تجارت اور سیرت نبویؐ

   
دارالہدٰی، ورجینیا، امریکہ
ستمبر ۲۰۰۷ء

تجارت وہ ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر انسانی معاشرے کا نظام نہیں چل سکتا، اللہ تعالیٰ نے تجارت کو انسانوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زراعت، تجارت، ملازمت، اور مال غنیمت کمائی کے وہ حلال اور جائز طریقے ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی ضروریات زندگی مہیا کر سکتا ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے تجارت کو کمائی کے بہترین ذرائع میں ارشاد فرمایا ہے، بہت سی روایات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے تجارت کی فضیلت و اہمیت ذکر فرمائی ہے، درجات بیان فرمائے ہیں اور تجارت کے متعلق احکامات ارشاد فرمائے ہیں۔ احادیث میں کتاب البیوع کے عنوان سے مستقل کتابیں ہیں اور تجارت و کاروبار کے حوالے سے جناب رسول اللہؐ کی تعلیمات واضح ہیں۔

جناب نبی کریمؐ نے خود بھی نبوت سے پہلے تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور اس پر بہت سی روایات ہیں کہ آپؐ لین دین کیسے کرتے تھے اور کاروباری معاملات کیسے طے فرماتے تھے۔ جناب رسول اللہؐ کی بعثت سے پہلے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضورؐ کی شادی کا سبب بھی تجارت ہی تھا۔ حضرت خدیجہؓ قریش کی ایک باعزت تاجر خاتون تھیں اور ان کا تجارتی قافلہ شام کے علاقے میں جایا کرتا تھا۔ وہ خود تو تجارت کے لیے نہیں جاتی تھیں لیکن ان کے نمائندے اور کارندے جاتے تھے۔ تجارت کے سارے عمل کا انحصار صرف نمائندوں پر ہو تو معاملہ اتنا قابلِ بھروسہ نہیں رہتا اس لیے حضرت خدیجہؓ کو تلاش ہوتی تھی کہ کوئی دیانت دار اور قابل اعتماد آدمی ان کی تجارت کو سنبھالے۔ جناب نبی کریمؐ کے بارے میں مکہ مکرمہ میں یہ مشہور تھا کہ آپ امین ہیں، صادق ہیں، سچے ہیں، دیانت دار ہیں، بااخلاق اور قابلِ اعتماد ہیں۔ چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے یہ دیکھنے کے لیے کہ جو کچھ انہوں نے حضورؐ کے متعلق سن رکھا ہے یہ کہاں تک ٹھیک ہے۔ انہوں نے رسول اللہؐ کو پیغام بھیجا اور پیشکش کی کہ آپ ایک سال میرے تجارتی قافلے کی سربراہی کریں۔ اس پر حضورؐ حضرت خدیجہؓ کا تجارتی قافلہ لے کر شام گئے اور پھر واپس آئے، یہ تجارتی سفر حضرت خدیجہؓ کے حضورؐ پر اعتماد کا باعث بنا اور پھر حضورؐ کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کے رشتے کا سبب بھی بنا، یوں آنحضرتؐ کی حضرت خدیجہؓ کے ساتھ نکاح ہوگیا۔ یہ شادی اتنی بابرکت ثابت ہوئی کہ حضورؐ کی بعثت اور نبوت کے اعلان کے بعد حضرت خدیجہؓ کا سارا مال حضورؐ پر ہی خرچ ہوا۔

سچے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ

جناب رسول اللہؐ نے تجارت کے حوالے سے مختلف مسائل بیان فرمائے اور آداب بھی۔ اس بارے میں آپؐ کی ایک جامع حدیث روایت ہوئی ہے ’’التجار الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کہ سچا اور دیانت دار تاجر (جنت میں) نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالح لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ محدثین فرماتے ہیں کہ اس ارشاد میں حضورؐ نے دونوں باتوں کا احاطہ کیا ہے۔ پہلی یہ کہ گفتگو میں سچا ہو، دوسرا یہ کہ مال کے معاملے میں دیانت دار ہو۔ یعنی بات طے کرتے وقت جھوٹ نہ بولتا ہو اور فروخت کے وقت مال میں گڑبڑ نہ کرتا ہو۔ یہی دو باتیں تجارت کی بنیاد ہیں کہ بات سچی ہونی چاہیے اور مال خالص ہونا چاہیے، لیکن بطور تاجر ان دونوں باتوں پر عمل آسان کام نہیں ہے۔ ایک تاجر کے لیے اس رتبے کا حصول ناممکن تو نہیں ہے لیکن مشکل ضرور ہے۔ گفتگو میں سچائی کے متعلق جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ وہ آدمی جو قسم اٹھا کر مال بیچتا ہے اس کا مال تو بک جاتا ہے لیکن اس میں برکت نہیں رہتی، یعنی ایسا آدمی جو قسمیں اٹھا کر اپنے مال کے متعلق لوگوں کو یقین دلاتا ہے۔

اسی طرح نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ تین آدمی ہیں جن پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ ایک ’’المنان‘‘ وہ آدمی جو کسی کے ساتھ احسان کر کے جتلائے یعنی کسی کی مشکل میں کام آیا اور اس کے ساتھ نیکی کی لیکن بعد میں کسی موقع پر جتلا بھی دیا کہ میں نے فلاں وقت تمہارے ساتھ یہ نیکی کی تھی۔ قرآن کریم میں ہے کہ جتلانے کے ساتھ نیکی برباد ہو جاتی ہے۔ فرمایا ایسا شخص جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا۔ دوسرے آدمی کے متعلق فرمایا ’’مد من الخمر شراب‘‘ پر دوام کرنے والا، یعنی شراب کا عادی شخص جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا۔ تیسرے آدمی کے متعلق فرمایا ’’المنفق سلعتہ بالحلف الکاذب‘‘ جھوٹی قسم اٹھا کر سودا بیچنے والا۔ یعنی ایسا شخص بھی جنگ کی خوشبو نہیں سونگھ پائے گا جو جھوٹی قسم کے ذریعے اپنے گاہکوں کو اعتماد دلا کر خراب مال بیچتاہو۔

تجارت کے اصول و ضوابط

جناب رسول اللہؐ نے تجارت کی ہر ایسی قسم کی مذمت فرمائی ہے جس میں دھوکہ اور فریب ہو، جس میں جھوٹ اور بد دیانتی ہو، یا جس میں عام لوگوں کو پریشانی اور نقصان ہو۔حضورؐ نے ایسی صورتوں کو ’’غش‘‘ یعنی دھوکے سے تعبیر کیا اور انہیں ممنوع قرار دیا۔

دھوکے سے خراب مال بیچنا

ایک روایت میں آتا ہے کہ جناب نبی کریمؐ ایک مرتبہ بازار میں تشریف لے جا رہے تھے دیکھا کہ ایک صاحب غلہ بیچ رہے تھے، گندم یا جَو کا ڈھیر تھا۔ حضورؐ گزرتے ہوئے اس کے پاس رکے اور معائنے کی غرض سے غلے کے ڈھیر کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا۔ وہ غلہ اوپر سے خشک تھا لیکن اندر سے گیلا تھا۔ آپؐ نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ بیچنے والے نے کہا یا رسول اللہ بارش ہوگئی تھی۔ آپؐ نے فرمایا کیا بارش غلے کے اندر ہوگئی تھی؟ اس موقع پر آپؒ نے فرمایا ’’من غشنا فلیس منا‘‘ جس نے ہمیں تجارت میں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ خراب مال چھپا کر صحیح مال کے ساتھ بیچنا بھی دھوکے کی ایک قسم ہے۔ تو جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تاجر جنت میں نبیوں کا ساتھی ہوگا لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ گفتگو میں سچا ہو اور مال میں دیانت دار ہو۔

جھوٹی بولی دینا

ایک روایت میں نبی کریمؐ نے فرمایا ’’لا تناجشوا‘‘ کہ نجش مت کرو۔ نجش یہ ہے کہ خریدنے کے ارادے کے بغیر صرف مال کی قیمت بڑھانے کے لیے بولی دینا۔ مثلاً کسی چیز کی نیلامی ہو رہی ہے جس کے لیے لوگ اپنی اپنی بولی دے رہے ہیں، ان میں سے ایک آدمی خریدنا تو نہیں چاہتا لیکن صرف بھاؤ میں گڑبڑ کرنے کے لیے بولی دے رہا ہے۔ آپؐ نے اسے حرام اور جھوٹ قرار دیا۔

تجارتی مال پر اجارہ داری

جناب رسول اللہؐ نے ’’تلقی‘‘ سے منع فرمایا۔ اس زمانے کے عرف میں جو تجارت کے اندر خرابی کی باتیں ہوتی تھیں حضورؐ نے ان کی نشاندہی کی۔ تلقی کیا ہے؟ اس دور میں بھی تجارت کی منڈیاں لگتی تھیں جس میں باہر سے قافلے آتے تھے اور سامان کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ آج کا زمانہ تو ترقی یافتہ ہے، سڑکیں ہیں، ریل گاڑیاں اور جہاز ہیں جن کی وجہ سے سامان کی آمد و رفت اور خرید و فروخت بہت جلد ہو جاتی ہے۔ اس زمانے میں منڈیاں تو ایسے ہی لگتی تھیں لیکن آمد و رفت کا سلسلہ بہت سست رفتار ہوتا تھا، مہینوں بعد دور دراز سے قافلے آتے تھے جن سے مقامی خریدار سامان خرید لیتے تھے، اس کے بعد پھر اگلے قافلے کا انتظار ہوتا تھا۔ اسی طرح مقامی لوگ بھی تجارتی قافلے لے کر دوسرے علاقوں میں جایا کرتے تھے۔ سال میں چند قافلے آتے تھے جن پر سارے سال کے گزر اوقات کا دارومدار ہوتا تھا۔ ہوتا یوں تھا کہ جب بیرونی قافلے آتے تو مقامی علاقے کے بڑے تاجر قافلے کے پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں جا کر انہیں روک لیتے تھے اور ان سے سارا سامان خرید کر انہیں رخصت کر دیتے تھے۔ یعنی انہیں شہر میں داخل ہونے ہی نہیں دیتے تھے اور چند میل کے فاصلے پر جا کر قافلے والوں سے سارا سامان خرید لیتے تھے اور انہیں واپس بھیج دیتے تھے۔ اب یہ سارا سامان چند بڑے تاجروں کے پاس ہوتا تھا جسے وہ اپنی مرضی کے وقت پر اور اپنی مرضی کی قیمت پر بیچتے تھے۔ اس زمانے میں یہ صورت مقامی لوگوں کے لیے سخت نقصان دہ ہوتی تھی۔ ’’نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیە وسلم ان تلقی الرکبان‘‘ جناب رسول اللہؐ نے تاجروں کو اس طرح منڈی میں پہنچنے سے پہلے قافلوں سے سامان خریدنے سے منع فرما دیا۔ یعنی آپؐ نے فرمایا کہ مال کو منڈی میں آنے دو، منڈی میں مقابلے پر جو ریٹ لگے گا اس کے مطابق لوگ اسے خریدیں گے۔ ایک آدمی یا چند آدمیوں کا سارے سامان پر اجارہ داری بنا لینا اور پھر اسے اپنی مرضی کے بھاؤ پر بیچنا عام خریداروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے کہ جب منڈی میں مال آتا ہے تو زیادہ خریدار ہوتے ہیں اور مال کا بھاؤ کھلے ماحول میں طے ہوتا ہے۔

جمعہ کے اوقات میں تجارت

جناب رسول اکرمؐ ایک دفعہ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک کسی نے باہر سے آکر آواز لگائی کہ تجارت کا قافلہ آگیا ہے۔ اب ہر ایک کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر دیر ہوگئی تو قافلے کا سارا سامان شام تک بک جائے گا اور میرے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، پھر اگلے قافلے کاا نتظار کرنا پڑے گا جو کہ ایک صبر آزما کام ہوگا۔ لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ یہ قافلہ اگر نکل گیا تو اگلا قافلہ دو چار مہینے کے بعد آئے گا اور یوں انہیں مقامی لوگوں سے مال خریدنا پڑے گا جو مہنگا دیں گے، یا معلوم نہیں مال کی مطلوبہ مقدار بھی ان سے ملتی ہے یا نہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ چنانچہ ایک ایک کر کے لوگ اٹھنا شروع ہوگئے، روایت میں آتا ہے کہ مجمع میں گیارہ آدمی رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کے بارے میں تنبیہ فرمائی ’’واذا راَو تجارتًا او لھون انفضوا الیھا وترکوک قائما قل ما عند اللہ خیر من اللھو ومن التجارۃ واللہ خیر الرازقین‘‘ (سورۃ الجمعۃ ۱۱) اور جب لوگ تجارت یا تماشہ دیکھتے ہیں تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں، کہہ دو جو اللہ کے پاس ہے وہ تماشے اور تجارت سے کہیں بہتر ہے اور اللہ بہتر روزی دینے والا ہے۔ فرمایا، پہلے اطمینان سے نماز پڑھو اور پھر نماز کے بعد تجارت کرو۔ ویسے بھی جمعے کی اذان سے لے کر نماز کے اختتام تک تجارت کے لیے ممنوع وقت ہے،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’یا ایھا الذین اٰمنوا اذا نودی للصلٰوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الٰی ذکر اللہ وذروا البیع ذٰلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون‘‘ (سورۃ الجمعۃ: ۹) اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکرِ الٰہی (خطبہ و نماز) کی طرف لپکواور خرید و فروخت چھوڑ دو، تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے اگر تم سمجھو۔

اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ذہن میں آگیا کہ حضرت امام مالکؒ کے ایک شاگرد تھے امام یحییٰ بن یحییٰ اندلسیؒ جن کی روایت سے موطا امام مالک ہمارے ہاں پڑھائی جاتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت امام مالکؒ پڑھا رہے تھے اور سینکڑوں شاگرد سامنے بیٹھے ہوئے تھے، ان میں یحییٰ بن یحییٰ بھی تھے جو اندلس سے پڑھنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ کسی نے آواز لگا دی کہ مدینہ میں ہاتھی آگیا ہے۔ ہاتھی عرب کا جانور نہیں ہے اور انجانی چیز دیکھنے کا ہر آدمی کو شوق ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا، شاگرد وہاں سے کھسکنا شروع ہوگئے کہ جا کر دیکھتے ہیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے، امام صاحبؒ تو یہیں ہوتے ہیں پھر پڑھ لیں گے لیکن ہاتھی پتہ نہیں شام تک رہتا ہے یا نہیں۔ تھوڑی دیر میں سارا مجمع غائب تھا اور صرف یحییٰ بن یحییٰ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت امام مالکؒ نے پوچھا کہ یہ کیا ہوا ؟ انہیں بتایا گیا کہ سب لوگ ہاتھی دیکھنے چلے گئے ہیں۔ یحییٰ سے پوچھا کہ بھئی تم کیوں نہیں گئے؟ انہوں نے کہا استاد محترم! میں اندلس سے ہاتھی دیکھنے نہیں آیا آپ سےحدیث پڑھنے کے لیے آیاہوں۔ میں اتنی دور سے سفر کر کے آپ سے علم حاصل کرنے آیا ہوں جنہیں ہاتھی دیکھنا ہے جا کر دیکھیں۔ امام مالکؒ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن یحییٰ کو یہ اعزاز بخشا کہ آج ہمارے ہاں جو موطا امام مالک پڑھی جاتی ہے وہ اسی شاگرد کی روایت کی ہوئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے صلہ تھا۔

ذخیرہ اندوزی

اسی طرح ذخیرہ اندوزی سے جناب نبی کریمؐ نے منع فرمایا۔ اس زمانے میں بھی یہ ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے کہ بڑے تاجر بہت زیادہ مال خرید کر ذخیرہ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے منڈی میں مال کی کمی واقع ہوتی ہے اور اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ پھر حسب موقع یہ تاجر اس ذخیرہ کیے ہوئے مال کو مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ فقہاء نے اس کی درجہ بندی کی ہے کہ اگر کسی چیز کے ذخیرہ کرنے سے مارکیٹ میں عام لوگوں کو نقصان ہوتا ہو کہ لوگوں کو مال ہی میسر نہیں آتا یا عام بھاؤ سے زیادہ قیمت میں خریدنا پڑتا ہے تو ایسا ذخیرہ کرنا حرام ہے۔ مثلاً کسی تاجر نے ضرورت کی کوئی چیز خرید کر ذخیرہ کر لی جس کی وجہ سے منڈی سے وہ چیز عدم دستیاب ہوگئی تو ایسا کرنا تاجر کے لیے حرام ہے۔ لیکن اگر تاجر کے بہت زیادہ مال خرید کر ذخیرہ کرنے سے منڈی میں مال کی سپلائی میں فرق نہیں پڑا اور لوگوں کو دوسرے ذرائع سے وہ چیز میسر ہے، لیکن تاجر کی نیت یہ ہے کہ جب مال کی قیمت بڑھے گی تو میں اپنا مال منڈی میں لاؤں گا تو ایسا کرنا کراہت کے درجے میں ہوگا۔ اگر تاجر کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے منڈی میں مال کی سپلائی بند ہو جاتی ہے یا مال مہنگا ہو جاتا ہے تو پھر یہ حرام اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔

سودی کاروبار

تجارت کے حوالے سے ایک بہت اہم مسئلہ سود کا ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہے۔ تجارت کہتے ہیں ایک جنس سے دوسری جنس کے تبادلے کو۔ یعنی ایک چیز میرے پاس ہے اور دوسری چیز آپ کے پاس ہے، ہم اپنی اپنی ضرورت کے مطابق جب ان چیزوں کا آپس میں تبادلہ کریں گے تو اس میں مجھے بھی نفع ہو سکتا ہے اور آپ کو بھی۔ ایک جنس کا دوسری جنس سے تبادلہ تجارت کہلاتا ہے، لیکن ایک جنس کا اسی جنس سے تبادلہ کمی بیشی کی صورت میں سود کہلاتا ہے۔ جاہلیت کے دور میں دونوں باتیں چلتی تھیں۔ تجارت بھی ہوتی تھی کہ گندم کا کھجوروں سے تبادلہ، سونے کا چاندی سے تبادلہ، غلے کا کپڑے سے تبادلہ وغیرہ۔ اس طرح سود بھی چلتا تھا کہ روپے کا روپے سے تبادلہ اور اس میں کمی بیشی وغیرہ۔ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا اور سختی کے ساتھ اس سے منع فرما دیا۔ قرآن کریم نے جب سود کو حرام قرار دیا تو مشرکین نے اس پر اعتراض کیا ’’قالوا انما البیع مثل الربٰوا‘‘ (سورۃ البقرۃ ۲۷۵) انہوں نے کہا تھا کہ تجارت بھی تو سود کے جیسی ہی ہے۔ مشرکینِ مکہ کا کہنا تھا کہ اِس میں اور اُس میں کیا فرق ہے، یہ بھی تجارت ہے اور وہ بھی تجارت ہے۔ آج بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ سود بھی تجارت ہی ہے۔ اس دور میں بھی یہی بات کہی گئی کہ ایک جنس کے ساتھ دوسری جنس کے تبادلے میں بھی نفع ہے، اور ایک جنس کے ساتھ اسی جنس کے تبادلے میں بھی نفع ہے۔ لیکن قرآن کریم نے صاف بتایا کہ تجارت اور سود متضاد چیزیں ہیں۔ ’’احل اللہ البیع و حرم الربٰوا‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۲۷۵) اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔

یعنی قرآن کریم نے اس اعتراض کا ذکر کیا اور پھر وہی بات کہی کہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے جبکہ سود کو حرام قرار دیا ہے۔ آج ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ کسی مجبور کو پیسے دینا اور اس سے اصل رقم سے زائد وصول کرنا قرض کی ایک صورت ہے جس کا تجارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ قرآن کریم نے سود کو تجارت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اس بارے میں جناب نبی کریمؐ کے ساتھ پیش آنے والے دو واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ مسلم شریف میں بھی اس کا ذکر ہے اور ابو داؤد میں بھی۔ جناب رسول اللہؐ کے گھر کے لین دین کے معاملات کے ذمہ دار حضرت بلالؓ تھے یعنی گھر کے لیے سودا سلف لینا، کھجوریں، آٹا، اور دیگر گھریلو ضروریات کی خرید و فروخت وغیرہ۔ حضرت بلالؓ نے ایک دفعہ کھجوریں خریدیں اور حضورؐ کی خدمت میں لا کر پیش کیں کہ یارسول اللہؐ میں آپ کے لیے یہ کھجوریں خرید کر لایا ہوں۔ آپؐ نے پوچھا، یہ اتنی اچھی کھجوریں کہاں سے لے آئے ہو؟ حضرت بلالؓ نے بتایا کہ یا رسول اللہ! وہ آپ کے حصے میں جو خمس کی عام قسم کی کھجوریں آئی تھیں میں نے وہ زیادہ کھجوریں بازار میں دے کر ان کے بدلے میں اچھی قسم کی تھوڑی کھجوریں لے لیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’عین الربوا‘‘ یہ تو بالکل سود ہے، انہیں واپس کر کے آؤ۔ حضرت بلالؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! پھر اچھی کھجوریں لانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ رقم کے عوض عام قسم کی کھجوریں بیچو اور پھر اس رقم کے عوض اچھی قسم کی کھجوریں خریدو، یعنی درمیان میں تیسری جنس لے آؤ۔

اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جناب نبی کریمؐ نے خیبر کے علاقہ میں وہاں کی پیداوار سے بیت المال کا حصہ وصول کرنے کے لیے ایک عامِل بھیجا جب وہ واپس آیا تو اس کے پاس ساری کھجوریں اچھی قسم کی تھیں۔ آپؐ نے فرمایاکہ یہ تو بہت اچھی کھجوریں ہیں۔ پھر پوچھا کیا خیبر میں ساری کھجوریں اسی طرح کی ہوتی ہیں؟ عامِل نے بتایا کہ یارسول اللہ نہیں ہر قسم کی کھجوریں ہوتی ہیں۔ حضورؐنے پوچھا پھر تمہارے پاس یہ سب کھجوریں اچھی قسم کی کیسے آگئیں؟ عامِل نے بتایا کہ یارسول اللہ مجھے موصول تو ہر قسم کی کھجوریں ہوئی تھیں لیکن میں نے وہ سب کھجوریں دے کر ان کے عوض اچھی قسم کی کھجوریں لے لیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ تو تم نے سود کا کاروبار کیا ہے۔ عامِل نے پوچھا یارسول اللہ پھر میں کیا کرتا؟ آپؐ نے فرمایا کہ پیسوں کے عوض وہ کھجوریں بیچتے اور پھر ان پیسوں کے عوض یہ اچھی کھجوریں خریدتے۔

آنحضرتؐ نے جاہلیت کے زمانے میں رائج سود کو، جو کہ بیع کا ایک طریقہ سمجھا جاتا تھا، اسے حرام قرار دے دیا۔ آپؐ نے جوا بھی حرام قرار دیا، لاٹری بھی حرام قرار دی اور سٹہ بھی حرام قرار دے دیا۔ یہ ساری صورتیں وہ ہیں جن میں غیر متوقع اور غیر فطری منافع ملتا ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو انسانی نفسیات کی تخریب کا باعث بنتی ہیں۔

اسلام کے اور مروجہ نظامِ تجارت میں فرق

جناب نبی کریمؐ نے تجارت میں حصہ لیا ہے، تجارت کی تلقین کی ہے، تجارت کے مسائل و احکام بیان کیے ہیں اور تجارت کے متعلق ایک مستقل نظام دیا ہے جس پر اسلام میں تجارت کی بنیاد ہے۔ اسلام کے نظامِ تجارت میں اور آج کے مروجہ نظامِ تجارت میں ایک بنیادی فرق ہے جو ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔ دنیا کا جو مروجہ سسٹم ہے اس میں جائز اور ناجائز کی بنیاد مارکیٹ کی طلب پر ہے کہ جو چیز مارکیٹ کی ضرورت بن جائے وہ جائز ہو جاتی ہے اور جو چیز مارکیٹ کے لیے فضول ہو جائے وہ ناجائز ہو جاتی ہے۔ یعنی جائز اور ناجائز کا مدار مارکیٹ کی ڈیمانڈ پر ہے۔ سوسائٹی شراب مانگتی ہے تو شراب دے دو، سوسائٹی زنا کے کاروبار کا تقاضا کرتی ہے تو اس کی اجازت دے دو، سوسائٹی جوے کے اڈے مانگتی ہے تو اس کی یہ ڈیمانڈ پوری کر دو، سوسائٹی نشہ آور ادویات مانگتی ہے تو وہ دے دو۔ جیسا کہ آج کل کچھ مغربی ممالک میں یہ صورتحال عام ہے جس کے نتیجے میں ادویات کی شکل میں نشہ آور اشیاء کو لوگوں کے لیے جائز قرار دیا جا رہا ہے۔ یعنی بنیادی اصول یہ ہے کہ مارکیٹ میں جس چیز کی کھپت ہے اس کی سہولیت مہیا کر دو۔ لیکن اسلام میں جائز و ناجائز اور حرام و حلال کا فیصلہ آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسلام تجارت کے انہی اصولوں کو جائز قرار دیتا ہے جو انسانی اخلاقیات، انسان کی حقیقی ضروریات اور انسانی معاشرے کے دنیوی اور اخروی نفع کے لیے بہتر ہیں۔

جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ایک آدمی سے قیامت کے دن مال کے حوالے سے دو چیزوں کے متعلق سوال ہوگا ’’من این اکتسب وفیما أنفق‘‘ مال کمایا کہاں سے تھا اور خرچ کہاں پر کیا؟ کمائی کے ذرائع جائز تھے یا ناجائز? اور جن چیزوں پر خرچ کیا وہ جائز تھیں یا ناجائز؟ اِن دو باتوں میں سارا معاملہ آجاتا ہے۔ کمائی کے ذرائع اور مصرف کے مقامات دونوں جائز ہوں گے تب بات بنے گی ورنہ آدمی گناہ گار ٹھہرے گا۔ اسلام نے کمائی کے ذرائع بھی محدود کیے ہیں کہ فلاں ذریعۂ آمدن جائز ہے اور فلاں ناجائز ہے۔ اور خرچ کرنے کے معاملے میں بھی انسان کو کھلی چھٹی نہیں دی گئی کہ جہاں چاہو خرچ کر لو بلکہ مصرف کے مقامات کے متعلق بھی واضح کیا گیا ہے کہ فلاں جگہ خرچ کرنے کے لیے جائز ہے اور فلاں ناجائز۔اور یہی اسلامی معیشت و تجارت کا بنیادی دائرہ ہے۔

2016ء سے
Flag Counter