۱۶ نومبر ہفتہ کو میرپور آزاد کشمیر جانے کا اتفاق ہوا، ہمارے عزیز شاگرد مولانا حافظ نوید ساجد فاضل جامعہ نصرۃ العلوم کے فرزند ابو عبیدہ نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے ، اس کا آخری سبق سننے کی تقریب کا جامع مسجد تقوٰی میں اہتمام تھا جس میں اہل خاندان کے ساتھ علماء کرام کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ بچے کا آخری سبق سن کر اس کی دستاربندی کی گئی اور میں نے اس موقع پر کچھ گزارشات پیش کیں جن کا زیادہ حصہ حفظ قرآن کریم کی اہمیت اور فضائل قرآن کریم کے حوالہ سے تھا، مگر اس اجتماع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے تحریک آزادیٔ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر بھی کچھ عرض کیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
میں آج آزاد کشمیر کے ایک بڑے شہر میں آپ حضرات کے سامنے اپنے دل کے درد کا ایک بار پھر اظہار کر رہا ہوں۔ اب سے ایک ماہ قبل منگ اور راولاکوٹ کے اجتماعات میں یہ گزارشات پیش کر چکا ہوں مگر صورتحال جوں کی توں ہے اس لیے دوبارہ عرض کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی صورتحال پر ایک سو سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، لاکھوں لوگ آزاد نقل و حرکت کی سہولتوں سے محروم ہیں، ان کے شہری اور سیاسی حقوق معطل ہیں، جبر و تشدد کی فضا ہے، آزادیٔ رائے پر مسلسل پہرے ہیں اور خورد و نوش کے اسباب و وسائل بھی ضرورت کے مطابق میسر نہیں، مگر یہاں ہم سب لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ مجھے پاکستان اور آزاد کشمیر کی صورتحال میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، دونوں طرف کی دینی و سیاسی قیادتیں معاملات کو ایک دوسرے پر ڈالنے اور ٹالنے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہیں اور مقبوضہ کشمیر کے محصور شہریوں کو بتدریج مایوسی کی دلدل کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ہم ابھی تک ریاست آزاد جموں و کشمیر یا پاکستان کی قومی سطح پر کہیں بھی باہم مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا کوئی حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کشمیری عوام پر نریندر مودی حکومت کے جبر کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ ظلم بھی کچھ کم سنگین نہیں ہے۔
میں اپنا یہ سوال ایک بار پھر آزاد کشمیر کے علماء کرام اور مفتیان کرام کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ۱۹۴۷ء میں اس خطہ کے سرکردہ علماء کرام نے جہاد کا فتوٰی دے کر آزادی کی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا جس میں تمام قبیلوں اور کشمیری عوام کی قومی قیادتوں نے ساتھ دیا تھا اور سب نے مل جل کر یہ خطہ آزاد کرایا تھا جس پر جموں و کشمیر کی یہ آزاد ریاست تشکیل پائی ہے اور یہ ریاست آج تک جہاد کے اس فتوے اور جدوجہد کی اساس پر کھڑی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ فتوٰی قائم ہے یا ختم ہوگیا ہے؟ اگر وہ فتوٰی قائم ہے تو اس کے تسلسل کو بحال کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ میری یہ درخواست ہے کہ جہاد کے اس شرعی فریضہ کے اعلان سے جھجھک محسوس نہ کی جائے، آپ کی تو بنیاد ہی اس پر ہے اور اسے نظرانداز کر کے اپ کے پاس آزاد ریاست کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی عرض کروں گا کہ جہاد کے اعلان کا مطلب یہ نہیں کہ آپ حضرات ہتھیار اٹھا کر ازخود کنٹرول لائن کی طرف دوڑ پڑیں۔ جہاد کے عمل کو ترک کرنا بھی غلط ہے اور جہاد کے نام پر نجی سطح پر مسلح کاروائیاں بھی درست نہیں ہیں۔ ہمیں اس کے درمیان کوئی راستہ نکالنا ہوگا جو باہمی مشاورت و مفاہمت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ سب سے پہلے آزاد جموں و کشمیر کے ذمہ دار علماء کرام مل بیٹھ کر صورتحال کا جائزہ لیں اور موجودہ عالمی اور علاقائی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایسا لائحہ عمل تجویز کریں جس سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو کرفیو اور محاصرہ کے ماحول سے نجات دلا کر ان کی شہری آزادیوں کو بحال کرایا جا سکے۔ اور اس کے بعد علماء کرام تجاویز کا خاکہ مرتب کریں جس پر حکومت آزاد کشمیر ریاست کی دینی، سیاسی اور مختلف طبقات کی قیادتوں کو جمع کر کے آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد کا روڈمیپ طے کرے اور پھر حکومت پاکستان اور متعلقہ ریاستی اداروں سے بات کی جائے اور سب مل کر باہمی اعتماد اور مفاہمت کے ساتھ طریق کار کا فیصلہ کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد کو تین بڑے دائروں کا سامنا ہے:
- ایک یہ کہ ’’جہاد کشمیر‘‘ کو موجودہ حالات اور ماحول کے تناظر میں ازسرنو منظم کیا جائے۔
- دوسرا یہ کہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کو اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے پر آمادہ کی کرانے کے لیے سفارتی اور عوامی مہم منظم کی جائے۔ مغربی ممالک میں ہر جگہ مؤثر کشمیری لابیاں موجود ہیں مگر انہیں راہنمائی کی ضرورت ہے، انہیں راہنمائی مہیا کر کے ان سے سفارت کاری، لابنگ، رائے عامہ کی بیداری اور اسٹریٹ پاور کے اظہار کا کام لیا جائے۔ اور یہ کام سب سے زیادہ حکومت آزاد کشمیر کی ذمہ داری بنتا ہے۔ مجھے مغربی ممالک میں کشمیری لابیوں کا علم ہے، ان کی قوت کار سے واقفیت ہے، اور میں ان کے مؤثر ہونے کے امکانات سے بھی بے خبر نہیں ہوں، مگر وہ راہنمائی اور سرپرستی کی تلاش میں ہیں جو انہیں ابھی تک میسر نہیں ہے۔
- جبکہ تیسرا دائرہ میرے نزدیک یہ ہے کہ مختلف خطوں مثلاً آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر، گلگت، بلتستان، لداخ اور جموں وغیرہ کے شہریوں کے درمیان موقف کی یکجہتی کو برقرار رکھنے کی شعوری محنت کی جائے کیونکہ کشمیریوں کے اجتماعی موقف کو علاقائی سوچوں میں تقسیم کرنے کی سازش واضح نظر آرہی ہے جو سب سے زیادہ خطرناک بات ہے۔
میری آزاد جموں و کشمیر کے علماء کرام اور ان کے بعد سیاسی قیادتوں سے ایک درخواست یہ بھی ہے کہ خدا کے لیے ’’سیریس‘‘ ہو جائیں، ورنہ اگر ان کی موجودہ روش سے آزادیٔ کشمیر کی تحریک خدانخواستہ سبوتاژ ہو گئی تو وہ تاریخ کے مجرم تو ہوں گے، کل قیامت کے دن اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں بھی سرخروئی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اللہ تعالٰی ہم سب پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔