مکتوب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وبعد!
کچھ عرصہ سے اخبارات اور جرائد میں حضرت والا کے فرزند ارجمند کے نظریات ورجحانات پر کچھ علماء واہل قلم اپنے اپنے انداز میں تحفظات بلکہ واضح انداز میں تنقید واعتراضات رقم کر رہے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان محررین کی آپ کے صاحبزادے سے ملاقات اور آمنے سامنے گفتگو بھی ہوئی یا نہیں، کیونکہ حق تو یہ ہے کہ صاحب کلام سے اس کے کلام کی توضیح پوچھی جائے، لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ ’’عیاں را چہ بیاں‘‘ اور صریح بات میں نیت نہیں پوچھی جاتی۔ ممکن ہے کہ ناقدین وجارحین نے صاحبزادہ کے کلام میں اسی وجہ سے ان سے وضاحت لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو، لیکن بہر صورت ’صاحب البیت ادریٰ بما فیہ‘ کے تحت اس سب کچھ کو آپ سے بڑھ کوئی نہیں جان سکتا۔
آپ حضرات کی دعاؤں سے بندہ کی یہ طبیعت ہے کہ ایسے کسی مسئلہ میں جب تک خود صاحب واقعہ یا اس کے انتہائی قریبی شناسا سے بات چیت نہ ہو جائے، اپنی حتمی رائے قائم نہیں کرتا بلکہ سرے سے اس میں گفتگو اور بحث ومباحثہ ہی نہیں کرتا۔ آج کل مدارس میں بین الاساتذہ وبین الطلبہ یہ گفتگو کثرت سے چل رہی ہے۔ بندہ ہمیشہ ہی خاموشی سے ایک طرف اور کنارہ کش ہو جاتا ہے، لیکن دل میں کسک بہرحال رہتی ہے۔ امید ہے کہ آپ کے ذریعے سے یہ بھی ختم ہو جائے گی۔
مدرس جامعہ حنفیہ، بورے والا
جواب مکتوب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزارش ہے کہ ہمارے ہاں بد قسمتی سے یہ مزاج پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ رائے کا اختلاف، تحقیق سے پیدا ہونے والا اختلاف اور علمی مسائل میں تحقیق وتجزیہ کا معاملہ ذاتی پسند وناپسند اور مخالفت وعناد کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور ہم جس سے کسی مسئلہ پر اختلاف کرتے ہیں، اسے کسی نہ کسی دشمن کا ایجنٹ اور گماشتہ قرار دیے بغیر خود اپنے موقف کی سچائی پر ہمارا اعتماد قائم نہیں ہوتا۔
تحریک پاکستان میں قیام پاکستان کی حمایت ومخالفت میں دونوں طرف ہمارے بزرگ تھے اور ارباب علم وفضل تھے، مگر اس دور کا لٹریچر ایسے الزامات سے بھرا پڑا ہے جس میں ایک جانب کے بزرگوں کو ہندوؤں کا ایجنٹ کہا گیا اور دوسری طرف کے بزرگوں کو انگریزوں کا آلہ کار قرار دیا گیا ہے۔ ۷۰ء کے انتخابات کے موقع پر ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگایا جس پر بہت سے بزرگوں نے کفر کا فتویٰ صادر کر دیا۔ اس فتویٰ سے حضر ت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور دیگر سیکڑوں علماء کرام نے اختلاف کیا کہ اسے اصطلاح وتعبیر کی غلطی تو کہا جا سکتا ہے، مگر اسے کفر قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس اختلاف پر ہمارے ان بزرگوں کو ’’سوشلسٹ علماء‘‘، ’’سرخ ملا‘‘ اور کمیونسٹوں کے ایجنٹ کے جن خطابات سے نوازا گیا، اس کی بھرمار کی ایک جھلک اس دور کے دینی جرائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ابھی چند سال قبل حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اسلامی بینکاری کے بارے میں اپنا اجتہادی نقطہ نظر پیش کیا تو اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سیمینار میں ملک کے ایک مقتدر دانش ور نے ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ عالمی یہودی سرمایہ داروں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں جس پر میں نے اسی محفل میں اس طرز عمل سے اختلاف کیا کہ کسی علمی اختلاف پر اس قسم کا رویہ اختیار کرنا درست نہیں ہے اور الزام تراشی اور طعن وتشنیع کی زبان قطعی طور پر علمی زبان نہیں ہے، مگر یہ رویہ جو قطعی طور پر غیر علمی اور غیر شریفانہ طرز عمل ہے، ہمارے ہاں مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے اور اسے ہمارے بعض جرائد پروان چڑھانے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔
عزیز م عمار خان سلمہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کتاب کی دنیا کا آدمی ہے، مطالعہ وتحقیق اس کا ذوق ہے اور علمی مسائل پر گفتگو اس کا معمول ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اس کوچے میں قدم رکھے گا اور آگے بڑھے گا، اسے کسی مسئلہ پر اختلاف بھی ہوگا اور وہ اس کا اظہار بھی کرے گا۔ اس کا حل طعن وتشنیع، فتویٰ بازی اور الزام تراشی نہیں ہے بلکہ علم وتحقیق کی زبان میں اس سے اختلاف کرنا ہے اور میں خود بھی بعض مواقع پر اس سے اختلاف کرتا ہوں۔
میرا ذوق یہ ہے کہ جہاں خود اختلاف کا حق استعمال کرتا ہوں، وہاں دوسروں کو بھی اختلاف کا حق دیتا ہوں۔ رائے کے اختلاف کو رائے کے اختلاف تک محدود رکھتا ہوں اور اسے ذاتی مخالفت یا دشمنی تک آگے نہیں جانے دیتا۔ مجھے اس کوچے میں نصف صدی گزر گئی ہے اور سب دوست جانتے ہیں کہ میں نے اختلاف کا حق استعمال کرنے یا دوسروں کو اختلاف کا حق دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ سادہ سی بات ہے کہ جب میں علمی دنیا کے ہر شخص کو اختلاف کا حق دیتا ہوں اور اس کا احترام کرتا ہوں تو عمار خان کو اس حق سے صرف اس لیے محروم نہیں کر سکتا کہ وہ میرا بیٹا ہے۔
عمار خان سلمہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ میرے بعض دوستوں اور عزیزوں کو اصل اختلاف میرے کسی طرز عمل سے ہوتا ہے اور نجی محفلوں میں وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن مجھ سے براہ راست اختلاف کرنے یا میرے بارے میں اپنی مخصوص زبان استعمال کرنے کی بجائے وہ یہ نزلہ بھی عمار خان پر گرا دیتے ہیں، اس لیے اسے دوہرے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔
بہرحال عمار خان کی بعض آرا سے دوسرے دوستوں کی طرح مجھے بھی اختلاف ہوتا ہے، لیکن وہ صرف اختلاف ہوتا ہے، اسی طرح کا اختلاف جیسا اختلاف میں خود والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ ، قائد محترم حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ سمیت اپنے بہت سے بزرگوں سے کیا کرتا تھا۔ یہ سیاسی مسائل میں بھی ہوتا تھا، علمی معاملات میں بھی ہوتا تھا اور دینی تعبیرات میں بھی ہوتا تھا اور یہ بزرگ اس اختلاف کو سنتے تھے، دلیل کے ساتھ بحث کرتے تھے، جو بات انھیں قبول نہیں ہوتی تھی، اس کے بارے میں کہہ دیتے تھے کہ انھیں اس سے اتفاق نہیں ہے، لیکن انھوں نے کبھی اختلاف کی حوصلہ شکنی نہیں کی، طعن و تشنیع کی زبان استعمال نہیں کی اور اپنا نقطہ نظر مسلط کرنے میں سختی نہیں کی۔ وکفی بہم قدوۃ!
میری سب ناقدین سے گزارش ہے کہ وہ ضرور اختلاف کریں، تنقید کریں اور اپنے موقف کا کھل کر اظہار کریں جس کے لیے ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات بھی ہمیشہ کی طرح حاضر ہیں، مگر صرف ایک چھوٹی سی درخواست کے ساتھ کہ