حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۱۵ ستمبر ۲۰۱۳ء

بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ گزشتہ سال ہماری ماہانہ نشستوں کا یہ عنوان تھا کہ ہم اپنے بزرگوں میں سے کسی بزرگ کا تعارفی انداز میں تذکرہ کرتے تھے۔ بزرگوں سے مراد ہمارے قریب کے زمانے کے بزرگ ہیں، جنہیں ہم عام اصطلاح میں اکابر علماء دیوبند کہتے ہیں۔ ہمارا قریبی نسب نامہ یہی ہے۔ ویسے تو جتنی شاخوں کے جتنے بزرگ گزرے ہیں سب ہمارے بزرگ اور اکابر ہیں, لیکن ہمارے قریبی نسب نامے کے بزرگوں میں سے ایک ایک شخصیت کا ایک ایک نشست میں تذکرے کا پروگرام ہم نے رکھا ہوا تھا۔ کچھ شخصیات کا تعارفی انداز میں تذکرہ ہوا، کیونکہ ہم جن بزرگوں کا نام لیتے ہیں ہمارا ان سے اجمالی تعارف بھی عام طور پر نہیں ہوتا، بس ان کا نام لیتے ہیں۔ کچھ شخصیات ایسی تھیں جن کا ہم گزشتہ سال تذکرہ نہیں کر سکے تھے تو اس سال کے پروگرام میں یہ طے ہوا کہ جو شخصیات پچھلے سال گفتگو سے رہ گئی تھیں ان کا چند نشستوں میں تذکرہ ہو گا اور پھر اس دفعہ یہ طے ہوا ہے کہ سال کے باقی حصے میں ہم تصوف کے حوالے سے گفتگو کریں گے کہ تصوف کیا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، اس کے آداب کیا ہیں اور مقاصد کیا ہیں؟ اس پر ہماری کوشش ہوگی کہ سال کے دوران کچھ نشستیں ہو جائیں۔ آج کی نشست کے لیے ہمارا گفتگو کا عنوان جو شخصیت ہیں انہیں حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ دیوبندی مکتب فکر کی ایک بڑی شخصیت ہیں اور تحریک آزادی کی بھی بڑی شخصیت ہیں۔ ان کا دیوبندیت کے حوالے سے نام لیا جائے تب بھی بہت بڑا نام ہے اور قومی آزادی کی تحریک کے حوالے سے نام لیا جائے تب بھی بہت بڑا نام ہے۔ آپؒ پہلے سکھ تھے، پھر مسلمان ہوئے تھے۔ ان کا پہلا نام بوٹا سنگھ تھا، مسلمان ہوئے تو عبید اللہ نام رکھا۔ سندھی صرف اپنے شیخ کی محبت میں کہلاتے تھے، سندھی نہیں تھے، ٹھیٹھ پنجابی تھے۔ پسرور کے ساتھ ایک گاؤں ہے چیانوالی، ان کا تعلق وہاں سے تھا۔ لیکن ان کے شیخ حضرت حافظ محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ آف بھرچونڈی شریف سندھ جنہوں نے ان کی تربیت کی اور جن کی تربیت میں یہ عبید اللہ سندھی بنے، وہ بھرچونڈی شریف سندھ کے تھے، تو حضرت سندھیؒ اپنے شیخ کی محبت میں سندھی کہلائے۔

ہمارے قریب کے زمانے میں بڑے بزرگ گزرے ہیں حضرت مولانا سید نفیس الحسینی شاہ صاحبؒ، بڑے باذوق بزرگ تھے۔ انہوں نے محنت کر کے مولانا عبید اللہ سندھی کا پیدائشی گھر، جس میں حضرت سندھیؒ پیدا ہوئے تھے، خرید کے وہاں مدرسہ بنوا دیا ہے تاکہ مولانا سندھیؒ کی یادگار رہے۔ وہ مکان خرید لیا اور اسے بطور یادگار درسگاہ کی شکل دے دی کہ یہ ہماری بہت بڑی شخصیت کی جائے پیدائش ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میں بھی حاضر ہوا تھا۔ حضرت سندھیؒ چیانوالی کے تھے، سکول میں مسلمان دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ان سے متاثر ہوئے اور اسکول میں ہی کچھ لڑکوں سے معروف نو مسلم بزرگ مولانا عبید اللہ کی کتاب ’’تحفۃ الہند‘‘ ملی، توحید پر بڑی مفید کتاب ہے، جس کا مطالعہ اسلام کے ساتھ ان کی دلچسپی کا باعث بنا۔ چونکہ وہ کتاب پڑھ کر کتاب سے متاثر ہو کے مسلمان ہوئے تھے تو انہی بزرگ کے نام پر اپنا نام عبید اللہ رکھ لیا۔

ان کے والد فوت ہو گئے تھے، والدہ بہت دیر تک حیات رہی ہیں اور آخر وقت تک مسلمان نہیں ہوئیں۔ ایک بڑا دلچسپ قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب حضرت سندھیؒ اپنے زمانے میں امام انقلاب، مفکر انقلاب تھے، بہت بڑے عالم اور ہزاروں علماء کے استاد تھے، اس زمانے میں بھی والدہ کی بہت خدمت کی ہے۔ والدہ کے بڑے مطیع اور فرمانبردار تھے، لیکن والدہ کو مسلمان نہیں کر سکے۔ بڑی کوشش کی، لیکن وہ مسلمان نہیں ہوئیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میری والدہ اب بھی کبھی کبھی غصے میں آتی ہیں تو جوتا اٹھا لیتی ہیں اور مارنا شروع کر دیتی ہیں کہ بوٹیا! تو مسلہ کیوں ہوا ہے؟ میں سر ان کے سامنے کر دیتا ہوں اور کہتا ہوں اماں جی! جتنی مرضی جوتے ماریں، مسلمان تو میں رہوں گا، کلمہ اور ایمان تو میں نہیں چھوڑ سکتا۔

جب کسی کی قسمت یاوری کرتی ہے تو اللہ رب العزت تعلق جوڑ دیتے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو یہودیوں نے خریدا، مدینہ لے آئے۔ یہ ان کے لیے کتنا باعث برکت ہوا، ورنہ پتہ نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتے یا نہ پہنچتے۔ لیکن ان کی تو خیر بہت بڑی شخصیت تک رسائی ہو گئی۔ مولانا سندھیؒ کے لیے یہاں حالات سازگار نہیں تھے تو ان کے ماموں جامپور ڈیرہ غازی خان میں ہوتے تھے، حضرت سندھیؒ وہاں چلے گئے اور انہوں نے ابتدائی تعلیم جامپور ہائی سکول میں حاصل ہے۔ وہاں لڑکپن کے زمانے میں کسی ذریعے سے ان کی رسائی سندھ کے بزرگ حضرت حافظ محمد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ تک ہو گئی۔ یہ ہمارے سلسلہ قادریہ راشدیہ کے بڑے شیخ ہیں۔ اپنے زمانے کے کبار اولیاء کرام میں سے تھے، بہت بڑے اللہ والے بزرگ تھے۔ دین پور شریف، امروٹ شریف اور ہالیجی شریف ان کی شاخ ہے، وہ ان تینوں گدیوں کے شیخ ہیں۔ ہمارے دیوبندیوں کی یہ جو تین بڑی گدیاں اور بہت بڑے مراکز ہیں، یہ سب حضرت حافظ محمد صدیق صاحب کا فیض ہے۔ حضرت سندھیؒ کی ان تک رسائی ہوئی اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اتنا ہو کر رہ گئے کہ اپنی شناخت بھی انہوں نے گم کر دی اور سندھی کہلانے لگے، محبت میں شناخت بھی ختم کر دی، ورنہ پنجابی تھے۔ وہاں حضرت حافظ محمد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا، علمی اور روحانی فیض حاصل کیا۔

وہاں سے مولانا سندھیؒ کی دیوبند کی طرف رہنمائی ہوئی۔ جب دیوبند میں پڑھنے کے لیے گئے تو وہاں شیخ الہندؒ تک رسائی ہو گئی۔ شیخ الہندؒ اپنے زمانے کی بہت بڑی شخصیت ہیں، علمی بھی، فکری بھی اور تحریکی بھی۔ اپنے زمانے کے امام المجاہدین تھے، امام العلماء تھے اور امام الصوفیاء بھی تھے۔ حضرت سندھیؒ جو کچھ بھی بنے ہیں، وہ حافظ محمد صدیق صاحب کی برکت سے اور حضرت شیخ الہندؒ کی تربیت سے بنے ہیں۔ ان دو بزرگوں کا فیض مولانا سندھیؒ میں جمع ہوا۔

مولانا سندھیؒ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیوبند میں ان سے دورہ حدیث کیا۔ دیوبند کے پرانے فضلاء میں سے ہیں اور پھر حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ ہی وابستہ ہو گئے۔ حافظ محمد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ فوت ہو گئے تو پھر مولانا سندھی حضرت شیخ الہند سے وابستہ ہو گئے اور ایسے وابستہ ہوئے ہیں کہ یوں سمجھ لیجیے کہ حضرت شیخ الہند ہی کے ہو کر رہ گئے، باقی ہر شے بھول گئے۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تو تھے ہی، ان کے ساتھ فکری وابستگی بھی تھی۔ فکری ہم آہنگی بہت بڑا رشتہ ہوتا ہے۔ ہم مزاج ہونا، ہم ذوق ہونا، ہم فکر ہونا بہت مضبوط بندھن ہوتا ہے۔ مولانا سندھیؒ کی علمی استعداد ٹھیک تھی، روحانی تربیت بھی ٹھیک تھی اور تعلیمی ماحول بھی ٹھیک تھا تو یہ سارے اسباب ملا کر ایک وقت آیا کہ آپؒ حضرت شیخ الہند کے دست راست بنے۔

حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اس زمانہ میں آزادی کی تحریک کے تانے بانے بن رہے تھے۔ پہلے مرحلے پر حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے دیوبند کے قدیم فضلاء کو جمع کر کے جمعیت الانصار بنائی تھی۔ یہ ایک آزاد تنظیم تھی، جیسے ہمارے ہاں جماعتیں ہیں۔ جمعیت الانصار دیوبند کے پرانے فضلاء پر مشتمل تھی۔ اس کا ظاہری ہدف تعلیم دینا اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا تھا، لیکن اس کا اصل مقصد علماء کو اور دینی کارکنوں کو آزادی کی جنگ کے لیے تیار کرنا تھا۔ تحریک ریشمی رومال کی بات ہم ایک نشست میں تفصیل سے کر چکے ہیں۔ اس تحریک ریشمی رومال میں مولانا سندھیؒ حضرت شیخ الہند کے رفیق کار، ان کے نمائندے اور ان کے نفس ناطقہ تھے۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریک کا مختصراً خلاصہ عرض کر دیتا ہوں۔

وہ زمانہ تھا جب برصغیر کے مختلف علاقوں میں آزادی کی جنگیں علاقائی سطح پر ہو رہی تھیں۔ بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ اور تیتو میر کی تحریک، قبائلی علاقہ میں حاجی صاحب ترنگزئی، سندھ کے حر، پیر پگارا صاحب اور پنجاب کے سردار احمد خان کھرل آزادی کی جنگیں لڑ رہے تھے۔ پیر پگارا کی گدی کا آزادی کی جنگ میں بہت بڑا کردار ہے، قبولہ اور عارف والا کے علاقہ میں احمد خان کھرل شہیدؒ کا آزادی کی جنگ میں بہت بڑا کردار ہے، انہوں نے مسلح جنگ لڑی ہے، قبائلی علاقوں کا اور تالپوروں کا کردار بھی ہے، سندھ میں تالپوروں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی ہے۔ علاقائی سطح پر یہ بہت بڑا سلسلہ تھا، مگر شیخ الہندؒ کا خیال ہوا کہ یہ تو علاقائی جدوجہد ہے، اجتماعی آزادی کی جنگ ہونی چاہیے، چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ نے تانا بانا بنا کہ انگریزوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو انگریزوں کے دشمنوں سے دوستی کرنا ہوگی کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ دشمنی دو دشمنوں کو آپس میں دوست بنا دیتی ہے اور محاورہ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اس اصول پر حضرت شیخ الہندؒ نے دو بڑی طاقتوں سے رابطہ کیا۔ انہوں نے جرمنی اور جاپان سے دوستی گانٹھی کہ یہ بھی برطانیہ کے دشمن تھے۔ جاپان برطانیہ کے دشمنوں میں بہت بڑی طاقت تھی، اتنی بڑی طاقت تھی کہ اس کو دبانے کے لیے انہیں ایٹم بم چلانا پڑا، وہ ویسے قابو نہیں آ رہا تھا۔ اسی سے آپ اس کی قوت کا اندازہ کر لیں کہ جرمنی کی شکست کے باوجود جاپان ان کے سامنے کھڑا تھا، ہتھیار نہیں ڈال رہا تھا، اس کو ہتھیار ڈلوانے کے لیے انہیں ایٹم بم پھینک کر دو شہر تباہ کرنا پڑے، تب جاپان نے ہتھیار ڈالے ہیں۔ جاپان برطانیہ کا دشمن تھا تو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے جاپان اور جرمنی کے ساتھ، پھر خلافت عثمانیہ کے ساتھ اور افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ایک تحریک کی منصوبہ بندی کی جو تحریک ریشمی رومال (Silk Letters Conspiracy) کہلاتی ہے کہ سب مل کر آزادی کی جدوجہد کریں۔ لمبا منصوبہ تھا مگر افشا ہو گیا اور حضرت شیخ الہندؒ اور ان کے ساتھی گرفتار ہو گئے۔

میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس تحریک میں حضرت شیخ الہندؒ بڑی شخصیت اور بزرگ تھے، لیکن عملاً جو کام بھی کیا ہے وہ مولانا سندھیؒ نے کیا ہے۔ یہ تین چار آدمیوں کی ٹیم تھی، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا محمد میاں انصاریؒ، جو کہ منصور انصاری کے نام سے تاریخ میں یاد کیے جاتے ہیں، یہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے تھے۔ مولانا حامد الانصاری کی ایک کتاب ”اسلام کا سیاسی نظام“ کے نام سے ہے، منصور انصاری ان کے والد تھے۔ اب امریکہ میں ہمارے ایک عالمی سطح کے دانشور ڈاکٹر عابد اللہ غازی ہیں، ان کے دادا تھے اور مولانا سندھیؒ کے دست راست تھے۔ مولانا سندھی، مولانا منصور انصاری کے ساتھ مولانا سیف الرحمن لدھیانویؒ، پروفیسر برکت اللہ بھوپالی اور ایک ہندو راجہ مہندر پرتاب بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ یہ انقلابیوں کا گروپ تھا، جس نے آزادی کی جنگ کے لیے برلن، استنبول، ماسکو اور بین الاقوامی رابطے بنائے، کافی کام کیا، لیکن تحریک افشاء ہو گئی، گرفتاریاں ہو گئیں۔ مولانا سندھیؒ ایک عرصہ ترکی رہے، ماسکو رہے، پھر حرمین شریفین چلے گئے وہاں رہے۔ جلا وطنی کی زندگی گزاری اور جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد پھر ایک وقت آیا کہ انڈیا واپس آئے۔

حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ جیل سے واپس آئے تو کہا کہ کرنے کے دو ہی کام ہیں۔ عام مسلمان کا قرآن پاک کے ساتھ فہم کا تعلق قائم کریں اور آپس کے جھگڑے کم کرنے کی کوشش کریں۔ مولانا سندھیؒ کا چونکہ انقلابی ذوق تھا، اور تعلیم کا مقصد بھی انقلابی ہی تھا، اس لیے انہوں نے اپنے دور کے حالات اور انقلابی ضروریات کو سامنے رکھ کر قرآن پاک کی تفسیر و تشریح کی۔ سندھ میں پیر آف جھنڈا کی خانقاہ مولانا سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی بہت بڑی جولانگاہ رہی ہے۔

پیر پگارا اور پیر جھنڈا بھی آزادی کی تحریک کے بڑے مراکز میں سے ہیں۔ حضرت شاہ محمد راشد رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے کے بڑے بزرگ تھے۔ لاہور شیرانوالہ کا، دین پور، ہالیجی اور امروٹھ شریف کا ہمارا سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کہلاتا ہے۔ عالیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، قادریہ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے اور راشدیہ حضرت شاہ محمد راشدؒ سے۔ حضرت شاہ محمد راشد رحمۃ اللہ علیہ حضرت حافظ محمد صدیق صاحب کے پردادا پیر تھے۔ انہوں نے اپنے بعد اپنی جانشینی دو بیٹوں میں تقسیم کی تھی، ایک کو اپنی پگڑی دی تھی وہ پیر پگارا کہلائے، اور دوسرے بیٹے کو جھنڈا دیا تھا تو وہ پیر آف جھنڈا کہلائے۔ یوں اپنی گدی تقسیم کر دی تھی۔ موجودہ پیر پگارا کے دادا سید صبغت اللہ شہیدؒ کی آزادی کی جنگ میں باقاعدہ مسلح فورس تھی، انگریزوں کے خلاف میدانِ جنگ میں لڑتے تھے اور گوریلا کارروائیاں کرتے تھے۔ انہیں بغاوت کے کیس میں پھانسی ہوئی تھی، حیدرآباد جیل میں ان کو انگریزوں نے شہید کیا تھا۔

پیر آف جھنڈا کے ساتھ مولانا سندھی ؒ کا تعلق تھا، وہاں مدرس رہے ہیں اور ریسرچ سکالر بھی رہے ہیں۔ یہ خانقاہ ان کی جولانگاہ تھی، وہاں بہت بڑی لائبریری تھی۔ مولانا سندھیؒ دارالعلوم دیوبند میں استاد رہے ہیں، پھر ایک عرصے تک انہوں نے مکہ مکرمہ میں حرم شریف میں بیٹھ کر پڑھایا ہے اور آزادی کا درس دیا ہے اور دنیا بھر کے بہت سے اہل علم نے ان سے استفادہ کیا ہے۔

جب حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ واپس ہندوستان آئے ہیں تو واپس آنے کے بعد ان کی شخصیت ان کے بعض تفردات کی وجہ سے کچھ کچھ متنازع ہونے لگی۔ تفردات یہ تھے کہ موجودہ حالات کے تقاضوں کی روشنی میں وہ اپنی بات کہتے تھے، مگر جو بات بھی کہتے تھے سختی سے کہتے تھے، لہجہ سخت تھا، زبان مغلق تھی۔ اگر کوئی آدمی بات عام ماحول سے الگ کرے، تو ایک تو بات الگ ہوتی ہے، دوسرے لہجہ سخت ہو اور تیسرے زبان بھی مغلق ہو تو مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔

مولانا سندھیؒ کے ساتھ ایک المیہ یہ ہوا کہ ماسکو کے دوران اور مکہ مکرمہ میں ان کے شاگردوں میں کچھ حضرات کمیونزم سے متاثر ہو گئے۔ اس دور میں کمیونزم کا انقلاب آیا تھا۔ جب انقلاب ابتدائی پوزیشن میں ہوتا ہے تو بہت لوگ متاثر ہوتے ہیں، بڑے بڑے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ البتہ مولانا سندھیؒ کی اپنی تحریرات بالکل واضح ہیں۔ وہ قرآن کی بات کرتے تھے اور شاہ ولی اللہؒ کی بات کرتے تھے، تیسری بات کرتے ہی نہیں تھے۔ کہتے تھے کہ قرآن کی بات کرو اور شاہ ولی اللہؒ کی بات کرو، تیسرا کوئی نام بہت کم لیتے تھے۔ خود کو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فلسفے کے شارح کہتے ہیں اور شارح تھے بھی، لیکن زبان بڑی پیچیدہ سی تھی۔ ان کے بعض تفردات بھی ہیں، اس سے انکار نہیں، اہل علم کے تفردات ہوتے ہیں۔ تفردات کے بارے میں اصول یہ ہے کہ تفرد اگر تفرد رہے تو کوئی حرج نہیں ہوتا، تفرد کو مذہب بنایا جائے تو مسئلہ بن جاتا ہے۔

مولانا سندھیؒ کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا ہے اور مولانا سندھیؒ کے دفاع میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مولانا سندھیؒ کے خلاف سب سے زیادہ مولانا مسعود عالم ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، بڑی سخت تنقید کی ہے، اہل علم کا ایک دوسرے پر نقد اور اعتراض ہوتا ہے۔ اس کا جواب دو بزرگوں نے دیا ہے مولانا سندھیؒ کے دفاع میں کہ یہ مغالطے ہیں۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی ”مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے ناقدین“ کے نام سے کتاب ہے۔ یہ مولانا سندھیؒ کے شاگرد تھے تو ان کے دفاع میں کتاب لکھی۔ اور دوسری کتاب ہمارے چچا محترم حضرت صوفی عبد الحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے، جس کا نام ہے ”مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے علوم و افکار“ آپؒ بھی مولانا سندھیؒ کے بڑے عقیدت مندوں میں سے تھے، ان کی تحریروں میں آپ کو جگہ جگہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا سندھیؒ کا تذکرہ ملے گا۔

جس زمانے میں دارالعلوم دیوبند دو حصوں میں تقسیم ہوا ، اس زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا معراج الحق صاحب اور حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی صاحب پاکستان تشریف لائے۔ مولانا اکبر آبادی پرانے بزرگوں اور فضلاء میں سے ہیں، معروف دانشور ہیں۔ اپنے موقف کی وضاحت کے لیے دارالعلوم دیوبند قدیم کی طرف سے ان دو بزرگوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ گوجرانوالہ تشریف لائے، جامعہ نصرۃ العلوم میں ان کا بیان ہوا۔ جامعہ قاسمیہ میں ناشتے کے دوران میں نے مولانا اکبر آبادی سے پوچھا کہ حضرت! یہ قصہ کیا ہوا، مولانا سندھیؒ متنازع کیوں ہوئے؟ حالانکہ بہت بڑی شخصیت ہے اور ان کی بہت بڑی قربانیاں ہیں۔ اس پر انہوں نے بڑی زبردست بات بتائی، میں نے کسی کالم میں لکھی بھی ہے۔ فرمایا کہ ایک دفعہ میری حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ سے بات ہوئی۔ (یہ بھی مولانا سندھیؒ کے شاگرد تھے) تو مولانا سیوہاروی نے مجھے کہا کہ سعید بھائی! ہم نے مولانا سندھیؒ سے بڑی زیادتی کی ہے۔ ہم ان کے شاگرد تھے، ان کے مزاج اور ان کے علوم کو سمجھتے تھے، ہم نے بے پروائی برتی۔ مولانا سندھیؒ کی اپنی زبان مغلق اور لہجہ تلخ ہے، ان کے دوسرے طرز کے شاگردوں نے مولانا کو اپنے حق میں استعمال کر لیا۔ اصل قصور ہمارا ہے۔ بات اتنی ہی ہے۔

مولانا سندھی رحمۃ اللہ علیہ جب جلا وطنی کے بعد واپس تشریف لائے تو یہ بات درست ہے کہ ان کا رخ بظاہر بدلا ہوا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ دنیا دیکھ کر آئے تھے، انقلابات دیکھ کر آئے تھے اور دوسرا یہ کہ مولانا سندھیؒ پر مسلسل شکستوں کے اثرات بھی تھے۔ ایک آدمی مسلسل جدوجہد کرے اور ہر جدوجہد آخر میں ناکام ہو جائے اور وہ ہو بھی نومسلم، خاندانی پس منظر بھی کوئی نہ ہو تو پھر جو ذہنی اثرات ہوتے ہیں سو ہوتے ہیں۔ مولانا سندھیؒ اس بات کے داعی تھے جو ہم بھی کہتے ہیں کہ علماء کرام کو آج کے تقاضے سمجھنے چاہئیں، وقت کی ضروریات اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے، جدید فلسفے اور جدید علوم کو سمجھنا چاہیے، لیکن یہ بات ذرا سخت لہجے میں اور پیچیدہ زبان میں کہتے تھے۔

اس کے بعد مولانا سندھیؒ نے ساری زندگی قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر میں گزاری، دہلی میں نظارت قرآنیہ کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ وہیں ان کے ساتھی بنے، اور ان کے رشتہ دار بھی بنے۔ مولانا احمد علی کی والدہ محترمہ کا نکاح ہوا۔ مولانا احمد علی لاہوری کا تعلق گکھڑ کے قریب گاؤں جلال سے ہے، یہ بھی سکھ دھرم سے مسلمان ہوئے تھے۔

مولانا سندھیؒ کی بین الاقوامی سطح پر خدمات ہیں۔ جاپان، جرمنی، خلافت عثمانیہ اور افغانستان کے ساتھ رابطے قائم کرنے میں اور تحریک کے تانے بانے بن کر اس کو منظم کرنے میں مین کردار ان کا ہے اور آج بھی جب آزادی کی جنگ کی بات ہوتی ہے تو جو دو چار بڑے بڑے نام آتے ہیں ان میں ایک نام مولانا سندھیؒ کا بھی ہے۔ ہمارے اکابر میں سے ہیں، ہمارے بڑوں میں سے ہیں اور ان کا تذکرہ ہم اس حوالے سے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی خدمات، ان کی قربانیاں اور ان کے علوم و افکار آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ان کی جدوجہد کو اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

سوال: کیا انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے استعفیٰ دے دیا تھا؟

جواب: وہ جھگڑا ہوا تھا، ایک لمبا قصہ ہے۔ تحریک آزادی میں دراصل دارالعلوم کے اپنے تحفظات تھے اور ان کی تحریک کا اپنا مقصد تھا۔ تحریکوں میں اور مدارس میں ہمیشہ فاصلہ رہا ہے۔ تحریکوں کے مقاصد اور ہوتے ہیں اور مدارس کا تحفظ اور ہوتا ہے، ہم نے اس معاملے میں بہت زیادہ ٹھوکر کھائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ جو کہ دارالعلوم کے شیخ الحدیث تھے، جب انہوں نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے دارالعلوم سے استعفیٰ دیا کہ میرا انگریز سے مقابلہ ہوگا تو اس کی سزا دیوبند کیوں بھگتے؟ مدرسے کو بچاؤ۔ اعلان کیا کہ میرا مدرسے سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو بات کرنی ہے، مجھ سے کریں۔ یہ بڑی بصیرت کی بات تھی کہ میری تو لڑائی ہوگی تو ہم نے کبھی پکڑا جانا ہے، کبھی مارا جانا ہے تو اس سے مدرسہ کیوں متاثر ہو؟ مدرسہ کا ماحول کیوں خراب ہو، اس لیے مدرسہ چھوڑ دیا۔ انہی معاملات سے ان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ وہ اختلاف مسائل کا نہیں تھا، پالیسی کا اختلاف تھا۔ دوسرا حلقہ مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ کا۔ ۔ تعبیرات کا مسئلہ تھا۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ وہ یہ کہتے تھے کہ ہم بڑی مشکل سے مدرسہ چلا رہے ہیں آپ ہمارے لیے کیا مصیبتیں کھڑی کر رہے ہیں، ہم مدرسہ کو مورچہ نہیں بنانا چاہتے اور نہیں بنانا چاہیے تھا۔

اصل جھگڑا پالیسی کا تھا، مسائل کا اختلاف نہیں تھا، لیکن ہمارا مزاج ہے کہ جب ہم نے جھگڑا کھڑا کرنا ہو تو اس کے لیے مسائل پیدا کر لیتے ہیں کہ اس نے یہ لکھا ہے، یہ لکھا ہے، ہم اعتراض کی باتیں تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں کوئی مسئلہ اختلاف کا اس وقت تک سمجھ نہیں آتا، جب تک ہم اس کو کفر اسلام کا بنا نہ لیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اختلاف کی کوئی چیز سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ بھی کوئی اختلاف ہے۔ محض تعبیرات کا جھگڑا تھا، البتہ پروفیسر سرور مرحوم اور علامہ موسیٰ جار اللہ جو کہ مولانا سندھیؒ کے شاگرد تھے، کمیونزم سے متاثر ہو گئے تھے اور اس لہجے میں بات کرتے تھے۔ حضرت مولانا سعید احمد رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ ایک بار یہاں تشریف لائے تھے، میں نے ان سے کہا کہ میرا آپ سے عقائد کا جھگڑا نہیں ہے، میرا آپ سے اختلاف یہ ہے کہ میں مولانا سندھیؒ کو مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ اور مولانا احمد علیؒ کے ذریعہ پڑھتا ہوں آپ مولانا سندھیؒ کو پروفیسر سرور مرحوم کے ذریعے پڑھتے ہیں، بس اتنا ہی اختلاف ہے۔

سوال: حضرت صوفی صاحبؒ حضرت سندھیؒ کے براہ راست شاگرد ہیں؟

جواب: شاگرد نہیں ہیں، لیکن ان کی زیارت اور ملاقات کی ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ براہ راست شاگرد تھے۔ حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ کہتے ہیں کہ مجھے حجۃ اللہ البالغۃ اور مولانا قاسم ناناتویؒ کی کتابیں مولانا سندھیؒ سے سبقاً سبقاً پڑھنا پڑی ہیں تب سمجھ آئی ہیں۔ مولانا سندھیؒ کے براہ راست شاگردوں میں میرے علم میں آخری بزرگ مولانا غلام مصطفی قاسمیؒ تھے۔

2016ء سے
Flag Counter