سوسائٹی سے لاتعلق ہو جانا دین نہیں ہے

   
۱۸ دسمبر ۲۰۱۲ء

جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں سہ ماہی امتحانات کا آغاز ہو چکا ہے اور میں حسبِ معمول پہلے پرچے کی نگرانی میں شریک ہو کر ہفتہ کی شام کو کراچی پہنچ گیا ہوں۔ حسنِ اتفاق سے اسی شام کو مولانا فداء الرحمٰن درخواستی امیر پاکستان شریعت کونسل کے پوتے کا ولیمہ تھا، جس میں شرکت کی مجھے بھی سعادت حاصل ہو گئی۔ مولانا موصوف کے بیٹے مولانا قاری حسین احمد درخواستی اور مولانا رشید احمد درخواستی بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ سمدھی بھی ہو گئے ہیں۔ ایک بھائی کے بیٹے مفتی حبیب الرحمٰن درخواستی کا دوسرے بھائی کی بیٹی سے نکاح ہوا ہے اور ولیمہ ایک مذہبی تقریب کی صورت میں انعقاد پذیر ہوا، جو اگرچہ شادی ہال میں تھا، لیکن اس کا منظر روایتی ولیموں کی بجائے ”سیرت کانفرنس“ کا دکھائی دے رہا تھا۔ تلاوتِ قرآن کریم اور حمد و نعت کے بعد مولانا فداء الرحمٰن درخواستی اور راقم الحروف نے خطاب کیا۔ شرکاء میں علمائے کرام کی تعداد زیادہ تھی اور ویسے بھی درخواستی خاندان علماء و حفاظ کا خاندان ہے، اس لیے تھوڑے عرصہ کے بعد اس قسم کے دوسرے مذہبی ولیمے میں شرکت کا موقع ملا۔

گزشتہ دنوں ہمارے محترم دوست اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے خادمِ خصوصی حاجی لقمان اللہ میر کی بیٹی کے نکاح کی تقریب بھی اسی طرز کی ہوئی۔ گوجرانوالہ کے ایک کھلے پارک میں تقریب تھی، حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے نکاح پڑھایا، مولانا قاری سعید احمد نے اپنے مخصوص انداز میں تلاوت کلام پاک سے حاضرین کو محظوظ کیا اور راقم الحروف نے مختصر خطاب کیا۔

آج کل شادیوں اور ولیموں نے جو شکل اختیار کر رکھی ہے اور جو خرافات ان میں ہو رہی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے اس قسم کی تقریبات دیکھ کر دلی خوشی ہوتی ہے اور میں تو ایک عرصہ سے اس بات کی ترغیب دے رہا ہوں کہ اگر ہم شادی کی روایتی تقریبات میں ہونے والی خرافات کو کم نہیں کر سکتے تو کم از کم اس بات کا ضرور اہتمام کریں کہ نکاح قریب کی کسی مسجد میں ہو، تاکہ ایجاب و قبول اور خطبہ پاکیزہ ماحول میں ہو جائے اور اتنی دیر تو ہم خرافات سے بچے رہیں۔

میں نے ایک بار یہ ارادہ کر لیا تھا کہ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں ہونے والی شادی میں شرکت سے انکار کر دیا کروں، مگر حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ نے منع کر دیا اور فرمایا کہ اس طرح سوسائٹی سے بالکل کٹ جاؤ گے، جو مناسب نہیں ہے۔ لوگوں کے ساتھ ان کی خرافات کے باوجود کسی نہ کسی درجہ میں جڑے رہنا ضروری ہے، تاکہ دین کا کچھ احساس تو ان کے دلوں میں باقی رہے۔ ورنہ شادی کی عام تقریبات کا حال یہ ہوتا ہے کہ خطبہ نکاح اور ایجاب و قبول کے اصل مرحلہ میں شریک ہونے والے صرف چند لوگ ہوتے ہیں، شادی ہال کے باقی ماحول کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات تو اس وقت بھی ایسی کیفیت ہو جاتی ہے کہ اٹھ کر بھاگ جانے کو جی چاہتا ہے۔

چند ماہ قبل ایک شادی میں عین خطبہ نکاح اور ایجاب و قبول کے وقت ناچ گانے اور اچھل کود کا ایسا تکلیف دہ منظر دیکھنے کو ملا کہ بادلِ نخواستہ نکاح پڑھایا اور پھر چپکے سے وہاں سے کھسک گیا، حتیٰ کہ واپسی پر سواری بھی نہیں ملی اور کم و بیش ایک کلومیٹر تک مجھے پیدل چلنا پڑا۔ وہ حضرات کھانے کے لیے مجھے ڈھونڈتے رہے اور میرا حال یہ تھا کہ اگر موجود ہوتا تو بھی شاید کھانے کا کوئی لقمہ حلق سے نہ اتار سکتا۔

شادیوں میں یہ خرافات اس قدر بڑھتی جا رہی ہیں کہ الامان و الحفیظ، اس لیے اس قسم کی کوئی تقریب مل جاتی ہے تو خوشی ہوتی ہے جہاں خرافات کی بجائے قرآن کریم کی تلاوت اور وعظ و نصیحت کا ماحول ہوتا ہے۔ حاجی لقمان اللہ میر کی بیٹی کا نکاح اور حضرت مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کے پوتے اور پوتی کا ولیمہ اس حوالہ سے دوہری خوشی کا باعث بنے۔ اللہ تعالیٰ دونوں شادیوں کو سب متعلقہ خاندانوں کے لیے دارین کی سعادتوں کا ذریعہ بنائے، آمین یا رب العالمین۔

کراچی کی تقریب میں اس بات کا بطورِ خاص ذکر کیا کہ درخواستی خاندان کے ساتھ میرے ربط و تعلق کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ یہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۰ء میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی زیارت پہلی بار اس وقت کی تھی جب وہ میرا حفظ قرآن کریم کا آخری سبق سننے اور دستار بندی کے لیے گکھڑ تشریف لائے تھے۔ ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو یہ سعادت حاصل ہوئی، اس کے بعد سے یہ عقیدت و محبت کا تعلق مسلسل قائم ہے اور آج بحمد اللہ تعالیٰ حضرت درخواستیؒ کے پڑپوتے اور پڑپوتی یعنی چوتھی پشت کے نکاح کی تقریب میں شریک ہوں۔

اس موقع پر عرض کیا کہ نکاح کے خطبہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا یہ جملہ اکثر پڑھا جاتا ہے کہ ”النکاح من سنتی، (و فی مقام آخر) فمن رغب عن سنتی فليس منی“ نکاح میری سنت ہے، اور (دوسری حدیث میں) جس نے میری سنت سے اعراض کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ارشاد گرامی ایک خاص پس منظر میں ہے، اگر وہ پس منظر سامنے ہو تو اس کے فہم اور معنویت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

بخاری شریف اور حدیث کی دوسری کتابوں میں یہ روایت مذکور ہے کہ مدینہ منورہ میں چند صحابہ کرامؓ نے باہمی مشاورت کی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی چار دیواری کے اندر کی عبادت کے معمولات معلوم کر کے ان کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن سے باری باری دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ گھر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کم و بیش وہی ہوتے ہیں جو عام خاوندوں کے ہوتے ہیں۔ وہ کھانا وغیرہ کھاتے ہیں، آرام کرتے ہیں، گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، حال احوال دریافت کرتے ہیں، گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے ہیں، حتیٰ کہ جوتا وغیرہ بھی گانٹھ لیتے ہیں، اگر مشک پھٹی ہو تو اسے سی لیتے ہیں اور عبادت کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ”كانھم يتقالونھا“ کہ انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر عبادت کے ان معمولات کو اپنی توقعات سے کم سمجھا اور اپنے طور پر فیصلہ کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو زیادہ عبادت کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ وہ معصوم ہیں اور جنت ان کے لیے واجب ہے، مگر ہم امتی ہیں اس لیے ہمیں اس سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے باہمی عہد کیا، ایک نے کہا کہ میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا، دوسرے نے کہا کہ میں ساری زندگی مسلسل روزے رکھوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں ساری رات عبادت کیا کروں گا۔

یہ بات جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلب فرما کر سارا معاملہ دریافت کیا۔ جب ان حضرات نے اپنے اس عہد کا ذکر کیا تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنی خفگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ”انا اخوفكم باللہ و اتقاكم بہ“ میں تم سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ تقویٰ مجھ میں ہے، جبکہ میں نے شادیاں بھی کر رکھی ہیں، کھاتا پیتا بھی ہوں، سوتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور گھر کے سارے معاملات نمٹاتا ہوں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ”النكاح من سنتی، فمن رغب عن سنتی فليس منی“ نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت سے اعراض کیا، اس کا مجھ سے تعلق نہیں۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ ہے کہ سوسائٹی سے لاتعلق ہو جانا اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لینا دین نہیں ہے، بلکہ اصل دین یہ ہے کہ دنیا کے، خاندان کے اور سوسائٹی کے سارے معاملات میں پوری طرح شریک رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کیا جائے اور سارے کام اسلامی احکام و قوانین کے دائرے میں رہ کر کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter