۲۱ دسمبر گزر گیا ہے اور قیامت کی پیشگوئی کرنے والوں کی طرف سے حسبِ سابق یہ عذر سامنے آیا ہے کہ کیلنڈر کا حساب صحیح طور پر نہیں لگایا جا سکا۔ گزشتہ سال کیلیفورنیا کے معمر پادری فادر کیمنبگ کی طرف سے ۱۲ مئی ۲۰۱۱ء کو قیامت واقع ہو جانے کی پیشگوئی کی گئی تھی اور اس روز بھی بہت سے لوگ قیامت کے انتظار میں تھے مگر وہ دن بھی ایسے ہی گزر گیا تھا جیسے ۲۱ دسمبر ۲۰۱۲ء کا دن گزر گیا ہے۔
چند روز قبل ایک خاتون نے فون پر مجھ سے پوچھا کہ ۲۱ دسمبر کو کیا ہو گا؟ میں نے کہا جمعہ ہو گا۔ اس نے سوال کیا کہ لیکن اس روز ہو گا کیا؟ میں نے جواب دیا کہ حسبِ معمول ان شاء اللہ گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد میں جمعہ پڑھاؤں گا۔ وہ تھوڑا سا سٹپٹائی اور قدرے تلخ لہجے میں پوچھا کہ اس دن اور کیا ہو گا؟ میں نے کہا کہ بی بی! کچھ بھی نہیں ہو گا اور جمعہ کے دوسرے ایام کی طرح یہ دن بھی معمول کے مطابق گزر جائے گا۔
گوجرانوالہ میں پون صدی قبل ایک معروف پادری ڈاکٹر ای چارلس گزرے ہیں، انہوں نے ۱۹۴۰ء میں ایک کتاب ’’آئینہ احوال‘‘ کے نام سے شائع کی تھی جس میں انہوں نے بائبل کی بعض پیش گوئیوں کے حوالہ سے حساب لگا کر ۱۹۹۴ء تک کے متوقع حالات اور اس کے بعد ۱۹۹۴ء میں قیامت آجانے کی پیش گوئی کی تھی۔ یہ کتاب ہمارے پاس الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی لائبریری میں موجود ہے، اس میں مستقبل کے بارے میں پیشگوئیوں کا پورا زائچہ بنایا گیا ہے اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ۱۹۹۴ء میں دنیا ختم ہو جائے گی اور قیامت واقع ہو گی۔ لیکن ۱۹۹۴ء کو گزرے دو عشرے ہونے کو ہیں اور دور دور تک قیامت کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
اس سے قبل قادیانیوں کے ساتھ مباحثوں میں یہ بات ذکر ہوتی رہی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کیا تھا کہ چودھویں صدی ہجری آخری ہجری صدی ہے جس کے بعد کوئی صدی نہیں ہے اور وہ اس آخری صدی کے مجدد اور مہدی ہیں۔ سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی ؒ کا ان دنوں یہ دل پسند موضوع رہا ہے کہ وہ پندرہویں صدی ہجری کے آغاز میں کئی برس تک اپنی تقریروں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ پندرہویں صدی کے اتنے سال گزر چکے ہیں اور یہ مرزا غلام احمد قادیانی کے مذکورہ دعوے کی تردید کر رہے ہیں۔
قیامت کب آئے گی؟ یہ سوال ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف مواقع پر یہ سوال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس سوال کا ذکر موجود ہے۔ کافر لوگ تو یہ سوال طنز و استہزا کے طور پر کرتے تھے کہ جس قیامت سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں وہ کب آئے گی؟ لیکن مسلمان بھی بسا اوقات معلومات کے لیے نبی کریمؐ یہ پوچھ لیتے تھے حتٰی کہ حضرت جبریل علیہ السلام والی مشہور حدیث میں بھی اس سوال کا تذکرہ موجود ہے۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت جبریلؑ ایک دفعہ انسانی شکل میں جناب نبی اکرمؐ کی مجلس میں آئے اور صحابہ کرامؓ کے سامنے کئی سوالات آپؐ سے کیے، جن کا مقصد صحابہ کرام ؓ کو دینی معلومات سے بہرہ ور کرنا تھا، ان میں ایک سوال یہ تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ آنحضرتؐ نے فرمایا ’’ماالمسئول عنہا باعلم من السائل‘‘ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، یعنی جس طرح آپ کو قیامت کے وقت کا علم نہیں ہے اسی طرح میں بھی قیامت کے متعین وقت کو نہیں جانتا۔ البتہ اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی کچھ نشانیاں بیان فرمائیں جبکہ وقت ان کا بھی نہیں بتایا۔
ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرمؐ سے کسی صحابیؓ نے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آنحضرتؐ نے جواب میں اس کا رخ موڑ دیا اور الٹا سوال کیا کہ تم نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ صحابیؓ نے عرض کیا کہ میں نے کچھ زیادہ تیاری تو نہیں کر رکھی البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ مجھے محبت ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ ’’انت مع من احببت‘‘ تم انہی کے ساتھ ہو گے جن سے تجھے محبت ہے۔ گویا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جواب کے ذریعے یہ بات سمجھائی کہ کسی مسلمان کو اس ٹوہ میں نہیں رہنا چاہیے کہ قیامت کب آئے گی بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے قیامت کے دن کے لیے تیاری کیا کر رکھی ہے؟ اس لیے کہ قیامت تو اچانک آئے گی جو امتحان کا دن ہے جس دن ہر شخص نے اپنی دنیا کی زندگی کے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس حساب پر ہی اس کی اگلی ہمیشہ کی زندگی کا دارومدار ہو گا۔
قرآن کریم سورۃ الاعراف کی آیت ۱۸۷ میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’لوگ آپؐ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب واقع ہو گی؟ آپ کہہ دیجئے کہ اس کا علم میرے رب کے پاس ہے، قیامت کے علم کو اس کے علاوہ اللہ کے سوا کوئی منکشف نہیں کرے گا، یہ خبر زمین و آسمان میں بہت بوجھ والی ہے، قیامت تمہارے پاس اچانک آئے گی، آپؐ سے یہ لوگ اس طرح پوچھتے ہیں جیسے آپؐ اسی کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں، آپؐ ان سے کہہ دیں کہ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔‘‘
اس آیت کریمہ کے حوالہ سے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ جب قرآن کریم نے دو باتیں صراحت سے کہہ دی ہیں کہ قیامت کے وقت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی منکشف نہیں کرے گا اور یہ کہ وہ جب بھی آئی اچانک آئے گی تو اس کے بعد اس کی کرید میں پڑنا اور پیش گوئیوں کے بارے میں قیاس آرائیوں سے کام لے کر قیامت کے وقت کا حساب لگانا وقت ضائع کرنے کے سے اور کیا ہے؟