نئے اوقاف قوانین ۔ تمام مکاتب فکر کے راہنماؤں کا مشترکہ اعلامیہ

   
۱۲ اپریل ۲۰۲۱ء

دس اپریل کو منصورہ لاہور میں ’’ملی مجلس شرعی پاکستان ‘‘کے زیر اہتمام ’’کل جماعتی تحفظ مساجد و مدارس کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس میں مولانا ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا عبد الرؤف ملک، پیر سید ہارون گیلانی، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، مولانا عبد الرؤف ملک، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، علامہ اعجاز حسین حیدری، حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ، مولانا جمیل الرحمٰن اختر، مولانا قاری احمد میاں تھانوی اور دیگر بہت سے سرکردہ حضرات نے خطاب کیا۔ اسلام آباد سے تحریک تحفظ مساجد و مدارس کے بھرپور وفد نے شرکت کی جس میں مولانا محمد نذیر فاروقی، مولانا مفتی محمد اقبال نعیمی، مولانا عبد الغفور اور مولانا تنویر علوی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

کانفرنس میں وفاقی دارالحکومت سمیت تمام صوبوں میں نافذ ہونے والے اوقاف کے نئے قوانین کا جائزہ لیا گیا اور ان قوانین کو شرعی احکام، دستوری دفعات، قومی خودمختاری اور مسلمہ شہری حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کرنے اور اس سلسلہ میں عوامی آگاہی و بیداری کی ملک گیر مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ان متنازعہ قوانین کے خاتمہ کے لیے دستور و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جدوجہد کاہر قابل عمل راستہ اختیار کیا جائے گا اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

کانفرنس میں عمومی طور پر اس نقطۂ نظر کا اظہار کیا گیا کہ اسلام آباد کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے جس مشترکہ عوامی جدوجہد کا آغاز کیا ہے ہم اس کی تائید کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس تحریک کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کیا جائے۔ کانفرنس میں ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کے قائدین کے حکومتی راہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کا جائزہ لیا گیا اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مذکورہ اوقاف قوانین کو دینی حلقوں کے لیے قابل قبول بنانے کی غرض سے جو ترمیمی مسودہ پیش کیا ہے اس کی تائید کی گئی۔

کانفرنس میں درج ذیل مشترکہ اعلامیہ منظور کیا گیا جس کی روشنی میں ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ عید الفطر کے بعد عوامی آگاہی و بیداری کی ملک گیر تحریک منظم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

’’تحفظ مساجد و مدارس کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ راہنماؤں نے پارلیمنٹ کے پاس کردہ ’’دارالحکومت وقف املاک ایکٹ 2021ء‘‘ اور صوبائی اسمبلی کے پاس کردہ ’’پنجاب وقف املاک (ترمیمی) بل 2020ء‘‘ کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

  1. مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے یہ بل عجلت میں پاس کیے ہیں۔ انہیں نہ تو رائے عامہ جاننے کے لیے مشتہر کیا ہے اور نہ ہی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا اور ان سے مشورہ کیا ہے۔
  2. یہ کہ اگر ان قوانین کو من و عن نافذ کیا گیا تو ان میں وقف اداروں اور املاک کے لیے کام کرنے پر اتنی قدغنیں لگائی گئی ہیں کہ اوقاف کے ادارے خصوصاً دینی مدارس اور مساجد یا تو بند ہو جائیں گی یا حکومتی کنٹرول میں چلی جائیں گی، اور موجودہ صورتحال میں بہرحال باقی نہیں رہ سکیں گی۔
  3. یہ کہ حکومت پاکستان نے یہ قوانین مغربی اداروں (خصوصا فیٹف اور آئی ایم ایف) کے دباؤ پر پاس کیے ہیں جبکہ حکومت پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ مغربی اداروں پر واضح کرتی کہ مساجد ہماری عبادت گاہیں ہیں اور دینی مدارس مذہبی و عصری تعلیم کے رفاہی ادارے ہیں جن کی حیثیت این جی اوز کی ہے اور یہ کہ ان کا کوئی تعلق دہشت گردی کے لیے فنڈنگ سے نہیں ہے۔
  4. یہ بھی یاد رہے کہ ہماری مساجد اور دینی مدارس پہلے سے کسی نہ کسی حکومتی ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور ان کا ریکارڈ اور حسابات حکومت کے علم میں ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف مزید شکنجہ کسنے کی گنجائش ہی نہ تھی کیونکہ ان قوانین کی رو سے نئی رجسٹریشن انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ کسی کمی بیشی پر بھاری جرمانے اور قید و بند کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں جو قابل ضمانت بھی نہیں ہیں۔ مساجد میں خطبے کی آزادی اور دینی مدارس کے نصابات کی آزادی ختم کر دی گئی ہے، نیز ان اداروں کے حکومتی قبضے میں جانے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ اس طرح کی سختیاں پہلے سے رجسٹرڈ اداروں پر بھی عائد کی گئی ہیں۔

ان حالات میں ہم

  1. مرکزی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان قوانین پر عملدرآمد فوری طور پر معطل کر دیں اور تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام سے مشورہ کر کے ان میں ضروری ترامیم کریں اور اس کے بعد ان کے نفاذ کا سوچیں۔
  2. ہم پاکستان کی تمام دینی تنظیموں، جماعتوں، تحریکوں اور اداروں سے بلا لحاظ مسلک و مشرب دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ پر یکسو ہو کر متحد اور متحرک ہو جائیں، کیونکہ یہ محض دینی مدارس اور مساجد کے تحفظ کا نہیں بلکہ پاکستان میں دینی زندگی کے بقا اور موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ اور اگر وہ آج غفلت کی نیند سے بیدار نہ ہوئے تو انہیں اندوہناک بے دین مستقبل کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ مغربی قوتیں پاکستان سے اسلام اور دینی قوتوں کا خاتمہ چاہتی ہیں اور ہمارے حکمران مزاحمت کرنے کی بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔
  3. اس صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہم نے مندرجہ ذیل فیصلے کیے ہیں:
    1. ملک بھر کے خطباء اور علماء کرام سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے اجتماعات جمعۃ المبارک میں اس بات کو اپنی تقاریر کا موضوع بنائیں اور عوام میں بیداری پیدا کریں۔
    2. رمضان کے آخری عشرے میں خصوصاً لیلۃ القدر کی رات اس ظلم و ستم سے گلوخلاصی اور ظالموں کی ناکامی کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں کہ اللہ تعالیٰ مساجد و مدارس کو بند کرنے والے حکمرانوں سے ہمیں نجات دلائے، آمین یا رب العالمین۔
    3. ان قوانین کو وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ اس کام کے انچارج ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ہوں گے۔
  4. مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل ایک سٹیرنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے جو عید کے بعد پہلے عشرہ کے دوران اجلاس منعقد کرے گی اور اس حوالے سے عوامی آگاہی و بیداری کی تحریک چلانے اور دیگر اقدامات کے لیے لائحہ عمل طے کرے گی۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر محمد امین، مولانا قاری زوار بہادر، مولانا محمد امجد خان، مولانا عبد الرؤف فاروقی، شیخ شجاع الدین، مولانا عبد الرؤف ملک، علامہ محمد افضل حیدری، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، حاجی عبد اللطیف چیمہ۔ اس کمیٹی کے کنوینر مولانا زاہد الراشدی ہوں گے۔‘‘

قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے اور خاص طور پر علماء کرام اور دینی کارکنوں کو آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے عزائم سے آگاہ کرنے کے لیے ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ سے تعاون کریں اور اس کی عوامی بیداری اور آگاہی مہم کا ساتھ دیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter