عورت کی حکمرانی کے بارے میں علماء کا موقف قرآن و سنت اور اجماع امت کی روشنی میں اس قدر واضح اور مبرہن ہو کر سامنے آچکا ہے کہ اب اس میں مزید کلام کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ اور نہ ہی اہل علم و دانش اور اصحاب فہم و فراست کے لیے اس مسئلہ میں کسی قسم کا کوئی ابہام باقی رہ گیا ہے کہ قرآن و سنت کے صریح احکام اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ تواتر عملی کی رو سے کسی مسلم ریاست میں خاتون کے حکمران بننے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ البتہ اس موقف اور اس کے مطابق علماء کرام کی اجتماعی جدوجہد کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات اور اعتراضات سامنے آرہے ہیں جن کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے، اور زیر نظر مضمون میں انہی شبہات و اعتراضات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔
ملکہ سبا
یہ بات کہی جاتی ہے کہ قرآن کریم میں ملکہ صبا حضرت بلقیسؓ کا ذکر موجود ہے جو سبا کی حکمران تھیں اور جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا، اگر عورت کی حکمرانی ناجائز ہوتی تو ان کا ملکہ کی حیثیت سے قرآن کریم میں ذکر نہ ہوتا۔
لیکن جب ہم اس واقعہ کے حوالہ سے قرآن کریم کے ارشادات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ اعتراض بے وزن نظر آتا ہے، اس لیے کہ
- قرآن کریم نے ملکہ سبا کی حکومت کا جس دور کے حوالہ سے ذکر کیا ہے وہ ان کا کفر کا دور ہے اور قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ وہ اس دور میں سورج کی پجاری تھیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کے بعد ملکہ سبا کی حکومت کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔
- حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کے ہاتھ جو خط ملکہ سبا کو ارسال کیا تھا اس میں اسے مسلمان ہونے کی دعوت ان الفاظ میں دی تھی کہ الا تعلوا علی واتونی مسلمین (سورہ النمل) مجھ سے سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس آؤ۔ یہ دعوت ملکہ سبا اور اس کی قوم کو تھی اور اسی دعوت کو قبول کرتے ہوئے ملکہ سبا ایمان لائی تھیں۔ اس لیے سرکشی نہ کرنے اور مطیع ہو کر چلے آنے کا مفہوم یہی تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی الگ اور مستقل حکومت باقی نہیں رہی تھی۔
- اگر بالفرض اسلام قبول کرنے کے بعد ملکہ سبا کی حکومت باقی رہی ہو تو بھی ان کا یہ عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل کے جو احکام اور واقعات قرآن کریم میں مذکور ہوئے ہیں اور قرآن کریم نے مسلمانوں کو ان کے خلاف حکم دیا ہے تو وہ احکام باقی نہیں رہے بلکہ منسوخ ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ملا جیونؒ نے اصول فقہ کی معروف کتاب ’’نور الانوار‘‘ میں صراحت کی ہے اور اسی بنیاد پر معروف مفسر قرآن علامہ آلوسیؒ نے ملکہ سبا کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس سے عورت کی حکمرانی کے جواز میں استدلال کرنا درست نہیں‘‘۔ (روح المعانی ص ۱۸۹ ج ۱۹)
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ
یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اگر عورت کی حکمرانی جائز نہ ہوتی تو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنگ جمل میں صحابہ کرامؓ کے ایک گروہ کی قیادت کیوں کرتیں؟ مگر یہ اعتراض بھی غلط اور بے بنیاد ہے، اس لیے کہ
- ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے امارت اور حکمرانی کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ اس لیے جنگ لڑی تھی۔ بلکہ وہ صرف حضرت عثمانؓ کے خون کے بدلہ کا مطالبہ لے کر میدان میں آئی تھیں، اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
- حضرت عائشہؓ کا یہ عمل ان کی اجتہادی خطا تھی جس پر خود ام المؤمنین ؓ نے کئی بار پشیمانی کا اظہار فرمایا۔ مثلاً طبقات ابن سعد (ص ۸۱ ج ۸) میں ہے کہ ام المؤمنینؓ جب قرآن کریم کی آیت کریمہ وقرن فی بیوتکن کی تلاوت کرتیں تو روتے روتے ان کا آنچل آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔ اس آیت کریمہ میں ازواج مطہراتؓ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھی رہیں۔ اسی طرح امام حاکمؒ (مستدرک ص ۸ ج ۴) میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے وصیت فرمائی کہ انہیں وفات کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روضۂ اطہر میں دفن نہ کیا جائے کیونکہ ان سے حضور علیہ السلام کے بعد ایک غلطی سرزد ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں مصنف ابن ابی شیبہ (ص ۳۷۷ ج ۱۵) میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول منقول ہے کہ اے کاش میرے دس بیٹے مر جاتے لیکن میں یہ سفر نہ کرتی۔ اس لیے حضرت ام المؤمنین کے اس عمل کو دلیل بنانا درست نہیں ہے۔
فقہائے احناف
یہ اشکال پیش کیا جاتا ہے کہ فقہائے احناف عورت کو قاضی بنانے کے حق میں ہیں اس لیے عورت قاضی بن سکتی ہے تو حاکم کیوں نہیں بن سکتی؟ لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں ہے اور اس سلسلہ میں فقہائے احناف کے موقف کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ فتویٰ علی الاطلاق فقہائے احناف نے نہیں دیا کہ عورت کو قاضی بنایا جا سکتا ہے بلکہ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر کسی حاکم نے عورت کو قاضی بنا دیا ہے اور اس عورت نے قاضی کی حیثیت سے فیصلے کیے ہیں تو اس کے فیصلے ان مقدمات میں نافذ ہوں گے جن کا تعلق حدود و قصاص سے نہیں ہے، اور حدود و قصاص کے مقدمات میں اس کے فیصلے نافذ نہیں ہوں گے۔ چنانچہ علامہ شامیؒ (رد المحتار ص ۳۹۵ ج ۴) میں صراحت کرتے ہیں کہ غیر حدود و قصاص میں عورت کی قضا نافذ ہوگی لیکن اس کو قاضی بنانے والا گنہگار ہوگا۔ اس لیے فقہائے احناف کے موقف کی عملی صورت یوں بنتی ہے کہ
- حدود و قصاص کے مقدمات میں عورت قاضی نہیں بن سکتی اور نہ ہی اس کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔
- باقی ماندہ مقدمات میں بھی عورت کو قاضی بنانے والا گنہگار ہوگا لیکن اس کے فیصلے نافذ ہو جائیں گے۔
اس لیے فقہائے احناف کے اس موقف کو عورت کی حکمرانی کے جواز کے لیے دلیل بنانے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
امام ابن جریر طبریؒ
مشہور مفسرِ قرآن امام ابن جریر طبریؒ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عورت کو قاضی بنانے کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ لیکن علامہ آلوسیؒ اس کی تردید کرتے ہیں اور روح المعانی (ص ۱۸۹ ج ۱۹) میں فرماتے ہیں کہ امام ابن جریرؒ کی طرف سے اس فتویٰ کی نسبت درست نہیں ہے۔
حضرت تھانویؒ
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک فتویٰ بڑے شدومد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے جو امداد الفتاویٰ میں موجود ہے اور جس میں بھوپال کی بیگمات کی نسبت کے حوالہ سے یہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ عورت کو حکمران بنانا جائز ہے۔ لیکن اس فتویٰ کا سہارا لینا بھی بے سود ہے اس لیے کہ حضرت تھانویؒ نے اس فتویٰ سے رجوع کر لیا تھا جس کا ثبوت یہ ہے کہ
- اس فتویٰ میں ملکہ سبا کی حکومت کو استدلال کی بنیاد بنا دیا گیا تھا مگر حضرت تھانویؒ نے خود اپنی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں اس استدلال کو رد کر دیا ہے اور صراحت کی ہے کہ ’’۔۔۔۔ ہماری شریعت میں عورت کو بادشاہ بنانے کی ممانعت ہے‘‘۔ (بیان القرآن ص ۸۵ ج ۸)
- حضرت تھانویؒ نے آخری عمر میں ’’احکام القرآن‘‘ خود اپنی نگرانی میں تحریر کرائی جس کا سورۃ النمل والا حصہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے لکھا جو حضرت تھانویؒ کو پڑھ کر سنایا گیا اور ان کی منظوری سے شائع ہوا۔ اس میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے کہ عورت شرعاً حکمران نہیں بن سکتی۔
عورت اور پارلیمنٹ
یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ خواتین کو پارلیمنٹ کی رکنیت دینے کے مسئلہ پر علماء نے مخالفت نہیں کی بلکہ خود علماء کی طرف سے بعض خواتین کو اسمبلیوں کا رکن بنوایا گیا، اس لیے جب عورت اسمبلی کی ممبر بن سکتی ہے تو اسی اسمبلی میں قائد ایوان کیوں نہیں بن سکتی؟
مگر یہ سوال بھی لاعلمی پر مبنی ہے کیونکہ اسمبلی کی رکنیت اور چیز ہے اور حکمرانی کے اختیارات اس سے بالکل مختلف ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدینؓ نے خواتین کو مشاورت میں شریک کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ خود بھی متعلقہ امور میں عورتوں سے مشاورت کرتے رہے ہیں۔ اس لیے علمی اور عوامی دونوں امور میں عورت کو اسمبلی کی رکن کی حیثیت سے مشاورت میں شریک کیا جا سکتا ہے، البتہ اس کے لیے پردہ کے شرعی احکام کی پابندی ضروری ہوگی۔ مگر حکمرانی کے اختیارات عورت کے حوالے کرنے سے قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ منع کیا گیا ہے اس لیے اس کی گنجائش نہیں ہے۔
سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت؟
یہ الجھن بھی پیش کی جا رہی ہے کہ قرآن و سنت میں عورت کو سربراہ مملکت بنانے کی ممانعت کی گئی ہے اور سربراہ مملکت تو صدر ہوتا ہے جبکہ وزیراعظم سربراہ حکومت ہوتا ہے، اس لیے اس ممانعت کا اطلاق صرف صدر پر ہوتا ہے وزیراعظم پر نہیں ہوتا۔ لیکن تھوڑے سے غور و فکر کے ساتھ یہ الجھن بھی ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ
- ابتدائے اسلام میں مملکت اور حکومت کی تقسیم کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کے عہدے ایک ہی شخصیت کے پاس ہوتے تھے۔ اس لیے قرآن و سنت نے عورت کے حاکم ہونے کی جو ممانعت کی ہے وہ ان دونوں حیثیتوں کو شامل ہے، اور اگر ان دونوں حیثیتوں کو الگ الگ کر لیا جائے گا تو اس ممانعت کا اطلاق ہر ایک پر ہوگا۔ اس لیے اس اصول کے مطابق عورت نہ سربراہ مملکت بن سکتی ہے اور نہ ہی سربراہ حکومت کا منصب سنبھال سکتی ہے۔
- سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کی منصبی حیثیتوں کو الگ الگ کر کے بھی تجزیہ کیا جائے تو ممانعت کا پہلا مصداق سربراہ حکومت کا منصب قرار پاتا ہے۔ کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو اس ضمن میں محدثین نے روایت کیے ہیں ان میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امر کا والی عورت کو بنا دیا۔ یہ فرمایا کہ جب تمہارے ’’امور‘‘ عورتوں کے سپرد ہوں گے تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے بہتر ہوگا۔ اب یہ دیکھ لیجئے کہ ’’امر‘‘ اور ’’امور‘‘ کا تعلق مملکت اور حکومت میں سے کس کے ساتھ ہے؟ ظاہر بات ہے کہ امور کا طے کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے اس لیے ان احادیث کی روشنی میں عورت کے لیے حکمرانی کی ممانعت کا مصداق سب سے پہلے سربراہ حکومت ہے اور کسی عورت کے وزیراعظم بننے کا شرعاً کوئی جواز نہیں ہے۔
جمہوری عمل اور علماء
یہ اعتراض بھی سامنے لایا گیا ہے کہ پاکستان میں خاتون کا وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونا جمہوری عمل کا نتیجہ ہے اور یہ وہی جمہوری عمل ہے جس میں خود علماء کی جماعتیں حصہ لیتی رہی ہیں اور اب بھی اس میں شریک ہیں۔ اس لیے جب علماء اس جمہوری عمل کو تسلیم کرتے ہیں اور خود اس میں حصہ لیتے ہیں تو اس کے نتائج کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟
اس کے جواب میں عرض ہے کہ علماء نے کسی دور میں بھی آزاد جمہوری عمل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اب وہ اسے قبول کرتے ہیں بلکہ علماء کرام نے جدوجہد کر کے
- قراردادِ مقاصد کی صورت میں جمہوری عمل کو قرآن و سنت کا پابند قرار دلوایا۔
- ۲۲ دستوری نکات کی صورت میں اسلامی اصولوں کے پابند جمہوری عمل کا تصور پیش کیا۔
- ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہ بنائے جانے کی ضمانت کی دفعات شامل کرائی۔
اس لیے جب علماء قیام پاکستان سے اب تک آزاد جمہوری عمل کو رد کرتے ہوئے قرآن و سنت کے دائرہ میں محدود جمہوری عمل کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں تو انہیں جمہوری عمل کے ہر اس فیصلے کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے جو قرآن و سنت کے احکام کے منافی ہو۔
دستور کی خلاف ورزی
بعض ذمہ دار حضرات کی طرف سے کہا گیا ہے کہ عورت کی حکمرانی کی مخالفت ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے اور اس پر سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان حضرات کا یہ کہنا مغالطہ پر مبنی ہے بلکہ اگر دستوری دفعات کا تجزیہ کیا جائے تو خود عورت کو حکمران بنانا آئین کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے۔ کیونکہ دستور میں کسی عورت کو صدر یا وزیراعظم بنائے جانے کا جواز صریحاً مذکور نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ یہ بات ہے کہ دستور اس بارے میں خاموش ہے۔ لیکن جب سے قراردادِ مقاصد کو دستور کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا ہے آئینی طور پر اس بات کی پابندی ضروری ہوگئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی فیصلہ یا حکم نافذ نہ کیا جائے۔ اس لیے جب عورت کو حکمران بنانا قرآن و سنت کی رو سے جائز نہیں ہے تو قراردادِ مقاصد کی روشنی میں خودبخود یہ پابندی ضروری ہو جاتی ہے کہ کسی عورت کو وزیراعظم نہ بنایا جائے۔ اس بنا پر عورت کی حکمرانی کی مخالفت آئین کی خلاف ورزی نہیں بلکہ عورت کو وزیراعظم بنانا ملک کے دستور کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔
اس ضمن میں ایک اور نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ عام طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ جب مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمدؒ نورانی اور دیگر علماء نے اس دستور پر دستخط کر دیے تھے تو انہوں نے اسے اسلامی تسلیم کر لیا تھا، اس لیے اس دستور کے مطابق جو کام ہوگا وہ اسلام کے مطابق ہی ہوگا۔
لیکن یہ سراسر مغالطہ ہے کیونکہ ۱۹۷۳ء کا دستور تیار کرنے والی دستور ساز اسمبلی میں جو ارکان تھے انہوں نے اس دستور پر غیر مشروط دستخط نہیں کیے تھے بلکہ طویل مذاکرات کے نتیجہ میں یہ آئینی ضمانت حاصل کی تھی کہ ملک میں تمام غیر اسلامی قوانین کو سات سال کے اندر قرآن و سنت کے مطابق تبدیل کر دیا جائے گا۔ یہ ضمانت خود اسی آئین میں درج ہے کہ اس ضمانت کے حصول کے بعد علماء نے آئین پر دستخط کیے تھے۔ اب بھی صورتحال یہ ہے کہ علماء ملک کے آئین و قانون کو اس طرح غیر مشروط ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس سے انہیں قرآن و سنت پر بالادستی حاصل ہو جائے۔ بلکہ بالادستی قرآن و سنت کی ہے اور علماء کی تمام تر جدوجہد کا مرکزی ہدف یہی ہے کہ آئین و قانون کو قرآن و سنت کی بالادستی کا عملاً پابند بنایا جائے۔
محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت
یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ جو علماء آج عورت کے حکمران بننے پر مخالفت کر رہے ہیں ان کی اکثریت نے ۱۹۶۴ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی۔
لیکن یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے کیونکہ اس وقت علماء کی تین بڑی جماعتیں تھیں۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان جس کی قیادت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کر رہے تھے۔ جمعیۃ اہل حدیث پاکستان جس کی قیادت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے ہاتھ میں تھی اور جمعیۃ العلماء پاکستان جس کے سربراہ صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ تھے۔ ان تینوں جماعتوں نے باقاعدہ جماعتی فیصلوں کی صورت میں اعلان کیا تھا کہ چونکہ عورت کو ملک کا حکمران بنانا شرعاً جائز نہیں ہے اس لیے وہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت سے قاصر ہیں۔
اس سلسلہ میں قومی اسمبلی کے ایک عالم دین رکن نے گزشتہ دنوں قومی پریس میں یہاں تک کہہ دیا کہ عورت کی حکمرانی کے خلاف راولپنڈی میں علماء کا جو کنونشن منعقد ہوا تھا اس کے شرکاء کی اکثریت نے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی۔ ہماری طرف سے یہ عرض کیا گیا ہے کہ راولپنڈی کنونشن میں شریک ہونے والے علماء کی تعداد دو ہزار سے متجاوز ہے، ان میں سے صرف بیس افراد کی ہی نشاندہی کر دی جائے جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ اور یہ ایک ایسی خلاف واقعہ بات ہے جس کی تحقیق کیے بغیر بعض ثقہ اور ذمہ دار نظر آنے والے حضرات بھی اسے بار بار دہرائے جا رہے ہیں۔
علماء پہلے کہاں تھے؟
یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ علماء کو اچانک یہ بات سوجھی ہے کہ عورت کو وزیراعظم بنانا درست نہیں ہے، اس سے قبل علماء خاموش رہے ہیں، ان کے سامنے دستور بنے ہیں اور ساری باتیں ہوتی رہی ہیں مگر علماء نے کبھی اس قسم کی مہم نہیں چلائی۔ اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ یہ بھی محض مفروضہ ہے جو حالات اور واقعات کے تسلسل سے بے خبری کے باعث قائم کر لیا گیا ہے، ورنہ
- جب قراردادِ مقاصد میں یہ بات طے کر دی گئی تھی کہ کوئی کام قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوگا تو اس مسئلہ میں بھی علماء کے اطمینان کے لیے یہ بات کافی تھی۔
- اس کے باوجود تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء نے ۱۹۵۲ء کے طے کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات میں یہ طے کر دیا تھا کہ سربراہ حکومت کے لیے مرد ہونا ضروری ہے۔
- ۱۹۷۳ء کا دستور جب دستور ساز اسمبلی میں زیربحث تھا تو شیخ الحدیث مولانا عبد الحقؒ اکوڑہ خٹک نے اس مسئلہ پر مستقل دستوری ترمیم پیش کی تھی جو دستور ساز اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس پر مولانا مرحوم نے اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح کیا تھا کہ عورت کو حکمران بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
- جنرل ضیاء الحق مرحومؒ کے دور میں وفاقی مجلس شوریٰ نے آئینی ترامیم کے لیے محترم فدا محمد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تھی، اس کمیٹی کے رکن مولانا قاضی عبد اللطیف نے عورت کی حکمرانی کے مسئلہ کی وضاحت کی اور باقی ارکان کے نہ ماننے کی وجہ سے اپنا اختلافی نوٹ تحریر کرایا جو کمیٹی کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
- حالیہ انتخابات کے بعد جب ایک خاتون کے وزیراعظم بننے کے امکانات واضح ہونے لگے تو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق نے صدر جناب غلام اسحاق خان سے ملاقات کر کے ان پر مسئلہ کی شرعی پوزیشن واضح کی اور پورے ملک کے علماء کی طرف سے اتمام حجت کا فریضہ ادا کیا۔
اس لیے یہ بات کہنا غلط ہے کہ علماء اس سے قبل خاموش رہے ہیں اور اب ایک خاص پارٹی کی ضد میں اس کی وزیراعظم کی مخالفت کر رہے ہیں۔
جناب غلام اسحاق خان کی حمایت
بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ عورت کی حکمرانی کی مخالفت کرنے والے بعض علماء نے صدارتی انتخابات میں جناب غلام اسحاق خان کی حمایت کی حالانکہ وہ اس سے قبل ایک خاتون کو وزیراعظم نامزد کر چکے تھے، اس لیے ان علماء کے قول و فعل میں تضاد ہے۔
لیکن یہ بات بھی مغالطہ انگیزی کے سوا کچھ وزن نہیں رکھتی کیونکہ اس صدارتی انتخاب میں دو امیدوار سامنے آئے تھے۔ ایک جناب غلام اسحاق خان جنہوں نے ایک خاتون کو ملک کا وزیراعظم نامزد کیا ہے اور دوسرے جناب نوابزادہ نصر اللہ خان جو ۱۹۶۴ء کے صدارتی انتخاب میں ایک خاتون کو ملک کا سربراہ بنانے کی مہم کی قیادت کر چکے ہیں اور اب تک اپنے اس کارنامہ کا فخر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ اس لیے اس حیثیت سے تو دونوں امیدوار برابر تھے۔ اس صورتحال میں جن علماء نے جناب غلام اسحاق خان کی حمایت کی ان کے پیش نظر ملک میں سیاسی توازن کو برقرار رکھنا تھا کیونکہ اگر صدر اور وزیراعظم دونوں ایک ہی کیمپ (ایم آر ڈی) کے بن جاتے تو ’’ضیاء دشمنی‘‘ کی قدر مشترک انہیں آٹھویں آئینی ترمیمی بل سمیت بہت سے ایسے اقدامات کے خاتمہ پر جمع کر دیتی جس سے ملک و قوم کو بہرحال کوئی فائدہ نہ ہوتا بلکہ سیاسی عدم توازن ملک میں نئے بحران کا باعث بن جاتا۔ علماء نے اس بحران اور سیاسی عدم توازن سے ملک کو بچانے کے لیے جناب غلام اسحاق خان کی حمایت کی ہے۔
قوت فیصلہ پارلیمنٹ کے پاس ہے
یہ بات بھی بعض حلقے پیش کر رہے ہیں کہ جمہوری نظام میں قوتِ فیصلہ پارلیمنٹ کے پاس ہوتی ہے اور وزیراعظم صرف ان فیصلوں کے نفاذ کا ذمہ دار ہوتا ہے، اس لیے وزیراعظم پر اس مطلق حکمرانی کا اطلاق نہیں ہوتا جس کی نفی قرآن و سنت میں عورت کے لیے کی گئی ہے۔لیکن یہ بات بھی اصول کے خلاف ہے اس لیے کہ
- اکثر جمہوری ممالک بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کی ہیئت کذائیہ یہ ہوتی ہے کہ اکثریتی پارٹی پارلیمنٹ میں فیصلوں کا محور ہوتی ہے اور اکثریتی پارٹی کے فیصلوں کا محور اس کا لیڈر ہوتا ہے، اس لیے عملاً فیصلوں کی باگ ڈور وزیراعظم کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔
- معروف مسلمان مفکر علامہ المادریؒ نے الاحکام السلطانیہ (ص ۲۵) میں صراحت کی ہے کہ صرف (طے شدہ فیصلوں کو) نافذ کرنے والی وزارت اگرچہ کمزور وزارت ہے اور اس کی شرائط کم ہیں لیکن عورت کے لیے یہ وزارت بھی جائز نہیں ہے۔
- حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے صوبہ سرحد کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اپنے ساتھ شریک اقتدار جماعت کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے اس مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ نیپ کی رکن صوبائی اسمبلی بیگم محمودہ سلیم کو صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائے۔ مولانا مفتی محمودؒ کا موقف یہ تھا کہ اسلامی احکام کی رو سے کسی عورت کو ماتحت وزیر کی حیثیت سے بھی شریک اقتدار نہیں کیا جا سکتا۔
صرف ایک ہی مسئلہ کیوں؟
بعض ارباب علم و فضل ایک اور غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں جس کا اظہار وہ اپنی مجالس میں دبے لفظوں کے ساتھ کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ یہ بجا ہے کہ عورت شرعاً حکمران نہیں بن سکتی اور ایک خاتون کا وزیراعظم بن جانا شرعی طور پر غلط ہے، لیکن ملک میں صرف یہی تو ایک مسئلہ نہیں ہے اور بھی بہت سے مسائل ہیں علماء کی جدوجہد کے اور بھی بہت سے میدان ہیں، اس لیے علماء کو صرف ایک مسئلہ کے پیچھے نہیں پڑ جانا چاہیے۔
ہم ان حضرات کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ان علماء حق کی جدوجہد اور قربانیوں کا حوالہ دیں گے جنہوں نے گزشتہ چودہ سو سال کے دوران مختلف ادوار میں جدوجہد کی اور قربانیوں کی نئی روایات قائم کیں۔ ان میں سے جس بزرگ کے حالات کا مطالعہ کریں گے آپ کو اس کی جدوجہد کا ہدف ایک ہی مسئلہ ملے گا۔
امام احمد بن حنبلؒ کو دیکھ لیجئے انہوں نے خلق قرآن کے گمراہ کن عقیدہ کو اپنی جدوجہد کا ہدف بنا لیا حالانکہ اس وقت گمراہیاں اور بھی تھیں مسائل اور بھی تھے لیکن امام احمدؒ نے اپنی پشت پر کوڑے صرف خلق قرآن کے مسئلہ پر کھائے۔ کیا ہمارے آج کے بزرگ ان کے بارے میں بھی یہی بات فرمائیں گے کہ امام احمدؒ کو کیا پڑی تھی کہ ایک ہی مسئلہ کے پیچھے پڑ گئے، اس دور میں اور مسائل بھی تھے ان پر اس شدومد کے ساتھ امام احمدؒ نے آواز نہ اٹھائی۔ امام مالکؒ کی مظلومیت کا باعث بھی صرف ایک مسئلہ تھا۔امام سرخسیؒ کو بھی صرف ایک مسئلہ کی خاطر اندھے کنوئیں کی جیل کاٹنی پڑی تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی مسئلہ اس زمانہ کی مجموعی گمراہیوں کا عنوان بن جاتا ہے اور پھر علماء حق کی تمام تر توجہ اس ایک مسئلہ پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اور وہ بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس ایک بڑی گمراہی کے خاتمہ سے اس کے ضمن میں آنے والی باقی خرابیاں خودبخود مٹ جائیں گی۔ آج یہی صورتحال پاکستان کے علماء کو درپیش ہے، اس ملک میں چوالیس سال سے ایک کشمکش چلی آرہی ہے کہ ملک کے آئین و قانون پر قرآن و سنت کو بالادستی حاصل ہوگی یا اسلام کا لیبل لگانے کے باوجود ملک کے اجتماعی نظام کو سیکولرازم کی بنیاد پر چلایا جاتا رہے گا؟ اسلامی حدود، دیت، شہادت، رجم، قصاص، پردہ اور دیگر امور کے بارے میں سیاسی لیڈروں کے قرآن و سنت کے خلاف بیانات اور ملحد طبقوں کی مہم کا پس منظر یہی نظریاتی کشمکش ہے۔ اور یہی نظریاتی کشمکش آج عورت کی حکمرانی کی صورت میں مشخص ہو کر عملی حیثیت سے سامنے آگئی ہے۔ اب اگر اسے قبول کر لیا جاتا ہے تو مذکورہ بالا تمام گمراہیوں اور ان کے اصل سرچشمہ سیکولرازم کو بھی ہضم کرنا پڑے گا۔ اور اگر علماء نے متحد ہو کر اسے بریک لگا دی تو گمراہیوں کے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے اور آئین و قانون پر قرآن و سنت کی بالادستی قائم کرنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔
اس لیے ہمارے نزدیک اس وقت پاکستان کے علماء کرام کو اسوۂ صدیق اکبرؓ کو مشعل راہ بنانا چاہیے جنہوں نے نگاہِ بصیرت سے یہ بھانپ لیا تھا کہ بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار صرف ایک مسئلہ نہیں بلکہ بہت سے فتنوں کا دروازہ ہے۔ اس لیے انہوں نے کمالِ عزیمت کے ساتھ ہر قیمت پر اس دروازے کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا اور تاریخ شاہد ہے کہ یہی فیصلہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے حق میں درست اور بروقت ثابت ہوا۔