الحمد للہ ۵ مارچ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورہ تفسیر قرآن کریم کی سالانہ کلاس تکمیل پذیر ہوئی۔ یہ سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے جاری ہے اور کرونا کے دور میں کچھ وقفہ کے ساتھ یہ بارہویں کلاس تھی۔ ۱۰ فروری سے اس کا آغاز ہوا اور ملک کے مختلف حصوں سے فضلاء اور طلبہ نے اس میں شرکت کی۔ ہمارے ہاں ترجمہ و تشریح کے ساتھ قرآن کریم سے متعلقہ دیگر ضروری معلومات بھی کورس کا حصہ ہوتی ہیں اور مختلف اساتذہ ان کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
اس سال کورس کے مضامین میں (۱) احکام القرآن عصری تناظر میں (۲) قرآنی جغرافیہ اور فلکیات (۳) قرآن پاک کے حوالے سے مستشرقین کی سرگرمیوں کا تعارف (۴) قرآن و سنت کا باہمی تعلق (۵) مروجہ قانونی نظام کا تعارف وغیر ذٰلک۔ جبکہ اساتذہ میں راقم الحروف کے علاوہ ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر، مولانا حافظ فضل الہادی، مولانا حافظ محمد یوسف، ڈاکٹر معظم محمود بھٹی ایڈووکیٹ، مولانا محفوظ الرحمٰن، ڈاکٹر حافظ وقار احمد، مولانا ظفر فیاض، اور ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز شامل تھے۔
میرے ذمے (۱) سورۃ البقرہ کا ترجمہ و تشریح اور (۲) احکام القرآن عصری تناظر میں کے دو مضمون تھے جو بحمد اللہ تعالیٰ دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختصراً شرکاء کے گوش گزار کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ احکام القرآن میں میرا ذوق آج کے عالمی نظام و قوانین میں قرآن کریم اور شریعتِ اسلامیہ کے جو احکام و قوانین قابل اعتراض سمجھے جاتے ہیں، اور ہم سے جن احکام و قوانین میں ردوبدل کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ان سے علماء کرام کو متعارف کرانا اور اس سلسلہ میں اپنا موقف واضح کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اس سال جن قوانین کا تذکرہ کیا گیا وہ بالترتیب مذکور ہیں:
(۱) قصاص کو قرآن کریم نے حکم اور فرض کے درجہ میں بیان فرمایا ہے اور معاشرہ میں قصاص کے قانون کے نفاذ کو امن اور زندگی کے تحفظ کا ذریعہ بتایا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی جرم میں مجرم کو موت کی سزا نہ دی جائے۔ جس کی بنیاد پر عالمی حلقوں کا ہم سے مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ نہ صرف قصاص بلکہ کسی بھی جرم میں موت کی سزا کو قانونی نظام میں ختم کر دیا جائے۔
(۲) مرد اور عورت کی مساوات کے عنوان سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کے حوالے سے یہ مطالبہ ہے کہ خاندانی نظام میں مرد اور عورت کے لیے طلاق کا یکساں حق تسلیم کیا جائے۔ جس پر ہم نے ۱۹۶۲ء میں نکاح کے فارم میں ’’تفویضِ طلاق‘‘ کا سوال شامل کر کے عالمی اداروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی جو کامیاب ثابت نہیں ہوئی، اور مسلسل دباؤ بڑھنے پر اب ہمارے قانونی نظام میں ’’خلع‘‘ کو عورت کے مساوی حقِ طلاق کا درجہ دے کر اس کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے۔
(۳) وراثت میں مرد اور عورت کے حصوں میں فرق کو عورت اور مرد میں مساوات کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ جس پر سندھ ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی ریکارڈ میں موجود ہے کہ انسانی حقوق کے مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مردوں اور عورتوں کو وراثت میں برابر حصہ دینا ضروری ہے۔
(۴) زنا کو قرآن کریم نے مطلقاً جرم بلکہ سنگین جرم قرار دے کر اس کی سب سے سخت سزا مقرر فرمائی ہے۔ جبکہ عالمی قوانین کے مطابق صرف جبری زنا جرم ہے اور باہمی رضامندی سے کیا جانے والا زنا جرم نہیں ہے اور اسے قابلِ سزا قرار دینا عالمی قوانین کے مطابق قابل اعتراض ہے۔
(۵) ہم جنس پرستی قرآن کریم اور شریعتِ اسلامیہ کی رو سے سنگین جرائم میں شامل ہے اور اس پر سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کے مروجہ نظام میں ہم جنس پرستی جرائم کی بجائے حقوق کے دائرہ میں شامل ہے۔
(۶) قرآن کریم نے مجرم کو سر عام سزا دینے کی تلقین فرمائی ہے۔ مگر آج کے عالمی نظام میں کسی بھی جرم میں دی جانے والی سزا کو جسمانی تشدد اور مجرم کی تذلیل و توہین سے خالی رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے ہماری سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ریکارڈ میں موجود ہے کہ کسی مجرم کو سرعام سزا نہ دی جائے۔
(۷) کوڑے مارنے اور قصاص میں جسمانی اعضا کاٹ دینے کی سزا جسمانی تشدد کے دائرے میں آتی ہے، اس لیے وہ بھی قابل اعتراض ہے اور ہم سے ایسی تمام سزائیں ختم کرنے کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
(۸) حلال و حرام کے حوالے سے قرآنی احکام اور آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر کسی چیز کو حرام قرار دینا مروجہ عالمی نظام کے لیے قابل قبول نہیں ہے، اس لیے معیشت و تجارت اور عمومی استعمال کے کسی دائرہ میں قرآنی احکام پر عمل کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، اور عالمی معاشی و تجارتی نظام و ماحول اس کی مکمل حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
(۹) حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مذہبی طور پر قابل احترام شخصیات و مقامات اور شعائر کی توہین اسلام میں سنگین جرم ہے۔ مگر مروجہ عالمی نظام میں اسے آزادئ رائے میں مداخلت قرار دے کر اس حوالے سے رائج قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
(۱۰) قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر امتِ مسلمہ کا حصہ تسلیم نہ کرنا اور پاکستان میں انہیں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینا آج کے عالمی نظام میں آزادئ مذہب کے منافی قرار دیا جا رہا ہے اور ملک کے دستور و قانون سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، وغیر ذٰلک۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے قرآنی احکام و قوانین عالمی فلسفہ و نظام کے حوالے سے قابل اعتراض ہیں جن سے دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو کم از کم آگاہ کرنا اور اس کی وضاحت کرنا اہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔