پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے ایک بار پھر حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون کو ختم کر دیا جائے کیونکہ یہ ان کے بقول اقلیتوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے اور بطور خاص مسیحی اقلیت اس کا نشانہ بن رہی ہے۔ ہم اس کالم میں یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ اول تو اس قانون کے غلط استعمال کی بات اس حوالہ سے محل نظر ہے کہ غلط استعمال کی بات صرف اس قانون کے حوالہ سے کیوں کی جا رہی ہے؟ ملک میں دیگر بہت سے قوانین کا بھی تو غلط استعمال ہو رہا ہے اور اس بات کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ ہمارے کلچر سے ہے جس کی جڑیں نوآبادیاتی دور میں پیوستہ ہیں کہ اس کلچر کو کرپشن اور بد دیانتی کا خوگر بنا دیا گیا۔ اس کا علاج ہمارے قومی راہنماؤں نے مذہبی اقدار کی بحالی اور اسلامی معاشرے کی تشکیل میں تلاش کیا مگر گزشتہ ساٹھ برس سے معاشرتی معاملات میں مذہب کو کردار ادا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا ہے۔
یہ کہنا کہ قانون کا غلط استعمال مذہب کے حوالہ سے اور مذہبی راہنماؤں کی وجہ سے ہو رہا ہے، خلافِ حقیقت بات ہے۔ کیونکہ دفعہ ۳۰۲ کا قانون بھی اکثر و بیشتر غلط استعمال ہو رہا ہے اور ۳۰۲ اور ۳۰۷ کی دفعات بھی ذاتی انتقام، خاندانی دشمنیوں اور گروہی رقابتوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں کون سا مذہب کردار ادا کرتا ہے اور مذہبی راہنماؤں کا کون سا طبقہ اس کی ترغیب دیتا ہے؟ یہ ایک معاشرتی رویہ ہے جس کا مذہب یا مذہبی حلقوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اگر ۲۹۵سی کا بھی کسی جگہ غلط استعمال ہو جاتا ہے تو اسے مذہب یا مذہبی راہنماؤں کے کھاتے میں ڈال دینا کہاں کا انصاف ہے۔ پھر اس قانون کا استعمال صرف اقلیتوں کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ مسلمان کہلانے والوں کے خلاف بھی ہوتا ہے اور اس کے غلط استعمال کی صورت واقعتاً تو یہ ہے کہ بعض مسلمان محض فرقہ وارانہ اختلاف اور تعصب کے باعث اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف اس قسم کے مقدمات درج کرا دیتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک مقدمہ میں ایک فرقہ کے مولوی صاحب کو اس جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے کہ انہوں نے مسجد کی دیوار سے دوسرے فرقہ کے ایک پروگرام کا پوسٹر پھاڑ دیا تھا۔ اکا دکا واقعات میں اس قسم کی صورتحال سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی بنیاد پر یہ کہنا کہ توہینِ رسالت کے قانون کا بالکل ہی غلط استعمال ہو رہا ہے یا صرف اقلیتوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، یہ غیر واقعی اور غیر منطقی بات ہے۔
پاکستان کے بعض ممتاز مسیحی راہنماؤں کا یہ موقف اس کالم میں چند روز قبل بیان کیا جا چکا ہے کہ انہیں توہین رسالت پر موت کی سزا سے اختلاف نہیں البتہ اس کے استعمال کے بارے میں ان کے تحفظات ہیں۔ مگر پاپائے روم نے سرے سے اس قانون کو ختم کرنے کی بات کر کے حکومت پاکستان سے اس کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یا تو وہ اس قانون اور اس کے بارے میں پاکستان کے مسیحی راہنماؤں کے موقف سے آگاہ نہیں ہیں اور انہیں غلط بریف کیا گیا ہے، اور یا پھر وہ عملاً ایسی بات کہہ کر عالمی سیکولر حلقوں کی اس مہم کو سپورٹ کر رہے ہیں جو مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کے لیے ایک عرصہ سے جاری ہے۔
جہاں تک بائبل کا تعلق ہے وہ نہ صرف توہین مذہب پر موت کی سزا تجویز کرتی ہے بلکہ مذہبی راہنماؤں کی توہین بھی اس کے نزدیک ایسی سزا ہے جس کی سزا صرف موت ہے۔ ہم اس سلسلہ میں بائبل کی چند عبارات شواہد کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں:
بت پرستی پر قتل کی سزا کا واقعہ بائبل کی کتاب گنتی کے باب ۲۵ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
’’وہ عورتیں ان لوگوں کو اپنے دیوتاؤں کی قربانیوں میں آنے کی دعوت دیتی تھیں اور یہ لوگ جا کر کھاتے اور ان کے دیوتاؤں کو سجدہ کرتے تھے۔ یوں اسرائیلی بعل خور کو پوجنے لگے تب خداوند کا قہر بنی اسرائیل پر بھڑکا اور خداوند نے موسٰیؑ سے کہا کہ قوم کے سب سرداروں کو پکڑ کر خداوند کے حضور دھوپ میں ٹانگ دے تاکہ خداوند کا شدید قہر اسرائیل پر سے ٹل جائے۔ سو موسٰیؑ نے بنی اسرائیل کے حاکموں سے کہا کہ تمہارے جو آدمی بعل خور کی پوجا کرنے لگے ہیں ان کو قتل کر ڈالو۔‘‘
خدا پر کفر بکنے کی سزا بائبل کی کتاب احبار کے باب ۲۴ میں موت بتائی گئی ہے:
’’اور تو بنی اسرائیل سے کہہ دے کہ جو کوئی اپنے خدا پر لعنت کرے اس کا گناہ اسی کے سر لگے گا، اور وہ جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے، ساری جماعت اسے قطعی سنگسار کرے۔‘‘
سبت کے مقدس دن کی توہین پر موت کی سزا بائبل کی کتاب گنتی کے باب ۱۵ میں یوں بیان کی گئی ہے:
’’اور جب بنی اسرائیل بیابان میں رہتے تھے، ان دنوں ایک آدمی ان کو سبت کے دن لکڑیاں جمع کرتا ہوا ملا، اور جن کو وہ لکڑیاں جمع کرتا ہوا ملا وہ اسے موسٰیؑ اور ہارونؑ اور ساری جماعت کے پاس لے گئے۔ انہوں نے اسے حوالات میں رکھا کیونکہ ان کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ تب خداوند نے موسٰیؑ سے کہا کہ یہ شخص ضرور جان سے مارا جائے، ساری جماعت لشکر گاہ کے باہر لے جا کر اسے سنگسار کرے، چنانچہ جیسا کہ خداوند نے موسٰیؑ کو حکم دیا تھا اس کے مطابق ساری جماعت نے اسے لشکر گاہ سے باہر لے جا کر سنگسار کیا اور وہ مر گیا۔‘‘
اولاد کو بت کے نام پر نذر کرنے کی سزا احبار کے باب ۲۰ میں موت بیان کی گئی ہے:
’’پھر خداوند نے موسٰیؑ سے کہا کہ تو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دے کہ بنی اسرائیل میں سے یا ان پردیسیوں سے جو اسرائیلیوں کے درمیان بود و باش کرتے ہیں، جو کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو بت کی نذر کرے وہ ضرور مارا جائے، اہلِ ملک اسے سنگسار کریں۔‘‘
احبار کے باب ۲۰ میں ماں باپ کی توہین کی سزا موت بتائی گئی ہے:
’’جو کوئی اپنے باپ یا ماں پر لعنت کرے وہ ضرور جان سے مارا جائے۔‘‘
قاضی اور کاہن کی توہین پر موت کی سزا مقرر کی گئی ہے جیسا کہ بائبل کی کتاب استثناء کے باب ۱۷ میں یوں درج ہے:
’’شریعت کی جو بات وہ تجھ کو سکھائیں اور جیسا فیصلہ تجھ کو بتائیں اسی کے مطابق کرنا اور وہ جو کچھ فتوٰی دیں اس سے داہنے یا بائیں نہ مڑنا۔ اور اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے کہ اس کاہن کی بات، جو خداوند تیرے خدا کے حضور خدمت کے لیے کھڑا رہتا ہے، یا اس قاضی کا کہا نہ سنے، تو وہ شخص مار ڈالا جائے۔ اور تو اسرائیل سے ایسی برائی کو دور کر دینا اور سب لوگ ڈر جائیں گے اور پھر گستاخی سے پیش نہیں آئیں گے۔‘‘
بائبل کی کتاب احبار کے باب ۲۵ میں احکام شریعت پر عمل کرنے کی اہمیت اور برکات کا یوں تذکرہ کیا گیا ہے کہ:
’’اور تم ایک دوسرے پر اندھیر نہ کرنا بلکہ اپنے خدا سے ڈرتے رہنا کیونکہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ سو تم میری شریعت پر عمل کرنا اور میرے حکموں کو ماننا اور ان پر چلنا۔ تو تم اس ملک میں امن کے ساتھ بسے رہو گے اور زمین پھلے گی اور تم پیٹ بھر کر کھاؤ گے اور وہاں امن کے ساتھ رہا کرو گے۔‘‘
جبکہ شریعت پر نہ چلنے کا وبال احبار کے باب ۲۶ میں یوں بتایا گیا ہے کہ:
’’لیکن اگر تم میری نہ سنو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو اور میری شریعت کو ترک کر دو اور تمہاری روحوں کو میرے فیصلوں سے نفرت ہو اور تم میرے سب حکموں پر عمل نہ کرو اور بلکہ میرے عہد کو توڑ دو تو میں بھی تمہارے ساتھ اسی طرح پیش آؤں گا کہ دہشت اور تپ دق اور بخار کو تم پر مقرر کر دوں گا جو تمہاری آنکھوں کو چوپٹ کر دیں گے اور تمہاری جان کو گھلا ڈالیں گے اور تمہارا بیج بونا فضول ہوگا اور جن کو تم سے عداوت ہے وہی تم پر حکمرانی کریں گے اور جب تم کو کوئی ڈر بھی نہ ہوگا تب بھی تم بھاگو گے۔‘‘
یہ سارے موسوی شریعت کے احکام ہیں جن کی سیدنا حضرت عیسٰی علیہ السلام نے توثیق کر کے انہیں مسیحی شریعت کا حصہ بنا دیا۔ چنانچہ انجیل متی کے باب ۵ میں حضرت عیسٰیؑ کا ارشاد یوں روایت کیا گیا ہے کہ:
’’یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا اور جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔ پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے وہ آسمان کی بادشاہت میں سب سے چھوٹا کہلائے گا، لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہت میں بڑا کہلائے گا۔‘‘
پاپائے روم مسیحیت کے نمائندے کہلاتے ہیں اور بائبل کے اپنے دور کے سب سے بڑے معلم اور شارح تصور کیے جاتے ہیں لیکن سیکولر حلقوں کے لا دینیت کے ایجنڈے کی تائید کر کے وہ بائبل کی نمائندگی نہیں کر رہے۔ ایک دور تھا جب یورپ کے مسیحی ممالک پر پاپائے روم کی حکمرانی تھی کہ پاپائیت، جاگیرداروں اور بادشاہت تینوں مل کر یورپ کے عوام پر مسلط ہوگئے تھے، اس تکون نے عوام سے ان کی آزادی اور باوقار زندگی کا حق غصب کر رکھا تھا۔ بادشاہ اور جاگیردار کے ہاتھوں کسانوں، مزدوروں اور عام لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی تھی جبکہ پاپائے روم ان بادشاہوں اور جاگیرداروں کے مظالم کو مذہبی جواز فراہم کر کے ان کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ یورپ کے غریب عوام نے کئی صدیاں اس تکون کی غلامی میں گزاری ہیں، اسی لیے آج بھی معاشرت میں مذہب کی واپسی یا مذہبی راہنماؤں کی قیادت کا ذکر سن یورپی عوام کے ذہنوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مسیحیت کی مذہبی قیادت کے ہاتھوں بادشاہ اور جاگیردار کی پشت پناہی کی صورت میں صدیوں چرکے سہے ہیں، اس لیے وہ اسلام کو بھی غلط طور پر اس پر قیاس کرنے لگے ہیں، حالانکہ اسلام اور اس کی مذہبی سیادت ہمیشہ غریب عوام کے ساتھ رہی ہے اور مظلوموں اور کمزوروں کو ہر دور میں مذہب اور مذہبی راہنماؤں کی رفاقت و حمایت حاصل رہی ہے۔
مغرب کے عوام کو جب مسلم ممالک میں اسلام کے معاشرتی کردار اور مذہبی راہنماؤں کی قیادت کا منظر دکھائی دیتا ہے تو انہیں اپنا مہیب ماضی یاد آنے لگتا ہے اور وہ واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ پاپائیت پھر سے واپس آرہی ہے اور پوپ ایک بار پھر سوسائٹی پر مسلط ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس لیے ہمیں مغرب کے عام لوگوں کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے مگر پاپائے روم کی یہ قلابازی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ بائبل کی بات کرنے کی بجائے لامذہبیت اور عالمی استعمار کی زبان بولنے لگے ہیں جبکہ بائبل زبانِ حال سے یہ چیخ و پکار کیے جا رہی ہے کہ: