یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ

   
تاریخ : 
۷ نومبر ۲۰۰۱ء

گزشتہ روز گلاسگو میں مجلس احرار اسلام سکاٹ لینڈ کے صدر شیخ عبد الواحد کی رہائش گاہ پر مختلف ٹی وی چینلز پر خبریں دیکھ رہا تھا۔ انگریز ی نہ جاننے والے میرے جیسے لوگوں کے لیے پاکستانی چینل پرائم ٹی وی اور سکائی ٹی وی کے اردو پروگراموں کے علاوہ اے آر وائی کا چینل موجود ہے جبکہ عربی سمجھنے والوں کے لیے قطر کا الجزیرہ ٹی وی شب و روز معلومات اور دستاویزی پروگرام اس انداز سے پیش کر رہا ہے کہ اور کسی چینل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ ایسے تو قادیانیوں کا چینل بھی ایم ٹی وی (مسلم ٹی وی احمدیہ) کے نام سے شب و روز مسلسل مصروف رہتا ہے لیکن اس کے پروگرام میں اپنے ناظرین کو حالات حاضرہ اور عالمی صورتحال سے باخبر رکھنا سرے سے شامل ہی نہیں اور اس کے تمام تر پروگرام اپنے مذہب کی تبلیغ اور اسلام کے نام پر اپنے معتقدات کو پیش کر کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش پر مشتمل ہوتے ہیں کہ حقیقی اسلام صرف ان کے پاس ہے اور ’’اصلی تے وڈے مسلمان‘‘ وہی ہیں۔

البتہ کبھی کبھی مغربی میڈیا کا رخ اور انداز معلوم کرنے کے لیے دوسرے چینلز پر بھی نظر ڈالنی پڑ جاتی ہے اور کوئی انگریزی جاننے والا دوست پاس موجود ہو تو اس کی مدد سے پکچر کے ساتھ ساتھ خبر بھی کچھ نہ کچھ پلے پڑ جاتی ہے۔ بی بی سی کا چوبیس گھنٹے خبریں نشر کرنے والا چینل سامنے تھا اور اسکرین پر چند نوعمر لڑکے اور لڑکیاں گفتگو کر رہی تھیں۔ مجھے بتایا گیا کہ لندن کے ویسٹ منسٹر کے علاقہ میں ان لڑکوں اور لڑکیوں کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر ۱۱ ستمبر کے حملوں کی فلم دکھائی گئی ہے اور ان سے باری باری ان کے تاثرات دریافت کیے جا رہے ہیں۔ ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ چودہ سال ہوگی اور غالباً کسی اسکول کی طالبہ تھی، اس کی زبان سے اسامہ بن لادن کا نام سن کر میں نے اپنے ساتھ بیٹھے دوست سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ لڑکی کہہ رہی ہے کہ گیارہ ستمبر کے یہ واقعات انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ ہیں جن پر اسے بہت صدمہ ہوا ہے، امریکہ ان واقعات کا مجرم اسامہ بن لادن کو قرار دے رہا ہے جبکہ اسامہ نے انکار کیا ہے اور امریکہ کہتا ہے کہ اس کے پاس ثبوت موجود ہیں تو ان واقعات کی فلم دکھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں وہ ثبوت اور پروف کیوں نہیں دکھائے جاتے؟ ہم وہ ثبوت بھی اس فلم کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔

امریکہ گیارہ ستمبر کے واقعات کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کو ٹھہرانے کے ثبوت پیش کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں مگر یہ بات دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے کہ خود مغرب کی رائے عامہ امریکہ کے اس دعویٰ کو کسی واضح دلیل کے بغیر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور عام آدمی حتیٰ کہ بچوں پر بھی یہ حقیقت کھلتی جا رہی ہے کہ اصل قصہ کچھ اور ہے اور امریکہ اپنے اصل اہداف پر پردہ ڈالنے کے لیے اسامہ بن لادن اور طالبان کا نام استعمال کر رہا ہے۔ ہم یہ پروگرام دیکھ کر اس پر آپس میں تبصرہ کر رہے تھے کہ شیخ عبد الواحد نے بتایا کہ برطانوی اخبار ڈیلی مرر کی تو آج کی بڑی سرخی ہی یہی ہے کہ ’’یہ جنگ فراڈ ہے‘‘۔ اور اس سرخی کے تحت ایک سینئر برطانوی کا تجزیہ شائع ہوا ہے جس میں جنگ کے اصل مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔

گلاسگو سے لندن پہنچا تو ایک اور دوست جن کا تعلق لاہور سے ہے، ڈیلی مرر کا یہ پرچہ سنبھالے میرے منتظر تھے اور مجھے اس کا ترجمہ سنانے کی تیاری میں تھے۔ ڈیلی مرر کا یہ شمارہ ۲۹ اکتوبر کا ہے اور اس کی بڑی سرخی یہ ہے کہ This war is a fraud کہ یہ جنگ فراڈ ہے۔ یہ ایک برطانوی صحافی جان پلجر (John Pilger) کے تجزیاتی مضمون کا عنوان ہے۔ جان پلجر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کا شمار برطانیہ کے سینیئر صحافیوں میں ہوتا ہے اور اب تک وہ صحافتی خدمات کے حوالہ سے چالیس کے لگ بھگ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں جن میں ’’سال کا بہترین صحافی‘‘ کا ایوارڈ بھی شامل ہے جو انہیں ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۹ء میں دوبار ملا اور ۱۹۷۰ء میں انہوں نے ’’سال کا بہترین بین الاقوامی رپورٹر‘‘ کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ جبکہ انہوں نے مڈل ایسٹ، افریقہ اور دوسرے علاقوں میں صحافی خدمات سر انجام دیں جن میں متعدد جنگوں کی رپورٹیں بھی شامل ہیں۔ جان پلجر نے اس عنوان کے تحت موجودہ صورتحال کا جو تجزیہ کیا ہے اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے بلکہ امریکہ کے خفیہ استعماری ایجنڈا کی تکمیل کے لیے ہے جس کا مقصد پوری دنیا میں نوآبادیات کا ایک نیا نظام قائم کر کے اس پر تسلط جمانا ہے۔ برطانیہ اس میں صرف معاون ہے اور وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اس جنگ میں جو رول اختیار کیا ہے اس سے برطانوی فوجوں کو ’’کرائے کے سپاہی‘‘ یا اس سے کچھ بہتر پوزیشن کے سوا کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔

یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ تین ہفتوں کی مسلسل بمباری میں کوئی دہشت گرد قتل یا گرفتار نہیں ہوا اور نہ ہی کسی مبینہ دہشت گرد کو کوئی نقصان پہنچا ہے بلکہ غریب شہری بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جھونپڑیوں، ہسپتالوں، امدادی مراکز، ریڈ کراس کے اڈوں اور خوراک کے ذخیروں پر بم گرائے جا رہے ہیں جس کا مقصد صرف عوام کو مارنا ہے اور دنیا کا سب سے طاقتور ملک سب سے کمزور اور غریب ملک کے بھوکے عوام پر بم برسا رہا ہے۔ اس جنگ میں ’’کلسٹر بم‘‘ استعمال کیے جا رہے ہیں جو صرف لوگوں کو مارنے اور آبادیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان بموں کی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ صرف عام لوگوں کو مارنے کے لیے ہی استعمال ہو سکتے ہیں اور اگر کوئی ہتھیار ریاستی دہشت گردی کے لیے سب سے زیادہ کامیاب ثابت ہو سکتا ہے تو وہ یہی بم ہے جو امریکہ افغانستان کی شہری آبادی پر یہ کہہ کر گرا رہا ہے کہ اس کا مقصد عوام کو مارنا نہیں ہے۔

گیارہ ستمبر کے واقعات میں کوئی افغانی ملوث نہیں ہے اور جن لوگوں کے اس سلسلہ میں نام لیے جا رہے ہیں ان میں ایک بھی افغانی نہیں ہے لیکن اس کی سزا افغان عوام کو دی جا رہی ہے۔ اسامہ بن لادن کو ان واقعات کا مجرم قرار دیا جا رہا ہے جو خود امریکہ کی پیداوار ہے، اسے امریکہ نے روس کے خلاف جنگ کی ٹریننگ دی اور سپورٹ کیا۔ اسے سی آئی اے نے امداد دی اور اس کی اور اس کے ساتھیوں کی ٹریننگ امریکہ اور جرمنی میں ہوئی۔

افغانستان پر جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو امریکہ نے خاموشی اختیار کی اور خفیہ طور پر طالبان حکومت سے رابطہ قائم کیا۔ یہ رابطہ امریکی ریاست ٹیکساس کے دارالحکومت ہیوسٹن کی ایک کمپنی نے کیا جس کا نام ’’یونوکال‘‘ ہے جس میں امریکی حکومت کی درپردہ خواہش اور حمایت شامل تھی۔ طالبان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ اس تجارتی کمپنی کے مذاکرات ہوئے جن کا مقصد وسطی ایشیا کی ریاستوں سے تیل اور گیس حاصل کرنے کے لیے افغانستان کے اندر سے پائپ لائن گزارنے پر طالبان کو آمادہ کرنا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ طالبان کو افغانستان میں سعودی عرب کی طرز کی حکومت اور نظام قائم کرنے پر آمادہ کر لیا جائے گا جس میں عوام کو حقوق حاصل ہوں یا نہ ہوں مگر وسطی ایشیا کے تیل کے ذخائر پر امریکی کنٹرول کے لیے افغانستان ایک کالونی کی حیثیت اختیار کر لے تو افغانستان کی تعمیر نو بھی سعودی عرب کی طرز پر کر دی جائے۔ مگر طالبان حکومت کے ساتھ امریکہ کی یہ ڈیل کامیاب نہ ہو سکی جبکہ امریکہ کی اس خطہ کے حوالے سے سب سے بڑی ترجیح یہی ہے کہ اسے وسطی ایشیا کے تیل اور گیس کا کنٹرول حاصل ہو جائے جو مڈل ایسٹ کے بعد دنیا میں تیل اور گیس کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور جن تک رسائی افغانستان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

امریکہ کی یہ جنگ صرف اس مقصد کے لیے ہے اور حیرت کی بات ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے کھلم کھلا اس عندیہ کا اظہار کر دیا ہے کہ ماڈریٹ طالبان امریکہ کی حمایت سے قائم ہونے والی کمزور سی حکومت کو قبول کر لیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کا اصل مقصد افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس پر صرف دکھاوے کے لیے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا لیبل لگا دیا گیا ہے۔ اس جنگ میں دراصل امریکی خواہشات کارفرما ہیں اور جب ہمارے لیڈر جنگ کی طوالت کی بات کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جنگ پچاس سال تک بھی جاری رہ سکتی ہے تو انسان کا سانس رک جاتا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے اس کو روکنے کا راستہ یہ نہیں ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کا دائرہ اور زیادہ وسیع ہوگا۔

گیارہ ستمبر کو امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی افسوسناک ہے مگر اس کے جواب میں افغان عوام کے خلاف دہشت گردی کے ارتکاب اس سے زیادہ افسوسناک ہے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اگر دہشت گردی کو روکنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اسلحہ کی فروخت کو روکیں۔ یہ منافقت کی انتہا ہے کہ جس روز امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اسی دن لندن کے ڈاک لینڈ کے علاقہ میں برطانوی اسلحہ کی نمائش کا افتتاح تھا۔ اس اسلحہ میں کلسٹر بم اور میزائل بھی شامل ہیں اور اس اسلحہ کی خریدار وہ حکومتیں ہیں جو اپنے عوام پر ظلم ڈھاتی ہیں، جنہوں نے اسلحہ و طاقت کے زور پر عوام کے حقوق دبا رکھے ہیں۔ یا وہ گروہ یہ اسلحہ خریدتے ہیں جو دنیا میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ برطانوی حکومت ایک طرف ایسے اسلحہ کی فروخت کا اہتمام کرتی ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگایا جاتا ہے، یہ منافقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

وزیراعظم ٹونی بلیئر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اخلاقی قدروں کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے اندر جو اخلاقی حس اور صلاحیت موجود ہے ہم اس کی بنیاد پر یہ جنگ جیت لیں گے لیکن یہ اخلاقی قدریں خودساختہ ہیں اور اسی طرح کی ہیں جیسے پرانے نوآبادیاتی دور میں استعماری قوتیں کچھ اخلاقی قدروں کو عنوان بنا کر کمزور ممالک کے خلاف جنگ کے لیے بحری بیڑے روانہ کر دیا کرتی تھیں۔ ان اخلاقی قدروں کا انتخاب استعماری قوتیں خود کرتی ہیں اور ان کی بنیاد معروضی حقائق پر نہیں بلکہ اپنے مفادات پر ہوتی ہے۔ اگر بات اخلاقی قدروں کی ہے تو وزیراعظم ٹونی بلیئر یہ بتائیں کہ انہوں نے اسرائیل سے فلسطین کے مقبوضہ علاقے آزاد کرانے کے لیے کیا کچھ کیا؟ اس کے لیے سلامتی کونسل کی واضح قرارداد موجود ہے کہ اسرائیل ۱۹۶۷ء سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلا جائے اور ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہ خالی کر دے۔ لیکن اسرائیل اس کے باوجود اپنی ضد پر قائم ہے جبکہ اقوام متحدہ کے فیصلے خاموش ہیں۔ کیونکہ اقوام متحدہ اب صرف امریکہ اور برطانیہ کا نام ہو کر رہ گیا ہے اور جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہی وہاں سے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عراق کو مسلسل بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے جہاں پانچ لاکھ بچے بھوک سے مر گئے ہیں اور معروف اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے دو سال قبل ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ کو اب عراق میں کوئی ہدف نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ شاید ہی وہاں کوئی مکان ایسا باقی رہ گیا ہو جو ان کی بمباری کا نشانہ نہ بنا ہو۔

میں عراق گیا تو ایک عورت نے مجھے بتایا کہ اس کا خاوند چرواہا تھا جو کھلے میدان میں بکریاں چرا رہا تھا، اس کے چار بچے بھی ساتھ تھے کہ اچانک دو جہاز آئے اور ان پر بم برسا کر چلے گئے جس سے اس کا خاوند اور چار بچے جاں بحق ہوگئے۔ اس عورت نے کہا کہ میں اس جہاز کے پائلٹ سے ملنا چاہتی ہوں اور اس سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس نے کیا دیکھ کر بکریوں کے اس ریوڑ اور اس کے چرواہے کو بمباری کا نشانہ بنایا تھا؟ امریکہ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے تو فلوریڈا کے ساحل کا رخ کرے جہاں سی آئی اے نے ٹارچر سیل قائم کر رکھے ہیں اور جہاں لوگوں کو لا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پھر ان مراکز کا رخ کیا جائے جہاں جنوبی امریکہ کے ظالم اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کو پناہ دی جاتی ہے اور سی آئی اے انہیں فنڈز فراہم کرتی ہے۔ یہ دہشت گردوں کے اصل مراکز ہیں جن کا خاتمہ ضروری ہے مگر اس کی بجائے کمزور ملکوں کو دبا کر اور انہیں حملوں کا نشانہ بنا کر اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا جا رہا ہے جو سراسر جھوٹ اور فراڈ ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter