ہمارا ابھی تک لوگوں سے گفتگو کا اسلوب پرانا ہے، مناظرے کا ہے، اور یہ دور اب نہیں رہا۔ ہم اپنے طلباء کو مناظرہ سکھاتے ہیں، مناظرے کا دور نہیں ہے، یہ بریفنگ کا دور ہے، اسلوب بدل گیا ہے۔ ہمارے ماحول میں آج کی ضرورت یہ ہے کہ جتنی سادہ بات آپ کر سکیں گے، جتنے فطری لہجے میں آپ بات کر سکیں گے، یہ ہم اپنے طلباء کو نہیں سکھا رہے۔ میں جو کمی محسوس کرتا ہوں اپنے حلقے میں، ہمارا جو طالب علم فارغ ہوتا ہے، دینی مدرسے سے فاضل ہو کر باہر جاتا ہے، وہ ایک امام تو صحیح ہوتا ہے، اور مدرس بھی قرآن کریم کا اپنے ماحول میں ہوتا ہے، داعی نہیں ہوتا، اور کمیونٹی رہنما جسے کہتے ہیں وہ نہیں ہوتا، اردگرد کے ماحول سے اسے شناسائی نہیں ہوتی، واقفیت نہیں ہوتی، اور ہم سکھاتے بھی نہیں ہیں اور ذوق بھی پیدا نہیں کرتے۔
بہرحال میں یہی بات عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے نزدیک ایک طالب علم کے طور پر جو اصل خلا ہے وہ یہ ہے کہ ہم آج کے تقاضوں سے ہم آہنگی نہیں پیدا کر رہے۔ اور ہمارے ذہن میں یہ بات بسی ہوئی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا ہم اس طریقے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حالانکہ بزرگوں نے ایک تو تھا کہ طریقہ اختیار کیا تھا، مثلاً نصاب بنایا تھا یا سسٹم بنایا تھا، لیکن بزرگوں کی ایک سنت یہ بھی تھی کہ پہلے بزرگوں کے دائرے میں رہ کر انہوں نے بھی نیا ایک نصاب اور نیا (سسٹم بنایا تھا)۔ میں دوستوں سے عرض کیا کرتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، کہتے ہیں کہ شاہ صاحبؒ نے تجدید کی ہے۔ ٹھیک ہے۔ تو شاہ صاحبؒ کی تجدید کا یہ پہلو پہلا ہے کہ انہوں نے پہلے ذخیرے پر قناعت نہیں کی، اس کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے اور آج کے اہل علم کو آج کے حالات سامنے رکھتے ہوئے کہ آج جدید مسائل ہیں۔
میں ایک مثال دوں گا، ہمارے ایک دوست ہیں ڈاکٹر فرحان نظامی، انہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا، میں یہاں وہ ذکر کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر فرحان نظامی لکھنو کے ہیں اور ہمارے برصغیر کے ممتاز دانشوروں میں ہیں، آکسفورڈ میں ان کا سنٹر ہے، حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی میں سنٹر تھا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ مجھے ایک دفعہ کسی یونیورسٹی کی طرف سے لیکچر کی دعوت ملی کہ سود پر اسلام کا موقف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ لیکچر دیں اور ہمیں بتائیں کہ سود کے بارے میں اسلام کا موقف کیا ہے۔ مغربی یونیورسٹی تھی۔ اب ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں سوچتا رہا کہ میں نے کیا کہنا ہے۔
اس کا ایک تو روایتی طریقہ ہے کہ اسلام کا موقف بیان کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دینا ہو گا، پھر احادیث پیش کرنا ہوں گی، پھر صحابہ کرامؓ کے اقوال آئیں گے، پھر آئمہ اربعہ کہ حنفی مذہبی یہ کہتا ہے، مالکی یہ کہتا ہے، پھر زیادہ سے زیادہ غزالیؒ تک آجائیں گے، ابن رشدؒ کی بات کر دیں گے، شاہ ولی اللہؒ کی بات کر دیں گے۔ حوالے دے کر کہ ہمارے آئمہ یہ کہتے ہیں، صحابہ کرامؓ یہ کہتے ہیں، قرآن یہ کہتا ہے، یہ ہمارا موقف ہے۔ ایک طریقہ جو روایتی ہے وہ یہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں تو اپنے آپ کو تسلی دے لوں گا کہ میں نے اپنا موقف بیان کر دیا ہے یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں اپنا میسج نہیں کنوے (Convey) کر سکوں گا۔ موقف بیان کر دوں گا، میسج کنوے نہیں ہوگا۔ ان کی فریکونسی اور ہے، میں کسی اور فریکونسی سے بات کر رہا ہوں گا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں میں نے سوچا اور ایک نئی تکنیک اختیار کی۔ میں نے یہ اسٹڈی کیا کہ جو آج کی جدید ترین تحقیق ہے سود پر کہ سود نے معیشت میں کیا کیا نقصانات دیے ہیں۔ عالمی معیشت میں، لوکل معیشت میں، سود کے نقصانات کا پہلو زیادہ ہے یا فوائد کا پہلو زیادہ ہے۔
اور اس پر تو آج کے ماہرین معیشت متفق ہیں کہ ’’اثمھما اکبر من نفعھما‘‘ سود کا نقصان سود کے نفع سے زیاہد ہے۔ نفع محدود ہے، نقصان اس کا پورے عالم میں ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے اس کو اسٹڈی کیا جو آج کے ماہرین نے سود پر بات کی اور اس کے نقصانات گنوائے کہ یہ نقصان ہے یہ نقصان ہے، وہ سارا اسٹڈی کر کے میں نے ایک پیپر تیار کیا۔ اور ساری بحث کر کے کہ سود کے بارے میں آج کی جدید ترین تحقیق اور ریسرچ یہ کہتی ہے کہ اس کا انسانی سوسائٹی کو فائدہ نہیں ہے نقصان ہے اور یہ یہ نقصانات ہیں، اور اب وہ واپسی کی بات سوچ رہے ہیں کہ کس طریقے سے ہو۔
’’تعمیر حیات‘‘ میں ایک دفعہ میں نے پڑھا تھا کہ ورلڈ بینک کے کسی سابق چیئرمین کا ایک انٹرویو چھپا تھا، اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ سود کے مسئلے کا اصل حل یہ ہے کہ شرح سود کم سے کم کی جائے۔ سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ جناب کم سے کم کی حد کیا ہے؟ تو اس نے کہا زیرو۔ یہ میں نے ’’تعمیر حیات‘‘ میں پڑھا تھا، اسکو کہیں نقل بھی کیا تھا۔
تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے یہ ساری اسٹڈی کر کے جدید ریسرچ کو ایک پیپر لایا، اور میں نے آخر میں قرآن کریم کی دو آیات کا حوالہ دیا کہ ’’یمحق اللہ الربوٰا و یربی الصدقات‘‘ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کوٹ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اپنا میسج کنوے کرنے میں کامیاب ہوا، لوگ سمجھے کہ اسلام کا موقف کیا ہے۔
بس میرا عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آج کے جو تقاضے ہیں، آج کا جو جدید اسلوب ہے، آج کی جو تکنیک ہے، وسائل ذرائع کی بات بھی ہے، تو جب تک ہم بطور داعی کے دنیا کو اسلام کا پیغام دینے کے لیے ان ضروریات کا لحاظ نہیں کریں گے، شاید ہم اپنی بات پوری نہ کر سکیں۔ اور یہ مجھے جو محسوس ہوتا ہے کہ سب سے بڑا خلا ہے جس کو ہمیں اپنے اداروں میں پورا کرنا چاہیے اور اس کے لیے جو بھی ذرائع ممکن ہوں اختیار کرنے چاہئیں، اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔