امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم نہ کرنے کی اصل وجہ

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۱۶ جنوری ۲۰۲۲ء

رواں تعلیمی سال کے دوران میرا معمول چلا آ رہا ہے کہ بدھ کے روز جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں ظہر تا مغرب حاضری دیتا ہوں، دورہ حدیث کے طلبہ میں بخاری شریف اور حجۃ اللہ البالغۃ کے منتخب ابواب کا سبق ہوتا ہے، اور عصر کے بعد مسجد میں مختصر عمومی بیان ہوتا ہے۔ ۱۲ جنوری کو پاکستان شریعت کونسل فیصل آباد کے احباب نے سرکردہ علماء کرام کو بھی اس موقع پر دعوت دے رکھی تھی اس لیے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال اور دینی حلقوں کی ذمہ داری کے عنوان پر گفتگو ہوئی، اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج کو اپنی ناکامی کے اعتراف کے ساتھ وہاں سے واپسی کو کچھ عرصہ گزر چکا ہے، امارتِ اسلامی افغانستان نے اپنی حکومت قائم کر لی ہے جسے پورے افغانستان میں کنٹرول حاصل ہے ،امن و امان کی صورتحال پہلے سے کہیں بہتر ہے، اور نئے حکمران بار بار کہہ رہے ہیں کہ انہیں موقع دیا جائے وہ دنیا اور عالمی ماحول کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں وقت دیا جائے تاکہ وہ افغان قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر اپنا نظام طے کر سکیں اور چار عشروں کی طویل اور خوفناک جنگ کے اثرات کو سمیٹتے ہوئے افغان عوام کے عقیدہ و ثقافت کی بنیاد پر مستقبل کی نقشہ بندی کر سکیں۔

مگر دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا بلکہ معاشی بحران اور سیاسی دباؤ کے ذریعے پیشگی شرائط کے ساتھ انہیں شکست خوردہ قوتوں کے ایجنڈے کے مطابق افغانستان کے مستقبل کا نظام تشکیل دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلم حکومتیں بھی اس معاملہ میں افغان بھائیوں کا ساتھ دینے کی بجائے مغربی قوتوں کے لیے سہولت کاری کا ماحول قائم رکھے ہوئے ہیں۔

اس معاملہ میں یہ پہلو بطور خاص قابل توجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغان اسٹیبلشمنٹ کی اپنے دور کی آٹھ ماہ کی تنخواہیں نئی حکومت کے ذمہ واجب الادا چھوڑ کر گئے ہیں، افغانستان کے اثاثے بہت سےمغربی ملکوں میں منجمد کر دیے گئے ہیں، اور افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہ کر کے دنیا بھر میں ان کے ہمدردوں اور بہی خواہوں پر ان کی امداد و تعاون کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ جسے میں یوں تعبیر کیا کرتا ہوں کہ افغان قوم اس وقت شعب ابی طالب میں محصور ہے اور ان کی مخالف اقوام و ممالک نے ان کے معاشی بائیکاٹ کا غیر اعلانیہ معاہدہ کر رکھا ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے، حتٰی کہ جو تھوڑی بہت مدد وہاں جا رہی ہے وہ بھی محاصرہ کرنے والوں کی مرضی اور طریق کار پر موقوف ہے۔

بعض دوست سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے اور خاص طور پر مسلمان ممالک ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اس سوال کو سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے اور اس کا حقیقت پسندانہ جواب تلاش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ میرے خیال میں اصل بات یہ ہے کہ سیکولر عالمی قوتوں نے یہ دیکھ کر کہ امت مسلمہ اسلام سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح مذہب کو ذاتی اور اختیاری دائرے میں شامل کر لینے پر آمادہ نہیں ہے، انہوں نے یہ بات حتمی طور پر طے کر لی ہے کہ مسلمانوں کا اسلام ’’شریعت لیس‘‘ ہونا چاہیے یعنی وہ قرآن و سنت کے شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کو اپنے ممالک میں ضروری نہ سمجھیں بلکہ اس حوالہ سے باقی دنیا کے سیکولر ایجنڈے سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ جس پر مسلم دنیا کے مقتدر حلقے تو شریعت کے بغیر اسلام کو عملاً قبول کر چکے ہیں مگر عالمِ اسلام بحیثیت امت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ شریعت کے احکام و قوانین پر عمل نہ کر سکنا الگ بات ہے اور احکامِ شریعت سے دستبرداری اس سے مختلف چیز ہے۔ یہ اصل کشمکش ہے جس میں عالمی سیکولر طاقتیں ایک طرف ہیں عالمِ اسلام کی رائے عامہ دوسری طرف ہے۔ جبکہ مسلم دنیا کے برسر اقتدار حلقے اپنی پالیسیوں اور طریق کار کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے کیمپ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ چنانچہ دنیائے اسلام کے دینی حلقے اور دینی مدارس و مراکز بھی سیکولر حلقوں کی طعنہ زنی اور کردارکشی کا ہر سطح پر صرف اس لیے مسلسل نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ ان کے خیال میں عام مسلمانوں کی شرعی احکام کے ساتھ کمٹمنٹ اور وابستگی کا باعث یہ دینی حلقے اور مدارس و مراکز ہیں۔

اس پس منظر میں امارت اسلامی افغانستان اور افغان عوام بھی اسی منفی طرز عمل کا نشانہ بنے ہوئے ہیں حتٰی کہ چار عشروں کی طویل جنگ سے تباہ شدہ افغان معاشرہ اور قحط و افلاس کا شکار افغان قوم کو موجودہ معاشی بحران میں انسانی بنیادوں پر غیر مشروط امداد و تعاون کےحق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے جو بلیک میلنگ کی بدترین شکل ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے تمام طبقات بالخصوص علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی ذمہ داری اور قبر و حشر میں جوابدہی کو سامنے رکھتے ہوئے مظلوم افغان بھائیوں کی جو کچھ بھی ہو سکے امداد کریں جس کی معروضی صورتحال میں عملی صورت یہ ہے کہ:

  • امارت اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے مطالبہ کو زیادہ سے زیادہ منظم کیا جائے اور ہر سطح پر آواز بلند کی جائے۔
  • قانونی اور اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ان کی ہر ممکن مالی مدد اور معاشی تعاون کا اہتمام کیا جائے۔
  • دنیا پر واضح کیا جائے کہ مغربی ممالک میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کی فوری بحالی اور موجودہ معاشی بحران میں افغان قوم کی مدد کا غیر مشروط ہونا بھی انسانیت کا تقاضہ ہے۔
  • اور اپنے افغان بھائیوں کے لیے بارگاہِ ایزدی میں دعاؤں کا التزام کیا جائے کہ اللہ رب العزت انہیں اس آزمائش اور امتحان میں بھی سرخروئی سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
2016ء سے
Flag Counter