روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۵ نومبر ۲۰۰۷ء کی ایک خبر کے مطابق پاکستان میں منشیات کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس پر قابو پانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں افیون کاشت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور اس سال ۴۰ میٹرک ٹن پیداوار ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ افیون ہیروئن کی شکل میں قبائلی سرداروں اور پیشہ ور اسمگلروں کے ذریعے پاکستان میں سپلائی ہوتی ہے اور پھر دنیا کے مختلف ممالک میں سپلائی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی منشیات کے استعمال میں مسلسل اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ خبر میں کہا گیا ہے اینٹی نارکوٹکس فورس نے گذشتہ دنوں ایک خاتون اور اس کے ساتھی کو گرفتار کر کے اس سے چار کروڑ روپے کی ہیروئن برآمد کی ہے۔
افغانستان میں افیون کی کاشت، اس سے ہیروئن کی تیاری اور پھر پاکستان میں اور اس کے راستے دنیا بھر میں اس کی سپلائی عالمی سطح پر پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے، اس پر قابو پانے کی کوئی تدبیر نہیں ہو رہی بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ماضی قریب میں طالبان کے دور حکومت میں یہ مسئلہ وقتی طور پر اس طرح حل ہو گیا تھا کہ امیر المومنین ملا محمد عمر نے پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی تھی جس پر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی۔ مگر طالبان کی اسلامی حکومت کو طاقت کے زور پر زبردستی ختم کیے جانے کے بعد پھر پرانی صورتحال بحال ہو گئی ہے اور عالمی اداروں کو اسے ختم کرنے میں مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ہمارے خیال میں آج بھی اس کا حل وہی ہے جو طالبان نے کیا تھا، افغان قوم کا مزاج ہے کہ وہ کسی دوسری قوم کی بالادستی اور حکم و قانون کو قبول نہیں کرتے البتہ شریعت کے حکم پر وہ سب کچھ ترک کر دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، اگر انہیں ان کی شریعت واپس کر دی جائے اور ایک اسلامی حکومت کو آزادی کے ساتھ وہاں کام کرنے کا موقع دیا جائے تو نہ صرف پوست کی کاشت بلکہ سرداروں کی جنگ یعنی ’’لارڈز وار‘‘ پر بھی دوبارہ قابو پا یا جا سکتا ہے۔