امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۲) : دوسرا کبیرہ گناہ قتلِ ناحق ہے

   
۱۵ جون ۱۹۷۳ء

(امام شمس الدین الذہبیؒ کی کتاب الکبائر ۔ قسط ۲)

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاءہ جھنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعدلہ عذاب عظیما۔ (النساء ۹۳)

’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا، اور اس پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہوں گے اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دیں گے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کر لیا۔

دوسرے مقام پر ارشاد ہے:

والذین لا یدعون مع اللہ الٰھا آخر ولا یقتلون النفس اللتی حرم اللہ الا بالحق ولا یزنون ومن یفعل ذالک یلق اثاما۔ یضاعف لہ العذاب یوم القیامۃ و یخلد فیہ مھانا۔ الا من تاب و آمن و عمل عملاً صالحا۔ (الفرقان ۶۸ ۔ ۷۰)

’’اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں مگر حق پر، اور وہ زنا نہیں کرتے، اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو اس کو سزا سے سابقہ پڑے گا کہ قیامت کے روز اس کا عذاب بڑھتا چلا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل ہو کر رہے گا۔‘‘

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

من اجل ذالک کتبنا علیٰ بنی اسرائیل انہ من قتل نفس بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا۔ (المائدہ ۳۲)

’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلامعاوضہ دوسرے شخص کے، یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو، قتل کر ڈالے، تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا، اور جو شخص کسی شخص کو بچا لے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

واذا الموءودت سئلت۔ بای ذنب قتلت۔ (التکویر ۸، ۹)

’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی۔‘‘

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سات ہلاک کر دینے والے گناہوں سے بچو، اور ان میں آپ نے قتلِ ناحق کا بھی ذکر فرمایا۔

ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ تعالیٰ کے ہاں کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے جب کہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ اس نے سوال کیا پھر اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے؟ آپؐ نے فرمایا یہ کہ تو اپنے بچے کو اس خوف سے قتل کر دے کہ وہ تیرے ساتھ کمائے گا۔ اس نے دریافت کیا پھر اس کے بعد کون سا بڑا گناہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا یہ کہ تو پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق نازل فرما دی کہ

والذین لا یدعون مع اللہ الٰھا آخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا یزنون۔ (الفرقان ۶۸)

’’اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص کے قتل کو اللہ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں مگر حق پر، اور وہ زنا نہیں کرتے۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اذا التقی المسلمان بینھما فالقاتل والمقتول کلاھما فی النار (رواہ احمد والشیخان)

’’جب دو مسلمان تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل میں آئیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔‘‘

پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قاتل کے جہنمی ہونے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے، مگر مقتول کیسے جہنمی ہو گیا؟ آپؐ نے فرمایا:

لانہ کان حریصا علی قتل صاحبہ۔

’’کیونکہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘

امام ابو سلیمان الخطابیؒ فرماتے ہیں:

’’یہ اس صورت میں ہے جب دونوں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کسی شرعی تاویل کی وجہ سے نہ ہو (جیسا کہ صحابہ کرامؓ کی باہمی لڑائی تاویل کی وجہ سے تھی اس لیے ان پر اس حدیث کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مترجم) بلکہ آپس کی دشمنی یا عصبیت کی وجہ سے ہو یا دنیا کی طلب میں یا سرداری کے حصول یا مرتبہ کی خواہش میں آپس میں جھگڑ پڑیں۔

مگر جو شخص باغی مسلمانوں سے لڑائی کرے جیسا کہ ان کے ساتھ لڑنے کا حکم ہے، یا ظالم دشمن سے اپنا دفاع کرتے ہوئے مقابلہ کرے، یا اپنے گھر کی حفاظت میں لڑے، وہ اس حدیث کے ضمن میں نہیں آتا۔ کیونکہ اسے حکم ہے کہ وہ دوسرے کو قتل کرنے کا مقصد کیے بغیر اپنا دفاع کرے، ہاں اگر وہ بھی مقابل کے قتل پر حریص ہے تو وہ اس حدیث کا مصداق ہے۔

کیونکہ جو شخص کسی مسلمان باغی یا مسلمان ڈاکو سے لڑتا ہے اس کا مقصد اسے قتل کرنا نہیں بلکہ اپنی جان بچانا ہے۔ پس اگر مقابل جھگڑے سے رک جائے تو وہ بھی رک جاتا ہے اور اس کا پیچھا نہیں کرتا، اس لیے حدیث ان افراد پر وارد نہیں ہوتی۔ ہاں جو اشخاص اس ضمن میں نہیں آتے وہ واقعی اس حدیث کی رو سے، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، جہنمی ہیں۔‘‘

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لاترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض۔ (متفق علیہ)

’’میرے بعد کفر کی طرف واپس نہ پلٹ جانا کہ بعض تم میں سے بعض کی گردنیں مارتے رہیں۔‘‘

آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:

لا یزال العبد فی فسحۃ من دینہ ‏‏‏‏‏‏ما لم یصب دما حراما۔ (رواہ الحاکم)

’’ہمیشہ رہتا ہے بندہ دین کے بارہ میں فراخی میں جب تک حرام خون بہانے کا ارتکاب نہ کرے۔‘‘

اور آنحضرتؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارہ میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ایک اور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا کہ

لقتل مومن اعظم عند اللہ من زوال الدنیا (رواہ النسائی والبیہقی)

’’ایک مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے زوال سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter