جہادِ افغانستان نازک موڑ پر

   
تاریخ اشاعت: 
اپریل ۱۹۹۱ء

شعبان المعظم کے آخری ایام میں حرکۃ المجاہدین کی دعوت پر خوست جانے کا اتفاق ہوا اور افغان مجاہدین کے فوجی مراکز، (۱) مرکز حضرت عمرؓ (۲) مرکز خلیل (۳) مرکز رشید اور (۴) مرکز حضرت سلمان فارسیؓ دیکھنے کا موقع ملا۔ معروف افغان کمانڈر مولانا جلال الدین حقانی سے بھی ملاقات ہوئی۔

افغان مجاہدین ان دنوں نجیب حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کے مرحلہ میں ہیں اور خوست شہر کو فتح کرنے کے لیے کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ خوست کا شہر اور چھاؤنی فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس شہر کو پورے جنوبی افغانستان کا دروازہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے چاروں طرف سے افغان مجاہدین کے محاصرہ کے باوجود اس شہر کی حفاظت کے لیے نجیب انتظامیہ اپنا پورا زور صرف کر رہی ہے، لیکن افغان مجاہدین پرعزم ہیں کہ وہ بہت جلد اس شہر کو فتح کر کے نجیب انتظامیہ کی فوج کو شکست سے دوچار کریں گے۔

ہم ان صفحات پر اس سے قبل بعض امریکی سفارت کاروں کے حوالہ سے عرض کر چکے ہیں کہ افغانستان کے بارے میں جنیوا معاہدہ روس اور امریکہ کی اس درونِ خانہ مفاہمت کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا کہ کابل پر افغان مجاہدین کی حکومت کسی صورت میں قائم نہ ہونے دی جائے۔ اس لیے افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد افغان مجاہدین کے لیے نہ صرف امریکی امداد اور دلچسپی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے بلکہ افغان مجاہدین کے خلاف سازشوں میں بھی امریکہ پوری طرح شریک ہے۔ اور اس طرح افغان مجاہدین روسی استعمار اور اس کی ایجنٹ حکومت کے خلاف صبر آزما جنگ کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں، لیکن ان کے عزم و حوصلہ اور موقف کی صداقت کے پیش نظر ہمیں یقین ہے کہ مشکلات کا یہ دور بھی زیادہ طویل نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و امداد کے ساتھ وہ کابل پر ایک اسلامی نظریاتی حکومت کا پرچم لہرانے میں بہت جلد کامیاب ہوں گے۔ ان شاء اللہ العزیز، وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

   
2016ء سے
Flag Counter