وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے شراب کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اسے بعض دوست اتفاقی بات سمجھ رہے ہیں، لیکن ہمارے خیال میں ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ جس انداز میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ شراب نوشی پر پابندی کا قانون ختم کرنے کا پروگرام بنا لیا گیا ہے اور اس کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش شروع ہو گئی ہے۔ حدود آرڈیننس کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، پہلے اس کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی گئی تھی، شکوک و شبہات کی فضا قائم کی گئی تھی، اور میڈیا کو مسلسل استعمال کر کے اس کے خلاف ماحول بنایا گیا تھا، اور پھر ان قوانین کا جھٹکا کر دیا گیا۔ اب اس کے بعد ظاہر ہے کہ دوسرے بہت سے قوانین باری باری اسی پراسیس سے گزریں گے جن میں شراب پر پابندی کا قانون بھی شامل ہے، جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں تحریکِ نظامِ مصطفٰیؐ کا زور توڑنے کے لیے نافذ کیا تھا اور تب سے نافذ چلا آ رہا ہے۔ لیکن پہلے کس قانون کی باری ہے، اس سلسلہ میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے روزنامہ پاکستان نے ۱۷ ستمبر ۲۰۰۶ء کو خبر شائع کی تھی کہ امریکہ پاکستانی حکومت پر تین قوانین کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے:
- حدود آرڈیننس،
- تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کا قانون،
- اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا قانون۔
ان میں سے حدود آرڈیننس کو سبوتاژ کیا جا چکا ہے، جبکہ اگلی ترتیب کے بارے میں گزشتہ ہفتے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین کے حوالے سے ’’رائٹر‘‘ نے خبر دی تھی کہ انہوں نے پیرس میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو تبدیل کرنے کا پروگرام بنا لیا گیا ہے اور الیکشن کے بعد ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ سید مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ الیکشن سے قبل یہ بل اس لیے نہیں لایا جا رہا کہ ان کے خیال میں اپوزیشن انتخابی مہم میں اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ گویا سید مشاہد حسین توہینِ رسالتؐ کا قانون تبدیل کرنے کے لیے بہت جلدی میں ہیں لیکن الیکشن میں اپوزیشن کا خوف اس کے بارے میں سرِدست رکاوٹ بن گیا ہے، جونہی یہ رکاوٹ دور ہو گی، امریکی وزارتِ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق یہ دوسرا قانون بھی ترامیم اور تبدیلیوں کی زد میں آجائے گا۔
اس پس منظر میں ہمارا خیال تھا کہ اب توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون پر حکومت اور دینی حلقوں میں معرکہ آرائی ہو گی، لیکن ڈاکٹر شیر افگن نیازی صاحب کو شراب کا قانون ختم کرنے کی جلدی ہے، اس لیے انہوں نے اس کا قصہ چھیڑ دیا ہے۔
شراب صرف اسلام میں ہی حرام نہیں بلکہ سابق آسمانی مذاہب میں بھی شراب کو حرام چیزوں کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ بائبل کی کتاب ’’یسعیاہ‘‘ کے باب ۵ کی آیت ۱۲ اور ۱۳ میں شراب کا تذکرہ یوں ہے کہ
’’ان پر افسوس جو صبح سویرے اٹھتے ہیں تاکہ نشہ بازی کے درپے ہوں، اور جو رات کو جاگتے ہیں جب تک شراب ان کو بھڑکا نہ دے، اور ان کے جشن کی محفلوں میں بربط اور ستار اور دف اور بین اور شراب ہیں، لیکن وہ خداوند کے کام کو نہیں سوچتے اور اس کے ہاتھوں کی کاریگری پر غور نہیں کرتے‘‘۔
اسی طرح بائبل کی کتاب ’’ہوسیع‘‘ باب ۴ آیت ۱۰ اور ۱۱ میں شراب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
’’چونکہ ان کو خداوند کا خیال نہیں، اس لیے وہ کھائیں گے پر آسودہ نہ ہوں گے، وہ بدکاری کریں گے لیکن زیادہ نہ ہوں گے، بدکاری اور مے اور نئی مے سے بصیرت جاتی رہتی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جب ایک بار پنجاب اسمبلی میں شراب نوشی کی اجازت دینے کے بارے میں سوال اٹھا اور اس سلسلہ میں یہ حوالہ دیا گیا کہ مسیحی اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے لیے شراب بنانے، بیچنے اور پینے کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ ان کے نزدیک شراب حرام نہیں، تو اس وقت ایوان میں موجود مسیحی نمائندہ جناب سی قیصر نے اس پر احتجاج کیا تھا اور اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ شراب ہمارے مذہب میں بھی حرام ہے اس لیے شراب نوشی کے لیے ہمارا نام استعمال نہ کیا جائے۔
اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں شراب بنانے، بیچنے، پینے اور پلانے پر پابندی جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں لگائی تھی۔ اس حوالے سے پابندی پیپلز پارٹی کے لیے بھٹو مرحوم کے ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، خدا جانے نئے حالات میں پیپلز پارٹی اس ورثے پر قائم رہتی ہے یا اس سے دستبرداری کو ترجیح دیتی ہے۔ لیکن بھٹو مرحوم کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں جب مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے اور وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلا حکم شراب پر پابندی کا صادر کیا تو بھٹو مرحوم کی وفاقی حکومت اور مولانا مفتی محمودؒ کی صوبائی حکومت کے درمیان اس مسئلہ پر خاصی دلچسپ خط و کتابت ہوئی تھی، جس کی تفصیل مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے ایک اجلاس میں خود سنائی تھی۔ مفتی صاحبؒ نے بتایا کہ جب انہوں نے صوبے میں شراب بنانے، بیچنے، پینے، پلانے پر پابندی کا اعلان کیا اور اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دیا تو اس پر
- وفاقی حکومت کی طرف سے ایک خط آیا کہ شراب پر پابندی کے باعث صوبائی حکومت کو وہ ٹیکس وصول نہیں ہوں گے جو اس ضمن میں پہلے وصول ہوا کرتے تھے، اور اس سے صوبائی بجٹ میں جو خسارہ ہو گا وہ کیسے پورا کیا جائے گا؟ مفتی صاحبؒ نے بتایا کہ ہم نے جواب دیا کہ اپنے اخراجات میں کمی کر کے ہم یہ خسارہ پورا کر لیں گے اور اس سلسلہ میں مرکز کو زحمت نہیں دیں گے۔
- مگر اس کے بعد دوسرا خط آ گیا کہ غیر مسلموں کے نزدیک شراب حرام نہیں ہے اس لیے صوبے میں بسنے والے غیر مسلموں کے لیے شراب کی فراہمی کی کوئی صورت ہونی چاہیے۔ مفتی صاحبؒ کے بقول صوبائی حکومت نے جواب دیا کہ ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ غیر مسلموں کو شراب نوشی پر گرفتار نہ کریں اور سزا نہ دیں، لیکن انہیں شراب کی فراہمی کا اہتمام کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔
- اس کے بعد تیسرا خط آیا کہ شراب بعض بیماریوں کے علاج کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے اس لیے بڑے ہسپتالوں میں علاج کے لیے شراب کی فراہمی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس پر مفتی صاحبؒ نے صوبائی ہیلتھ سیکرٹری کی سربراہی میں ایک میڈیکل بورڈ بٹھا دیا کہ ایسی بیماری کی نشاندہی کی جائے جو مہلک ہو اور شراب کے علاوہ کوئی اور متبادل علاج نہ ہو، کیونکہ شریعتِ اسلامیہ نے کسی حرام چیز کو علاج کے طور پر استعمال کی اجازت اضطرار کی صورت میں دی ہے، جس کی عملی شکل یہی ہے کہ بیماری جان لیوا ہو اور شراب کے علاوہ کوئی متبادل علاج موجود نہ ہو۔ مفتی صاحبؒ کا کہنا تھا کہ اگر میڈیکل بورڈ کسی ایسی بیماری کی نشاندہی کر دیتا تو وہ یقیناً اس کے لیے شراب کے استعمال کی اجازت دے دیتے، لیکن ابھی یہ بحث جاری تھی کہ بلوچستان میں نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) اور جمعیۃ کی مشترکہ حکومت کی برطرفی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مولانا مفتی محمودؒ نے وزارتِ اعلیٰ سرحد سے استعفیٰ دے دیا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن صاحب بھی شراب نوشی کی قانونی اجازت کی راہ ہموار کرنے کے لیے اسی قسم کے حیلوں بہانوں سے کام لیں گے، لیکن مقصد بہانہ تلاش کرنا ہی ہو تو اس کے لیے اور بھی کئی صورتیں تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہیں، اور ہم ان میں سے ایک واقعہ ڈاکٹر موصوف اور ان کے رفقاء کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔
آٹھویں صدی ہجری کے معروف عالم دین امام ابو اسحاق شاطیؒ نے اپنی کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ شام فتح ہونے کے بعد حضرت عمرؓ نے امیر یزید بن ابی سفیانؓ کو شام کا گورنر مقرر کیا جو حضرت امیر معاویہؓ کے بڑے بھائی تھے اور صحابئ رسول تھے۔ ان کے دور کی بات ہے کہ انہیں شکایت ملی کہ دمشق کے ایک علاقے میں کچھ لوگ شراب نوشی کرتے ہیں، انہوں نے پولیس بھیجی تو شکایت کے مطابق وہ شراب نوشی کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ گورنر کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے اپنی شراب کے لیے قرآن کریم کا حوالہ دے دیا کہ ہمارے لیے قرآن کریم میں شراب نوشی کی اجازت ہے۔ امیر یزیدؓ نے تعجب سے پوچھا کہ تمہارے لیے یہ اجازت قرآن نے کہاں دی ہے؟ تو انہوں نے سورہ المائدہ میں جہاں شراب کو گندگی اور شیطانی عمل قرار دے کر حرام بتایا گیا ہے، وہیں اس سے اگلی آیت میں ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے، انہوں نے اگر شراب تھوڑی بہت چکھ لی ہے تو ان پر کوئی حرج نہیں ہے۔
امیر یزیدؓ یہ بات سن کر پریشان ہو گئے اور مقدمے کی کاروائی خود جاری رکھنے کی بجائے ملزموں کو مقدمے کی فائل سمیت مدینہ منورہ حضرت امیر المومنین عمر بن الخطابؓ کے پاس بھجوا دیا۔ ان کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا تو ملزموں نے وہاں بھی یہی موقف اختیار کیا کہ ہمیں قرآن کریم نے اجازت دی ہے، اور اسی آیت کریمہ (المائدہ ۹۳) کا حوالہ دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی عدالتی مجلس میں موجود تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے رائے طلب کی تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ لوگ قرآن کریم کی من مانی تشریح کر کے زندقہ کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے اگر یہ اپنی خود ساختہ تشریح پر قائم ہیں تو زندیق ہیں اور ان کی سزا قتل ہے، اور اگر اس عمل پر توبہ کر لیں تو ان پر شراب نوشی کی سزا کوڑوں کی صورت میں نافذ ہو گی۔ حضرت عمرؓ نے اسی کے مطابق فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ ان ملزموں نے زندقہ سے توبہ کا اعلان کیا اور کوڑوں کی سزا کے مستوجب قرار پائے۔
حضرت علیؓ نے ان لوگوں کی طرف سے مذکورہ آیت کی تشریح کو زندقہ (ارتداد) کے مترادف اس لیے قرار دیا کہ اس آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ جب شراب کی حرمت کا فیصلہ ہوا اور قرآن کریم نے اسے گندگی اور شیطانی عمل قرار دے دیا تو بعض حضرات کے ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ جب یہ گندگی اور شیطانی عمل ہے تو ہمارے جو مسلمان بھائی اس سے قبل شراب نوشی کرتے رہے ہیں اور اسی حالت میں فوت بھی ہو گئے ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعے تسلی دی کہ جو لوگ ایمان والے تھے اور عملِ صالح کرتے رہے، انہوں نے اگر شراب پی لی ہے تو ان پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر شیر افگن نیازی اور ان کے رفقاء کا کہنا ہے کہ شراب پر پابندی کی وجہ سے نوجوان ہیروئن کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور نشے کا استعمال بڑھ رہا ہے، تو ان کا مطلب یہ ہے کہ ہیروئن پر کنٹرول کرنے کے لیے شراب نوشی کی اجازت دے دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات حقائق کے بالکل منافی ہے، اس لیے کہ مغربی ملکوں میں جہاں شراب نوشی پر کوئی پابندی نہیں ہے وہاں ہیروئن کا نشہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ وہاں ہیروئن کے نشے میں روز افزوں اضافے کو ڈاکٹر شیر افگن نیازی کس چیز کا نتیجہ قرار دیں گے؟ لیکن اس سے قطع نظر ہم ڈاکٹر شیر افگن اور ان کے ہمنواؤں سے یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ اگر کل کوئی شخص یہ کہہ دے کہ زنا پر پابندی کی وجہ سے نوجوان ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہو رہے ہیں جس کا نقصان زیادہ ہے، تو کیا ڈاکٹر شیر افگن نیازی اینڈ کمپنی اسمبلی میں زنا کو جائز قرار دینے کا بل پیش کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟