(اتحاد اہل سنت کے زیر اہتمام حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے حوالہ سے ایک سیمینار سے خطاب جسے تحریری شکل دی گئی۔)
اتحادِ اہل سنت پاکستان شکریہ کی مستحق ہے کہ وقتاً فوقتاً حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کی یاد میں ایسی محافل کا انعقاد کرتی رہتی ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے اس عظیم محسن کو ایک بار پھر یاد کر لیتے ہیں جو ماضی میں تو ہمارا محسن تھا ہی، ہمارا مستقبل بھی اسی کے انتظار میں ہے۔ گزشتہ بارہ سو سال سے تو اس نے علم و حکمت کی دنیا میں حکمرانی کی ہے، لیکن مستقبل کا فکری تناظر اور علمی تناظر بھی اسی کی طرف دیکھ رہا ہے کہ آنے والے دور کے تقاضے اور آنے والے دور کی ضروریات اسی راستے سے پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں جس راستے سے امام ابو حنیفہؒ نے اس کام کا آغاز کیا تھا۔ ان کا کام جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ان کے خدام ہر دور میں علم کی، دین کی اور فقہ کی خدمت کرتے آرہے ہیں، آج بھی کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز قیامت تک کرتے رہیں گے۔ مجھے آج گفتگو کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ فقہ حنفی کی امتیازی خصوصیات پر میں نے کچھ باتیں آپ سے کہنی ہیں۔ لمبی گفتگو کا موقع نہیں ہے اس لیے مختصرًا کچھ عرض کروں گا۔
عالم اسلام کی پہلی مدون فقہ
فقہ حنفی کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم اسلام کی پہلی باقاعدہ فقہ ہے۔ امام صاحبؒ سے پہلے بھی تفقہ کے مختلف دائرے رہے ہیں لیکن اس تفقہ کی بنیاد پر کسی باقاعدہ فقہ کی تشکیل سب سے پہلے امام صاحبؒ نے کی۔ فقہ حنفی کی اولین امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم اسلام کی پہلی باضابطہ مدون فقہ ہے۔ اس کا اعتراف مؤرخین و محدثین نے کسی تأمل کے بغیر کیا ہے۔ ہمارے علمی ماضی کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کے امتیازات کا اور ایک دوسرے کی خصوصیات کا اعتراف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ امام جلال الدین سیوطیؒ شافعی مسلک کے بزرگ ہیں اور بڑے پکے شافعی ہیں لیکن امام اعظم ابو حنیفہؒ کی عظمت کے اعتراف میں انہوں نے کتاب لکھی ہے جس میں اعتراف کیا ہے کہ أول من دوّن الفقہ و رتب أبوابہ سب سے پہلا وہ شخص جس نے فقہ کو مدون کیا ہے اور جس نے فقہ کے ابواب مرتب کیے ہیں اور جس نے ابواب کے لحاظ سے فقہ مرتب کی ہے وہ شخص ابو حنیفہ نعمان ابن ثابتؒ ہے۔
اس عمل کو ہم فقہ بھی کہتے ہیں، تفقہ بھی کہتے ہیں اور تدوینِ فقہ بھی کہتے ہیں لیکن آج کی اصطلاح میں اسے قانون سازی کہا جاتا ہے۔ قانون سازی کسے کہتے ہیں؟ جسے ابتدائی دور میں ’’فقۂ فرضی‘‘ کہا جاتا تھا اور جس سے بہت سے اہل علم نے بعض تحفظات کے باعث گریز کیا۔ ایسے اہل علم صحابہ کرامؓ میں بھی تھے اور تابعین میں بھی جن کو فقۂ فرضی سے تحفظات تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ جب تک کوئی مسئلہ پیش نہ آئے اس کے بارے میں تردد اور تحقیق مت کرو۔ جب کوئی معاملہ پیش آجائے تو پھر اس کے بارے میں جستجو کرو۔ لیکن تحفظات کا دائرہ الگ ہوتا ہے اور ضروریات کا دائرہ الگ ہوتا ہے۔ تحفظات کی دنیا یہ ہوتی ہے کہ اس کام سے بھی بچنا چاہیے، اس کام سے گریز کرنا چاہیے، فلاں معاملے میں بھی نہیں پڑنا چاہیے وغیرہ۔ لیکن جب ضروریات پیش آتی ہیں تو ان کا دائرہ اس سے مختلف ہوتا ہے کہ فلاں ضرورت بھی پوری کرنی ہے اور فلاں ضرورت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھنا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ تحفظات اور ضروریات کے درمیان ہر زمانے میں کشمکش رہی ہے۔ یہ کشمکش تابعین کے زمانے سے شروع ہوئی ہے، آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گی۔ تحفظات اور ضروریات دونوں لازمی ہیں۔ میں تحفظات اور ضروریات کو گاڑی کے دو پہیوں سے تعبیر کیا کرتا ہوں کہ تحفظات کا دائرہ بھی چھوڑا نہیں جا سکتا اور ضروریات کے دائرے سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کا نام علم الفقہ ہے۔ جس طرح گاڑی کے پہیوں کی وہیل بیلسنگ کی جاتی ہے، معائنہ کر کے ان کے درمیان توازن قائم رکھا جاتا ہے کہ اگر ان کے درمیان یہ بیلنس نہ ہو تو گاڑی کسی ایک طرف کو لڑھکنے لگتی ہے۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ امام ابو حنیفہؒ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فقہ فرضی کی طرف، یا قانون سازی کی طرف ، یا اس وقت تک پیش نہ آنے والے مسائل کے پیشگی حل کی طرف ایک ادارے کی شکل میں پیش رفت کی اور دنیا کو بتایا کہ یہ امت کی ضرورت ہے اور ضروریات کو زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا۔ امام صاحبؒ نے ایسی پیش رفت کی کہ آج تک عالم اسلام کے فقہ و قانون کی بنیاد اسی پیش رفت پر ہے۔ آج بھی قانون سازی کے لیے جب ضرورت پیش آتی ہے تو ابتداء وہیں سے ہوتی ہے کہ اس معاملے میں زیرو پوائنٹ امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے۔ یہ فقہ حنفی کا امتیاز ہے کہ قانون سازی کا آغاز فقہ حنفی نے کیا اور دستور سازی کا آغاز بھی فقہ حنفی نے کیا۔ قانون سازی یہ کہ امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں پینتیس سے چالیس کے قریب علماء بیٹھتے تھے جو اپنے اپنے فن کے ماہرین تھے۔ وہ مسائل پر بحث کرتے تھے جس میں اختلاف بھی ہوتا تھا، اتفاق بھی ہوتا تھا اور نتیجے میں ایک قانون تشکیل پاتا تھا۔ لیکن دستور سازی کا آغاز کہاں سے ہوا؟ پہلا باقاعدہ تحریری دستور ہارون الرشید کے کہنے پر امام ابو یوسفؒ نے تحریر کیا۔ حکومتِ وقت نے ، امیر المؤمنین ہارون الرشید نے قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس امام ابو یوسفؒ سے درخواست کی کہ آپ تحریری طور پر مجھے کوئی ایسا ضابطہ مرتب کر دیں جس کے مطابق میں نظام چلاؤں۔ امام ابو یوسفؒ نے اس پر ایک کتاب لکھی جسے ہم ’’کتاب الخراج‘‘ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ’الخراج‘ ملک کا نظام چلانے کا دستور تھا۔ اس میں زیادہ تر معاشیات کے مسائل ہیں لیکن یہ اجتماعی طور پر ایک دستوری ڈھانچہ تھا جو سب سے پہلے خلیفہ ہارون الرشید کے کہنے پر امام ابو یوسفؒ نے لکھا اور یہ دستور نافذ رہا۔ چنانچہ پہلا امتیاز یہ ہے کہ عالم اسلام میں قانون سازی کا آغاز بھی فقہ حنفی نے کیا اور دستور سازی کا بھی آغاز فقہ حنفی نے کیا۔ پہلا مدوّن قانون امام صاحبؒ اور ان کے شاگردوں نے پیش کیا جبکہ پہلا مدون معاشی دستور امام صاحب کے شاگرد امام ابو یوسفؒ نے پیش کیا۔
شورائی فقہ
فقہ حنفی کی سب سے بڑی اور سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ شورائی فقہ ہے۔ مسئلہ مجلس میں پیش ہوتا تھا اور اس پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا جس کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتے تھے۔ اگر نتیجے تک پہنچتے تھے تو متفقہ فیصلہ لکھا جاتا تھا اور اگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تھے تو اختلافی اراء لکھی جاتی تھیں کہ فلاں کی رائے یہ ہے اور فلاں کی رائے یہ ہے۔ پھر امام محمدؒ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اس مجلس کے اور اس شورائی نظام کے نتائج کو مرتب کیا۔ امام صاحبؒ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شخصی رائے پر فقہ کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ اپنی مجلس کی اجتماعی رائے پر فقہ مرتب کی۔ مشاورت ، بحث و مباحثہ ، مجلس میں بات پیش ہونا، اس کا تجزیہ کرنا، اس کے اتفاق یا اختلاف کے مراحل سے گزرنا یہ فقہ حنفی کا مزاج ہے اور اس کا خمیر اسی پر ہے۔ میں اس پر ایک واقعاتی تناظر پیش کرنا چاہوں گا کہ حنفی فقہ میں اور دوسری فقہوں میں امتیاز کیا ہے۔
حضرت امام مالکؒ ہمارے سروں کے تاج ہیں، امام اہل سنت ہیں، امام دار الھجرہ ہیں، امام مدینہ ہیں اور امت کے اساطین میں سے ہیں۔ امام مالکؒ امام ابوحنیفہؒ کے معاصر ہیں۔ امام صاحبؒ مقدم ہیں اور وہ متاخر ہیں لیکن معاصر ہیں۔ فقہ حنفی بھی اسی دور میں وجود میں آئی اور کوئی دس بیس سال کے فرق سے فقہ مالکی بھی اسی دور میں وجود میں آئی۔ فقہ کی ترتیب میں امام صاحبؒ کو تقدم حاصل ہے جبکہ دوسرا نمبر امام مالکؒ کا ہے۔ امام مالکؒ بھی مجلس میں بیٹھتے تھے اور یہ سینکڑوں علماء کی مجلس ہوتی تھی۔ لیکن امام ابو حنیفہؒ کی اور امام مالکؒ کی مجلسوں میں فرق کیا تھا؟ امام مالکؒ کی اپنی ہیبت تھی، اپنا جلال تھا، کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور کوئی مجلس میں چوں بھی نہیں کر سکتا تھا، ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ امام مالکؒ تشریف لاتے تھے تو مجلس میں سناٹا طاری ہو جاتا تھا اور جب کوئی شخص روایت پڑھتا تھا تو اگر امام صاحب کو کوئی تبصرہ کرنا ہوتا تھا وہ کرتے تھے اور اگر تبصرہ نہیں کرنا ہوتا تھا خاموش رہتے تھے، کسی کو سوال کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ امام صاحبؒ کی مرضی ہوتی تو وہ وضاحت فرماتے ورنہ اگلی روایت پر چلے جاتے۔ قاضی عیاضؒ نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ ایک موقع پر ایک شاگرد کو شوق آگیا، شاگرد بھی معمولی نہیں تھے، ہشام ابن عمارؒ تھے۔ یہ امام شام تھے، امام دمشق تھے اور اپنے وقت کے بڑے محدث تھے۔ ان کو یہ شوق آیا کہ آج خود پڑھنے کی بجائے استاد سے روایت سننی چاہیے۔ حضرت امام مالکؒ تشریف لائے اور بیٹھے، مجلس جمی، حسب معمول کہا کہ پڑھو بھئی۔ اس دن ہشام کی باری تھی انہوں نے کہاکہ استاد جی آج آپ پڑھیں۔ امام مالکؒ نے غصے سے کہا اقراء ہشام نے کہا استاد جی آج آپ پڑھیں۔ امام صاحبؒ نے پھر فرمایا اقراء ہشام نے پھر کہا کہ استاد جی آج آپ سے سننے کو جی چاہتا ہے۔ امام مالکؒ کا اپنا ایک مقام تھا ان کا اپنا ایک ذوق تھا، ساتھ والے شاگرد سے کہا کہ چھڑی پکڑو اور ہشام کی کمر پر پندرہ چھڑیاں مارو۔ اس نے ہشام کی کمر پر پندرہ چھڑیاں ٹکا دیں کہ استاد کا یہی حکم تھا۔ ہشام کھڑے ہوگئے کہ استاد جی کس جرم کی سزا دی گئی ہے؟ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ آج آپ سے روایت سننے کو جی چاہتا ہے اس پر آپ نے مجھے پندرہ چھڑیاں مروائی ہے۔ اچھا ٹھیک ہے ان چھڑیوں کا حساب کل قیامت کے دن آپ سے لوں گا۔ یہ اچھا زمانہ تھا اور بہت اچھے لوگ تھے۔ بلکہ ’’بہت اچھا‘‘ کے الفاظ بھی ان لوگوں کے لیے بہت چھوٹے تھے۔ قیامت کا نام جب سنا تو امام مالکؒ گھبرا گئے، فرمایا کہ ہشام غلطی ہوگئی معافی دے دو۔ ہشام نے کہا کہ استاد جی کوئی معافی نہیں ہے۔ یہ چھڑی ہوگی قیامت ہوگی اللہ کی عدالت ہوگی اور آپ ہوں گے، معافی کس بات کی؟ امام صاحب اور زیادہ گبھرائے کہ یہ تو سیریس کیس ہے۔ فرمایا بیٹا معافی کی کوئی شکل ہے؟ ہشام نے کہا کہ استاد جی ایک شرط پر معافی مل سکتی ہے، آپ نے پندرہ چھڑیاں مروائی ہیں اب پندرہ حدیثیں پڑھ کر سنا دیں۔ قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ امام مالکؒ نے اپنے مزاج کے خلاف ایک شاگرد کو پندرہ حدیثیں سنائیں اور وہ بھی قیامت کے ڈر سے۔ ایسے موقع پر میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ دیکھیں، اچھے لوگ تھے اور اچھا زمانہ تھا کہ لوگ قیامت کا نام سن کر ڈر جایا کرتے تھے۔ ہم پر قیامتیں بیت جاتی ہیں لیکن ہمارا کچھ نہیں بگڑتا پھر اسی طرح ہشاش بشاش ہوتے ہیں۔
اس واقعہ سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کی مجلسوں کے مناظر دکھانا چاہتا تھا کہ ان دونوں کے مزاج میں کیا فرق تھا۔ ایک منظر تو میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ دوسرا منظر مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی مجلس تھی، مسائل پیش ہو رہے تھے اور ان پر بحث ہو رہی تھی۔ جاحظ مشہور نحوی ہیں وہ بھی آکر مجلس میں بیٹھ گئے کہ دیکھتا ہوں یہاں کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ تو کھلی بحثیں کر رہے ہیں ایک دوسرے کا لحاظ ہی نہیں کر رہے۔ اتنے میں کوئی مسئلہ پیش ہوا جس کے متعلق امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ اس بارے میں میری رائے یہ ہے۔ اس پر ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہا أخطأت یا شیخ آپ کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ جاحظ کو یہ بات سن کر بڑا تعجب ہوا کہ ایک لڑکا کس انداز سے مخاطب ہو رہا ہے۔ وہ استاد محترم ہیں امام ابو حنیفہ ہیں اور یہ لڑکا ایک بھری مجلس میں کھڑا ہو کر کہہ رہا ہے کہ شیخ آپ کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ امام صاحبؒ تو نوجوان کی بات سن کر مسکرا دیے لیکن جاحظ سے یہ برداشت نہیں ہوا۔ جاحظ نے اٹھ کر کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو آپ لوگ۔ ایک لڑکا اٹھ کر کہہ رہا ہے کہ أخطأت یا شیخ ۔ اس پر امام صاحبؒ نے جاحظ سے کہا کہ بیٹھ جاؤ نحن عودناھم کہ یہ عادت ہم نے ان کو ڈالی ہے۔
امام صاحبؒ کی مجلس میں تو یہاں تک ہوتا تھا کہ کسی مسئلہ پر اگر آخر وقت تک اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اختلافی نوٹ لکھوائے جاتے تھے۔ اگر کسی مسئلے پر بحث و مباحثہ کے بعد باہمی اتفاق نہیں ہوا تو امام زفرؒ ، امام حسنؒ ، امام محمدؒ نے اس مسئلے کے تحت اپنی رائے الگ لکھوائی کہ مجلس کا فیصلہ الگ لکھیں اور میری رائے الگ لکھیں۔ پھر یہ باقاعدہ لکھا جاتا کہ فلاں مسئلے میں مجلس کی رائے یہ تھی جبکہ امام زفرؒ کی رائے یہ تھی۔ فلاں مسئلے میں مجلس کی رائے یہ تھی جبکہ امام حسنؒ کی رائے یہ تھی۔ چنانچہ میں فقہ حنفی کا دوسرا امتیاز یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ شخصی نہیں ہے بلکہ شورائی فقہ ہے۔
روایت و درایت میں توازن
فقہ حنفی کا تیسرا بڑا امتیاز روایت و درایت میں توازن یعنی وحی اور عقل سے اپنے اپنے موقع پر صحیح استفادہ ہے۔ ہماری بنیاد وحی پر ہے لیکن عقل سے انکار بھی نہیں ہے بلکہ ایک معاون کے طور پر عقل کا صحیح استعمال خود دین کا تقاضہ ہے جس کا اہتمام احناف کے ہاں سب سے بہتر پایا جاتا ہے۔ اس دور میں اصحابِ ظاہر کی بنیاد محض روایت پر تھی جبکہ معتزلہ نے عقل و درایت کو ہی معیار قرار دے دیا تھا۔ اس دور میں جبکہ روایت اور درایت کے جھگڑے کا آغاز ہو رہا تھا اور یہ جھگڑا ایک طوفان بن گیا تھا۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ابو حنیفہؒ نے سب سے بڑا کارنامہ یہ کیا کہ روایت اور درایت کے اس طوفانی جھگڑے میں ان دونوں کے درمیان اعتدال و توازن کا موقف قائم کیا۔ امام صاحبؒ نے اعتدال کے ساتھ روایت اور درایت کا رشتہ جوڑ کر دنیا کو یہ بتایا کہ روایت تو ہماری بنیاد ہے ہی لیکن درایت بھی ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ بات وہی صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے جس کی اس دور کی تاریخ پر نظر ہے کہ روایت اور درایت کے جھگڑے نے کیا طوفان بپا کر دیا تھا۔ اسباب کی دنیا میں اگر امام ابو حنیفہؒ روایت اور درایت کے درمیان توازن اور اعتدال کا جھنڈا لے کر نہ کھڑے ہوتے تو خدا جانے یہ طوفان کہاں سے کہاں نکل جاتا۔ امام صاحبؒ نے یہ بتایا کہ روایت کا دائرہ یہ ہے اور درایت کا دائرہ یہ ہے۔ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ روایت کو درایت کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے اور درایت بغیر روایت کے گمراہی ہے۔ اس کا خلاصہ عرض کرنا چاہوں گا کہ روایت کو سمجھنے کے لیے درایت ضروری ہے جبکہ نری درایت جو روایت کے بغیر ہو یہ گمراہی ہے۔ یہی امام صاحبؒ کی فکر کا خلاصہ ہے کہ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ عقل اور وحی کے درمیان رشتہ کیا ہے۔
فقہ حنفی کے عروج کی وجہ
لوگ کہتے ہیں کہ امام صاحبؒ کی فقہ کو عروج اس لیے حاصل ہوا کہ یہ اقتدار میں تھی۔ یعنی اقتدار فقہ حنفی کی ترقی و عروج کا باعث ہے۔ عباسی دور میں بھی فقہ حنفی حکمران رہی ہے، عثمانی دور میں بھی رہی ہے، ہمارے ہاں مغلوں میں بھی یہی فقہ رائج رہی ہے۔ لیکن میں تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ فقہ حنفی کو عروج اقتدار کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ بلکہ فقہ حنفی کو اقتدار اس کی خصوصیات کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ فقہ حنفی کو اقتدار اس لیے ملا کہ اس کے علاوہ نظامِ حکومت کے لیے کوئی فقہ عملی اور معاشرتی نہیں ہے۔ نظری بحثیں اور چیز ہیں، علمی مباحث کا دائرہ مختلف ہوتا ہے، لیکن سوسائٹی کے لیے ایک پریکٹیکل سسٹم دینا یہ ابوحنیفہؒ کا کمال ہے۔ معاشرے کی ضروریات کو سمجھنا، نفسیات کو سمجھنا اور سماج کی ضروریات کو سامنے رکھ کر دینی روایات کے ساتھ تعلق قائم رکھتے ہوئے اس کا حل پیش کرنا یہ فقۂ حنفی کا کمال ہے۔ میں کوئی مزید بات کہے بغیر اس پر اپنی بات سمیٹنا چاہوں گا کہ سماج، روایت اور درایت، ان میں امتزاج قائم کرنے کی جو صلاحیت فقۂ حنفی میں ہے اور کسی فقہ میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہمیں محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔