گزشتہ روز ایک دوست نے فون پر ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے بارے میں میرے تاثرات دریافت کیے اور کہا کہ انہیں ریکارڈ پر آنا چاہیے۔
۱۹۵۳ء میں میری عمر پانچ برس تھی کہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۸ء میری تاریخ پیدائش ہے مگر اس کی چند جھلکیاں ابھی تک ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہی ہیں۔ ہم چھوٹے چھوٹے گلیوں میں ٹولیوں کی شکل میں نعرے لگایا کرتے تھے اور ٹھیٹھ پنجابی کے نعرے ہوتے تھے جن کا ذکر مضمون میں کرنا اب مناسب بھی معلوم نہیں ہوتا مگر ان نعروں میں پنجاب کے دیہاتی کلچر کا بھرپور اظہار ہوتا تھا۔
۱۹۵۳ء کی تحفظ ختم نبوت کی تحریک میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی گرفتاری کا منظر مجھے یاد ہے، ہم بٹ دری فیکٹری کی پرانی عمارت کی چھت پر ایک چوبارے میں رہتے تھے اور وہی میری جائے پیدائش بھی ہے۔ صبح حضرت والد محترم نے مسجد میں نماز پڑھائی، درس دیا اور گھر آکر ناشتہ کیا، پھر بستر باندھا اور پولیس چوکی میں جا کر گرفتاری کے لیے خود کو پیش کرنے کی تیاری کی۔ ایک طالب علم جن کا نام شاید مولانا عزیز الرحمان تھا، انہوں نے سامان اور بستر اٹھایا اور حضرت والد محترم گھر کی سیڑھیاں اترنے لگے۔ ان کا سیڑھیوں سے اترنے کا منظر ابھی تک میرے حافظے میں نقش ہے۔ وہ ملتان کی بورسٹل جیل میں تقریباً دس ماہ رہے، اس دوران میرے نانا محترم مولوی محمد اکبرؒ جو گوجرانوالہ میں تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے عقب میں بستی کی مسجد میں امام تھے، کبھی کبھی ملتان جاتے، والد صاحبؒ کا حال معلوم کرتے، ضرورت کا سامان پہنچاتے اور پھر واپس آکر گکھڑ تشریف لاتے اور ہمیں ان کے حالات سے آگاہ کرتے۔ اسی دوران ہماری رہائش تبدیل ہوئی اور ہم بٹ دری فیکٹری کے چوبارے سے ٹھیکیداراں والی مسجد کی گلی میں کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہوگئے۔
نو دس ماہ کے بعد جب حضرت والد محترمؒ رہا ہو کر آئے تو ہم نئی رہائش میں منتقل ہو چکے تھے، ایک بزرگ جن کے خاندان کا ہمارے خاندان کے ساتھ گہرا تعلق تھا، انہیں ہم ماموں یعقوب کہا کرتے تھے، وہ دوڑے دوڑے آئے اور بتایا کہ مولوی صاحب رہا ہو کر آگئے ہیں، ہم بچے دوڑے دوڑے سڑک کی طرف بھاگے اور راستہ میں حضرت والد صاحبؒ سے ملے، انہوں نے ہمیں سینے سے لگا کر پیار کیا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ان کی آمد فوری اور اچانک ہوئی تھی، خطوط اور ٹیلی فون کا دور نہ تھا، اس لیے جی ٹی روڈ پر نور الٰہی مرحوم کی پکوڑوں کی دکان سے جلدی جلدی پکوڑے لا کر انہیں کھانا کھلایا گیا۔
اس طرح ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے یہ چند مناظر میرے ذہن میں محفوظ رہ گئے ہیں۔ البتہ بعد میں جیل میں حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ رہنے والے چند حضرات سے ملاقاتیں ہوتی رہیں جو ان کے وہاں کے حالات سناتے۔ حضرت والد محترم کے جیل کے ساتھیوں میں معروف اہل حدیث بزرگ عالم دین حضرت مولانا عبد الغفار حسنؒ نے بھی ایک دو ملاقاتوں میں ذکر کیا اور کچھ حالات بتائے جو اب ذہن میں نہیں رہے۔ سوہدرہ وزیرآباد کے ایک بریلوی بزرگ پیر سید بشیر احمد شاہؒ بھی جیل کے حوالے سے حضرت والد محترم کا ذکر کیا کرتے تھے۔ گکھڑ میں تحریک ختم نبوت کے دوران حضرت والد محترمؒ کے خاص ساتھیوں میں ماسٹر بشیر احمد کشمیری، جناب محمد افضل شاہین اور جناب افضل بٹ مرحوم بھی تھے، ان سے حالات سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ آخر الذکر بزرگ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے، ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے اور حضرت والد محترم کے ساتھ محبت و عقیدت کا تعلق رکھتے تھے، وہ دکان کرے تھے، میں جب بھی ان کی دکان کے سامنے سے گزرتا تو وہ مجھے آواز دے کر بلاتے، چائے پلاتے اور بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ ۱۹۵۳ء کی تحریک کے واقعات سناتے تھے۔
۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں میرے چچا محترم مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے بھی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا اور گرفتار ہو کر کم و بیش چھ ماہ تک جیل میں رہے۔ وہ گوجرانوالہ شہر میں ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی دامت برکاتہم کے ساتھ مل کر تحریک کے جلسوں میں تقریریں کیا کرتے تھے اور لوگوں کو تحریک میں حصہ لینے کے لیے تیار کرتے۔ ان کا ایک واقعہ یہاں کے کئی دوستوں سے سنا کہ ایک مسجد میں انہوں نے تقریر کی، باہر پولیس کا محاصرہ تھا اور ان کا پروگرام گرفتاری سے بچنے کا تھا۔ جلسہ کے بعد بتی بجھا دی گئی، حضرت صوفی صاحبؒ نے لباس تبدیل کر کے پینٹ کوٹ پہنا اور روشنی ہونے پر محاصرہ کرنے والے پولیس دستے کے انچارج سے مصافحہ کرتے ہوئے ان کے حصار سے نکل گئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بعد کے مختلف ادوار میں اللہ تعالٰی نے تحریک ختم نبوت میں کچھ نہ کچھ حصہ لینے کی جو توفیق عطا فرمائی اس کے پیچھے یہ چھوٹی سی ابتدا ہی تمہید ثابت ہوئی، اللہ تعالٰی قبولیت سے نوازیں اور زندگی بھر اس تحریک سے وابستہ رکھیں، آمین ثم آمین۔