گزشتہ دنوں جامعۃ الازہر کے سربراہ فضیلۃ الدکتور احمد الطیب حفظہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے ایک قومی اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ شام اور عراق سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث تنظیم داعش کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جامعۃ الازہر کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر وہ شخص جو فرشتوں، الہامی کتابوں بشمول قرآن پاک سے انکار کرے وہ ایمان سے خارج سمجھا جائے گا۔ اور جو شخص ایمانیات کے ان اجزا کو مانتا ہو تو اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ داعش فساد فی الارض کی مرتکب ہو رہی ہے تاہم داعش سے وابستہ لوگ ایمانیات کی تمام بنیادی جزئیات کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ مسلمان ہیں، مگر ظالم اور گنہ گار ہیں۔
داعش (الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام) اس وقت دنیا کا سب سے اہم موضوع ہے اور اس کے بارے میں ہر سطح پر بحث و تمحیص اور گرمیٔ افکار کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تنظیم عراق کے سابق وزیر اعظم نوری مالکی اور شام کے صدر بشار الاسد کی ان فرقہ وارانہ پالیسیوں اور ریاستی جبر کے خلاف ایک عرصہ سے مسلح جدوجہد میں مصروف جنگجوؤں پر مشتمل ہے جن کا بین الاقوامی حلقوں میں مسلسل اعتراف کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ نوری مالکی نے اپنے دور حکومت میں فرقہ وارانہ تسلط قائم کرنے کے لیے عراق کی ایک بڑی آبادی کو نشانہ بنایا تھا۔
داعش کا دعویٰ ہے کہ وہ خلافت اسلامیہ کے احیا کے لیے برسر پیکار ہے جو اس کے بقول عراق اور شام میں قائم ہو چکی ہے اور وہ اس کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلانا چاہتی ہے۔ اسے عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہے اور وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور توسیع دینے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر رہی ہے۔ تکفیر اور قتال اس کے خصوصی عنوانات ہیں۔ داعش کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان ان کا ساتھ نہیں دے رہے یا ان کے خیال میں ان کے مخالف حکمرانوں کی تائید کا سبب بن رہے ہیں، نہ صرف وہ کافر ہیں بلکہ واجب القتل ہیں۔ چنانچہ مبینہ طور پر بے شمار مسلمان اس تکفیر اور قتال کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اگر وہ تکفیر اور قتال کے فتنہ میں مبتلا نہ ہوتے تو اپنے بنیادی اہداف یعنی خلافت اسلامیہ کے قیام اور مشرق وسطیٰ میں اہل سنت کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی مہم میں انہیں عالم اسلام میں معقول حمایت حاصل ہو سکتی تھی۔ مگر دہشت گردی اور تکفیر و قتال کا راستہ اختیار کرنے پر وہ امت مسلمہ کے کسی بھی سنجیدہ طبقہ کی حمایت سے محروم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ان کی مذمت اور ان کے خلاف کاروائیوں میں امت مسلمہ بھی باقی دنیا کے ساتھ برابر کی شریک دکھائی دے رہی ہے۔
تکفیر اور قتال کا یہ فتنہ نیا نہیں ہے بلکہ قرن اول سے چلا آرہا ہے۔ جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کرنے والے ’’خوارج‘‘ نے بھی تکفیر اور قتال کے عنوان پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کے بیشتر حصوں میں اس شر اور فساد کا دائرہ پھیلا دیا تھا۔ وہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو تو کافر کہتے ہی تھے مگر جنگ صفین میں حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان ہونے والی تحکیم (صلح کے مذاکرات) سے براءت نہ کرنے والوں کو بھی کافر کہتے تھے۔ حتیٰ کہ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے عام مسلمان بھی دائرہ اسلام سے خارج تھے اور وہ صرف تکفیر تک محدود نہیں تھے بلکہ انہیں واجب القتل بھی سمجھتے تھے۔ بصرہ شہر پر قبضہ کے بعد انہوں نے ہزاروں مسلمانوں کو اسی وجہ سے شہید کر دیا تھا اور جب ان کا قبضہ کوفہ پر ہوا تو انہوں نے کوفہ کی عام آبادی کے قتل عام کا اعلان کر دیا تھا اور امام اعظم ابوحنیفہؒ کو گرفتار کر کے خارجیوں کے کمانڈر ضحاک کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ یہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کا حوصلہ و تدبر اور حکمت عملی تھی کہ وہ نہ صرف خود کو بلکہ کوفہ کے عام مسلمانوں کو بھی ضحاک خارجی کی طرف سے قتل عام کے اعلان پر عملدرآمد سے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
تکفیر اور قتال کے اس فتنہ نے اب سے دو عشرے قبل الجزائر میں اسی طرح کا حشر بپا کیا تھا کہ ملک کو اسلامی ریاست بنانے کے دعویٰ کے ساتھ ہتھیار اٹھانے والے گروہوں نے دس سال کے اندر ایک لاکھ کے لگ بھگ الجزائری مسلمانوں کو باہمی قتل و قتال کی بھینٹ چڑھا دیا تھا ۔ اور اب یہ فتنہ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے بعد بھی اکابر اہل سنت نے تکفیر اور قتال کی اس روش سے براء ت اور اس کی شدید مذمت کے باوجود ان خوارج کو کافر قرار دینے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ خود اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے بنتے بچے تھے مگر جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ خوارج کافر ہیں؟ تو انہوں نے کفر کا حکم لگانے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ یہ ظالم اور باغی ہیں۔ علامہ ابن عابدین شامیؒ نے لکھا ہے کہ جمہور فقہاء اور محدثین نے ان خوارج کو کافر کی بجائے فاسق و فاجر اور باغی قرار دیا ہے۔ البتہ بعض محدثینؒ نے ان کی تکفیر بھی کی ہے۔ اس لیے ہماری طالب علمانہ رائے میں اعتدال کی راہ یہی ہے جو شیخ الازہر حفظہ اللہ تعالیٰ نے اختیار کی ہے اور ہم ان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ البتہ اس موقع پر ہم یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ داعش یا اس طرز کی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے جو اختیار کیا گیا ہے۔ ان کی مذمت، ان کے خلاف عالمی سطح پر آپریشن اور انہیں ہر قیمت پر ختم کر دینے کی کاروائیاں وقتی طور پر تو شاید مسئلہ کو کسی حد تک دبا لیں مگر اس کے باوجود یہ مسئلہ موجود رہے گا، سلگتا رہے گا اور اس وقت تک پوری دنیا کے لیے پریشانی کا باعث بنا رہے گا جب تک خلافت اسلامیہ کی طرز کی کوئی آزاد اسلامی ریاست وجود میں نہیں آجاتی اور مشرق وسطیٰ کی سنی آبادی خود کو فرقہ وارانہ جارحیت سے محفوظ تصور نہیں کر لیتی۔
اگر مسلم حکومتیں حکمت عملی کے طور پر ہی سہی، کسی آزاد اسلامی ریاست کی تشکیل کی راہ ہموار کر دیں اور اس کا اسلامی تشخص اور ماحول خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیں تو دنیا بھر کی دینی تحریکات کی توجہ ادھر ہو جائے گی اور تشدد کا عنصر بھی بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔ بلکہ اگر ہماری اس گزارش پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکے تو عالمی قوتوں اور مغربی طاقتوں کا بھی بالآخر مفاد اسی میں ہے کہ جس کو وہ ’’شر‘‘ کہہ رہے ہیں اور جس کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کو وہ روکنا چاہتے ہیں اسے دنیا کے کسی ایک حصہ میں مرکوز کر کے اس کا وجود تسلیم کر لیں اور اس وجود اور تشخص کے احترام کی روش اختیار کریں۔ ویسے بھی اس وقت پوری دنیا میں جاری ثقافتی کشمکش اور سولائزیشن وار کا فطری تقاضہ ہے کہ دونوں ثقافتوں یعنی اسلامی تہذیب اور مغربی ثقافت کو گلوبل انسانی سوسائٹی میں اپنا کردار پوری آزادی کے ساتھ ادا کرنے کا مساوی موقع دیا جائے تاکہ دنیائے انسانیت ان میں سے کسی کو قبول کرنے کا فیصلہ کر سکے۔
آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے گزشتہ روز بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ ’’ثقافتیں مساوی نہیں ہوا کرتیں اس لیے مغرب کو اپنی بالادستی ظاہر کرنا ہوگی‘‘۔ ہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی عرض کریں گے کہ برتری ڈرون حملوں، طاقت کے بے محابہ استعمال، میڈیا کی اندھی یلغار اور لابنگ کی یک طرفہ مہم کے ذریعہ نہیں بلکہ دونوں ثقافتوں کو انسانی معاشرہ میں آزادانہ کردار کے مواقع فراہم کرنے کی صورت میں ہونی چاہیے۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی تہذیب و ثقافت، اسلامی خلافت اور اسلامی شریعت کو اپنا کردار آزادانہ طور پر ادا کرنے کا موقع دیجیے اور پھر یہ فیصلہ انسانی سوسائٹی پر چھوڑ دیجیے کہ وہ دونوں میں سے کسی کو قبول کرتی ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہی ہے اور موجودہ عالمی مخمصے کا حل بھی اسی میں ہے۔ اس لیے کہ ایک پہلوان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دوسرے کے ہاتھ میں گرز پکڑا دینے کا نام مقابلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس طرح کسی کی برتری ثابت کی جا سکتی ہے۔