فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کے حوالہ سے بعض دوستوں نے سوال کیا ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی ایسا ہوتا تھا؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ایسا اس زمانے میں بھی ہوتا تھا اور معاشی بائیکاٹ اور ناکہ بندی جنگ و جہاد کا حصہ ہی تصور کی جاتی تھیں۔ اس حوالہ سے چند واقعات کا مختصرًا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
- قریش کے تمام خاندانوں نے بنو ہاشم سے مطالبہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت و حفاظت سے دستکش ہو جائیں اور انہیں قریش کے حوالہ کر دیں تاکہ وہ اپنے پروگرام کے مطابق نعوذ باللہ انہیں شہید کر سکیں۔ بنو ہاشم کے انکار پر ان خاندانوں نے ایک معاہدہ کے تحت اجتماعی فیصلہ کیا کہ وہ بنو ہاشم اور ان کے حلیفوں کے ساتھ اس وقت تک سوشل بائیکاٹ کریں گے جب تک وہ نبی کریمؐ کو ان کے حوالے نہ کر دیں۔ اس معاہدہ میں (۱) رشتوں کا لین دین (۲) باہمی تجارت (۳) اور ایک دوسرے کے پاس آنے جانے کی ممانعت شامل تھی۔ اس کی وجہ سے نبی اکرمؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے تھے۔ یہ بائیکاٹ تین سال جاری رہا تھا جس کی بہت سی تفصیلات حدیث و تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہیں مگر یہ مہم ناکام رہی تھی۔
- اسی دوران حضرت ابوذر غفاریؓ نے نبی اکرمؐ کی خدمت میں خفیہ طور پر حاضر ہو کر اسلام قبول کیا مگر اس کا اعلان حرم مکہ میں قریش کے اجتماع میں کیا تو انہیں لوگوں نے گھیر کر مارنا شروع کر دیا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ اس زدوکوب کے باعث وہ موت کے قریب پہنچ گئے تھے کہ بنو ہاشم کے حضرت عباسؓ نے جو اس وقت اسلام نہیں لائے تھے انہیں لوگوں کے نرغے سے نکالا اور ان سے کہا کہ بنو غفار کے ایک شخص کو تم قتل کر رہے ہو یہ قبیلہ تمہارے تجارتی راستے میں ہے وہ شام کی طرف تمہاری تجارتی آمد و رفت روک دیں گے، اس پر لوگ پیچھے ہٹ گئے اور حضرت ابوذر غفاریؓ ان کی گرفت سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
- ہجرت کے بعد انصار کے بنو اوس قبیلہ کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو ابوجہل نے انہیں یہ کہہ کر عمرہ سے روکنا چاہا کہ تم لوگوں نے نعوذ باللہ ہمارے بھگوڑوں (مہاجرین) کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے میں تمہیں عمرہ نہیں کرنے دوں گا۔ حضرت سعد بن معاذؓ کے ساتھ اس موقع پر ابو جہل کا یہ تکرار بخاری شریف کی ایک روایت میں مذکور ہے جس کے مطابق جب حضرت سعد بن معاذؓ نے ابوجہل سے جب کہا کہ میرے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ کی تو ہم تمہارے تجارتی راستے میں بیٹھے ہیں میرا قبیلہ شام کی طرف تمہاری تجارتی آمد و رفت روک دے گا، اس پر ابوجہل پیچھے ہٹ گیا۔
- غزوۂ بدر اسلام کا سب سے فیصلہ کن معرکہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے ’’یوم الفرقان‘‘ فرمایا ہے۔ اس کا آغاز ہی معاشی ناکہ بندی کے پروگرام سے ہوا تھا کہ قریش کا تجارتی قافلہ حضرت ابو سفیانؓ کی سربراہی میں شام جا رہا تھا، نبی اکرمؐ نے اسے راستے میں روکنے کا فیصلہ کر لیا جس کی خبر ملنے پر قریش نے ابوجہل کی قیادت میں قافلہ کی حفاظت کے لیے لشکر روانہ کیا۔ آنحضرتؐ کا ہدف تجارتی قافلہ تھا اور ابوجہل کے لشکر کا ہدف قافلہ کی حفاظت تھا مگر اللہ تعالیٰ نے دونوں کا آمنا سامنا بدر کے میدان میں کرا دیا جو کفر و باطل کا پہلا جنگی معرکہ ثابت ہوا۔
- غزوۂ احزاب میں قریش نے مختلف عرب قبائل کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا اور لوگوں کی آمد ورفت کے ساتھ ساتھ اشیاء ضرورت کی رسد بھی روک دی جیسا کہ جنگی محاصروں میں ہوتا ہے، مگر ایک ماہ تک محاصرے کے بعد قریش ناکام ہو کر واپس چلے گئے۔
- یمامہ کے علاقہ میں بنو حنیفہ قبیلہ کے سردار ثمامہ بن اثالؓ عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں مسلمان مجاہدین کے ایک دستے نے انہیں گرفتار کر کے مدینہ منورہ پہنچا دیا جہاں تین دن قید رہ کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ چلے گئے جہاں ان کے قبول اسلام کی خبر عام ہونے پر قریش نے ان سے تعرض کرنا چاہا تو انہوں نے اعلان فرما دیا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو تمہارے پاس یمامہ سے جو غلہ آتا ہے وہ روک دیا جائے گا اور گندم کا ایک دانہ بھی تم تک نہیں پہنچ پائے گا۔ یہ اعلان کر کے وہ اپنے علاقہ میں واپس گئے اور گندم کی آمد و رفت روک دی اور ناکہ بندی کر دی جس پر قریش نے نبی کریمؐ کی خدمت میں وفد بھیج کر یہ ناکہ بندی کھلوانے کی گزارش کی اور آپؐ نے حضرت ثمامہ بن اثالؓ کو باقاعدہ خط لکھ کر یہ ناکہ بندی ختم کرائی۔
- حدیبیہ کے معاہدہ میں قریش نے یہ غیر منصفانہ اور یکطرفہ شرط شامل کرا لی تھی کہ ان کا کوئی شخص مدینہ منورہ جائے گا تو آنحضرتؐ اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے، مگر کوئی مسلمان مدینہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ آئے گا تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔ اس کے بعد ایک صحابہ حضرت ابوبصیرؓ مدینہ منورہ آئے تو قریش نے انہیں واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے، نبی اکرمؐ نے معاہدہ کے مطابق حضرت ابو بصیرؓ کو ان کے ساتھ واپس بھجوا دیا۔ حضرت ابو بصیرؓ راستہ میں ان میں سے ایک کو قتل کر کے پھر مدینہ منورہ پہنچ گئے تو حضورؐ نے دوبارہ انہیں قریش کے مطالبہ پر واپس کر دیا۔ حضرت ابو بصیرؓ نے راستہ میں قریش کے وفد سے فرار ہو کر ایک جگہ ٹھکانہ کر لیا اور مکہ مکرمہ جانے سے انکار کر دیا۔ اب مکہ مکرمہ میں جس مسلمان کو معلوم ہوتا کہ ایک آزاد ٹھکانہ راستے میں بن گیا ہے تو وہ وہاں پہنچ جاتا اس طرح کچھ ہی عرصہ میں اچھا خاصا گروہ وہاں جمع ہو گیا۔ وہ ٹھکانہ قریش کے تجارتی راستے میں تھا، انہوں نے قافلوں کو روکنا شروع کر دیا جس سے قریش کی تجارت متاثر ہونے لگی۔ چنانچہ قریش نے جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں باقاعدہ وفد بھیج کر معاہدہ کی وہ شرط واپس لینے کا اعلان کیا جس پر آپؐ نے حضرت ابو بصیرؓ اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ منورہ بلا لیا۔
اس لیے معاشی بائیکاٹ اور ناکہ بندی بھی جہاد کا حصہ اور اپنے جائز مقاصد حاصل کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، چنانچہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی اسی زمرے میں شمار ہوگا اور ہمیں یہ مہم سنجیدگی کے ساتھ منظم کرنی چاہیے۔