جب پچھلا دور تھا آج سے تیس سال پہلے گرمیوں کے روزوں کا، تو ہمارے ہاں ایک مہم چلی تھی، ایک تجویز آئی تھی، بحث چلی تھی۔ ایک صاحب کا بڑا تفصیلی مضمون چھپا، اس نے کہا یار یہ گرمیوں کے روزے، جون کے روزے، جولائی کے روزے، اگست کے روزے، یہ بھٹی پر کام کرنے والے مزدور کے لیے اور کدو کرنے والے کاشتکار کے لیے ۔۔۔۔ کدو کرنا بڑا مشکل مسئلہ ہوتا ہے، کدو کرنا، یہ مونجی لگانا۔ سخت اوپر سے دھوپ پڑ رہی ہے، آگ برس رہی ہے، نیچے گرم پانی ہے اور ایک ایک پودا کر کے لگانا ہے۔ اس نے کہا یار علماء کرام کو تھوڑا سا امت پر ترس کرنا چاہیے، یہ جو رمضان گھومتا پھرتا ہے، کبھی اگست میں آجاتا ہے، جولائی میں آجاتا ہے اور کبھی جون میں آ جاتا ہے، علماء کرام کو چاہیے کہ وہ اجتہاد کر کے رمضان کا گھومنا پھرنا بند کریں۔
آج کل ہمارے ہاں اجتہاد کا ایک خاص تصور ہے۔ ایک اجتہاد کا تصور ہے شرعی، وہ تو تھا، ہے، رہے گا۔ ایک اجتہاد کا تصور ہے ہمارا۔ شریعت میں اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں قرآن کریم کا حکم واضح نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ارشاد نہیں ہے، نیا مسئلہ ہے، قرآن کریم میں نہیں مل رہا، حدیث میں نہیں مل رہا، تو علماء کرام قرآن و سنت کی روشنی میں، کچھ شرائط کے ساتھ، اس مسئلہ کا حل نکالیں۔ علماءکرام قرآن و سنت میں ملتی جلتی مثالوں کو سامنے رکھ کر اس کا کوئی حل نکالیں۔ یہ ہے اجتہاد کا شرعی تصور۔ یہ لمبی بات ہے اس پر تفصیل کا وقت نہیں۔
ہمارے ہاں اجتہاد کا تصور یہ ہے، نوجوان نسل کو یہ مغالطہ ہے کہ علماء کو کوئی صوابدیدی اختیار حاصل ہے جو یہ استعمال نہیں کرتے، ضد کر جاتے ہیں۔
پرانی بات ہے میں برطانیہ میں لندن سے مانچسٹر جا رہا تھا ٹرین پر۔ میری کیفیت، ہیئت یہی رہتی ہے الحمد للہ ہر جگہ پر۔ ایک نوجوان نے مجھے دیکھا کہ مولوی صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، وہ میرے پاس آ کر بیٹھا، السلام علیکم، وعلیکم السلام، آپ مولانا صاحب ہیں؟ میں نے کہا یار لوگ یہی کہتے ہیں۔ آپ اجتہاد کر سکتے ہیں؟ پہلا سوال یہ کیا۔ میں نے کہا یار مسئلہ بتاؤ۔ آپ کو اجتہاد کی اتھارٹی ہے؟ میں نے کہا یار تم مسئلہ بتاؤ، اگر مسئلہ سمجھ میں آیا ، مسئلے کا جو حل میرے پاس ہوا میں بتا دوں گا۔ اس نے کہا بات اصل میں یہ ہےکہ میں الحمد للہ مسلمان ہوں، پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں، دوپہر کو میں جاب پر جاتا ہوں جب تو ظہر اور عصر کا وقت نہیں ہوتا، گنجائش نہیں ملتی۔ جاب ایسی ہے، غیر مسلم ملک ہے۔ تو میں نے ایک اجتہاد کر رکھا ہے۔ میں ظہر کی نماز پڑھتا ہوں فجر کے ساتھ، اور عصر کی پڑھتا ہوں مغرب کے ساتھ۔ آپ اس کی اجازت دے دیں۔ یہ اجتہاد کا آج کا تصور ہے۔ میں نے کہا یار ففٹی ففٹی کروں گا، آدھا آدھا۔ عصر کی جو مغرب کے ساتھ پڑھتے ہو ، یہ تو کسی درجے میں کہہ سکتا ہوں کہ قضا ہوئی ہے لیکن نماز ہو گئی ہے۔ ظہر کی جو فجر کے ساتھ پڑھتے ہو، یہ میرے پاس اتھارٹی نہیں ہے، یہ میں نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا بات یہ ہے کہ یہ اجتہاد مت کرو، میں تمہیں حل بتاتا ہوں اس کا۔ اچھی جاب کی تلاش کی کوشش کرو، ایسی جاب مل جائے جہاں تم نمازیں وقت پر پڑھ سکو، کوشش کرتے رہو۔ جب تک نہیں ملتی، ظہر اور عصر دونوں مغرب کے ساتھ پڑھ لیا کرو، قضا ہوں گی لیکن ہو جائیں گی۔
میں نے یہ بات اس لیے عرض کی کہ آج کل ہمارے ہاں اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ جس طرح پاپائے روم کو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ جب چاہے کسی حلال کو حرام کر دے، کسی حرام کو حلال کر دے، علماء کو بھی شاید کوئی اختیارات حاصل ہیں لیکن یہ استعمال نہیں کرتے، ضدی لوگ ہیں۔
خیر، اس نوجوان نے تجویز پیش کی کہ رمضان کو ایسا کیا جائے کہ علماء مل بیٹھیں اور اجتہاد کر کے رمضان کو کسی اچھے سے موسم میں باندھ دیں۔ تجویز دی اس نے کہ فروری کا مہینہ رمضان اور یکم مارچ کی عید۔ اس نے کہا رمضان بھی ٹھنڈا ہو جائے گا اور عید کا جھگڑا بھی طے ہو جائے گا، دونوں مسئلے حل ہو جائیں گے۔ اس پر بحث مباحثہ ہوا، میں نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ اسی وقت میں نے پھر یہ سارا دیکھا تو یہ روایات میرے سامنے آئیں۔
تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی رمضان ہی کے روزے تھے، ان کا رمضان بھی سارا سال گھومتا تھا، ان کو بھی جولائی اور اگست کے روزے تنگ کرتے تھے، انہوں نے بھی یہی تجویز پیش کی علماء کے سامنے، ان کے علماء نے بات مان لی۔ روایات میں لکھا ہے کہ جب علماء نے فیصلہ کیا ان کے، کہ چلو یہ تھوڑی سی لوگوں کو سہولت دے دیتے ہیں، تھوڑی ریلیف دے دیتے ہیں لوگوں کو کہ روزے ٹھنڈے موسم میں رکھ لیا کرو۔ لیکن چونکہ گڑبڑ کر رہے ہیں، یہ احساس تھا، تیس تو پورے رکھیں گے، ساتھ دس رکھیں گے کفارے کے۔ یہ جو مذہبی عیسائی روزے رکھتے ہیں، ایسٹر ان کی عید الفطر ہے، جو اپریل کے پہلے عشرے کے دوران کسی کو یہ قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ کہ تیس پورے رکھیں گے اور دس روزے رکھیں گے کفارے کے، کہ یہ جو گڑبڑ کر رہے ہیں یہ کور ہو جائے۔
میں نے کہا یار بات یہ ہے کہ انہوں نے گڑبڑ کی تھی تو تیس سے چالیس پر گئے تھے، اور تم ہم سے گڑبڑ کروا رہے ہو تو تیس سے اٹھائیس پر لےجا رہے ہو۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو یار، میں نے کہا کچھ خدا کا خوف کرو یار۔ تین سال اٹھائیس کے اور چوتھے سال انتیس کے، تیسواں ہمیشہ کے لیے چھٹی، جو سب سے مشکل روزہ ہوتا ہے۔
تو میں نے یہ عرض کیا کہ بنی اسرائیل میں بھی رمضان چاند کا مہینہ تھا، تفسیری روایات کے مطابق، اور وہ بھی سارے سال میں گھومتا تھا، انہوں نے ردوبدل کیا۔ اسلام نے واپس سابقہ پوزیشن بحال کر دی کہ روزے ہوں گے رمضان کے اور سارے سال میں اسی طرح گردش کریں گے، اور روزے کا دورانیہ کم کر دیا کہ روزے میں سے رات خارج کر دی، صبح طلوع فجر سے روزہ شروع ہو گا اور غروب آفتاب تک روزہ رہے گا، یہ اسلام نے دو اصلاحات کیں۔