارے میں پارلیمنٹ یا کسی بھی انسانی ادارہ کی بالادستی کی قطعی نفی کر دی گئی ہے۔ کہیں اکبر بادشاہ کی طرح یہ ’’نیا دینِ الٰہی‘‘ نافذ کرنے کا پروگرام تو نہیں؟ حکمران پارٹی کو یہ بات ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اکبر بادشاہ کے درباری اجتہاد یا مرزا غلام احمد قادیانی کی خود ساختہ وحی کے ذریعے شرعی احکام کو بدلنے کا کوئی تجربہ یہاں نہیں چل سکتا اور نہ ہی واشنگٹن، لندن اور ماسکو کے افکار و نظریات پر اسلام کا لیبل لگا کر انہیں ملک کے عوام سے قبول کروایا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter