عام انتخابات کا دن جوں جوں قریب آرہا ہے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں شدت اور جوش و خروش پیدا ہو رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو اپنے نو سالہ سیاسی حلیفوں پر مشتمل ایم آر ڈی کا تیاپانچہ کر کے اکیلی میدانِ انتخاب میں ڈٹی ہوئی ہے اور دوسری طرف اسلامی جمہوری اتحاد ہے جو اسلامی قوانین کی بالادستی، جہادِ افغانستان کی مکمل حمایت اور ایٹمی قوت کے حصول کے عزم کے ساتھ انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کا سامنا کر رہا ہے۔ اگرچہ مولانا نورانی اور جناب محمد اصغر خان کی قیادت میں پاکستان عوامی اتحاد بھی میدان میں موجود ہے اور پیپلز پارٹی کی بے وفائی کا تمغہ سینے سے لگائے ایم آر ڈی کی جماعتیں بھی ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں لیکن قومی اور بین الاقوامی سیاسی حلقوں کی رائے میں اصل مقابلہ اسلامی جمہوری اتحاد اور پی پی پی کے درمیان ہے۔ اور واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد نے عین وقت پر میدانِ انتخاب میں کود کر پی پی پی کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا خواب پریشان کر دیا ہے۔
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل ہے اور قائد جمعیۃ مولانا سمیع الحق نائب صدر کی حیثیت سے اتحاد کی قیادت میں مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں جمعیۃ کے متعدد ارکان اتحاد کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور جماعتی کارکن جوش اور جذبے کے ساتھ انتخابی مہم میں شریک و متحرک ہیں۔ اس پس منظر میں دو اہم مسئلے کارکنوں کے ذہنوں کو الجھائے ہوئے ہیں جن کی وضاحت ان سطور میں ضروری ہوگئی ہے۔
جماعتی اتحاد
ایک مسئلہ جمعیۃ علماء اسلام کے متوازی گروپ کے ساتھ اتحاد کا ہے جس کے بارے میں متضاد نوعیت کے بیانات مسلسل پریس میں آرہے ہیں۔ اس ضمن میں اصل صورتحال یہ ہے کہ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمان اور حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی کی مساعی سے قائد جمعیۃ مولانا سمیع الحق کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کی ایک ملاقات گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہوئی ہے اور اس ملاقات میں یہ بات طے پائی ہے کہ جماعتی اتحاد کی کوئی عملی پیش رفت انتخابات سے قبل ممکن نہیں ہے۔ البتہ جن انتخابی حلقوں میں دونوں جمعیتوں کے امیدوار براہ راست ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں ان میں محاذ آرائی کو ختم کرانے کے لیے کوشش ہونی چاہیے۔ اور انتخابات کے انعقاد کے بعد جماعتی اتحاد کے لیے کسی مناسب فارمولا پر بات کی جائے گی۔ لیکن اس ملاقات کے حوالہ سے متوازی گروپ کی طرف سے اخبارات میں مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ جمعیۃ کا اتحاد ہو گیا ہے اور انتخابات کے بعد جمعیۃ اسلامی جمہوری اتحاد کو چھوڑ دے گی۔ یہ تاثر خلاف واقعہ اور گمراہ کن ہے کیونکہ نہ تو عملاً جماعتی اتحاد کا کوئی فارمولا زیرغور آیا ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوری اتحاد کو انتخابات سے پہلے یا بعد میں چھوڑنے کی کوئی بات ہے۔
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل ہے اور یہ اتحاد صرف انتخابات تک نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی جب تک اتحاد اسلامی قوانین کی بالادستی، جہاد افغانستان کی حمایت اور ایٹمی قوت کے حصول کے بنیادی پروگرام پر قائم رہے گا، جمعیۃ اس میں شامل رہے گی۔
جہاں تک جماعتی اتحاد کا تعلق ہے ہمیں اس سے نہ پہلے کبھی انکار تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ اور اسلامی جمہوری اتحاد کے نظریاتی پروگرام کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے جماعتی اتحاد کا کوئی قابل عمل فارمولا سامنے آیا تو جمعیۃ اسے قبول کرنے میں تامل نہیں کرے گی۔
حلقہ ۹۶
دوسرا مسئلہ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر ۹۶ کے الیکشن کا ہے جہاں پیپلز پارٹی کے مسٹر جہانگیر بدر کے مقابلہ میں جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر مولانا میاں محمد اجمل قادری الیکشن لڑ رہے ہیں اور جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بھی میدانِ انتخاب میں موجود ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد نے اس حلقہ میں حافظ سلمان بٹ کو اتحاد کا ٹکٹ اور بائیسکل کا نشان دینے کا اعلان کیا تھا مگر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا اور اتحاد کے صوبائی صدر میاں نواز شریف پر اس سیٹ کی متنازعہ حیثیت کو واضح کر دیا تھا جس پر انہوں نے اس حلقہ کا تنازعہ طے کرانے کے لیے ایک غیرجانبدار کمیٹی مقرر کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ مگر جماعت اسلامی کی ہٹ دھرمی اس حلقہ کے تنازعہ کو طے کرنے میں مسلسل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان حلقہ ۹۶ کے بارے میں اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ یہ سیٹ متنازعہ ہے اور اس میں حافظ سلمان بٹ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ درست نہیں ہے اس لیے مولانا میاں محمد اجمل قادری الیکشن سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ اس صورتحال میں ہم میاں نواز شریف اور جماعت اسلامی کے راہنماؤں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے رویہ پر نظرثانی کریں اور حافظ سلمان بٹ کو اس حلقہ سے دستبردار کرائیں ورنہ اس سیٹ کا تنازعہ نہ صرف لاہور بلکہ صوبہ بھر کی سیٹوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم ملک بھر میں جماعتی کارکنوں سے گزارش کریں گے کہ وہ مختلف اطراف سے اٹھنے والی آوازوں کی طرف توجہ دیے بغیر اسلامی جمہوری اتحاد اور جمعیۃ علماء اسلام کے امیدواروں کی کامیابی کے لیے بھرپور محنت کریں تاکہ ۱۶ نومبر کے انتخابات ملک میں ایک بہتر اور خوشگوار تبدیلی کا نقطۂ آغاز بن سکیں۔