’’آن لائن‘‘ کی رپورٹ کے مطابق روس کے صدر جناب ولادی میر پیوٹن نے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلامی تحریکات پر دہشت گردی کا الزام دہراتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم ممالک کی اسلامی تحریکات دنیا میں خلافت کے نظام کو دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہیں۔
روس کا بادشاہت کے دور میں ”خلافت عثمانیہ“ کے ساتھ صدیوں سابقہ رہا ہے اور روس کی متعصب مسیحی حکومت کو کئی بار میدان جنگ میں خلافت کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خلافت کی دوبارہ بحالی کا خوف اس پس منظر میں مسٹر پیوٹن کی زبان پر آ گیا ہو، لیکن اس سے ہٹ کر آج کے عالمی پس منظر میں کم و بیش کفر کی ساری قوتیں ”خلافت کی بحالی“ کے امکانات سے پریشان دکھائی دیتی ہیں اور عالم اسلام بالخصوص جنوبی ایشیا کے دینی مدارس اور اسلامی تحریکات سے عالمی استعماری قوتوں کو ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ خلافت کے نظام کی تعلیم دیتے ہیں، اس کے لیے نئی پود کی ذہن سازی کرتے ہیں اور ان کی جدوجہد اور تگ و تاز کا اصل ہدف یہی ہے کہ دنیا میں ایک بار پھر ”خلافت اسلامیہ“ کا نظام قائم ہو جائے۔
ہمارا خیال ہے کہ ان کا یہ خدشہ بے جا نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف اسلامی تحریکات اور دینی رہنماؤں اور کارکنوں، بلکہ دین کا شعور رکھنے والے دنیا کے ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ دنیا میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی حکمرانی دوبارہ قائم ہو اور خلافت اسلامی کا نظام ایک بار پھر دنیا کے نقشے پر نمودار ہو۔
”خلافت“ اسلام کے سیاسی نظام کا نام ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ مسلم دنیا کا کوئی حکمران شخص، ادارہ یا طبقہ حکمرانی اور فیصلوں میں خودمختار نہیں ہے، بلکہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی اور نیابت کرتا ہے اور قانون کی تشکیل اور اس کے نفاذ میں قرآن و سنت کے دائرہ کا پابند ہے۔
بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور اللہ تعالیٰ کا پیغمبر اپنی قوم کا دینی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا سیاسی قائد بھی ہوتا تھا اور چونکہ نبوت کا تسلسل قائم تھا اس لیے ایک نبی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد دوسرا نبی اس کی جگہ سنبھال لیتا تھا۔ اس کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور یکے بعد دیگرے میری خلافت و نیابت کے فرائض سرانجام دیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت کی سیاسی قیادت اور حکمرانی کی ذمہ داری ان کے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سنبھال لی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کہلائے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو ایک بار کسی نے یا خلیفہ اللہ (اے اللہ تعالیٰ کے خلیفہ) کہہ کر پکارا تو حضرت صدیق اکبرؓ نے فوراً ٹوک دیا اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں، بلکہ رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔
خلافت کا یہ نظام مسلمانوں کے دینی فرائض میں شامل ہے اور فقہاء اسلام نے تصریح کی ہے کہ دنیا میں خلافت کا نظام قائم کرنا مسلمانوں کی اجتماعی دینی ذمہ داری (فرض کفایہ) ہے۔ اگر دنیا کے کسی حصے میں خلافت کا نظام قائم ہے اور امیر المؤمنین کا وجود ہے تو دنیا بھر کے سب مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو گیا ہے، لیکن اگر دنیا کے کسی حصے میں بھی خلافت کا نظام موجود نہیں ہے تو ساری دنیا کے مسلمان اجتماعی طور پر ایک شرعی فریضہ کے تارک اور گنہگار ہیں۔ امام ولی اللہ دہلویؒ نے خلافت کے فرض ہونے پر اپنی کتاب ’’ازالۃ الخفاء‘‘ میں دو دلیلیں پیش کی ہیں۔
- ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے سب سے پہلا اجتماعی فیصلہ یہی کیا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کو ان کا خلیفہ اور جانشین منتخب کیا تھا۔ حافظ ابن حجر مکیؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے نزدیک اس کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکفین و تجہیز سے بھی اس کو مقدم کیا اور پہلے خلیفہ کا انتخاب کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر کو سپرد خاک کیا۔ امام ولی اللہ دہلویؒ کا ارشاد ہے کہ صحابہ کرامؓ کا کسی فیصلے پر متفق ہو جانا مستقل شرعی دلیل ہے اور اسی وجہ سے خلافت کا قیام مسلمانوں کی شرعی ذمہ داریوں میں شامل ہو گیا ہے۔
- حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دوسری دلیل یہ پیش کی ہے کہ قرآن کریم میں متعدد ایسے صریح احکام ہیں جن پر عملدرآمد حکومتی نظام پر موقوف ہے۔ مثلاً معاشرہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اجتماعی نظام قائم کرنا، مجرموں کو سزائیں دینا، جہاد کا منظم سسٹم قائم کرنا، امن قائم کرنا، لوگوں کو ایک دوسرے کے ظلم و ناانصافی سے بچانا اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرنا۔ یہ امور ایسے ہیں جو شخصی اور انفرادی طور پر انجام نہیں دیے جا سکتے اور ان احکام پر عملدرآمد کے لیے حکومتی نظام اور ریاستی سسٹم کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ کسی شرعی فرض پر عملدرآمد جس کام پر موقوف ہو جائے وہ کام بھی فرض کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ جیسے وضو بذات خود فرض نہیں ہے، لیکن چونکہ نماز فرض ہے اور وضو کے بغیر نماز ادا نہیں ہو سکتی ہے، اس لیے نماز کے لیے وضو بھی شرط کے درجے میں فرض کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔
امام ولی اللہ دہلویؒ اور دیگر فقہاء امت کا ارشاد ہے کہ خلافت کا قیام امت کے دینی فرائض میں سے ہے۔ اگر امت مسلمہ یہ نظام قائم نہیں کرے گی تو وہ ایک دینی فریضہ کی تارک ہوگی اور گناہ گار قرار پائے گی۔ اور اس وقت عالم اسلام کی صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں خلافت کے اصولوں کے مطابق کوئی اسلامی ریاست قائم نہیں ہے۔ اس لیے ساری امت گناہ گار ہے اور اس وقت تک امت بحیثیت امت اس اجتماعی گناہ سے بری الذمہ نہیں ہو گی جب تک دنیا کے کسی ملک میں اسلامی نظام عملاً قائم نہیں ہو جاتا اور خلافت کے نظام کے تحت امیرالمؤمنین کی سیادت و قیادت وجود میں نہیں آ جاتی۔
جہاں تک روس کے صدر مسٹر پیوٹن کے خدشہ اور خوف کا تعلق ہے، بجا ہونے کے باوجود اس کا کوئی جواز نہیں ہے اور خلافت کے احیا کی مخالفت کا انہیں کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی کوئی اسلامی تحریک روس یا امریکہ میں خلافت قائم کرنے کا دعویٰ نہیں کر رہی کہ پیوٹن یا ان کے کسی اور ہمنوا حکمران کو خطرے کی گھنٹی بجانے کی ضرورت محسوس ہو۔ اسلامی تحریکات خلافت کا یہ نظام مسلم ممالک میں قائم کرنا چاہتی ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ خلافت کے نظام پر یقین اور اس کے ساتھ نظریاتی وابستگی اور دینی عقیدت رکھتے ہیں اور جس طرح امریکی عوام اور روسی عوام کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں اپنی مرضی اور پسند کا نظام نافذ کریں، اسی طرح مسلمانوں کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں وہ نظام رائج کریں جس پر وہ یقین رکھتے ہیں اور جس کے بارے میں ان کا یقین و اعتماد یہ ہے کہ اسی نظام کے نفاذ سے ان کے مسائل حل ہوں گے اور ان کی مشکلات دور ہوں گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر دنیا کے کسی غالب مسلم اکثریت رکھنے والے مسلمان ملک کے عوام اپنے ملک میں اپنی رضامندی اور اجتماعی رائے کے ساتھ ”خلافت“ کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں تو مسٹر ولادی میر پیوٹن کو اس سے کیا تکلیف ہے؟