زندگی کی حقیقت اور اس کیلئے فائدہ مند کام

   
جامع مسجد ختم نبوت، شام شیوپو، ہانگ کانگ
۶ مارچ ۲۰۰۹ء

(ہانگ کانگ کے علاقہ ’’شام شیوپو‘‘ کی جامع مسجد ختم نبوت میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ زندگی میں پہلی بار ہانگ کانگ میں حاضری کا موقع ملا ہے، ہانگ کانگ کی مساجد کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا شکرگزار ہوں جس کی دعوت پر یہ حاضری ہوئی ہے، اور مولانا قاری محمد طیب کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اپنے اس مرکز میں آپ حضرات کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کا اعزاز بخشا ہے اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازیں، ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں، کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق دیں، اور دین کی جو بات علم اور سمجھ میں آئے اس پر عمل کی توفیق بھی عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ میں ابھی مسجد کے ہال میں داخل ہوا تو آپ کے خطیب مولانا قاری محمد طیب صاحب جو میرے پرانے دوستوں اور ساتھیوں میں سے ہیں، آپ سے خطاب کر رہے تھے اور دینی مدارس کے حوالہ سے گفتگو فرما رہے تھے، جی چاہتا ہے کہ میں بھی اسی موضوع پر آپ سے گفتگو کروں اس لیے کہ یہ آج کی دنیا کا ایک بڑا موضوع ہے جس پر ہر سطح پر گفتگو ہو رہی ہے اور دینی مدرسہ کے کردار کے بارے میں دنیا بھر میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ عمومی اور ریاستی تعلیم کے اجتماعی دھارے سے ہٹ کر اس مدرسہ کی الگ سے ضرورت کیا ہے، سوسائٹی میں اس کا کردار کیا ہے؟ اور ہماری عملی زندگی کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے؟

  1. یہ آج کی دنیا کا ایک اہم سوال ہے کہ دینی مدرسہ کی تعلیم کا ہماری پریکٹیکل لائف کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ میں اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس بات پر غور کی دعوت دینا چاہوں گا کہ ’’لائف‘‘ کیا ہے، اور ہمارے ذہنوں میں ’’زندگی‘‘ کا تصور کیا ہے؟ کیا زندگی اور لائف دنیا میں پیدا ہو جانے سے لے کر مر جانے تک کا نام ہے؟ کیا یہ پچاس، ساٹھ یا ستر برس کی زندگی ہی صرف زندگی ہے؟ یا اس سے آگے پیچھے کسی اور زندگی کا وجود بھی ہے؟ اگر تو زندگی صرف اتنے پیریڈ کا نام ہے، جیسا کہ آج کی بہت سی اقوام یا افراد کا خیال ہے، تو ان کا یہ سوال کسی حد تک درست ہے۔ لیکن ہمارا مسلمانوں کا عقیدہ یہ نہیں ہے، ہمارے یقین اور عقیدہ کے مطابق زندگی کا اصل اور بڑا مرحلہ اس سے آگے کا ہے، ہمارے نزدیک موت فنا ہونے کا نام نہیں بلکہ ایک جہاں سے دوسرے جہاں کی طرف منتقل ہو جانے کا نام ہے، اور دنیا کا بارڈر کراس کر کے آخرت کے دور میں داخل ہونے کا نام ہے۔ اسی لیے ہم مرنے والے کے لیے یہ نہیں کہتے کہ وہ ختم ہو گئے ہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ وہ انتقال فرما گئے ہیں، یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو گئے ہیں، اور عارضی زندگی سے مستقل زندگی کی طرف رحلت کر گئے ہیں۔

    دنیا میں بے شمار لوگوں نے اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھ رکھا ہے اور اپنی تمام تر سرگرمیوں کو اسی کے دائرے میں محصور کر لیا ہے، لیکن ہمارے عقیدہ میں یہ زندگی عارضی اور ناپائیدار ہے، اور اصل زندگی وہ ہے جو مرنے کے بعد شروع ہو گی۔ اس کا ایک مرحلہ قبر کی زندگی کا ہے، برزخ کی زندگی کا ہے جو نہ جانے سینکڑوں سال کا ہے یا ہزاروں سال کا ہے۔ دوسرا پیریڈ حشر کے دن کا ہے جو پچاس ہزار سال کا بیان کیا جاتا ہے، اور تیسرا پیریڈ اس سے آگے کا ہے جو اَن لمیٹڈ ہے، غیر محدود ہے، اِدھر گئے تو ’’خالدین فیھا‘‘ اور اُدھر گئے تب بھی ’’خالدین فیھا‘‘۔ جبکہ دنیا کی زندگی کیا ہے؟ یہی چالیس، پچاس، ساٹھ، ستر اور اسی برس ہیں۔ اس کے بعد کوئی نوے تک پہنچ بھی گیا تو اس کی زندگی کیا زندگی ہے اور اس زندگی کے بارے میں قرآن کریم نے کیا خوبصورت تبصرہ کیا ہے اور اس کے مختلف مراحل کا کیا عجیب تجزیہ کیا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ دنیا کی زندگی کے پانچ مراحل ہیں، وہ بھی اس کے لیے جسے طبعی زندگی کے پچاس ساٹھ سال مل جائیں۔ ’’اعلموا انما الحیاۃ الدنیا لعب و لھو وزینۃ وتفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والاولاد‘‘ (سورہ الحدید ۲۰)۔

    • پہلا مرحلہ لعب کا ہے یعنی بچپن کا دور ہے جو کھلونوں کا دور ہے،
    • دوسرا مرحلہ لہو کا ہے یعنی کھیل تماشہ، یہ لڑکپن کا دور ہے جس میں سب سے بڑا شوق گھومنے پھرنے اور کھیل تماشے دیکھنے کا ہوتا ہے،
    • تیسرا مرحلہ زینت کا ہے، یعنی بننے سنورنے کا دور، نوجوانی کا دور جو میک اپ کا دور ہے، بیوٹی پارلر کا دور ہے اور کنگھی شیشے کا دور ہے،
    • چوتھا مرحلہ ’’تفاخر بینکم‘‘ کا ہے، یعنی باہمی مقابلہ کا دور، بھرپور جوانی کا دور اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا دور جس میں ریس اور مقابلہ ہی زندگی کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے، زندگی کے وسائل حاصل کرنے، قوت حاصل کرنے، دولت میں اضافہ کرنے اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کر نے کی فکر ہوتی ہے،
    • جبکہ زندگی کا پانچواں اور آخری دور قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’وتکاثر بینکم فی الاموال والاولاد‘‘ ریس میں تھک جانے اور ریٹائر ہو جانے کے بعد اپنی کمائی کو شمار کرنے کا دور، جس میں انسان اپنی اولاد اور اموال کو گن گن کر اور ایک دوسرے پر کثرت جتا کر خوش ہوتا رہتا ہے۔

    بس یہی زندگی ہے، اسی کا نام دنیا ہے اور قرآن کریم اسے دھوکے کا سامان کہہ کر ہم سے یہ فرماتا ہے کہ اصل زندگی آگے کی ہے اور عقلمند انسان وہی ہے جو اس دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی کی بہتری کے لیے استعمال کرے۔

  2. دوسرا سوال جس کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی کا آخرت کی زندگی کے ساتھ تناسب کیا ہے؟ دنیا کی زندگی اگر کسی کی بہت لمبی بھی ہو گئی تو اَسی نوے سے آگے کیا بڑھے گی، جبکہ قبر کی زندگی ہزاروں سال کی ہو سکتی ہے، حشر کا پیریڈ پچاس ہزار سال کا بتایا جاتا ہے، اور اس کے آگے تو اَن لمیٹڈ زندگی ہے، غیر محدود زندگی ہے۔ پھر دنیا کی زندگی کے یہ ساٹھ ستر سال ہمیں اس دنیا میں ہی ساٹھ ستر سال نظر آتے ہیں، آخرت کے مقابلہ میں اس کی حیثیت کا اندازہ قرآن کریم کے اس ارشاد کی روشنی میں کر لیں کہ ’’وان یومًا عند ربک کاَلف سنۃ مما تعدون‘‘ (سورہ الحج ۴۷) اور تیرے رب کا ایک دن ان ایک ہزار سال کی طرح ہے جو تم شمار کرتے ہو۔ اب اللہ تعالٰی کے ایک ہزار سال والے ایک دن میں اپنے ان ساٹھ ستر سال کا حساب کر لو کہ کتنے بنتے ہیں اور ان کا کیا تناسب ٹھہرتا ہے۔ قرآن کریم نے اسے بھی ایک جگہ بیان فرمایا ہے کہ تمہیں دنیا میں یہ ساٹھ ستر اور اسی سال دکھائی دیتے ہیں لیکن جب آخرت میں جا کر پیچھے مڑ کر دیکھو گے کہ کتنا رہ کر آئے ہو تو خود تمہارا کہنا یہ ہو گا کہ ’’کانھم یوم یرونھا لم یلبثوا الا عشیۃً أوضحاھا‘‘ (سورہ النازعات ۴۶) دنیا میں دن کا پہلا پہر یا پچھلا پہر رہ کر آئے ہیں، اس سے زیادہ اس زندگی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

    اسی لیے بزرگان دین اور صوفیاء کرامؒ فرماتے ہیں کہ دنیا کی زندگی کے لیے اسباب فراہم کرو اور ضرور کرو لیکن صرف اتنے جتنا یہاں رہنا ہے، لیکن جتنا عرصہ قبر میں رہنا ہے، حشر میں رہنا ہے اور اس سے آگے جانا ہے اس کے لیے بھی اسباب فراہم کرو، وسائل تلاش کرو اور اس کی تیاری کرو۔ سیدھی سی بات ہے مجھے کسی شہر میں تین دن رہنا ہے تو اس کے مطابق انتظام کروں گا، ایک سال رہنا ہے تو اس کے لیے تین دن والی تیاری نہیں ہو گی، اور اگر کہیں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کے لیے ایک سال والے انتظامات کافی نہیں ہوں گے۔ ہمارے تبلیغی دوست جماعت کے ساتھ جاتے ہیں، سہ روزہ والوں کی تیاری اور ہوتی ہے، چلہ والوں کا بندوبست اس سے مختلف ہوتا ہے، اور سال والوں کا اہتمام اس سے بھی مختلف ہوتا ہے۔ یہ کامن سینس کی بات ہے اور اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

  3. ان گزارشات کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ سکول، کالج، اور یونیورسٹی کی تعلیم کی ضرورت سے انکار نہیں ہے، ان اداروں میں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ ہماری ضرورت ہیں اور ہم ان کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔ انگلش اور مختلف دیگر زبانیں ہماری ضرورت ہے، لکھنا پڑھنا ہماری ضرورت ہے، حساب اور ریاضی ہماری ضرورت ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی ہماری ضرورت ہے، انجینئرنگ اور میڈیکل سائنس ہماری ضرورت ہے، سوشیالوجی اور بیالوجی ہماری ضرورت ہے، ان میں سے کسی مضمون کی ضرورت و اہمیت سے کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا اور ان علوم و فنون کو حاصل کیے بغیر ہم زندگی صحیح طریقے سے نہیں گزار سکتے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ سارے علوم و فنون صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے ہیں، ان میں سے کوئی علم اگلی زندگی میں ہمارے کام نہیں آئے گا۔ یہ سب کچھ اس وقت تک ہے جب تک سانس چل رہا ہے، سانس بند ہو جانے کے بعد ہمیں نہ سائنس کی ضرورت رہے گی، نہ ٹیکنالوجی کی کوئی اہمیت باقی رہے گی، اور نہ ہی انجینئرنگ اور میڈیکل ہمارے کام آئے گی، وہاں صرف ایمان، نیک اعمال، اور قرآن کریم کام آئے گا جن کی تعلیم یہ مدرسہ دیتا ہے۔

    ایک چھوٹی سی بات سے اندازہ کر لیجئے کہ سانس ختم ہونے سے قبل مریض کے گرد ڈاکٹروں کا ہجوم ہوتا ہے، مشینیں لگی ہوتی ہیں اور زندگی بچانے کے لیے ہر ممکن اسباب اختیار کیے جاتے ہیں، جو منع نہیں ہیں بلکہ زندگی کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اسباب و ذرائع اختیار کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ لیکن جونہی سانس ختم ہوا ڈاکٹر صاحبان وہاں سے اٹھ جاتے ہیں، مشینیں ہٹا لی جاتی ہیں اور کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمارا کام یہیں تک تھا، اب ہمارا کام ختم ہوا، اب مولوی صاحب کو بلاؤ کہ ان کا کام اب شروع ہو گیا ہے۔ اس لیے ہم سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے نہیں روکتے بلکہ اسے حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں، لیکن یہ عرض کرتے ہیں کہ آنے والی زندگی کے لیے بھی تیاری کرو جو اصل اور دائمی زندگی ہے، وہاں قرآن کریم کام آئے گا اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی کام آئے گی۔ آخرت کی زندگی کی کامیابی کا مدار ایمان اور اعمال صالحہ پر ہے، وہاں اس کے ساتھ سفارش اور شفاعت بھی ہو گی اور قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی شفاعت سب سے زیادہ مؤثر ہو گی۔

    جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ قیامت کے دن دو سفارشی سب سے زیادہ مضبوط سفارشی ہوں گے جو اصرار اور مان کے ساتھ سفارش کریں گے، قرآن کریم کی دو سورتوں کے بارے میں فرمایا کہ ’’لجو جتان‘‘ وہ دونوں جھگڑالو سورتیں ہیں اور اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش پر اللہ تعالٰی سے ضد اور اصرار کریں گی۔ یہ ایسے ہی سمجھ لیں جیسے دنیا میں بھی کوئی مان والا سفارشی کہہ دیتا ہے کہ اب تو میں آگیا ہوں کام کرا کے ہی جاؤں گا۔ قرآن کریم کی یہ دو سورتیں بھی بڑے مان کے ساتھ اللہ تعالٰی سے اصرار کریں گی کہ ہم تو اس شخص کو بخشوا کر ہی ہٹیں گی، یہ دو سورتیں قرآن کریم کی سب سے لمبی سورتیں ہیں سورۃ البقرۃ اور آل عمران۔ جو جناب نبی اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق جھگڑالو سورتیں ہیں، جن کا ترجمہ میں نے یہ کیا ہے کہ مان رکھنے والی سورتیں ہیں، جو اللہ تعالٰی سے اپنی سفارش منوا کر ہی ہٹیں گی۔ جبکہ خود اپنے بارے میں جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک سجدے میں پڑا رہوں گا اور سفارشیں کرتا رہوں گا جب تک میری امت کا آخری آدمی بھی جہنم سے نجات حاصل کر کے جنت میں نہیں چلا جائے گا۔

    اس لیے قبر میں اور حشر کے دن ایمان کی ضرورت ہو گی، اعمال صالحہ کی ضرورت ہو گی اور قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی شفاعت و سفارش کی ضرورت ہو گی، ان باتوں کی تعلیم یہ مدرسہ دیتا ہے اور ان کی تیاری صرف اس مدرسہ میں کرائی جاتی ہے۔ جن افراد کا اور قوموں کا آخرت کی زندگی پر یقین نہیں ہے اور وہ اس دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں ان کے نزدیک دینی مدرسہ کی تعلیم کی اہمیت نہیں ہو گی، لیکن جن کا آخرت پر ایمان ہے قبر و حشر پر ایمان ہے اور جنت و دوزخ پر ایمان ہے وہ دینی مدرسہ کی اس تعلیم کے بغیر نہیں رہ سکتے، ان کے نزدیک اس تعلیم کی ضرورت سکول و کالج کی تعلیم سے کہیں زیادہ ہے اور وہ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے ساتھ دینی مدرسہ کی تعلیم کو بھی اپنی پریکٹیکل لائف کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔

  4. اس کے ساتھ یہ بات عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ دینی مدرسہ کی تعلیم ہماری صرف آخرت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دنیا کی بھی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کی زندگی میں بھی ہم ان تعلیمات کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو یہ مدرسہ ہمیں فراہم کرتا ہے۔ ہماری دنیا کی زندگی کی بیسیوں ضروریات ہیں جو دینی مدرسہ کی تعلیم پورا کرتی ہے ان میں سے مثال کے طور پر صرف ایک کا بات سمجھانے کے لیے ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

    ہمارے معاشرے کی عام سی شکایت ہے کہ گھروں میں سکون نہیں رہا، باہمی اعتماد اور بھروسہ کم ہوتا جا رہا ہے، جھگڑے اور تنازعات بڑھ رہے ہیں، رشتوں اور کاروبار میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں اور برکت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ہم نے اس کا ایک حل سوچ رکھا ہے کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے، جادو ہو گیا ہے، کسی نے کالا علم کر دیا ہے، اور بند باندھ دیا ہے، شریکوں نے کچھ کیا ہے، پڑوسیوں نے کر دیا ہے۔ ہم یہ سوچ کر مولوی صاحب کے پاس بھاگتے ہیں کہ مولوی صاحب یہ دیکھو کہ کس نے کیا ہے اور کیا کر دیا ہے، اس کا کچھ علاج کرو۔ مولوی صاحب غریب کچھ نہ کچھ کرتا ہے، مجھے اس سے انکار نہیں کہ ہمارے گھروں میں یہ شکایات پائی جاتی ہیں اور کرنے والے کرتے بھی ہیں، ان کے اثرات بھی ہوتے ہیں اور ان کا علاج بھی ضرور ہونا چاہیے، لیکن کیا سب کچھ اسی وجہ سے ہو رہا ہے؟ مجھے اس میں کلام ہے اور میں اس بات کو نہیں مانتا کہ یہ سارا کچھ کسی کے کرنے سے ہوتا ہے، میرا خیال ہے کہ اصل بات کچھ اور ہے جس کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔

    تھوڑی دیر کے لیے غور فرمائیں کہ ہمارے گھروں میں اگر نماز کا ماحول ہو، قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہو، اللہ تعالٰی کا ذکر ہوتا ہو، جناب نبی اکرمؐ پر درود پڑھا جاتا ہو اور نیکی کی باتیں ہوتی ہوں تو اس پر کوئی غیبی مخلوق آتی ہے یا نہیں؟ یقینًا فرشتے آتے ہیں۔ جبکہ ہمارے گھروں میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے، میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا، آپ بخوبی سمجھتے ہیں، لیکن جو کچھ بھی ہوتا ہے کیا اس پر بھی کوئی غیبی مخلوق آتی ہے یا نہیں؟ یقینًا اس پر جنات آتے ہیں، شیاطین آتے ہیں۔ اب دیکھیں کہ جو بھی آئے گا وہ اپنے اثرات چھوڑ کر جائے گا، فرشتے آئیں گے تو رحمت و برکت ہو گی، شیاطین آئیں گے تو نحوست اور بے برکتی ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کون بھیجتا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ میں خود بلاتا ہوں، میں اپنے گھر کا ماحول فرشتوں والا بناؤں گا تو وہ آئیں گے اور جب وہ آئیں گے تو برکتیں اور رحمتیں ساتھ لے کر آئیں گے، لیکن اگر میں نے اپنا گھر شیاطین اور جنات کی دلچسپی والا بنا رکھا ہے تو وہی آئیں گے اور اپنے اثرات لے کر آئیں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جنات اور شیاطین تو میرے گھر میں آئیں اور اپنے اثرات لے کر نہ آئیں اور پھر واپس جائیں تو اپنے اثرات میرے گھر میں چھوڑ کر نہ جائیں۔

    میں ایک چھوٹی سی مثال سے بات سمجھانا چاہوں گا کہ اگر میرا گھر صاف ستھرا ہے، غسل خانہ اور نالیاں صاف ہیں، اور گھر کے صحن میں پھولوں کی کیاریاں ہیں تو اس پر تتلیاں آئیں گی، جگنو آئیں گے، بلبلیں آئیں گی۔ لیکن اگر میرا گھر صاف نہیں ہے، نالیاں گندی ہیں اور غسل خانہ گندا ہے تو ظاہر بات ہے کہ مکھیاں آئیں گی، مچھر آئیں گے اور کاکروچ آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس نے بھیجے ہیں، کسی نے نہیں بھیجے بلکہ میں نے خود انہیں بلوایا ہے۔ اس لیے کہ میں گھر میں تتلیوں اور جگنوؤں کا ماحول بناؤں گا تو وہ آئیں گے، اور اگر مکھیوں اور مچھروں والا ماحول رکھوں گا تو وہی آئیں گے۔ نہ تتلیاں اور جگنو کوئی بھیجتا ہے اور نہ ہی مچھر اور مکھیاں کسی کے بھیجنے سے آتے ہیں۔ میرا گھر مکھیوں، مچھروں اور کاکروچوں سے بھرا ہوا ہو اور میں گھر کی صفائی کرنے کی بجائے پڑوسیوں کو کوستا رہوں کہ انہوں نے ان سب کو میرے گھر میں دھکیل دیا ہے، تو یہ بے وقوفی کی بات ہو گی، مجھے ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے گھر کی صفائی کرنا ہو گی اور گندگی کو باہر نکالنا ہو گا، اسی طرح اگر میں اپنے گھر کو نحوست اور بے برکتی سے پاک کرنا چاہتا ہوں تو مجھے جنات اور شیاطین کے ماحول سے نکلنا ہو گا اور فرشتوں کا ماحول پیدا کرنا ہو گا، اس لیے کہ فرشتوں کا آنا جانا ہو گا تو رحمتیں نازل ہوں گی، برکتوں کا ڈیرہ ہو گا اور بے برکتی اور نحوستوں سے چھٹکارا حاصل ہو گا۔

    فرشتوں کا ماحول ہمیں قرآن کریم کی تلاوت سے ملے گا، نماز سے ملے گا، اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ملے گا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی کثرت سے ملے گا، اور یہ باتیں ہمیں دینی مدرسہ سکھاتا ہے اور ان کی تعلیم ہمیں اس مدرسہ سے ملتی ہے۔

اس لیے ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ دینی مدرسہ ہماری صرف آخرت کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا بلکہ دنیا کی بہت سی ضروریات بھی پوری کرتا ہے، اس لیے اگر ہم دنیا کی اس زندگی میں سکون چاہتے ہیں، اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں، رحمت و برکت کا نزول چاہتے ہیں، اور باہمی اعتماد و محبت کی زندگی کے طلبگار ہیں تو دینی مدارس کے ساتھ تعلق جوڑنا ہو گا، دینی مدارس قائم کرنا ہوں گے، انہیں آباد کرنا ہو گا اور ان کی تعلیمات سے استفادہ کرنا ہو گا، اللہ رب العزت ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter