رؤیت ہلال کا مسئلہ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے ریمارکس

   
۲۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء

رؤیت ہلال کا مسئلہ اس بار پھر تنازع کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے اور اس کی بازگشت سپریم کورٹ کے ایوانوں میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔

  • ۲۳ ستمبر (۲۹ شعبان) کو مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن نے اعلان کیا کہ ملک کے کسی بھی حصے سے چاند دیکھے جانے کی شہادت موصول نہیں ہوئی اس لیے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ یکم رمضان المبارک ۲۵ ستمبر کو پیر کے روز ہو گی۔
  • جبکہ صوبہ سرحد کے وزیر مذہبی امور مولانا امان اللہ حقانی کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے، پشاور میں علماء کے سامنے چاند دیکھنے جانے کی شہادتیں پیش کی گئی ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے ۲۴ ستمبر اتوار کو یکم رمضان المبارک قرار دینے کا اعلان کیا اور اسی روز پہلا روزہ رکھا۔

چنانچہ ان دو اعلانات کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں رمضان المبارک کا آغاز پیر سے ہوا، مگر صوبہ سرحد کے بعض حصوں میں اس سے ایک دن قبل اتوار سے رمضان المبارک شروع ہو گیا تھا۔ اب جوں جوں عید الفطر نزدیک آرہی ہے یہ مسئلہ دوبارہ بحث و مباحثہ کا موضوع بن رہا ہے اور صوبہ سرحد سے بھی اس کے بارے میں دو مختلف ردعمل سامنے آچکے ہیں۔ مردان کے ایک خطیب مولانا محمد خان صاحب نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی ہے کہ چونکہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی ایک آئینی ادارہ ہے اس لیے عدالت عظمی اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کو لازمی قرار دے اور اس کے بغیر کسی ادارے کی طرف سے رؤیت ہلال کے اعلان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ مگر سپریم کورٹ آف پاکستان کے پشاور کے بنچ نے، جو جسٹس سردار محمد رضا خان اور جسٹس ناصر الملک پر مشتمل ہے، یہ کہہ کر اس درخواست کو نامنظور کر دیا ہے کہ عوام کی مرضی ہے کہ وہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان پر عمل کریں یا رؤیت ہلال کے سلسلہ میں کسی پرائیویٹ کمیٹی کے اعلان کو قبول کریں، اس لیے اس سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

دوسری طرف صوبہ سرحد کے قدیمی دارالافتاء نجم المدارس کلاچی (ضلع ڈیرہ اسماعیل خان) کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ روزے، اعتکاف اور عید کے سلسلہ میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا اعلان ہی معتبر ہے، اور چونکہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی تمام مسالک کے جید علماء کرام پر مشتمل ہے، اس لیے اس سلسلہ میں اسی کے اعلان کو قبول کیا جانا چاہیے اور سب کو اسی پر عمل کرنا چاہیے۔

پشاور اور بعض دیگر علاقوں میں اس سے قبل بھی باقی ممالک سے ایک روز قبل روزہ رکھنے اور ایک روز قبل عید کرنے کی روایت چلی آرہی ہے ،اور ایسا کرنا کئی بار ہو چکا ہے، لیکن اس بار صوبہ سرحد کی حکومت کے اس سلسلے میں خود فریق بننے، سپریم کورٹ میں اس مسئلے کے اٹھائے جانے، اور ایک اہم دارالافتاء کی طرف سے اس مسئلہ پر واضح اظہار رائے کے بعد اس بحث نے نئی صورت اختیار کر لی ہے اور بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جن پر اہل علم کو توجہ دینی چاہیے اور قوم کی راہنمائی کرنی چاہیے۔ ان میں سے ایک دو سوالات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

جہاں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا تعلق ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ صدر محمد ایوب خان کے دور تک صورتحال یہ تھی کہ اگرچہ سرکاری طور پر چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کیا جاتا تھا لیکن چونکہ اس کا نظم صرف سرکاری ہوتا تھا اس لیے عام طور پر اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا تھا اور ہر علاقے میں علماء کرام اپنے طور پر چاند دیکھنے کا اہتمام کر کے اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ اس صورت میں اکثر ایسے ہو جاتا تھا کہ:

  • ایک شہر میں عید ہو رہی ہے مگر اس سے تھوڑے فاصلے پر دوسرے شہر میں عید نہیں ہے۔
  • یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک مسلک کے لوگ روزے رکھے ہوئے ہیں مگر دوسرے مسلک کے لوگوں کی عید ہے۔
  • یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک شہر کے کچھ لوگ عید منا رہے ہیں اور اسی شہر کے باقی لوگوں کا روزہ ہے۔
  • بلکہ ایک بار گوجرانوالہ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ خود ہمارے دیوبندی مسلک کے بعض علماء کرام نے عید کی اور اسی مسلک کے دوسرے علماء عوام کو روزہ رکھوائے ہوئے تھے۔

یہ صورتحال پریشان کن ہو گئی تھی اور ہر طرف افراتفری کی کیفیت ہو جایا کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی روزے یا عید کے سرکاری اعلانات سے اختلاف کی پاداش میں بعض علمائے کرام کے خلاف کاروائی بھی ہوئی تھی اور بدمزگی کی ایک اور شکل پیدا ہو جایا کرتی تھی۔ چنانچہ ایک سال عید کے سرکاری اعلانات سے اختلاف کی وجہ سے چار بڑے بڑے علماء کرام (۱) مولانا غلام غوث ہزاروی (۲) مولانا احتشام الحق تھانوی (۳) مولانا سید ابوالاعلی مودودی (۴) مولانا مفتی محمد حسین نعیمی گرفتار ہوئے اور کم و بیش ایک ماہ نظر بند رہے۔ اس دور میں روزے یا عید کا سرکاری اعلان تو متنازعہ سمجھا ہی جاتا تھا ،مگر آپس میں ایک دوسرے کے اعلانات پر بھی اعتماد نہیں کیا جاتا تھا اور ہر شہر اور ہر مسلک کے علماء کرام چاند دیکھے جانے کے بارے میں خود اپنی تسلی ضروری تصور کرتے تھے جس سے روزے یا عید کے حوالے سے ملک بھر میں خلفشار کی کیفیت پیدا ہو جایا کرتی تھی۔

اس پس منظر میں کچھ اصحاب فکر نے دونوں وجوہ کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلے کا حل پیش کیا کہ روزے یا عید کا اعلان تو سرکاری طور پر ہی ہونا چاہیے تاکہ باہمی خلفشار سے بچا جا سکے لیکن یہ اعلان سرکاری اہل کاروں کی طرف سے نہ ہو بلکہ اس کے لیے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کی ایک مشترکہ کمیٹی قائم کر دی جائے جو چاند کے دیکھے یا نہ دیکھے جانے کا شرعی اصولوں کے مطابق فیصلے کرے، اور اس کا اعلان بھی وہی کرے لیکن اس کے اعلان کو سرکاری اعلان کی حیثیت حاصل ہو تاکہ اس پر ملک بھر میں یکساں طور پر عملدرآمد ہو سکے۔

مجھے یاد ہے کہ مسئلہ کے اس حل کو عملی صورت میں لانے کے لیے حضرت مولانا مفتی محمودؒ سب سے زیادہ فکرمند تھے، انہی کی کوششوں سے مختلف مکاتب کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا سرکاری طور پر قیام عمل میں لایا گیا تھا، اور اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ صورتحال پیدا ہو گئی تھی کہ پشاور، مردان اور بعض دیگر علاقوں میں اگرچہ اس سے ہٹ کر فیصلہ کیا جاتا تھا اور اس پر عمل بھی ہوتا تھا لیکن باقی پورے ملک میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے مطابق روزے اور عید کا اہتمام متفقہ طور پر ہونے لگ گیا تھا۔ اس سے قبل ہمارے ہاں پشاور کی مسجد قاسم علی خان کی طرح گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد اس سلسلے میں سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی اور روزے یا عید کا چاند دیکھنے اور اس سلسلے میں شہادتیں لے کر فیصلہ کرنے کے لیے علماء کرام، استاد العلماء حضرت مولانا مفتی عبدالواحدؒ کے پاس جمع ہو جایا کرتے تھے۔ بسا اوقات ساری ساری رات بحث و مباحثے میں گزر جایا کرتی تھی اور فیصلہ نہیں ہو پاتا تھا، لیکن مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے قیام کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔

میں نے اگلے سال ایسے موقع پر حضرت مولانا مفتی عبدالواحدؒ سے عرض کیا کہ کیا حسب سابق علماء کرام سے رابطے کیے جائیں تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں، اب ہم مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر عمل کریں گے۔ چنانچہ اس کے بعد سے ایسا ہو رہا ہے کہ الگ طور پر چاند دیکھنے یا اس کے بارے میں فیصلے کرنے کی قدیمی روایت ترک ہو گئی ہے۔ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے ہم اس پر عمل کرتے ہیں، اور کم و بیش پورے ملک میں مذکورہ بالا استناء کے ساتھ اب صورتحال یہی ہے۔ میرے خیال میں اس مسئلے میں خلفشار کی نئی صورت صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے اس سلسلے میں مبینہ طور پر فریق بننے سے رونما ہوئی ہے، ورنہ پشاور، مردان اور دیگر بعض قبائلی علاقوں میں ہر سال الگ سے روزہ اور عید کا فیصلہ کیے جانے کے باوجود ملک بھر میں روزہ اور عید کے سلسلہ میں اتفاق صورت پیدا ہو گئی تھی، اور بعض علاقوں کے اختلافات کو ان کا ’’تفرد‘‘ سمجھ کر گوارا کر لیا گیا تھا، لیکن متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت نے چاند کے مسئلے پر فریق بن کر اس ’’تفرد‘‘ کو باقاعدہ ’’تنازع‘‘ کی شکل دے دی ہے۔

یہاں دو سوالات غور طلب ہیں جن کی طرف اہل علم کو توجہ دلا رہا ہوں:

  1. ایک یہ کہ خود علماء کرام اور دینی جماعتوں کی مرضی کے مطابق مرکزی سطح پر جید علماء کرام پر مشتمل رؤیت ہلال کمیٹی کی تشکیل کے بعد کیا کسی شہر میں الگ طور پر رؤیت ہلال کے اہتمام کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ اور اگر اس الگ اہتمام کی صورت میں عوام کی خلفشار پیدا ہوتا ہو، کیا ایسے الگ اہتمام کو باقی رکھنے کا کوئی جواز ہے؟
  2. اور دوسرا یہ کہ جب مرکزی سطح پر چاند کا اعلان حکومت نہیں بلکہ جید علمائے کرام کی کمیٹی کرتی ہے اور اسے ہی سرکاری اعلان تصور کیا جاتا ہے، تو کیا صوبہ سرحد کی حکومت کا اس میں فریق بن کر اپنی طرف سے فیصلے کا اہتمام کرنا درست ہے،؟

فقہ اسلامی کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے ان دونوں باتوں سے اختلاف ہے اور میں انہیں درست نہیں سمجھتا ،اور اسی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے پشاور بنچ کے دو معزز ججوں کے ریمارکس کے بارے میں تحفظات رکھتے ہوئے نجم المدارس کلاچی کے فتوٰی کو درست تصور کرتا ہوں۔ اس سلسلہ میں اور بھی بہت سے سوالات ہیں اور اگر کسی صاحب علم نے سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ دی تو ان کے بارے میں بھی کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالی۔

   
2016ء سے
Flag Counter