لندن کے بم دھماکوں کے بعد پاکستان میں دینی مدارس کے خلاف نئی مہم کا آغاز ہوگیا ہے، مدارس پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، علماء کرام اور دینی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، میڈیا میں دینی مدارس اور علماء کے خلاف کردار کش پروپیگنڈے کی مہم زوروں پر ہے اور وفاقی کابینہ دینی مدارس کے نئے کردار کو متعین کرنے کے لیے اجلاس کر چکی ہے۔ جبکہ صدر جنرل پرویز مشرف نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے دینی مدارس کو یکم دسمبر تک بہرحال رجسٹریشن کرانے کا الٹی میٹم دے دیا ہے اور اس خطاب میں علماء کرام، دینی حلقوں اور دینی مدارس کے خلاف ان کے لب و لہجہ اور گھن گرج سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ان کی زندگی کا اب سب سے بڑا مقصد ہی یہ رہ گیا ہے کہ وہ دینی مدارس کو ان کی آزادی اور اس معاشرتی کردار سے محروم کر دیں جو وہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے مسلسل ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں دینی شعور اور اسلامی روایات کی جھلک موجود دکھائی دیتی ہے۔
لندن کے ان بم دھماکوں میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ یہ دھماکے کس نے کیے ہیں، اس کے بارے میں ایک سے زائد رائیں پائی جاتی ہیں اور ان کے اسباب و محرکات پر بھی مختلف حلقوں کی طرف سے الگ الگ خیالات سامنے آ رہےہیں۔ مگر برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اس کا رشتہ پاکستان کے دینی مدارس سے جوڑتے ہوئے حکومت پاکستان پر ان مدارس کے خلاف کاروائی کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رکھا ہے اور ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ وہ بقول ان کے پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت دینے والے دینی مدارس کے خلاف کاروائی کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کے دینی مدارس میں دہشت گردی کی ٹریننگ کا تعلق ہے، یہ الزام کئی بار دہرایا جا چکا ہے، متعدد بار ان مدارس کی تفصیل کے ساتھ چھان بین ہو چکی ہے اور ذمہ دار حکومتی حضرات بار بار کہہ چکے ہیں کہ مدارس پر یہ الزام بے بنیاد ہے۔ حکمران مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور وزارت میں اس الزام کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کرائی تھی اور ملک کا کوئی دینی مدرسہ دہشت گردی کی ٹریننگ میں ملوث نہیں پایا گیا تھا۔ جبکہ موجودہ وفاقی وزیر تعلیم جناب جہانگیر اشرف قاضی نے بھی کھلے بندوں کہا ہے کہ پاکستان کے کسی دینی مدرسے میں دہشت گردی کی تربیت نہیں دی جاتی۔ مگر حکومتی صفوں کے ان دو ذمہ دار حضرات کے ان واضح اعلانات کے باوجود برطانوی وزیر اعظم کی ’’بے چینی‘‘ نے ہمارے حکمرانوں کو اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ وہ دینی مدارس کے خلاف ملک گیر آپریشن کا آغاز کر چکے ہیں اور اسے جاری رکھنے کے بار بار اعلانات کر رہے ہیں۔
جہاں تک برطانوی وزیر اعظم کی بے چینی کا تعلق ہے اسے دور کرنا ہمارے حکمرانوں بلکہ کسی مسلمان حکمران کے بس کی بات نہیں کیونکہ موصوف نے گزشتہ دنوں برطانوی لیبر پارٹی کی پالیسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے اس کا تعلق صرف دہشت گردی اور اس کی تربیت سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے عقائد اور نظریات سے ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور ۱۷ جولائی ۲۰۰۵ء میں ان کے اس خطاب کے حوالہ سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جناب ٹونی بلیئر نے فرمایا ہے کہ ان کی اصل جنگ ان مبینہ دہشت گردوں کے نظریات سے ہے جو ان کے بقول:
- عالم اسلام میں خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں،
- مسلم ممالک میں شرعی قوانین کے نفاذ کے خواہش مند ہیں، اور
- مغربی طرز زندگی کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔
اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ برطانیہ اور اس کے حواری ممالک نے اب سے ایک سو سال قبل ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف سازش میں جو کامیابی حاصل کرلی تھی اور مسلم ممالک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا ماحول ختم کرنے کا جو ہدف حاصل کیا تھا، عالم اسلام میں اس کے خلاف بیداری کی تحریک مسلسل بڑھ رہی ہے اور کم و بیش ہر مسلمان ملک میں خلافت اور اسلامی نظام کے حوالہ سے عوامی جدوجہد منظم ہونا شروع ہوگئی ہے، جسے مغربی ممالک اپنی ایک صدی قبل کی فتوحات کی ناکامی سمجھتے ہوئے اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم جناب ٹونی بلیئر کے یہ ارشادات پارٹی کی پالیسی کانفرنس سے ان کے خطاب کا حصہ ہیں جن سے ان کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
اس لیے ہم ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک مسلح جنگ اور مبینہ دہشت گردی کا تعلق ہے دینی مدارس کے موجودہ سسٹم نے اپنے آغاز سے اب تک یہ راستہ کبھی اختیار نہیں کیا اور نہ ہی اب جنوبی ایشیا کے کسی دینی مدرسہ میں مسلح جنگ اور دہشت گردی کی ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ مگر (۱) خلافت (۲) شرعی قوانین اور (۳) اسلامی طرز زندگی کی تعلیم و فروغ دینی مدارس کے اساسی اہداف میں سے ہیں۔ یہ مدارس انہی باتوں کی تعلیم دینے کے لیے وجود میں آئے ہیں اور جب تک قائم ہیں یہی خدمت سرانجام دیتے رہیں گے، نہ اس سے قبل کوئی جبر اور دباؤ انہیں اس راستے سے ہٹا سکا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی کوشش اس سلسلہ میں کامیابی کا ہدف حاصل کر سکتی ہے۔ البتہ ان اہداف کے لیے دینی مدارس کی جدوجہد تعلیم اور ذہنی و اخلاقی تربیت کے دائرہ تک محدود ہے، اس سے آگے ان کی طرف کسی اور کردار کی نسبت سراسر الزام اور زیادتی ہے اور ان کے اس مذکورہ اور حقیقی کردار سے انہیں محروم کرنے کی کوئی بھی کوشش اسلام اور مسلمانوں کے دین اور عقائد کے خلاف معاندانہ مہم ہے جسے روکنا اور جس کا سامنا کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ برطانوی لیبر پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں وزیراعظم ٹونی بلیئر کے مذکورہ خطاب کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں اور اس کے بعد سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کریں کہ وہ برطانوی وزیر اعظم کی کون کون سی ’’بے چینی‘‘ کو دور کرنے کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ریاستی جبر کے دروازے کھولیں گے اور ان کی اس مہم کا نتیجہ کیا ہوگا؟
باقی رہی بات دینی مدارس کی رجسٹریشن کی تو ہم یہ مغالطہ ایک بار پھر دور کرنا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس کی اکثریت اس وقت بھی رجسٹرڈ ہے اور جو رجسٹرڈ نہیں ہیں انہیں رجسٹریشن سے کوئی انکار نہیں۔ مگر خود حکومت نے کئی برسوں سے مدارس کی رجسٹریشن اور پرانی رجسٹریشنوں کی تجدید پر پابندی لگا رکھی ہے اور ہزاروں مدارس کی رجسٹریشن اور تجدید کی درخواستیں متعلقہ دفاتر میں اس پابندی کے خاتمہ کی منتظر قطار میں کھڑی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت خود دینی مدارس کی رجسٹریشن نہیں چاہتی جس کا سب سے بڑا ثبوت رجسٹریشن پر پابندی کے احکامات ہیں، البتہ حکومت رجسٹریشن کے نام پر سرکاری طور پر قائم کیے جانے والے ’’مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘ کے ساتھ تمام دینی مدارس کا الحاق چاہتی ہے جس کا مقصد دینی مدارس پر سرکاری کنٹرول کی راہ ہموار کرنا اور انہیں بتدریج حکومتی تحویل میں لینا ہے۔ اسی لیے دینی مدارس کے تمام وفاقوں نے اسے مسترد کر دیا ہے اور مدارس کے نظام میں کسی قسم کی سرکاری مداخلت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چنانچہ حکومت سے ہماری گزارش ہے کہ وہ رجسٹریشن کے لفظ کا غلط استعمال نہ کرے اور مدارس کو ’’سرکاری مدرسہ بورڈ‘‘ کی تحویل میں لینے کی ضد ترک کرکے مدارس کی حسب سابق رجسٹریشن پر عائد کردہ پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کرے، اس کے بعد کوئی مدرسہ رجسٹریشن سے انکار کرے تو اس کے خلاف حکومتی کاروائی کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن رجسٹریشن کے نام پر مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لینے کی کوئی کاروائی دینی مدارس کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہوگی۔
اس موقع پر ہم وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادت سے بھی یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس کے خلاف اس نئی مہم اور حکومتی دباؤ کے پیش نظر ان کا ایک بار پھر ملک گیر سطح پر مجتمع ہونا اور اپنے دو ٹوک موقف کا اظہار ضروری ہوگیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر دینی مدارس کے تمام وفاقوں نے ماضی کی طرح اب بھی باہمی اعتماد، یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ اس مہم کا سامنا کیا تو سیلاب کا یہ ریلا بھی گزر جائے گا، ضرورت صرف دریا کے پشتوں کو مضبوط رکھنے کی ہے اور دینی مدارس کے تمام وفاقوں کا اتحاد ماضی کی طرح اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ اس سیلاب کی راہ میں مضبوط پشتہ ثابت ہوگا۔