تعلیمی اداروں میں ہوش ربا فیسیں

   
اپریل ۲۰۰۷ء

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ نے ۱۵ مارچ ۲۰۰۷ء کو ایک خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ہوش ربا فیسوں کو طلبہ اور والدین کے لیے بوجھ قرار دیتے ہوئے وفاقی وزارت تعلیم سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مانیٹرنگ کا مؤثر نظام وضع کرے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سب کمیٹی نے سردار عاشق گوپانگ کی زیر صدارت ایک اجلاس میں سرکاری کالجوں میں بھی طلبہ سے کالج فنڈ کی وصولی کو ٹیکس قرار دیا ہے اور اسے بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔

کچھ عرصہ سے ملک میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کا دائرہ وسیع کرنے کے عنوان سے مختلف حوالوں سے جو نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے اس کے بارے میں یہ شکایت اب عام ہوتی جا رہی ہے کہ ان میں فیسوں کا معیار اس قدر بلند ہے کہ غریب آدمی تو کجا متوسط درجہ کے شہریوں کے لیے بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانا مشکل ہوگیا ہے۔ دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کہ کالج فنڈ اور دیگر مدات میں طلبہ سے جو کچھ وصول کیا جاتا ہے وہ ایک اچھی خاصی فیس کی شکل اختیار کر گیا ہے جبکہ تعلیم کا معیار یہ ہے کہ بہت سے سرکاری کالجوں کے طلبہ کو خود اپنے ہی کالج کے اساتذہ سے ٹیوشن کی صورت میں بھاری معاوضہ پر الگ تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے ورنہ وہ امتحان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی مذکورہ سب کمیٹی نے ایک اہم عوامی مسئلہ کا نوٹس لیا ہے اور ہم اس کے اجلاس کی کاروائی کی تحسین کرتے ہوئے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ کمیٹی کے معزز ارکان کو صرف ایک اجلاس کے فیصلے پر قناعت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے وزارت تعلیم کو عملی طور پر اس طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ وہ ملک کے غریب عوام کو تعلیم کے حق سے محروم کر دینے والے اس نظام پر نظر ثانی کرے اور ایسے مؤثر اقدامات کا اہتمام کرے جس سے تعلیم کا دائرہ عام آدمی تک وسیع ہو اور متوسط اور غریب عوام کے بچے بھی آسانی کے ساتھ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter