مغربی فلسفہ و تہذیب اور مسلم امہ کا رد عمل

   
تاریخ: 
۱۹ مارچ ۲۰۰۵ء

(۱۹ تا ۲۱ مارچ ۲۰۰۵ء کو ادارۂ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’اجتماعی اجتہاد! تصور، ارتقا اور عملی صورتیں‘‘ کے عنوان پر منعقد ہونے والے سیمینار میں پڑھا گیا۔)

بعد الحمد والصلٰوۃ ۔ ادارۂ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے زیر اہتمام اجتہاد اور اس کے تقاضوں کے حوالے سے منعقد ہونے والے اس سیمینار میں مجھے کہا گیا ہے کہ مغرب کی لادینی جمہوریت اور اس پر امت مسلمہ کے رد عمل کے بارے میں کچھ معروضات پیش کروں۔ سب سے پہلے تو میں اس سیمینار کے انعقاد کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اس پر منتظمین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ آج کے دور کے ایک اہم تقاضے اور ناگزیر ملی ضرورت کی طرف پیشرفت ہے، اور اس کے بعد سیمینار کے منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ میرے جیسے طالب علم کو بھی اس میں شرکت، استفادہ اور کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کا موقع عنایت کیا۔ اللہ تعالیٰ اس سیمینار کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کے ساتھ ثمرات و نتائج سے بہرہ ور فرمائیں اور اس کا اہتمام کرنے والوں کو دارین کی سعادتوں سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین

موضوع پر گفتگو شروع کرنے سے قبل اس کے عنوان میں تبدیلی کی طرف اشارہ ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے جمہوریت کے ساتھ لادینی کا سابقہ حذف کر دیا ہے اور مطلق جمہوریت بلکہ مغربی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے امت مسلمہ کے رد عمل اور موجودہ صورتحال پر گفتگو کا خواہش مند ہوں۔

مغرب نے اب سے کم و بیش تین سو برس قبل جمہوریت کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس سے قبل کی صدیوں میں اسے جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا، یہ اس کا رد عمل ہے کہ وہ جمہوریت کی شاہراہ پر مسلسل آگے بڑھتا جا رہا ہے اور اپنے اس نئے سفر اور پیشرفت کے نفع نقصان کا جائزہ لینے کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ مغرب کو مطلق العنان بادشاہت، جامد اور بے لچک مذہبی پیشوائیت، اور بے رحم و ظالم جاگیرداری کی تکون نے جکڑ رکھا تھا اور مغرب کی عام آبادی ظلم و جبر اور تشدد کے ان تین پاٹوں میں بری طرح پس رہی تھی۔ علم کی روشنی اس کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی، حقوق اور ان کے حصول کا کوئی تصور نہیں تھا اور جانوروں کی طرح اپنے مالکوں اور آقاؤں کے احکام کی تعمیل میں شب و روز مصروف رہنا اس کا سب سے بڑا فریضہ سمجھا جاتا تھا۔

  • مغرب کو قرون مظلمہ کے ان اندھیروں سے نکلنے کا راستہ مسلمانوں نے دکھایا۔ اسپین میں بیٹھ کر علم و دانش کی شمع جلائی اور مغرب کے عوام کو بتایا کہ بادشاہ خدا کی طرف سے مقرر نہیں ہوتا بلکہ اسے تخت پر بٹھانے اور پھر اتارنے میں خود ان کی رائے اور مرضی کا بھی دخل ہونا چاہیے۔
  • مسلمانوں نے انہیں سمجھایا کہ دین و مذہب میں فائنل اتھارٹی کا درجہ کسی شخص یا طبقہ کو نہیں، بلکہ اصول و قوانین کو حاصل ہوتا ہے۔ بادشاہ اور پوپ سمیت کوئی بھی شخص ان اصول و قوانین پر بالادستی نہیں رکھتا، اور نہ ہی ان میں سے کسی کو ان اصول و قوانین کی کسی خود ساختہ تعبیر و تشریح کا حق حاصل ہے۔
  • مسلمانوں نے انہیں اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ جاگیرداری اور کاشتکاری کی تقسیم خدائی نہیں ہے، بلکہ کچھ انسانوں نے دوسرے انسانوں کے استحصال اور انہیں غلام بنائے رکھنے کے لیے ازخود یہ تقسیم قائم کر رکھی ہے۔
  • اور مسلمانوں نے ہی مغرب کے عوام تک یہ پیغام پہنچایا کہ کائنات کے حقائق پر غور کرنا، زمین اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی بے شمار اشیا کی ماہیت و افادیت معلوم کرنا اور انہیں نسل انسانی کے فائدہ میں استعمال میں لانے کی صورتیں تلاش کرنا خدا کے نظام میں مداخلت یا اس کے خلاف بغاوت نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کے منشا کی تکمیل اور اس کے حکم کی تعمیل ہے۔

ہم اسپین میں بیٹھ کر صدیوں تک مغرب کو یہ سبق پڑھاتے رہے، لیکن جب مغرب نے ہماری صدیوں کی تگ و دو اور محنت کے بعد یہ سبق سیکھ لیا اور اپنی راہ سے ہٹ کر ہماری بتائی ہوئی اس راہ پر اس نے چلنا شروع کیا تو ہم زمانے کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھما کر چپکے سے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے۔ اور تب سے یہ شکوہ ہماری زبانوں پر ہے کہ مغرب نے یہ کر دیا، مغرب نے وہ کر دیا، مغرب نے یہ چھین لیا، مغرب نے اس چیز پر قبضہ جما لیا اور مغرب نے فلاں چیز پر اجارہ داری حاصل کر لی۔ گزشتہ تین صدیوں سے صورتحال یہ ہے کہ جو کچھ کر رہا ہے، مغرب ہی کر رہا ہے اور ہمارے پاس چیخنے چلانے، واویلا کرنے، شور مچانے یا زیادہ سے زیادہ ’’اب کے مار سالے‘‘ کی دھمکیوں کے سوا کوئی اختیار یا آپشن باقی نہیں رہا۔
مجھے اس مرحلے میں ایک کہاوت یاد آ رہی ہے کہ بلی کو شیر کی خالہ کہا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ شیر کو حملہ کرنے، جھپٹنے اور شکار کرنے کے سارے داؤ پیچ بلی نے سکھائے ہیں۔ کہاوت ہے کہ شیر نے جب بلی سے سارے داؤ پیچ سیکھ لیے تو اس کا پہلا تجربہ اس نے بلی پر ہی کرنا چاہا۔ موقع تاک کر بلی پر جھپٹ پڑا۔ بلی پہلے سے ہوشیار تھی، پھرتی سے قریب ایک درخت پر چڑھ گئی۔ شیر نیچے کھڑے ہو کر غرانے لگا کہ خالہ! یہ درخت پر چڑھنے کا طریقہ تو تم نے مجھے نہیں سکھایا تھا۔ بلی بڑے مزے اور اطمینان سے درخت کی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے بولی کہ یہ داؤ میں نے آج کے دن کے لیے ہی بچا کر رکھا تھا۔ ہم تو اس بلی جتنی سمجھ داری کا مظاہرہ بھی نہ کر سکے کہ کوئی داؤ اپنے لیے بھی بچا کر رکھ لیتے اور مشکل کے وقت کام آنے والی کوئی چیز اپنے قابو میں رہنے دیتے۔ ہم نے مغرب کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا سب کچھ مغرب کے سامنے کھول کر رکھ دیا اور خود آپس کے جھگڑے نمٹانے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اس قدر مگن ہوئے کہ مغرب نے ہمیں اسپین سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور ہماری ہر چیز پر قبضہ کر کے دنیا کو مسخر کرنے کے سفر پر روانہ ہوگیا۔

مغرب جس تہذیب و تمدن پر نازاں ہے اور جسے پوری دنیا پر میڈیا، معیشت اور اسلحہ کے زور پر مسلط کرنے کے درپے ہے، اس کی بنیاد کن چیزوں پر ہے؟ ذرا ایک نظر ڈال لیں:

  1. حریت اور آزادی
  2. عوام کی رائے سے حکومت کی تشکیل اور حکومت کی عوام کے سامنے جواب دہی
  3. شہری حقوق
  4. سائنس اور ٹیکنالوجی
  5. انسانی مساوات
  6. زندگی کے وسائل اور ذرائع پر کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری کی نفی
  7. حاکم وقت یا مذہبی پیشوا کو براہ راست خدا کا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار
  8. اجتماعی زندگی میں مذہب کے کردار کا خاتمہ

میں ان ساری باتوں کی حمایت نہیں کر رہا اور اچھی طرح اس بات کو سمجھتا ہوں کہ ان میں سے بعض باتیں مغرب نے بے جا طور پر اپنے پروگرام میں شامل کر لی ہیں اور بعض میں حدود سے تجاوز کر کے ان کی مقصدیت و افادیت کو مضرت میں تبدیل کر لیا ہے۔ البتہ اس نکتہ کی طرف ضرور اہل دانش کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس راستے پر مغرب کو لگایا کس نے ہے؟ خود مغرب کے سنجیدہ دانشوروں کو اس بات سے انکار نہیں ہے کہ انہوں نے یہ سبق اندلس سے سیکھا ہے اور یہ تاریخی حقیقت بھی ہے، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ ہمیں آگے بڑھنے سے قبل اس تبدیلی اور اس کے اسباب پر ایک نظر ضرور ڈالنا ہوگی۔

تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ بادشاہی، جاگیرداری اور پاپائیت سے آزادی حاصل کرنے کے اس سفر میں مغرب کا تصورِ آزادی حدود و قیود سے جو مطلقاً آزاد ہو گیا ہے، اس کے دو بڑے اسباب ہیں۔

  1. ایک یہ کہ اس نے یہ آزادی رد عمل میں حاصل کی ہے اور رد عمل ہمیشہ عمل کے تابع ہوتا ہے۔ عمل جس قدر شدید ہوگا، رد عمل بھی اسی کے حساب سے سامنے آئے گا۔ مغرب کی موجودہ آزادی کے پس منظر میں اگر ہم قرون مظلمہ میں بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کے مظالم کی سنگینی اور قہرمانی کا صحیح طور پر ادراک کر سکیں تو مغرب کی موجودہ مادرپدر آزادی اور بادشاہت اور جاگیرداری کے ساتھ ساتھ مذہب کے اجتماعی کردار سے اہل مغرب کی نفرت کو سمجھنا زیادہ مشکل بات نہیں رہے گا۔
  2. دوسرا سبب یہ ہے کہ مغرب کو سائنس، ٹیکنالوجی اور عقل و آزادی کا راستہ اسپین میں بیٹھ کر مسلمانوں نے دکھایا تھا۔ اگر وہ راستہ دکھانے کے بعد منزل مقصود تک راہنمائی کرنے کے قابل بھی رہتے تو یقیناً یہ صورتحال نہ ہوتی جس کا سامنا آج ہم کر رہے ہیں، بلکہ آسمانی تعلیمات اور دینی اخلاقیات کی چھاپ ان آزادیوں پر اب تک قائم رہتی۔ مگر ہوا یہ کہ مغرب کو راستہ دکھا کر ہم عملی سفر میں اس کا ساتھ دینے کے قابل نہ رہے جس کی وجہ سے مغرب میں آزادی کی گاڑی رد عمل کی دوڑ میں ہر رکاوٹ اور قید کو پھلانگتی چلی گئی اور بالکل اسی طرح ہوا کہ ڈاکٹر نے مریض کو دواؤں کا نسخہ تو دے دیا مگر ان دواؤں کے منفی اثرات اور پرہیز وغیرہ سے آگاہ نہ کر سکا۔ پھر جو انجام اس مریض کا ہوتا ہے، وہی انجام مغرب کا اور اس کی وساطت سے پوری دنیا کا آج ہمارے سامنے ہے۔

یہاں ایک سوال منطقی طور پر ابھرتا ہے کہ مغرب کو آزادی، سائنس، حقوق اور عقل و دانش کا راستہ بتانے کے بعد ہم اس قابل کیوں نہیں رہے تھے کہ اس سفر میں اس کی راہنمائی کر سکیں، یا کم از کم اس حد تک ساتھ دے سکیں کہ وہ نظری اور اخلاقی حدود کا تعین کرتے ہوئے کسی ماڈل کو دیکھ ہی سکے۔ یہ سوال جس قدر پیچیدہ ہے اسی قدر اہم ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ سنگینی کا بھی حامل ہے کہ ہم اس سوال کا سنجیدگی سے جائزہ نہ لے سکنے اور اس کا کوئی جواب تلاش نہ کر پانے کی سزا اب تک بھگت رہے ہیں اور خدا جانے کب تک یہ سزا ہمارے مقدر میں رہے گی۔ مگر یہ وہ صورت ہے جو ہم نہیں کر سکے اور کیوں نہیں کر سکے؟ اس سوال کو اہل دانش کے پاس امانت رکھتے ہوئے میں اس بات کی طرف بڑھنا چاہتا ہوں کہ اس کے بعد ہم نے آخر کیا کیا؟

ہم نے یہ کیا کہ جو سبق ہم نے مغرب کو پڑھایا، جب اس نے وہ سبق پڑھ لیا تو خود اس سے عملاً دستبردار ہو گئے اور تاریخ کی بے رحم گردش نے ایسا چکر کاٹا کہ قلب مکانی ہو گئی۔ جہاں وہ کھڑے تھے وہ جگہ ہم نے سنبھال لی، اور جس مقام پر کھڑے ہو کر ہم دنیا کو عقل، سائنس، دانش، آزادی اور حقوق کا سبق دے رہے تھے وہ ان کے قبضے میں چلا گیا۔ جو قدریں انہیں کسی زمانے میں عزیز ہوا کرتی تھیں وہ ہماری صفوں میں گھس آئیں، اور جن روایات پر ہم اچھے زمانوں میں فخر کیا کرتے تھے، ان کا پرچم انہوں نے سنبھال لیا۔ ہم اپنی اقدار و روایات سے اس قدر بے گانہ ہوئے کہ ان میں سے بہت سی اقدار و روایات کو آج ہم پہچاننے سے بھی انکاری ہیں۔

ہم نے دنیا کو یہ بتایا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین نامزد کرنے کے بجائے اس کا انتخاب مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا، اور آج بھی ہم بخاری شریف کی یہ روایت اپنے درس میں بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے ایک موقع پر حضرت ابوبکرؓ کو بلا کر خلافت کا پروانہ ان کے حق میں لکھنے کا ارادہ کیا، لیکن پھر یہ کہہ کر یہ ارادہ ترک کر دیا کہ ’’یابی اللہ والمسلمون الا ابابکر‘‘ اللہ تعالیٰ بھی ابوبکر کے سوا کسی کو نہیں بنائے گا اور مسلمان بھی ان کے سوا کسی کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم نے دنیا کو بتایا کہ یہ جناب نبی اکرمؐ کی طرف سے مسلمانوں کی صوابدید اور رائے عامہ پر اعتماد کا اظہار تھا۔

ہم نے دنیا کے سامنے یہ منظر رکھا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مسلمانوں کے مختلف طبقات میں خلافت کے حصول کا تصور موجود تھا اور ان میں کشمکش بھی ہوئی تھی، مگر پھر حضرت ابوبکر کی ذات گرامی پر سب کا اتفاق ہو گیا تھا۔ جو اس حقیقت کا مظہر تھا کہ اسلامی فلسفہ میں حکمران کا انتخاب اور حکومت کی تشکیل مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اور رائے عامہ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ ہم اس عمومی مشاورت اور باہمی اختلاف رائے کا ایک تاریخی واقعہ کے طور پر اب بھی ذکر کرتے ہیں جو حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین نامزد کرتے وقت اصحاب مشاورت کی صورت میں سامنے آیا تھا، اور حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد ان کے نامزد کردہ پینل میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کا اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہمیں حضرت عمر کا وہ آخری خطبہ درس و تدریس کے حوالے سے ابھی تک یاد ہے جس میں انہوں نے بخاری شریف کی روایت کے مطابق یہ فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے اور جو لوگ مسلمانوں کی رائے کی پروا کیے بغیر کسی کو خلیفہ منتخب کرنے کا منصوبہ ذہن میں رکھتے ہیں، وہ مسلمانوں کے حقوق غصب کرنا چاہتے ہیں۔

پھر اہل السنۃ والجماعۃ نے تو اپنا تعارف ہی دنیا میں اس حوالہ سے کرایا کہ ہمارے نزدیک:

  • خلافت نامزدگی کے ذریعے نہیں بلکہ مسلمانوں کی رائے سے قائم ہوتی ہے۔
  • خلافت کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
  • خلیفہ خدا کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ رسولِ خدا کا نائب اور عوام کا نمائندہ ہوتا ہے۔
  • خلیفہ معصوم نہیں ہوتا کہ اس کی ہر بات کو بلا چوں و چرا تسلیم کر لیا جائے۔
  • خلیفہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور کسی بھی شہری کو اس سے جواب طلبی کا حق حاصل ہے۔
  • خلیفہ مشاورت کے نظام کا پابند ہوتا ہے۔

لیکن ان واضح اور مسلمہ اصولوں کے باوجود ہمارے ہاں خلافتوں کا نظام خاندانی حکمرانی اور طاقت کے حوالے سے جاری و ساری رہا، حتیٰ کہ جب مغرب نے مذہب اور مذہبی پیشواؤں کے صدیوں کے جامد کردار کے رد عمل میں مذہب کا طوق گردن سے اتار پھینکا اور بادشاہت سے پیچھا چھڑا کر عوام کی رائے سے حکومت کی تشکیل کا راستہ اختیار کیا تو ہم نے دونوں کو ایک ہی زمرے میں شمار کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ حالانکہ یہ دو باتیں الگ الگ تھیں۔ مذہب کے اجتماعی و معاشرتی کردار کی نفی ایک مستقل مسئلہ ہے جس میں مغرب کا طرزعمل، ردعمل پر مبنی، انتہا پسندانہ اور انتقامی ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔ لیکن یہ اصول کہ حکومت کی تشکیل عوام کی مرضی سے ہونی چاہیے اور حاکم وقت کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے، اس سے بالکل مختلف چیز ہے جو خالصتاً اسلامی اصول ہے۔ لیکن ہم چونکہ خود اپنی عملی زندگی میں اس اصول پر عمل پیرا نہیں رہے تھے، اس لیے ہم نے اس خالص اسلامی اصول اور خود اپنے پڑھائے ہوئے سبق کو بھی مغرب کی لادینیت کے کھاتے میں ڈال دینے میں عافیت محسوس کی۔ اور آج عالمی صورتحال یہ ہے کہ مغرب حکومت اور نظام کی تشکیل میں رائے عامہ کو اصل بنیاد قرار دینے کا علمبردار بنا ہوا ہے اور ہمارے ہاں عالم اسلام کی حکومتیں شخصی یا گروہی آمریتوں کی شکل میں اس کے مد مقابل کھڑی ہیں۔

اس مرحلہ میں مجھے مغرب کے جمہوری نظام کا تھوڑا سا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تاکہ اپنی گزارش کو زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کر سکوں۔ اس وقت مغرب کا جمہوری نظام تین اصولوں پر مبنی ہے:

  1. حکومت و معاشرت کے اجتماعی شعبوں میں مذہب کا کوئی دخل نہیں اور مذہب خالصتاً ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔
  2. دستور و قانون کی تشکیل خالصتاً عوام کا حق ہے اور ان کے منتخب نمائندے جو بھی طے کر لیں، وہی دستور اور قانون ہے۔ وہ اپنے فیصلوں یا قانون سازی میں آسمانی تعلیمات یا کسی قسم کی خارجی ہدایات کے پابند نہیں ہیں۔
  3. حکومت کی تشکیل اور اس کی بقا عوام کی رائے اور مرضی پر موقوف ہے اور عوام کی مرضی یا قبولیت کے بغیر قائم ہونے والی کوئی حکومت جائز حکومت نہیں ہے۔

پہلے دو اصولوں کے غلط ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے، لیکن تیسرے اصول کو بھی ان کے ساتھ نتھی کر کے غلط قرار دے دیا جائے، اس میں مجھے اشکال ہے اور میں مسلم امہ کے اس مجموعی رد عمل کو درست سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوں، جو اس حوالے سے چند اہل دانش کے استثنا کے ساتھ اس سلسلے میں اب تک نظری اور عملی طور پر دنیا کے سامنے ہے۔ اس سلسلے میں میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ مغرب نے مطلق العنان بادشاہت کو مسترد کر کے عوام کی مرضی سے حکومت کی تشکیل کا اصول تو اسلام سے لیا لیکن چونکہ وہ رد عمل میں مذہب کے اجتماعی کردار کی بھی نفی کر چکا تھا، اس لیے اس کا خلا پر کرنے کے لیے اس نے پہلے دو اصول وضع کر کے انہیں اپنے سسٹم کی بنیاد بنا لیا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی جو دراصل مغرب کے فلسفہ و تہذیب کے عروج و غلبہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس کی اصل بنیاد اسپین ہے اور مسلم سائنس دانوں کی تعلیمات ہیں جس سے مغرب کے سنجیدہ دانشوروں کو بھی انکار نہیں ہے، لیکن اسپین سے مسلمانوں کی بے دخلی کے بعد ہم نے اس راہ میں پیشرفت ترک کر دی اور یہ محاذ مغرب نے سنبھال لیا۔ آج دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے جو ترقی و عروج ہے، اس میں اصل بنیاد مسلمان سائنس دان ہیں، لیکن محنت، دماغ سوزی، تحقیقات، تجربات اور مسلسل پیشرفت کا کریڈٹ مغرب کے پاس ہے اور اسی وجہ سے کنٹرول بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔ ہماری بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اب سے ایک صدی قبل عرب دنیا میں تیل کے ذخائر دریافت ہونے کا امکان نظر آیا تو ہماری سب سے بڑی حکومت ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کے پاس تیل نکالنے، اسے صاف کرنے اور دنیا تک پہنچانے کی صلاحیت موجود نہیں تھی۔ چنانچہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ان کی جگہ لینے والی عرب علاقائی حکومتوں نے مغربی کمپنیوں کو تیل کے چشمے کھودنے، تیل کو ریفائن کرنے اور اسے دنیا کی مارکیٹ تک پہنچانے کے ٹھیکے دیے۔ وہ کمپنیاں عرب ممالک میں آئیں، ان کے پیچھے بینک آئے، تاجر آئے، پھر سفارت کار آئے اور سب کے بعد مغرب کی فوجیں وہاں آ کر تیل کے چشموں کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں۔

جبکہ عسکری سائنس اور صلاحیت کی صورتحال یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں صرف پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے اور وہ بھی مسلسل دھمکیوں، سازشوں اور نفرت انگیزی کی زد میں ہے۔ جدید ترین حربی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں پر مغرب کی مکمل اجارہ داری ہے جسے اس نے اقوام متحدہ کے قوانین اور ضوابط کے ذریعے قانونی جواز اور تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ مسلم ممالک ایٹم بم تو کجا، ایک محدود رینج سے زیادہ دور تک مار کرنے والے میزائل نہیں بنا سکتے اور مخصوص جدید ہتھیاروں کی تیاری ان کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ عراق کو اسی بہانے دوسری بار لشکر کشی اور تباہی کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کے پاس ممنوعہ نوعیت کے ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود تھا۔ اور ایران کو آج اسی ’’جرم‘‘ میں مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت کی طرف پیشرفت کر رہا ہے۔ گویا ایک ’’ریڈ لائن‘‘ عالمی طور پر طے شدہ ہے جسے حربی صلاحیت، ایٹمی ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں کی تیاری و استعمال کے حوالے سے عبور کرنا کسی مسلم ملک کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس میں اگرچہ مغرب کے اجارہ دارانہ ذہن اور ہٹ دھرمی کا دخل سب سے زیادہ ہے، لیکن ہم اپنی نااہلی، بے توجہی اور باہمی عدم تعاون و عدم اعتماد کو اس کے اسباب سے یکسر خارج نہیں کر سکتے کہ مغرب کی اجارہ داری کا اصل باعث وہی ہے۔

ہمارا اس حوالے سے سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ ہم نے موجودہ صورتحال پر قناعت کر لی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی پر مغرب کی اجارہ داری کو ذہنی طور پر تسلیم کر لیا ہے، اس محاذ پر پیشرفت کے لیے اجتماعی طور پر کچھ کرنے بلکہ سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر مغرب کی اجارہ داری کے ان ضوابط و قواعد کو چیلنج کرنے کے حوصلہ سے بھی محروم ہیں جو مغرب نے یکطرفہ طور پر مسلط کر دیے ہیں۔ اسی ذہنی پسپائی اور خود سپردگی کا نتیجہ ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک مخصوص اور متعین دائرے کے اندر محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور اس سے ہٹ کر کسی پیشرفت کا تصور بھی نہیں کر پا رہے۔

رفاہی ریاست کے سسٹم کی طرف آ جائیے! آج بھی دنیا میں ویلفیئر اسٹیٹ اور رفاہی ریاست کے حوالے سے حضرت عمرؓ کے دور خلافت کو آئیڈیل تصور کیا جاتا ہے اور مغرب کے بہت سے دانشور اس کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ جبکہ ہم بھی خلافت راشدہ کے واقعات و حالات کا دنیا کے سامنے تذکرہ کرتے ہیں تو اس دور میں بیت المال کے ساتھ عام لوگوں کے وابستہ مفادات و حقوق کا مزے لے لے کر تذکرہ کرتے ہیں، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ آج عالم اسلام کا کوئی ایک ملک بھی رفاہی ریاست یا ویلفیئر اسٹیٹ کا ماڈل پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی نجی شعبے میں ایسا کوئی رفاہی ادارہ ہے جسے ہم عالمی سطح پر ریڈ کراس کی طرز پر ایک منظم اور فعال ادارے کے طور پر پیش کر سکیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کے بقول برطانیہ میں ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر بے روزگار، نادار اور ضرورت مند افراد کو ریاست کی طرف سے وظائف دینے کا جو سسٹم چل رہا ہے، اسے ترتیب دینے والے دانشور نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے اس سسٹم کا بنیادی خاکہ حضرت عمرؓ کے حکومتی نظام سے لیا ہے اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد کی روایت کے مطابق یورپ کے ملک ناروے میں بچوں کو جو وظیفہ دیا جاتا ہے، اسے آج بھی وہاں ’’عمر الاؤنس‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن کسی مسلمان ملک میں موجودہ حالات میں اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس کے اسباب میں چار باتیں سب سے اہم ہیں۔

  1. ایک یہ کہ ہمارے ذہنوں میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور خلافت راشدہ کے نظام کو آئیڈیل اور ماڈل کی حیثیت حاصل نہیں رہی۔ ہم تبرک اور ثواب کی نیت سے ان کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے ذہنوں میں موجود ماڈل اور آئیڈیل کے فریموں میں دوسری تصویریں فٹ ہو چکی ہیں۔
  2. دوسری بات یہ کہ ہمارے معاشی وسائل پر ہمارا اپنا کنٹرول نہیں ہے، بلکہ عالمی اداروں اور پیچیدہ بین الاقوامی سسٹم کے ہاتھوں ہم اپنے وسائل میں آزادانہ تصرف کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔
  3. تیسری بات یہ کہ جو تھوڑے بہت وسائل ہماری دسترس میں ہیں، ان کی تقسیم کا نظام ایسا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات، حکمران گروہ اور موقع پرست عناصر ہی ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ مغرب میں بھی معاشی نظام سرمایہ دارانہ ہے، لیکن دولت کی گردش کے دائرے میں کسی نہ کسی حد تک عام آبادی بھی شامل رہتی ہے، لیکن ہمارے ہاں دولت اور سہولیات کی گردش کی سطح اس قدر بلند ہے کہ عام آدمی وہاں تک رسائی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہم اگر کراچی کی ڈیفنس سوسائٹی کے باشندوں اور سمندر کے کنارے مچھیروں کی بستیوں کے معیار زندگی میں تفاوت کا مشاہدہ کر سکیں اور اسلام آباد میں پانچویں گریڈ تک کے ملازمین اور بائیسویں گریڈ کے افسروں کے رہن سہن میں فرق پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت گوارا کر لیں تو ملک کی مجموعی صورتحال کا اس حوالے سے اندازہ کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اس فرق اور تفاوت کو کم کرنے کا کوئی تصور نہ ملک کی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے میں موجود ہے اور نہ ہی دینی جماعتوں کے پروگرام میں یہ بات کسی درجہ میں قابل توجہ سمجھی جا رہی ہے۔
  4. جبکہ چوتھی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔ جہاں بادشاہتیں اور آمریتیں ہیں، وہاں تو ظاہر بات ہے کہ عوام کے سامنے جوابدہی کا کوئی سوال نہیں، لیکن جن ممالک میں کسی درجہ میں ووٹ کا نظام موجود ہے، وہاں بھی حکومتوں کی تشکیل، تبدیلی اور جوابدہی کے اصل مراکز ان ملکوں کے اندر نہیں ہیں اور عوام کے پاس وقتاً فوقتاً ووٹ ڈالتے رہنے کے سوا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ہمارے ہاں یہ خوف عام طور پر پایا جاتا ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ مغرب نے عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے، اس کی سیاست کو کنٹرول میں لینے اور اس کی معیشت کو اپنے مفادات میں جکڑنے کے بعد اب اس کی تہذیب و ثقافت کو فتح کرنے کے لیے یلغار کر دی ہے۔ یہ یلغار سب کو دکھائی دے رہی ہے اور اس کے وجود اور شدت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس یلغار کا راستہ روکنے یا اس کی زد سے اپنی تہذیب و ثقافت کو بچانے کے لیے عالم اسلام میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے دینی و علمی حلقوں میں اس یلغار کا جو رد عمل سامنے آ رہا ہے، اس کا وہ رخ تو یقیناً خطرناک ہے جس میں مغرب کے سامنے سپر اندازی اور اس کے فلسفہ و نظام کو مکمل طور پر قبول کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ لیکن وہ دوسرا رخ بھی اس سے کم خطرناک نہیں ہے جس میں مغرب کی ہر بات کو رد کر دینے پر زور دیا جا رہا ہے اور جس طرح مغرب نے بادشاہت، جاگیرداری اور مذہبی پیشوائیت کے مظالم اور جبر کے رد عمل میں ان کی ہر بات کو مسترد کر دینے کی حماقت کی تھی۔ اسی طرح ہم بھی مغرب کی دھاندلی، استحصال، جبر اور فریب کاری پر غضبناک ہو کر رد عمل میں اس کی تمام باتوں کو مسترد کر دینا چاہتے ہیں۔ ان میں وہ باتیں بھی ہیں جو مغرب نے غلط طور پر اختیار کی ہیں اور وہ باتیں بھی شامل ہیں جو مغرب نے ہم سے لی ہیں، مگر ہم انہیں اپنی گم شدہ میراث سمجھنے کے بجائے مغرب کے کھاتے میں ڈال دینے میں ہی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔

ان گزارشات کے ساتھ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب کی لادینی جمہوریت ہو، مطلق جمہوریت ہو یا اس کی مجموعی تہذیب و ترقی ہو، اس پر مسلم امہ کا مجموعی رد عمل حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور حالات کے معروضی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا رد عمل دو انتہاؤں کے درمیان پنڈولم (pendulum) بنا ہوا ہے۔ ایک طرف اسے مکمل طور پر قبول کر لینے کی بات ہے اور دوسری طرف اسے مکمل طور پر مسترد کر دینے کا جذبہ ہے۔ ہمارے رد عمل کے اس پنڈولم کو درمیان میں قرار کی کوئی جگہ نہیں مل رہی اور یہی ہمارا اصل المیہ ہے۔

میں ان ارباب دانش کی مساعی کی نفی نہیں کرنا چاہتا جنہوں نے درمیان کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنے افکار و خیالات کی چھلنی میں چھاننے کے لیے بے پناہ صلاحیتیں صرف کی ہیں۔ ان کی مساعی یقینا قابل قدر ہیں، لیکن ایک تو یہ کوششیں انفرادی سطح پر ہوئی ہیں اور ہر دانشور نے مغربی تہذیب و ثقافت کو چھاننے کے لیے اپنی چھلنی الگ بنائی ہے جس کا نتیجہ فکری انتشار میں اضافہ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔ ہمارے بیشتر دانشوروں نے مغربی تہذیب و ثقافت کا جائزہ لینے سے قبل یہ ضروری سمجھا ہے کہ اسلام کی تعبیر و تشریح کے روایتی ڈھانچے کو توڑ کر نیا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے یا کم از کم روایتی دینی ڈھانچے سے لاتعلقی کا ضرور اعلان کیا جائے۔ ہم نے دیکھا کہ مغرب نے قرون مظلمہ سے نکلنے کے لیے اپنے علوم کی نشاۃ ثانیہ کی ہے اور علوم و افکار کے پرانے ڈھانچے توڑ کر نئے سانچے تشکیل دیے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں بھی شوق ہوا کہ علوم کی نشاۃ ثانیہ میں ہم مغرب سے پیچھے نہ رہیں اور پرانے سانچے توڑ کر نئے سانچے تشکیل دینے کا شرف ہم بھی ضرور حاصل کریں۔ مگر ہم یہ نہ دیکھ سکے کہ مغرب کو تو علوم کی نشاۃ ثانیہ کی ضرورت اس لیے تھی کہ ان کے قدیمی علوم میں عقل و دانش کا کوئی دخل باقی نہ رہا تھا، ان کے مذہبی علوم جمود کا شکار تھے اور ان کی کوکھ سے ہٹ دھرمی کے سوا کوئی چیز پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ جبکہ ہمارے ہاں صورتحال یہ نہیں تھی اور علوم فطری ارتقا کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔ مسلمان علماء، دانشوروں اور سائنس دانوں کو کہیں بھی اس وجہ سے بریک نہیں لگی کہ ان کے مذہبی اصول اور دینی کی تعبیر و تشریح کا روایتی ڈھانچہ زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے میں رکاوٹ ہے اور وقت کے ساتھ چلنے سے مسلمانوں کو روک رہا ہے۔ لیکن چونکہ مغرب نے علوم و افکار کے پرانے سانچوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا، اس لیے ہم نے بھی ضروری سمجھا کہ ترقی کے لیے علوم کے قدیمی ڈھانچے اور اسلام کی تعبیر و تشریح کے روایتی سانچے کو مسترد کیا جائے، اور دانشوروں کی ایک پوری کھیپ نے اپنا پورا زور روایتی ڈھانچے کو توڑنے پر لگا دیا اور ’’علوم کی نشاۃ ثانیہ‘‘ کا شوق پورا کرنے کو ہی ترقی اور تہذیب میں پیشرفت کا معیار قرار دے لیا۔

مغرب نے بھی ہمارے ساتھ یہی ظلم کیا کہ نئے تہذیبی سفر میں اس نے اپنے تاریخی پس منظر کے ساتھ ہمیں بھی نتھی کر دیا، حالانکہ صورتحال بالکل مختلف تھی۔ مثلاً یورپ میں بادشاہت اور پاپائیت کے جس پس منظر نے وہاں کے عوام کو مذہب کے خلاف بغاوت پر مجبور کیا، وہ یورپ کے ساتھ مخصوص ہے اور عالم اسلام میں یہ صورتحال نہیں تھی۔ یورپ کے چرچ اور پادری نے بادشاہ اور جاگیردار کا یقیناً ساتھ دیا ہوگا اور ان کے مظالم کی پشت پناہی کی ہوگی مگر مسلم ممالک میں علماء نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ عوام کے ساتھ رہے ہیں، مظلوم کے ساتھ رہے ہیں اور حکمرانوں کے مظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے رہے ہیں، مگر یورپ کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنے ماضی کو یورپ کے ماضی پر قیاس کر کے مذہب سے لازماً دستبرداری اختیار کریں اور مذہبی پیشوائیت سے بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان کریں۔

اسی طرح امریکہ میں انسانی حقوق کی جو صورتحال ایک صدی پہلے تک تھی اور غلاموں کی خرید و فروخت اور ان سے جانوروں کی طرح کام لینے کا جو رویہ موجود تھا، امریکہ نے اس کے رد عمل میں انسانی حقوق کا چارٹر مرتب کیا اور غلامی اور جبر کے خاتمہ کی راہ اختیار کی۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ صورتحال قطعاً نہیں تھی اور مسلمانوں نے کبھی امریکہ کی طرح افریقہ سے جہاز بھر بھر کر غلامی کے لیے انسانوں کو جمع نہیں کیا تھا اور اگر کہیں غلامی کی کوئی شکل موجود تھی تو بھی وہ محض مالک کے رحم و کرم پر نہیں تھے اور باڑے کے جانور شمار نہیں ہوتے تھے، بلکہ ان کے حقوق تھے، قوانین احکام کا تحفظ انہیں حاصل تھا اور آزادی کے کئی راستے ان کے لیے کھلے تھے۔ مگر امریکہ بہادر کا تقاضا ہے کہ اس نے انسانی حقوق کا جو ڈھانچہ اپنے مخصوص پس منظر میں تشکیل دیا ہے، ہم بھی اپنے ماضی کو اس کے ماضی پر قیاس کرتے ہوئے انسانی حقوق کے اس ڈھانچے کو من و عن قبول کر لیں۔

آج مغرب اور عالم اسلام میں مکالمہ کی جو ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور جس ڈائیلاگ کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کھائی ہے۔ مغرب ہمیں سمجھنے میں مغالطوں کا شکار ہوا ہے اور ہم نے مغرب کو سمجھنے میں فریب کھائے ہیں۔ اگر یہ مکالمہ اور ڈائیلاگ ان غلطیوں کی نشاندہی کے لیے ہوں اور فریب کے دائروں سے نکلنے کے لیے ہوں تو اس کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل جب مختلف مذاہب کے راہنماؤں کے درمیان مکالمہ کی بات چلی اور اسلام آباد میں اس سلسلے میں ایک کانفرنس ہوئی تو اس مرحلے پر مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا اور میری رائے دریافت کی گئی۔ میں نے گزارش کی کہ:

  • میں اس مکالمہ اور ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور اس کی افادیت و اہمیت سے مجھے انکار نہیں ہے، لیکن میرے نزدیک یہ افادیت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ یہ مذاکرات حکومتی سطح پر یا حکومتوں کے ذریعے نہ ہوں۔ یہ مکالمہ اہل علم کا کام ہے اور اس موضوع سے دلچسپی اور مناسبت رکھنے والے ارباب فہم و دانش کا مسئلہ ہے۔ حکومتوں کی مداخلت یا دلچسپی ایسے معاملات کو بگاڑ دیا کرتی ہے۔
  • اور دوسری بات یہ کہ ایجنڈا یکطرفہ نہ ہو بلکہ باہمی مشورہ سے ایجنڈا طے کیا جائے۔ مثلاً اس وقت بین المذاہب مکالمہ کے لیے سب سے بڑا ایجنڈا ’’دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال اور اس کی روک تھام‘‘ بیان کیا جاتا ہے۔ مجھے اس کی ضرورت سے انکار نہیں، لیکن یہ یکطرفہ ایجنڈا ہے اور اگر مغرب اور عالم اسلام کے درمیان مکالمہ کے لیے ایجنڈا طے کرنے میں مجھ سے رائے طلب کی جائے تو میں اس کے لیے تین نکاتی ایجنڈا تجویز کروں گا:
    1. انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کی بے دخلی کے اثرات کا جائزہ
    2. دہشت گردی، انتہا پسندی اور مذہبی جبر کی تعریف اور حدود کا تعین
    3. دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال اور اس کی روک تھام

مجھے یقین ہے کہ اسلام اور مسیحیت کے سنجیدہ ارباب علم و دانش اگر مل بیٹھ کر اس ایجنڈے پر گفتگو کریں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان امور کا جائزہ لیں تو وہ نہ صرف بہت سی باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں بلکہ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان دن بدن بڑھتے چلے جانے والی کشیدگی میں کمی کے راستے بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مسلمان ارباب علم و دانش اپنے طرز عمل کا ازسرنو جائزہ لیں جس کے لیے ساری گفتگو کے خلاصے کے طور پر آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ:

  • ہمیں مغرب کے فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کا، اس کے تاریخی پس منظر اور انسانی سوسائٹی پر اس کے اثرات کے حوالے سے تفصیلی جائزہ لینا چاہیے اور علمی اداروں کو اس پر مذاکرات، مقالات اور بحث و تمحیص کے وسیع تر سلسلے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
  • قرآن کریم، سنت نبوی اور خلافت راشدہ کو بنیاد بنا کر اس کی روشنی میں ہمیں اپنی اجتماعی کوتاہیوں اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور ان کے ازالہ کے لیے عملی لائحہ عمل تجویز کر کے اس کے لیے عوامی تحریک منظم کرنی چاہیے۔
  • اسلام کی تعبیر و تشریح کے لیے روایتی علمی ڈھانچے کو توڑنے کے شوق میں مزید وقت اور صلاحیتیں ضائع کرنے اور فکری خلفشار میں اضافہ کرتے چلے جانے کے بجائے اپنے علمی ماضی پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی راہ نمائی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
  • خلافت راشدہ کے دور میں عام شہریوں کو اظہار رائے، جان و مال کے تحفظ، بیت المال سے وابستہ حقوق اور دیگر سہولتوں کی جو قانونی ضمانت حاصل تھی، انہیں عالمی سطح پر اجاگر کرے کی کوئی صورت نکالنی چاہیے، اس لیے کہ اسلام کا اصل تعارف وہ نہیں جو اس وقت ہمارے اجتماعی طرز عمل کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے، بلکہ اسلام کا صحیح تعارف جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کا سنہری دور ہے جسے آئیڈیل قرار دے کر ہی ہم مغربی تہذیب کا عملاً سامنا کر سکتے ہیں۔

اور بھی بہت سی باتیں اس ضمن میں عرض کی جا سکتی ہیں، مگر بہت زیادہ طوالت کے خوف سے گفتگو کا دائرہ سمیٹتے ہوئے اس طویل سمع خراشی پر آپ سب ارباب علم و دانش سے معذرت خواہ ہوں اور دعا کا خواستگار ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں اس نازک ترین مرحلہ میں امت مسلمہ کو صحیح راستہ دکھانے کی توفیق دیں اور عالم اسلام کو موجودہ بحران میں ایمان، عزت اور وقار کے ساتھ سرخ روئی عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter