’’نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے‘‘

   
مارچ ۲۰۱۳ء

ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی ۱۳ فروری ۲۰۱۳ء میں شائع شدہ ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:

’’فرانس کی قومی اسمبلی نے ایک ہی جنس کے افراد کے مابین شادی کے بل کی منظوری دے دی ہے۔ ۹۷ کے مقابلہ میں ۲۴۹ ارکان نے بل کے حق میں رائے دیتے ہوئے شادی کی ازسرِنو تشریح کی ہے جس کے تحت شادی صرف ایک مرد اور عورت کے مابین ہی نہیں بلکہ دو افراد کے مابین معاہدے کا نام ہے۔ فرانس کے صدر فرانکوئس اولاند کی سوشلسٹ پارٹی اور ان کی حلیف بائیں بازو کی جماعت نے اس بل کی حمایت کی جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی یو ایم پی اور دیگر کئی معتدل نقطۂ نظر کے حامل ارکان نے بل کی مخالفت کی۔ اس بل کی تجویز پر کئی ماہ تک احتجاج اور جوابی احتجاج ہوتا رہا، اس بل کے حوالہ سے فرانس میں رہنے والے مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے بھی زبردست احتجاج کیا ہے لیکن حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنی پیشرو حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ہی جنس کے افراد کے مابین شادی کو قانونی درجہ دلانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں اور اس سلسلے میں انہیں اس بل کی صورت میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق ۵۵ سے ۶۰ فیصد فرانسیسی ایک ہی جنس کے افراد کے مابین شادی کے حامی ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں سزائے موت کے خاتمہ کے بعد سے بل کا یہ مسودہ فرانس کی تاریخ میں سب سے بڑی سماجی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔‘‘

یہ رپورٹ اپنے مفہوم اور مقصد دونوں حوالوں سے واضح ہے اور اربابِ فہم و دانش جانتے ہیں کہ مغربی ممالک میں فرانس نے ہی سب سے پہلے سماج کی مذہبی قدروں کے خلاف بغاوت کر کے سوسائٹی کی من مانی خواہشات کو تمام احکام و قوانین کی واحد بنیاد بنایا تھا۔ جسے قرآن کریم نے ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں نے ’’افراَیت من اتخذ الٰہہ ہواہ‘‘ خواہشات کو اپنے لیے الٰہ کا درجہ دے رکھا ہے۔

چنانچہ آج بھی اس خواہش پرستی کی طرف فرانس ہی مغربی دنیا کی قیادت کر رہا ہے کہ اس خواہش پرستی کے فلسفہ میں ’’جنسی خواہش ‘‘ کو ایک ذاتی مقصد قرار دے کر اسے پورا کرنے کے تمام ذرائع کو رفتہ رفتہ جواز کی سند دی جا رہی ہے۔ جبکہ آسمانی تعلیمات اور اسلامی احکام و قوانین میں جنسی خواہش کو ذاتی مقصد نہیں بلکہ خاندان کی تشکیل کے لیے ذریعہ بتایا گیا ہے اور اسی لیے جنسی خواہش کی تکمیل کی ہر اس صورت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے جو خاندان کے وجود، تشکیل اور تقدس کے منافی ہو۔ مگر روحانیات اور وجدانیات کے ذوق سے محروم افراد اور قوموں کو اس اجتماعی مقصدیت کا ادراک و احساس آخر ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ شاعر نے شاید اسی بد ذوقی کے حوالہ سے کہا تھا کہ؂

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
   
2016ء سے
Flag Counter