صدر جنرل پرویز مشرف بھارت کے کامیاب دورے سے واپس آگئے ہیں اور ان کے دورے کے مختلف پہلوؤں پر قومی اور بین الاقوامی پریس میں گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے۔ جس رات جنرل پرویز مشرف آگرہ سے واپس اسلام آباد آئے صبح کے اخبارات کی جلی سرخیوں میں دورے کو ناکام قرار دے کر بھارت کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا جبکہ ایک دو روز کے بعد دورے کو ناکام کی بجائے نامکمل کہنا شروع کر دیا گیا۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دورہ نامکمل تھا نہ ناکام، بلکہ صدر مشرف نے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو وہ اس دورے سے حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ آگرہ سے اپنے مشن میں کامیاب ہو کر واپس لوٹے ہیں۔
صدر پرویز مشرف نے پہلے ایسے حالات پیدا کیے کہ بھارت خود انہیں دہلی آنے کی دعوت دے اور اس کے لیے ان کی ”گوادر ڈپلومیسی“ کامیاب رہی۔ کیونکہ گوادر اور عوامی جمہوریہ چین کا تعلق ظاہر کر کے انہوں نے امریکہ بہادر کے سر پر خطرے کی گھنٹی بجا دی جس سے بھارت پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور یوں جنرل پرویز مشرف کو مذاکرات کی دعوت دینے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ کار باقی نہ رہا۔ بہت سے دوستوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ بیٹھے بٹھائے بھارت کو کیا ہوا کہ اس نے پاکستان میں فوجی حکومت کے حوالے سے اپنے روایتی طرز عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو نہ صرف مذاکرات کے لیے دہلی بلا لیا بلکہ ان کے استقبال اور آؤ بھگت میں بھی پورے جوش و خروش کا مظٖاہرہ کیا- مگر جب ان سے عرض کیا گیا کہ وہ اسے جنرل پرویز مشرف کی ”گوادر ڈپلومیسی“ کے پس منظر میں دیکھیں تو انہیں اس دورے کے پس پردہ حقائق کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ جنرل پرویز مشرف نے دورہ بھارت میں ہر جگہ کشمیر کا ذکر کیا اور مذاکرات میں بھی کشمیر ہی کے ذکر کو مقدم رکھا، حتیٰ کہ وہ بھارت کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو مشترکہ اعلامیہ میں اس کا تذکرہ شامل کرنے پر قائل کرنے میں ابتدائی مرحلہ میں کامیاب بھی ہو گئے۔ مگر بھارت کشمیر کو متنازعہ معاملہ، بلکہ نفس مسئلہ تسلیم کرنے میں بھی متردد رہا- اس طرح صدر پاکستان عالمی سطح پر پاکستان کے اس موقف کو پھر سے اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازعہ کشمیر پر ہے۔ یہ مسئلہ حل ہوئے بغیر دونوں ملکوں کے تعلقات کا معمول پر آنا اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی کا کم ہونا ممکن نہیں، جبکہ بھارت اس مسئلہ کو حل کرنے بلکہ اسے متنازعہ تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں ہے اور اس کی یہی ہٹ دھرمی دراصل کشیدگی کو کم کرنے اور باہمی تصادم کو روکنے کے امکانات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے تنازعہ کشمیر کے تذکرہ کے بغیر مشترکہ اعلامیہ کو قبول کرنے کی بجائے اعلامیہ کے بغیر واپس آنے کو ترجیح دے کر کشمیری عوام اور پاکستان کی رائے عامہ کو اپنے بارے میں یہ اعتماد دلا دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی اور کشمیری عوام کے موقف کے ساتھ واضح کمٹمنٹ رکھتے ہیں اور اسے بلاجھجک ہر فورم پر پیش کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہیں۔ اور اسی طرح صدر پاکستان نے تحریک آزادی کشمیر اور اس کی پشت پناہی کرنے والی پاکستانی رائے عامہ کو نیا حوصلہ اور اعتماد بخشا ہے جسے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی فورم پر ان کے جذبات و احساسات کی کماحقہ ترجمانی نہیں کر پاتی اور پاکستانی حکومتیں مسئلہ کشمیر پر قومی موقف اور بین الاقوامی مصلحتوں کے درمیان ترجیحات طے کرنے میں اکثر و بیشتر لچک کا مظاہرہ کر جاتی ہیں۔
بھارت کے پاس سب سے بڑا پوائنٹ ”سرحد پار دہشت گردی“ کا ہے جسے وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کے ساتھ نتھی کر کے پیش کر رہا ہے اور بین الاقوامی رائے عامہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اصل بات ”دہشت گردی کی روک تھام“ کی ہے جس میں پاکستان تعاون کے لیے تیار نہیں۔ لیکن اس کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ کشمیری عوام کی جن مسلح کاروائیوں کو ”دہشت گردی“ قرار دے رہا ہے ان کا تعلق کشمیری عوام کی اس تاریخی جدوجہد سے ہے جو وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے لیے خود ارادیت کا مسلمہ حق حاصل کرنے کے لیے گزشتہ نصف صدی سے جاری رکھے ہوئے ہیں، اس لیے مسئلہ کشمیر کے تنازعہ کو حل کیے بغیر ان عسکری کارروائیوں کو دہشت گردی قرار دلوانا آسان بات نہیں ہے۔ جبکہ جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کرنے میں بھارت کے انکار کو ایک بار پھر ”فلیش“ کر کے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ کشمیر میں عسکری کارروائیوں کا تعلق کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی سے ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کا دارومدار بھارت کے طرز عمل پر ہے اس لیے ان عسکری کارروائیوں کی جن کو بھارتی حکومت دہشت گردی قرار دے رہی ہے بالواسطہ طور پر ذمہ داری خود بھارت پر عائد ہوتی ہے۔
اس لیے ہماری ناقص رائے صدر جنرل پرویز مشرف کا دورہ بھارت کامیاب رہا کیونکہ اس سے انہوں نے جو مقاصد حاصل کیے ہیں وہ شاید کسی ”گول مول مشترکہ اعلامیہ“ کی صورت میں حاصل نہ ہو پاتے۔ البتہ اب اصل ضرورت اس حوالے سے مستقبل کی منصوبہ بندی کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ صدر پرویز مشرف اگر آئندہ بھی اسی سنجیدگی اور منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کا احساس دلانے میں یقینا کامیاب ہوجائیں گے۔