جامعہ بنوریہ کراچی کے استاذ مولانا مسعود بیگ کی شہادت کا غم ابھی تازہ تھا کہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی شہادت کی خبر سننا پڑی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی ایک عرصہ سے مختلف حوالوں سے قتل وغارت کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ قومیتوں کے اختلافات اور فرقہ وارانہ تنازعات کے علاوہ سیاسی اور لسانی جھگڑے اس قتل وغارت کے محرکات میں سرفہرست ہیں اور اس میں سب سے زیادہ غم واندوہ اور رنج وصدمہ کا پہلو یہ ہے کہ عام شہریوں اور کارکنوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب فکر اور طبقات کے ارباب علم ودانش خاص طور پر اس کا نشانہ بن رہے ہیں اور ارباب فضل وعلم کی ایک طویل فہرست ہے جو ہر دردمند او رمحب وطن مسلمان اور پاکستان کو مضطرب اور بے چین کیے ہوئے ہے۔
مولانا مسعود بیگ ہمارے محترم دوست مولانا مفتی محمد نعیم کے داماد اور ایک صاحب فکر عالم دین تھے، جبکہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا شمار ان ارباب علم ودانش میں ہوتا ہے جو اسلام کی علمی وفکری روایات کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے جدید مسائل میں نئی نسل کو علمی وفکری راہ نمائی فراہم کرنے میں مصروف رہتے تھے اور ہزاروں طلبہ نے دینی علم وفکر میں ان سے استفادہ کیا ہے۔
چند ماہ قبل کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس میں ان کی دعوت پر شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔ اس سے قبل بھی ان سے متعدد ملاقاتوں اور فون پر تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ دینی اور عصری علوم پر گہری نظر رکھتے تھے، آج کے دور کے تقاضوں کو سمجھتے تھے اور ان کی روشنی میں نئی نسل کی راہ نمائی کے اسلوب سے بہرہ ور تھے، اس لیے ان کی وفات بلاشبہ علمی دنیا کا نقصان ہے اور ہم سب کے لیے باعث رنج والم ہے۔
اللہ تعالیٰ مولانا مسعود بیگ، ڈاکٹر شکیل اوج اور قتل وغارت کا نشانہ بننے والے دیگر حضرات کی مغفرت فرمائیں اور کراچی کو اس عذاب سے نجات عطا فرمائیں جس نے پوری قوم کو بے چین کر رکھا ہے۔ آمین یا رب العالمین