اسلام کے سیاسی نظام کا تاریخی پس منظر

   
تاریخ: 
۴ جولائی ۲۰۱۹ء

جامع مسجد امیر حمزہؓ (ایف ٹین ٹو، اسلام آباد) میں گزشتہ سال ماہانہ حاضری کا سلسلہ چلتا رہا ہے اور مسجد کے خطیب مولانا محمد ادریس کی فرمائش پر رواں تعلیمی سال کے دوران بھی یہ ترتیب قائم ہوگئی ہے کہ ہر انگریزی ماہ کی پہلی جمعرات کو وہاں حاضری ہوگی اور عصر تا عشاء دو نشستیں ہوا کریں گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔ ان میں سے ایک نشست کا عنوان ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘ طے ہوا ہے جس کا گزشتہ روز ۴ جولائی کو آغاز ہوگیا ہے۔ افتتاحی نشست میں کی گئی گفتگو کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘ کے موضوع پر گفتگو کے آغاز میں اس کے اس تاریخی پس منظر کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا جو خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ، جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء‘‘ کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت کا منصب حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس ہوا کرتا تھا۔ نبیوں کی بعثت کا سلسلہ جاری تھا، ایک پیغمبر دنیا سے رخصت ہوتے تو دوسرے نبی آجاتے اور یہ تسلسل جاری رہتا۔ اس کے ساتھ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد چونکہ نبی کوئی نہیں آئے گا ’’وستکون بعدی خلفاء‘‘ اس لیے اب سیاسی قیادت و حکومت کا یہ معاملہ خلفاء کے ذریعے چلتا رہے گا۔ چنانچہ باقی تمام تفصیلات سے قطع نظر ہمیں بنی اسرائیل کے سیاسی نظام اور ماحول کے مختلف مراحل کے بارے میں معلوم ہونا ضروری ہے کیونکہ آنحضرتؐ نے خلافت کے نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے سیاسی نظام کا حوالہ دیا ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ اسلام کے سیاسی نظام کا تاریخی پس منظر کیا ہے اور اسلام سیاسی نظام کے کون سے تسلسل کو اپنے قیامت تک کے دور میں جاری رکھنا چاہتا ہے۔

بنی اسرائیل کا دور حضرت یعقوب علیہ السلام سے شروع ہو کر جناب نبی اکرمؐ کے اعلان نبوت تک جاری رہا، ہزاروں سال کے اس دورانیہ میں ہزاروں پیغمبر آئے، بیسیوں صحیفے اور کتابیں نازل ہوئیں اور بیسیوں حکمرانوں نے حکومت کی، ان میں سے تین مراحل کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے اور انہی کی طرف اس وقت توجہ دلانا چاہ رہا ہوں۔

پہلا مرحلہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے جو ایک قیدی اور غلام کے طور پر مصر لائے گئے، انہوں نے اپنی ذہانت، بصیرت اور دیانت و شرافت کے باعث شاہی خاندان کا بھرپور اعتماد حاصل کر لیا اور بالآخر ’’اجعلنی علٰی خزائن الارض‘‘ کی فرمائش کے ساتھ حکومتی نظام میں شریک ہو کر بادشاہت کے مقام تک جا پہنچے۔ اپنے خاندان کو کنعان سے مصر میں بلا لیا جن میں ان کے والد گرامی اور بنی اسرائیل کے جد امجد حضرت یعقوب ؑ بھی شامل تھے۔ اس خاندان نے کئی نسلوں تک مصر پر حکومت کی جو بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت و حکومت کا دورِ اول تھا۔

دوسرا مرحلہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کی غلامی کے دور میں آنکھ کھولی اور آل فرعون کے مسلسل مظالم کا مشاہدہ کیا۔ انہیں جب اللہ تعالٰی نے نبوت و رسالت سے سرفراز کیا اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی ان کا شریک کار بنایا تو انہیں فرعون کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ’’ان ارسل معنا بنی اسرائیل ولاتعذبہم‘‘ ہم بنی اسرائیل کو تمہاری غلامی سے نجات دلا کر ارض فلسطین کی طرف واپس لے جانے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ فرعون نے انہیں اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا مگر بالآخر حضرت موسٰیؑ اللہ تعالٰی کی مدد سے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جانے میں کامیاب ہوئے اور اسی میں فرعون غرق ہوگیا۔

فرعون کی غلامی سے آزادی کے بعد بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ وہ بیت المقدس اور ارض فلسطین پر قابض حکمرانوں کے خلاف علم جہاد بلند کریں اور جنگ لڑ کر اپنا وطن آزاد کرائیں۔ بنی اسرائیل نے اس سے انکار کر دیا جس پر اللہ تعالٰی نے ان پر چالیس برس تک خانہ بدوشی کی حالت میں رہنے کی سزا نافذ کر دی۔ چنانچہ حضرت موسٰی و ہارون علیہما السلام دونوں بزرگوں کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جہاد کر کے بیت المقدس کو آزاد کرایا گیا اور وہاں ان کی ریاست و حکومت قائم ہوئی جو کئی نسلوں تک چلتی رہی۔

جبکہ تیسرا مرحلہ طالوت و جالوت کے معرکہ کا ہے اور اس کا ذکر بھی قرآن کریم نے کیا ہے کہ جالوت نامی حکمران نے اس علاقے پر قبضہ کر کے قوم کو غلام بنا لیا تھا، بنی اسرائیل نے اپنے اس وقت کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام سے درخواست کر کے ان کے حکم پر حضرت طالوتؒ کی سربراہی میں جالوت کے خلاف جہاد کر کے اپنا علاقہ آزاد کرایا جس کے نتیجے میں حضرت طالوتؒ کی حکومت قائم ہوگئی، انہوں نے میدان جنگ میں جالوت کو قتل کرنے کے انعام میں اپنی بیٹی حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ بیاہ دی، اور حضرت طالوتؒ کے بعد حضرت داؤدؑ ان کے جانشین کے طور پر بادشاہ بنے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے نبوت اور کتاب کے ساتھ بادشاہت کا وسیع نظام عطا فرمایا اور ان کے بعد ان کے جانشین حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سلطنت کو ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے اس وسیع دائرے تک پہنچا دیا جس کی دوبارہ بحالی کے لیے آج کے یہودی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

یہ اس پس منظر کا مختصر خلاصہ ہے جس کا تذکرہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے سیاسی نظام کے طور پر ’’خلافت‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ اس لیے میری پہلی گزارش یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست و حکومت کے نظام و ماحول کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ پس منظر ہمارے سامنے رہنا چاہیے کیونکہ اسلام کوئی نیا نظام دینے کی بجائے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات و احکامات کے تسلسل کو ہی قائم رکھنے کی بات کرتا ہے جس کا آخری، مکمل اور حتمی مجموعہ ’’قرآن و سنت‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور وہی اسلام کے سیاسی نظام کی اساس و بنیاد ہے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۶ جولائی ۲۰۱۹ء)
2016ء سے
Flag Counter