روزنامہ جنگ لندن ۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء کے مطابق ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی میں ایک درخت پر مقامی کونسل کی طرف سے ایک خط چسپاں کیا گیا ہے جس میں کونسل کی لیگل سروسز کے سربراہ کے دستخطوں کے ساتھ اس درخت کو یقین دلایا گیا ہے کہ اسے کاٹا نہیں جائے گا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس درخت کو چند دوسرے درختوں کے ساتھ کاٹ کر ان کی جگہ دوسرے درخت لگانے کا منصوبہ تھا۔ جس پر کچھ مقامی لوگوں نے اعتراض کیا تو کونسل نے درخت کو کاٹنے کا فیصلہ تبدیل کر دیا، اور درخت کو مخاطب کر کے اسے تحریری یقین دہانی کرائی ہے کہ اسے کاٹا نہیں جائے گا۔ اس نوٹس میں درخت سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس سلسلہ میں اپنا موقف پیش کرنا چاہے تو تحریری طور پر پیش کر سکتا ہے۔
جانوروں اور درختوں کے تحفظ کے سلسلہ میں برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کے ہمدردانہ طرزِ عمل کے حوالے سے اس قسم کی خبریں آئے دن اخبارت کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ چند افراد کے توجہ دلانے پر جانوروں اور درختوں کو نہ صرف ہلاکت اور ضائع ہونے سے بچایا جاتا ہے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے باقاعدہ بجٹ بنائے جاتے ہیں اور اس پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف انسانوں کے بارے میں ان حکومتوں کا طرزِ عمل یہ ہے کہ اپنے استحصالی نظام کو بچانے اور دنیا پر چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے لاکھوں انسانوں کے قتلِ عام سے ان کے ہاتھ رنگین ہیں اور عالمی رائے عامہ ان کی اس سفاکی پر مسلسل چیخ و پکار کر رہی ہے مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
۱۴ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو لندن کی سڑکوں پر ہونے والے اس مارچ اور مظاہرہ میں راقم الحروف بھی شریک تھا جس میں افغانستان پر امریکہ و برطانیہ کے حملوں کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے بے گناہ افغانیوں کے قتلِ عام کی مذمت کی گئی اور افغانستان پر بمباری فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس مظاہرہ میں محتاط رپورٹ کے مطابق پچیس ہزار افراد شریک ہوئے جن میں ہر مذہب، ہر مکتبِ فکر، ہر علاقہ اور ہر رنگ و نسل کے لوگ شامل تھے۔ اور سب نے متفقہ طور پر افغان عوام کے قتلِ عام کی مذمت کرتے ہوئے جنگ بند کرنے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ مگر چند افراد کی درخواست پر ہیمپٹن یونیورسٹی کے ایک درخت کو تحفظ فراہم کرنے والی برطانوی حکومت نے ہزاروں برطانوی شہریوں کے اس احتجاج کا نوٹس لینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی، اور برطانیہ کی شراکت کے ساتھ امریکی حملے افغانستان پر بدستور جاری ہیں۔ غالباً اسی کیفیت اور صورتحال کے لیے کہا گیا ہے کہ
’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور‘‘