جہادِ کشمیر اور علماءِ کشمیر کا موقف

   
۲ جون ۲۰۰۱ء

گزشتہ روز آزاد کشمیر کے سرحدی شہر عباس پور میں حرکۃ المجاہدین کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’جہادِ ہند کانفرنس‘‘ میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ کانفرنس عباس پور سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں عبد القیوم اور حامد رشید کی یاد میں منعقد ہوئی، جنہوں نے آزادئ کشمیر کی خاطر سرحد پار انڈین آرمی سے معرکہ آرائی میں جامِ شہادت نوش کیا ہے۔ کانفرنس سے حرکۃ المجاہدین کے امیر مولانا محمد فاروق کشمیری اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا اور شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

عباس پور اس سے قبل بھی متعدد بار جانے کا اتفاق ہوا ہے اور اس شہر کے ساتھ میرا تعلق آزاد کشمیر کے مجاہد عالمِ دین حضرت مولانا مفتی عبدالحمید قاسمیؒ کے حوالے سے بھی ہے جو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ کے دورہ حدیث کے ساتھی تھے اور ان مجاہد علماء میں سے تھے جنہوں نے ۱۹۴۷ء میں ڈوگرہ سامراج کے خلاف جہادِ آزادی میں عملاً حصہ لیا اور جن کی جدوجہد اور قربانیوں کے ثمرہ میں آج ریاست جموں و کشمیر کا یہ خطہ ’’آزاد جموں و کشمیر‘‘ کہلاتا ہے۔ مولانا مفتی عبد الحمید قاسمیؒ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ فیصل آباد میں گزرا اور میرے ساتھ ان کا ہمیشہ شفقت کا معاملہ رہتا تھا۔

مولانا محمد فاروق کشمیری نے عباس پور کی ’’جہادِ ہند کانفرنس‘‘ میں شرکت کی دعوت دی تو اس کے لیے میری شرط تھی کہ جاتے ہوئے رات پلندری میں بسر کروں گا اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان صاحب مدظلہ سے ملاقات کروں گا۔ مولانا موصوف بھی میرے والد محترم کے دورہ حدیث کے ساتھیوں میں سے ہیں، آل جموں و کشمیر جمعیۃ علماء اسلام کے امیر ہیں، آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں، علمی تبحر اور تقویٰ و دیانت میں اسلاف کی نشانی ہونے کے ساتھ ساتھ دورِ حاضر کے مسائل بالخصوص اجتماعی زندگی سے متعلقہ معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور میری رائے میں اگر اس خطہ کے کسی عالمِ دین سے اسلام کے اجتماعی نظام کے حوالے سے راہنمائی کے لیے اعتماد اور وثوق کے ساتھ رجوع کیا جا سکتا ہے تو وہ مولانا محمد یوسف خان ہی کی شخصیت ہے۔ اور اس مناسبت سے ان کی خدمت میں کبھی کبھی حاضری کو جی چاہتا ہے، دعائیں بھی مل جاتی ہیں اور کسی مسئلہ میں اشکال اور الجھن ہو تو راہنمائی سے بھی بہرہ ور ہو جاتا ہوں۔

اس دفعہ حاضری ہوئی تو الجھن کا مسئلہ ’’جہادِ کشمیر کی شرعی حیثیت‘‘ کا تھا جس کے بارے میں پاکستان کے دینی حلقوں میں ایک بار پھر دھیرے دھیرے بحث و تمحیص کا سلسلہ چل نکلا ہے، اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں کے مذاکرات کی راہموار کرنے والے حلقے چپکے چپکے اس سوال کو پھر سے ذہنوں میں اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس جدوجہد میں ہزاروں نوجوان انڈین آرمی سے ٹکراتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، وہ سرے سے شرعاً جہاد بھی ہے یا نہیں؟ حتیٰ کہ بعض حضرات کی زبانوں پر یہ بات بھی آنے لگی ہے کہ یہ نوجوان کہیں شہادت کی بجائے خودکشی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟

میرے ذہن میں تھا کہ حضرت مولانا یوسف خان سے سوال کروں گا کہ آپ حضرات نے ۱۹۴۷ء میں جہاد کا جو فتویٰ دیا تھا اور جس کی بنیاد پر ڈوگرہ سامراج کے خلاف علماء کرام اور دیندار عوام نے باقاعدہ جنگ لڑ کر آزاد کشمیر کا یہ خطہ آزاد کرایا تھا، اس فتویٰ کی کوئی کاپی موجود ہو تو اسے ازسرنو منظر عام پر لایا جائے تاکہ عوام کے سامنے اصل حقیقت واضح ہو سکے۔

اس کے جواب میں حضرت موصوف نے فرمایا کہ اس وقت نئے سرے سے جہاد کا فتویٰ جاری کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، اس لیے کہ کشمیر کا جہاد اس وقت شروع نہیں ہوا تھا بلکہ اس کی تاریخ اس سے بہت پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر بالخصوص پونچھ کے علماء اور دیندار عوام نے دراصل اس وقت جہاد میں شمولیت اختیار کی تھی جب حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور حضرت سید احمد شہیدؒ نے جہاد کر کے پشاور میں اسلامی حکومت قائم کی تھی، اور پھر مظفر آباد کی طرف اس لیے یلغار کی تھی کہ کشمیر کو آزاد کرا کے اسلامی ریاست کی حیثیت دی جائے اور اسے بیس کیمپ بنا کر برصغیر پر برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد آزادی کو منظم کیا جائے۔ بالاکوٹ ان کی منزل نہیں بلکہ مظفر آباد کی طرف جاتے ہوئے یہ ان کی گزر گاہ تھی، جہاں ان کا مقابلہ ان کے پروگرام کے بغیر سکھ فوجوں سے ہو گیا تھا اور ان کے جام شہادت نوش کرنے سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا، ورنہ ان کی اصل منزل مظفر آباد تھی، جس کے لیے کشمیر کے سینکڑوں علماء اور مجاہدین ان کے ساتھ تھے۔

چنانچہ راجہ گلاب سنگھ نے اسی کی پاداش میں ۱۸۳۲ء میں پونچھ کے علاقہ میں انتقامی کارروائیوں کا ہولناک سلسلہ شروع کیا تھا جس میں سینکڑوں افراد کو قتل کر دیا گیا، لوگوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں، حتیٰ کہ جموں کے اس ہندو راجہ نے منگ کے دو مجاہدوں کو اپنے سامنے درختوں کے سامنے لٹکوا کر ان دو زندہ انسانوں کی کھالیں اتروالی تھیں۔ اور ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ سید احمد شہیدؒ اور اسماعیل شہیدؒ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے تھے۔ اس وقت راجہ گلاب سنگھ نے جس طرح وسیع پیمانے پر اس خطہ کے علماء اور مجاہدین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا تھا اور خود یہاں قیام کر کے اس کی براہ راست نگرانی کی تھی، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پورا خطہ اجتماعی طور پر شہدائے بالاکوٹ کے ساتھ جہاد میں شریک تھا اور ان کا مقصد کشمیر کو آزاد کرا کے اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں لانا تھا۔

مولانا محمد یوسف خان کا ارشاد ہے کہ ۱۹۴۷ء کا جہادِ آزادی اور آج کی مجاہدین کشمیر کی مسلح جدوجہد شہدائے بالاکوٹ کے اسی تسلسل کا حصہ ہے جو شرعی طور پر جہاد کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کشمیر آزاد ہو کر ایک اسلامی ریاست کا درجہ حاصل نہیں کر لیتا۔ ہمیں اس کے لیے کسی نئے فتویٰ کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اب بحث کا کوئی فائدہ ہے۔

مذاکرات کے بارے میں حضرت مولانا محمد یوسف خان نے فرمایا کہ مذاکرات کا مقصد ہر دور میں جہاد کا راستہ روکنا اور بھارت کو قبضہ مستحکم کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے، اور آج بھی اس کے سوا ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، اس لیے ہم سرے سے ان مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں، ہم صرف اور صرف جہاد پر یقین رکھتے ہیں اور کشمیر بالآخر جہاد ہی کے ذریعے آزاد ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter