مسلمانوں سے قرآن کریم کے چند تقاضے

   
تاریخ : 
۵ مئی ۲۰۲۰ء

رمضان المبارک قرآن کریم کا مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کی سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے، سنا جاتا ہے اور عالم اسلام میں ہر طرف قرآن کریم کی بہار کا سماں ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی نازل کردہ یہ آخری کتاب قیامت تک نسل انسانی کی ہدایت اور راہنمائی کا محور و مرکز ہے اور ہر دور میں اس کا یہ فیضان جاری رہتا ہے۔ اس موقع پر قرآن کریم کے چند تقاضوں کی طرف خصوصی توجہ و تذکیر کی ضرورت ہے جو کلام اللہ نے خود ہم سے کیے ہیں، مثلاً:

  1. ارشاد باری تعالٰی ہے ’’فاقرءوا ما تیسر من القرآن‘‘ قرآن کریم جتنا پڑھ سکو اس کی تلاوت کیا کرو۔ قرآن کریم کا امتیاز یہ ہے کہ اس کے الفاظ کی قراءت بھی ضروری ہے اور مستقل عبادت ہے۔ اس کے ہر حرف کے پڑھنے اور سننے پر کم از کم دس نیکیاں ملتی ہیں اور یہ قراءت اور سماع مسلمان کے معمولات زندگی میں شامل رہنا ضروری ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ جس مسلمان کے یومیہ معمولات میں تلاوت قرآن کریم شامل نہیں ہے اس کا سینہ اجڑے ہوئے گھر کی طرح ہے۔
  2. قرآن کریم کا دوسرا تقاضہ ہے کہ ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘ قرآن کریم کو صحیح تلفظ اور لہجے کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہر زبان کا اپنا لہجہ اور تلفظ ہوتا ہے، اگر کسی لفظ کو صحیح طرح نہ بولا یا پڑھا جائے تو اس کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ بیان کے دوران کوئی نوجوان میری گفتگو قلمبند کر رہا تھا، میں نے سوال کیا کہ بیٹا کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگا کہ آپ کی گفتگو کے نوٹس لے رہا ہوں، لیکن تلفظ ایسے کیا کہ Notice۔ میں نے کہا بیٹا ’’نوٹس لینا‘‘ تھانے والوں کا کام ہے تمہارا نہیں، تم نوٹس Notes لے لو تو ٹھیک رہے گا۔ اب بولنے میں تلفظ کے بدلنے سے لفظ کا معنٰی بدل گیا ، ایسا ہر زبان میں ہوتا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ قرآن کریم میں ایسا ہو جائے تو بسا اوقات صرف معنٰی نہیں بدلتا بلکہ ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ صحیح لہجے میں پڑھنا ضروری ہے ورنہ ثواب کی بجائے گناہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ باقاعدہ سیکھے بغیر نہیں ہو سکتا۔ جس طرح انگریزی الفاظ اسپیلنگز سیکھے بغیر سمجھ نہیں آتے، قرآن کریم کا تلفظ بھی سیکھے بغیر صحیح نہیں ہوتا، جبکہ قرآن کریم کا تقاضہ ہے کہ مجھے صحیح تلفظ کے ساتھ اور صحیح لہجے میں پڑھو۔
  3. قرآن کریم کا تیسرا تقاضہ یہ ہے کہ ’’بل ھو اٰیات بینات فی صدور الذین اوتوا العلم‘‘ قرآن کریم کی آیات مبارکہ اہل علم کے سینوں میں ہوتی ہیں۔ حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ نے اس آیت کریمہ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ قرآن کریم کی اصل جگہ سینہ ہے، کتابت امر زائد ہے۔ یعنی قرآن کریم کا اصل حق یہ ہے کہ اسے یاد کیا جائے اور سینہ میں محفوظ کیا جائے۔ قرآن کریم پورا یاد ہو تو بڑی سعادت کی بات ہے، دنیا میں ہر دور میں لاکھوں حفاظ کرام موجود چلے آ رہے ہیں، اب شاید کروڑوں میں ہوں کہ اب سے دس سال قبل ایک امریکی ادارے کے سروے کے مطابق دنیا میں قرآن کریم کے حافظوں کی تعداد تیس ملین کے لگ بھگ تھی۔ لیکن اگر کوئی مسلمان سارا قرآن کریم یاد نہ کر سکے تو اتنا کم از کم اسے ضرور زبانی یاد ہونا چاہیے کہ پانچ وقت کی نماز کے فرائض و سنن سنت کے مطابق پڑھ سکے اور وقتاً فوقتاً قرآن کریم کے کسی نہ کسی حصے کی زبانی تلاوت کر سکے۔
  4. قرآن کریم کا چوتھا تقاضہ یہ ہے کہ ’’حتی تعلموا ما تقولون‘‘ کہ جو پڑھ رہے ہو وہ تمہیں سمجھ بھی آ رہا ہو، یعنی قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھو۔ سادہ سی بات ہے کہ جب قرآن کریم ہماری ہدایت کے لیے ہے، راہنمائی کے لیے ہے اور تعلیم کے لیے ہے تو اسے پڑھتے ہوئے سمجھنا بھی ضروری ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالٰی کا پیغام ہے اور ہمارے لیے ہے، تو پیغام کسی کا بھی ہو اس کا پہلا حق اسے سمجھنا ہوتا ہے کہ پیغام بھیجنے والے نے ہم سے کیا کہا ہے اور کیا تقاضہ کیا ہے۔ قبول کرنا اور عمل کرنا اس کے بعد کی بات ہے مگر سمجھنا سب سے پہلے ضروری ہوتا ہے۔ مگر ہماری عمومی حالت کیا ہے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی ہم سے مخاطب ہیں اور ہم جانتے ہوئے بھی کہ ہمارا خالق و مالک ہم سے بات کر رہا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، حتٰی کہ اسے سمجھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ جبکہ نماز میں ہم اللہ تعالٰی سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور وہ بھی ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں اور ہم خود سمجھ نہیں رہے ہوتے کہ ہم اپنے خالق و مالک سے کیا کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تم قرآن کریم پڑھتے ہو تو تمہیں سمجھ کر پڑھنا چاہیے، اس لیے عربی زبان اور قرآن کریم کے ترجمہ کے ساتھ ہر مسلمان کا اتنا تعلق بہرحال ضروری ہے کہ وہ جب قرآن کریم پڑھ رہا ہو تو سمجھ بھی رہا ہو کہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔
  5. قرآن کریم کا ایک بنیادی تقاضہ ہم سے یہ بھی ہے، جس کا ذکر اللہ تعالٰی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب اس لیے اتاری ہے ’’انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس‘‘ تاکہ آپ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلے کریں اور حکم کریں۔ یعنی یہ حکم اور فیصلوں کی کتاب ہے، قانون اور ضابطوں کی کتاب ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو اپنی زندگی کے تمام معاملات طے کرنے چاہئیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام معاملات میں ہدایات اور احکام نازل فرمائے ہیں جن پر عمل ہماری مرضی پر موقوف نہیں بلکہ مسلمان کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے۔ مثلاً حلال و حرام کے مسائل ہیں، باہمی حقوق و معاملات کے امور ہیں، فرائض و عبادات ہیں، تجارت کے احکام و قوانین ہیں، سیاست و حکومت کے قوانین ہیں، عدالت و قانون کے بارے میں ہدایات ہیں، معاشرت اور سماجیات سے متعلق راہنمائی ہے، دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات کے ضابطے ہیں، اور خاندانی زندگی میں نکاح، طلاق، وراثت اور باہمی حقوق کی تفصیلات ہیں۔ ان احکامات کی اپنے اپنے دائرے میں پابندی اور ان پر عملدرآمد ہماری دینی ذمہ داری ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن جوابدہی کرنا ہو گی۔

یہ چند تقاضے وہ ہیں جو قرآن کریم نے ہم سے خود کیے ہیں، اللہ تعالٰی ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter