ہم جنس پرستوں کے حق میں امریکی اور برطانوی عدالتوں کے فیصلے

   
جنوری ۲۰۰۰ء

روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۲ دسمبر ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ

’’امریکی ریاست ورماؤنٹ کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کو بھی میاں بیوی جیسے حقوق کا حقدار قرار دے دیا ہے۔ جج نے اپنی رولنگ میں کہا ہے کہ ریاست ورماؤنٹ کے ہم جنس پرست جوڑے بھی انہی حقوق کے حقدار ہیں جو مرد اور عورت کے جوڑے کو حاصل ہیں، اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ورماؤنٹ کے قوانین کے مطابق ہم جنس پرست جوڑوں کو وہی مراعات اور تحفظات فراہم کرے جو مرد اور عورت کے جوڑے کو دی جا رہی ہیں۔ ریاست کے کئی افسران اور گورنر ہاورڈ ڈنن نے ایک بیان میں اس فیصلہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘‘

اب سے چند ہفتے قبل ایک برطانوی عدالت بھی اسی نوعیت کا ایک فیصلہ صادر کر چکی ہے جس میں ایک ہم جنس پرست جوڑے کے ایک فرد نے اپنے ساتھی کے فوت ہو جانے پر دعویٰ دائر کیا تھا کہ وہ دونوں ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر اکٹھے رہ رہے تھے اس لیے وہ آپس میں میاں بیوی کی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا اسے اپنے فوت ہونے والے ساتھی کا وارث قرار دے کر اس کی وراثت منتقل کی جائے، اور مذکورہ عدالت نے اس دعویٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اسے وراثت منتقل کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔

یہ اس مغربی کلچر کا نقطۂ عروج ہے جس میں آسمانی تعلیمات اور خدائی ہدایات کو پس پشت ڈال کر انسانی خواہشات اور سوسائٹی کے رجحانات کو عقلِ کل قرار دیا گیا ہے۔ اور اسے تمام تر قوانین و احکام کی اساس بنا کر سوسائٹی کی اکثریت کی خواہش کو حرفِ آخر کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اسے جدید دور کا کلچر کہا جاتا ہے اور ترقی یافتہ تمدن کا خطاب دیا جاتا ہے۔ مگر مغربی دانشور اس کلچر کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اور باقی ساری دنیا کو اس کی طرف دعوت دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ کوئی نیا کلچر نہیں ہے، بلکہ نفسانی خواہشات کی بالادستی کے اسی پرانے دور کا اعادہ ہے جس میں سدوم اور عموریہ کی بستیاں خدائی عذاب کا شکار ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئی تھیں، اور حضرت لوط علیہ السلام کی قومی پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی تھی۔

   
2016ء سے
Flag Counter