صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے گزشتہ روز ایوان صدر میں ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ پر دستخط کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ماہِ رواں کے آخر تک آئین کو ”خرافات“ سے پاک کر دیا جائے گا۔“ یہ بات انہوں نے دستوری اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی کے کام اور پیشرفت کے حوالے سے کی ہے، جو اپنا بیشتر کام مکمل کر چکی ہے اور اس کی سفارشات پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔
راقم الحروف سے گزشتہ روز خوشاب کے ایک دینی مدرسے کے جلسے میں شرکت کے موقع پر بعض اخبار نویس دوستوں نے اس سلسلے میں سوال کیا تو میں نے عرض کیا کہ ملک کے ایک شہری کے طور پر میں دستوری اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ دستور پاکستان کی تین بنیادوں (۱) اسلام، (۲) جمہوریت اور (۳) وفاق کے تحفظ اور ان کی عملداری کے لیے وہ مؤثر اقدامات اور طریق کار کی سفارش کرے گی، کیونکہ یہی دراصل پاکستان کی بنیادیں ہیں اور یہی قومی وحدت کی بقاء اور تحفظ کی ضمانت بھی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دستور کی ان تین بنیادوں میں سے کسی ایک کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تو خاکم بدہن ہماری قومی وحدت جنوبی ایشیا کے بارے میں عالمی استعمار کے ایجنڈے کی زد میں آ جائے گی اور جنوبی ایشیا کے مسلمان ایک بار پھر ۱۸۵۷ء کے بعد والی پوزیشن پر جا کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اس سے ہماری حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
جہاں تک آئین کو ”خرافات“ سے پاک کرنے کا تعلق ہے، صدر مملکت کے اس ارشاد سے خوشی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت ذہن میں ابھر رہی ہے۔ خوشی اس حوالے سے کہ صدر زرداری جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سیٹ پر بیٹھے ہیں اور بھٹو مرحوم نے قومی وحدت کو جو مضبوط بنیادیں ۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت میں فراہم کی تھیں، زرداری صاحب ان کو کمزور کرنے کی کسی کوشش کی حمایت نہیں کریں گے۔ جبکہ پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ صدر محترم کے پیش رو جنرل (ر) پرویز مشرف کا کردار اور خیالات قوم کے سامنے ہیں، جن کی پالیسیوں کے تسلسل کو صدر زرداری کی مکمل سپورٹ حاصل ہے، اس کے ساتھ صدر محترم کے نفس ناطقہ جناب سلمان تاثیر دستوری مسائل کے حوالے سے جو کچھ بار بار فرما رہے ہیں، اس کا رخ بہرحال کعبہ کی بجائے ترکستان کی طرف ہے۔
یہ بات آج کے عالمی تناظر میں پریشانی کو زیادہ واضح کر رہی ہے کہ عالمی سطح پر فکری اور تہذیبی کشمکش میں مغرب کے نزدیک آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کی سوچ خرافات کہلاتی ہے اور ملتِ اسلامیہ کے نزدیک آسمانی تعلیمات سے انحراف خرافات ہے۔ اس لیے دستوری کمیٹی کی سفارشات اور ان پر صدر مملکت کا رد عمل سامنے آنے پر ہی صحیح طور پر معلوم ہو سکے گا کہ صدر زرداری نے کس قسم کی ”خرافات“ سے دستور کو پاک کرنے کی خوشخبری قوم کو دی ہے۔
اس ضمن میں ہم یہ بات بھی صدر محترم سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جناب صدر! اصل بات دستور نہیں، بلکہ اس کو چلانے والے لوگوں کی نفسیات اور ترجیحات ہیں۔ دستور کو آپ جتنی چاہے خوش کن باتوں سے بھر دیں، اگر اس پر عمل کرنے والی اور اس کو عملاً چلانے والی ”رولنگ کلاس“ کی نفسیات اور ترجیحات بدستور پہلے والی رہیں گی، تو دستور بے چارہ کچھ بھی نہیں کر پائے گا، اور اس کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو گزشتہ پینتیس برس سے ہو رہا ہے۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ نے ایک معروف جرنیل کی تلوار کی بہت تعریف سنی تو اس سے فرمائش کی کہ وہ تلوار انہیں دے دے۔ اس نے تلوار بھیجی تو وہ عام سی تلوار تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا کہ اس تلوار میں تو کوئی الگ خوبی مجھے نظر نہیں آ رہی، اس پر اس جرنیل نے کہا کہ حضرت! اصل ہاتھ ہوتا ہے، تلوار نہیں۔ اس کا جملہ یوں ہے:
”السيف بالساعد لا الساعد بالسيف“ (تلوار بازو کے زور سے چلتی ہے، بازو تلوار کی وجہ سے حرکت نہیں کرتے)
ہم بھی صدر محترم سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اصل دستور نہیں ہوتا، بلکہ اس کو چلانے والے ہاتھ ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر رولنگ کلاس کی سوچ، نفسیات اور ترجیحات میں کوئی فرق نہیں آئے گا تو دستوری اصلاحات کا کچھ سیاسی گروہوں یا قیادتوں کو شاید فائدہ پہنچ جائے، مگر قوم کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
ان گزارشات کے ساتھ ہم دستوری اصلاحات ہی کے حوالے سے ملک کی ایک بزرگ ترین دینی و علمی شخصیت اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد، سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ شریف، کندیاں ضلع میانوالی کا وہ مکتوب گرامی قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں، جو انہوں نے حال ہی میں ارکان پارلیمنٹ کی خدمت میں بھجوایا ہے اور جو ہمارے نزدیک رائے عامہ اور دینی حلقوں کے موقف اور خدمات کی ترجمانی کرتا ہے۔
”جناب فاروق ایچ نائیک صاحب چیئرمین سینٹ،
محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ اسپیکر قومی اسمبلی،
جناب بابر اعوان صاحب وفاقی وزیر قانون
و دیگر جملہ اراکین پارلیمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان!
مکرمی و محترمی جناب ۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم، مزاج گرامی
گزارش ہے کہ جناب سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور ان کی ختم نبوت کا یہ عقیدہ چودہ سو برس سے امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ دنیا کا ہر مسلمان اپنا ایمانی فریضہ سمجھتا ہے اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر اس کے تحفظ کے لیے کوشاں رہنے کو باعثِ سعادت و نجات سمجھتا ہے۔
”عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت“ مسلمانوں کے اسی اجماعی عقیدہ کے تحفظ اور ایمانی جذبات کی ترجمانی کے لیے گزشتہ ساٹھ برس سے وطنِ عزیز پاکستان اور دنیا کے دیگر بہت سے ممالک میں سرگرم عمل ہے۔ مسلمانوں کو ان کے عقیدہ و ثقافت سے محروم کرنے اور فکری و تہذیبی انتشار کا شکار بنانے کے لیے استعماری قوتوں نے سازش کے تحت امت مسلمہ میں جو فتنے کھڑے کیے، ان میں ایک بڑا فتنہ قادیانیت کا ہے، جس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی نے مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے بقول نئی نبوت اور نئی وحی کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے مرکزِ عقیدت و اطاعت کو تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے قادیانیت کی حقیقت کو جس علمی و فکری انداز میں دنیا کے سامنے آشکارا کیا ہے، اس سے اس سازش کے پس منظر کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے، اور پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ اس مسئلہ پر علامہ اقبال کی خط و کتابت نے اس عظیم فتنے کے فکری، تہذیبی اور سماجی پس منظر کو علمی حلقوں کے سامنے طشت ازبام کر کے رکھ دیا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے بعد ملک کے دینی و سیاسی حلقوں نے علامہ اقبالؒ کے انہی ارشادات اور توضیحات کی روشنی میں قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر معاشرتی درجہ دینے کی تحریک چلائی تھی، جو مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ۱۹۷۴ء میں اپنے منطقی نتیجے تک پہنچی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قیادت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر نہ صرف ایک دیرینہ مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے حل کر دیا، بلکہ اس سے مفکر پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کو بھی تعبیر مل گئی۔ مگر قادیانیوں نے اس وقت سے اپنے بارے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، پورے عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی اور دنیائے اسلام کے تمام مکاتب فکر کے علمی مراکز اور حلقوں کے متفقہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے خود کو مسلمان تسلیم کرانے اور پارلیمنٹ کے فیصلے کو ناکام بنانے کی مہم شروع کر رکھی ہے، جسے ان کے استعماری آقاؤں اور پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کی مخالف بین الاقوامی لابیوں کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے اور اسی پس منظر میں عالمی حلقوں کی طرف سے پاکستان پر
- قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور انہیں اسلام کا نام اور اصطلاحات و شعائر کے استعمال سے روکنے کے لیے دستوری و قانونی دفعات کے خاتمے،
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و عزت کے تحفظ کے قوانین کو غیر مؤثر بنانے،
- دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات بالخصوص قرارداد مقاصد میں ترامیم کرنے،
- حتیٰ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے ”اسلامی“ کا لفظ حذف کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
ان حالات میں، جبکہ دستوری ترامیم کا نیا پیکیج پیش کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ ”دستوری ترامیم کمیٹی“ اخباری رپورٹ کے مطابق ۲۳ مارچ تک ترامیم کا مسودہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے اسلامی دفعات کے بارے میں منفی مطالبات سامنے آ رہے ہیں، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سمیت ملک کے تمام دینی حلقوں کو تشویش ہے کہ نئی دستوری ترامیم کے ذریعہ خدانخواستہ دستور کی اسلامی دفعات، بالخصوص (۱) قرارداد مقاصد (۲) عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی دستوری دفعات اور (۳) تحفظ ناموس رسالت کے قانون کو ختم یا غیر مؤثر کرنے کی کوئی منفی کوشش کامیاب نہ ہو جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ اور عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری میں خود آنجناب کے جذبات بھی کسی دوسرے مسلمان سے کم نہیں ہیں اور آپ بھی ان امور پر ہماری طرح ہی عقیدہ و جذبات رکھتے ہیں، لیکن اپنے جماعتی اہداف اور مشن کے حوالہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس سلسلہ میں آنجناب کو یاددہانی کرانا اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور اسی جذبہ کے تحت آپ کی خدمت میں یہ عریضہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمیں امید، بلکہ یقین ہے کہ آپ اپنا ملی و دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اس مسئلہ کو خصوصی توجہ اور ترجیحات سے نوازیں گے اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت اور ناموس کے تحفظ میں بھرپور کردار ادا کر کے خود کو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی شفقتوں اور شفاعت کا حق دار بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دیں اور دونوں جہانوں کی خوشیوں اور سعادتوں سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
والسلام
آپ کا مخلص
مولانا خواجہ خان محمد“