پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس ۔ حالات حاضرہ کا جائزہ

   
نا معلوم

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک اہم اجلاس ۱۴ نومبر کو مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ حسن ابدال میں مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (ف) کے قائم مقام سیکرٹری جنرل مولانا محمد امجد خان، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدا لرؤف فاروقی اور متحدہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف ملک نے خصوصی دعوت پر شرکت کی اور شرکاء اجلاس کو ملک کی موجودہ صورت حال کے حوالہ سے بریفنگ دی۔ جبکہ باقی شرکاء میں مولانا عبد الرزاق (فیصل آباد)، قاری جمیل الرحمن اختر (لاہور)، قاری عبد الحمید حامد (چنیوٹ)، مفتی محمد سیف الدین (اسلام آباد)، مولانا حاجی عبد المنان (کراچی)، مولانا عبد القیوم حقانی (نوشہرہ)، مولانا رشید احمد درخواستی (کراچی)، مولانا محمد رمضان علوی (اسلام آباد)، حاجی صلاح الدین فاروقی (ٹیکسلا)، مولانا حسین احمد قریشی (بھوئی گاڑ)، قاری عبید اللہ عامر (گوجرانوالہ)، حافظ محمد عمیر (چنیوٹ)، قاری مسعود احمد (فیصل آباد)، مولانا عبد الخالق (اسلام آباد)، مولانا سیف اللہ خالد (چنیوٹ)، مولانا محمد رمضان (لاہور)، مولانا محمد حارث (کراچی)، حاجی وقاص احمد پراچہ (اسلام آباد)، حاجی محمد سلیمان (حسن ابدال)، پروفیسر محمد عرفان (چنیوٹ)، مولانا خلیل الرحمن درخواستی (خانپور)، مولانا ثناء اللہ غالب (اسلام آباد)، مفتی محمد آصف انصاری (بہاولپور)، قاری محمد الیاس (اسلام آباد) اور دیگر حضرات شامل ہیں۔ راقم الحروف نے اجلاس میں ملک کی عمومی صورت حال کا جائزہ پیش کیا اور تحریک انسداد سود کی سرگرمیوں سے شرکاء اجلاس کو آگاہ کیا۔

اجلاس میں اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک کو دھیرے دھیرے سیکولر ازم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور اسلامی تشخص کو کمزور کرنے کی مہم ہر سطح پر جاری ہے۔ مگر دینی و علمی حلقوں میں بیداری دکھائی نہیں دے رہی۔ جبکہ دستور پاکستان میں وطن عزیز کے اسلامی تشخص کے تحفظ اور اسلامی اقدار و روایات کی ترویج کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا جو اکیسویں آئینی ترامیم کے حوالہ سے سامنے آیا ہے اور جس میں دستور کے ناقابل ترمیم حصوں میں اسلامی دفعات کو شامل نہیں کیا گیا۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ ملک کی تمام دینی قوتوں اور پاکستان کے اسلامی تشخص پر یقین رکھنے والے حلقوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ متحد ہو کر دستور کی اسلامی بنیادوں کا تحفظ کریں اور پاکستان کو لبرل ازم کے نام پر لا دین ریاست بنانے کی سازش ناکام بنا دیں۔

اجلاس میں سپریم کورٹ کے ایک محترم جج کے ان ریمارکس کو بھی افسوسناک قرار دیا گیا کہ ملک سے سودی نظام کو ختم کرنا عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری نہیں ہے اور جو سود کھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے خود پوچھے گا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ دستور کی عملداری کی نگرانی کرنا سپریم کورٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے اور دستور میں حکومت سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ ملک کو جلد از جلد سودی نظام سے نجات دلائے۔

اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ صدر پاکستان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غازی ممتاز حسین قادری کی سزائے موت معاف کرنے کا اعلان کر کے اس سلسلہ میں اسلامی پاکستان کے جذبات کی پاسداری کریں۔ اجلاس میں ملک کی دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور اس حوالہ سے سربراہی اجلاس کے اہتمام کی کوششوں کا خیر مقدم کیا گیا اور مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق سے اپیل کی گئی کہ وہ اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کریں۔ اجلاس میں طے پایا کہ پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی دینی جماعتوں کے سربراہوں بالخصوص مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق سے ملاقات کر کے ان تک پاکستان شریعت کونسل کے جذبات پہنچائیں گے۔

اجلاس میں پاکستان اور بھارت کی سرحد پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز کاروائیوں کو علاقائی امن کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے عالمی رائے عامہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھارت کے اشتعال انگیز رویے کا نوٹس لے اور امن عامہ کی صورت حال کو بگڑنے سے بچایا جائے۔ ایک اور قرارداد کے ذریعہ بھارت میں مودی حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسیوں سے پیدا شدہ صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ ان کاروائیوں سے فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ مل رہا ہے اور بھارت میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی جان و مال خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ قرارداد میں بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارت میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اجلاس میں طے پایا کہ پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام (۱) ملک کے نظریاتی تشخص کے تحفظ (۲) سودی نظام کے خاتمہ (۳) فحاشی کے سدباب اور (۴) نفاذ اسلام میں عملی پیش رفت کے لیے مندرجہ ذیل پروگرام کے مطابق مختلف مقامات پر ’’علماء کنونشن‘‘ منعقد کیے جائیں گے۔

۱۹ دسمبر لاہور،

۷ جنوری کراچی،

۲۸ جنوری فیصل آباد، اور

۲۱ فروری گوجرانوالہ

جبکہ مارچ کے دوران اسلام آباد میں مرکزی کنونشن کا اہتمام کیا جائے گا۔ اجلاس میں طے پایا کہ صوبائی اور ضلعی سطح پر پاکستان شریعت کونسل کی رابطہ کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جبکہ امیر محترم مولانا فداء الرحمن درخواستی نے مرکزی مجلس شوریٰ میں مندرجہ ذیل پانچ نئے ارکان کو شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ (۱) مولانا عبد الخالق، اسلام آباد (۲) مولانا محمد حارث، کراچی (۳) مولانا عبد الماجد شہیدی، منڈی بہاؤ الدین (۴) مولانا خلیل الرحمن درخواستی، خانپور (۵) قاری قطب الدین، حیدر آباد سندھ۔

اجلاس میں افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر مجاہدؒ ، مولانا قاضی عبد الکریمؒ آف کلاچی، مولانا عبد الواحدؒ آف کراچی، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ ، مولانا عبد اللطیف انورؒ آف شاہکوٹ اور جنرل حمید گلؒ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور ان کی دینی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دعائے مغفرت کی گئی۔ مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ حسن ابدال میں سیرت النبیؒ کانفرنس منعقد ہوئی جو ظہر کے بعد شروع ہو کر عشاء کی نماز تک جاری رہی۔ کانفرنس کی صدارت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے کی جبکہ مقررین میں مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا محمد امجد خان، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا عبد الرؤف ملک کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل تھا۔

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے پوری دنیائے انسانیت کو روشناس کرانے کی محنت کرنی چاہیے۔ صدر کانفرنس مولانا فداء الرحمن درخواستی نے کہا کہ چودہ سو سال پہلے کی طرح آج بھی انسانی معاشرہ کی فلاح و کامیابی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی وابستہ ہے اور اس پیغام کو دنیا میں ہر سطح پر عام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter