لندن بم دھماکے اور مشرق وسطیٰ میں نوے سالہ برطانوی تاریخ

   
۱۰ اگست ۲۰۰۵ء

برطانیہ میں خودکش بم دھماکوں کے ردعمل کا سلسلہ جاری ہے اور تازہ ترین خبروں کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد لندن کی تاریخ کا سب سے بڑا کریک ڈاؤن اور آپریشن شروع ہو چکا ہے جس میں چھ ہزار کے قریب سپاہی حصہ لے رہے ہیں۔ یہ آپریشن دہشت گردوں کی تلاش، ان کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے اور مستقبل میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا جا رہا ہے جو حفاظتی نقطۂ نظر سے انتہائی ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ اور بادی النظر میں یہ واقعتاً وقت کی اہم ضرورت ہے کہ جن لوگوں نے لندن کے پر امن شہریوں کو اچانک خودکش حملوں کا نشانہ بنا کر اس بین الاقوامی شہر کی پر امن فضا کو خوف و ہراس کے ماحول میں تبدیل کر دیا ہے ان کے نیٹ ورک کا سراغ لگا کر اسے ناکام بنایا جائے تاکہ آئندہ ایسی کوئی کارروائی عمل میں نہ آسکے۔ دوسری طرف اسامہ بن لادن کے نائب ایمن الظواہری نے ایک ریڈیائی پیغام میں دھمکی دی ہے کہ اگر برطانیہ نے خارجہ پالیسی تبدیل نہ کی تو لندن پھر اس قسم کے حملوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔

جہاں تک سول آبادی اور پر امن شہریوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنا کر غیر متعلق لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کا تعلق ہے ہم اس کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ یہ ایک مذموم فعل ہے جس کی نہ صرف یہ کہ حمایت نہیں کی جا سکتی بلکہ اگر کسی کی ایسا کرنے والوں تک رسائی ہو تو انہیں مشورہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اس حکمت عملی پر نظرثانی کریں۔ کیونکہ اس کا امت کو مجموعی طور پر نقصان ہو رہا ہے، مسلمانوں کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں اور خود ان کو بھی اس سے ہمارے خیال میں کچھ فائدہ نہیں ہو رہا۔ مگر اس سے ہٹ کر ان مبینہ دہشت گردوں کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم مسٹر ٹونی بلیئر کے اولین ردعمل کا یہ جملہ ابھی تک ہمارے کانوں میں گونج رہا ہے کہ اس مسئلہ کا حل صرف سکیورٹی انتظامات میں نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ان اسباب و عوامل کا بھی جائزہ لینا ہوگا جو اس مبینہ دہشت گردی کی پشت پر کارفرما ہیں کیونکہ ان اسباب کو دور کیے بغیر اس پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔

ہمارے خیال میں لندن کے میئر کن لیونگ سٹون نے ان اسباب کی زیادہ واضح انداز میں نشاندہی کی ہے جو اس دہشت گردی کا باعث بنے ہیں اور ایمن الظواہری کی حالیہ دھمکی بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ لندن کے ان بم دھماکوں کے اسباب کی کڑیاں مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانیہ کی اس پالیسی سے ملتی ہیں جن کا دورانیہ لندن کے میئر کے بقول گزشتہ آٹھ عشروں کو محیط ہے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ لندن کے بم دھماکے مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کی ۸۰ سالہ مداخلت کا نتیجہ ہیں۔ جناب کن لیونگ سٹون نے یہ بھی کہا ہے کہ برطانیہ نے عرب دنیا کا تیل ہتھیانے کے لیے مشرق وسطیٰ میں امن نہیں ہونے دیا، ہم نے ہمیشہ وہاں کمزور اور ناپسند حکومتوں کی حمایت کی، پچھلے ۸۰ برسوں میں ہم نے جس حکومت کے بارے میں محسوس کیا کہ وہ ہماری وفادار نہیں رہی، ہم نے وہ حکومت ختم کرا دی۔

لندن کے میئر نے اپنے اس انٹرویو میں اور بھی بہت سی فکر انگیز باتیں کہی ہیں مگر ہم اس مرحلہ میں اس ۸۰ سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالنا چاہتے ہیں جس کی طرف جناب کن لیونگ سٹون نے اشارہ کیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کی اسی سالہ پالیسیوں کے تسلسل کو لندن میں ہونے والے خونریز خودکش بم دھماکوں کا بڑا سبب قرار دیا ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ دورانیہ ’’اسی سال‘‘ پر نہیں بلکہ ’’نوے سال‘‘ پر محیط ہے۔ معلوم نہیں کہ کن لیونگ سٹون کس مصلحت کی خاطر پہلے دس سال کو اس دائرہ سے نکالنا چاہتے ہیں یا ان کی یادداشت پوری طرح کام نہیں کر رہی۔

بہرحال تاریخی ریکارڈ کے مطابق یہ کہانی ۱۹۱۵ء سے شروع ہوتی ہے جب قاہرہ میں متعین برطانوی ہائی کمشنر ہینری میک موہن نے حجاز مقدس میں خلافت عثمانیہ کے نمائندے اور مکہ مکرمہ کے گورنر حسین کو خط لکھا کہ اگر وہ خلافت عثمانیہ کے خلاف برطانوی پالیسی کے مطابق بغاوت کا اعلان کر دیں تو انہیں مالی اور سیاسی امداد مہیا کی جائے گی۔ اس کے جواب میں شریف مکہ حسین نے میک موہن کو لکھا کہ اگر برطانیہ اس بات کی گارنٹی دے کہ خلافت عثمانیہ یعنی ترکوں کی حکومت سے بغاوت میں کامیابی کے بعد عربوں کی آزاد ریاست قائم ہوگی تو وہ اس بغاوت کے لیے تیار ہیں۔ چنانچہ میک موہن کی طرف سے تحریری یقین دہانی کے بعد شریف مکہ حسین نے ۵ جون ۱۹۱۶ء کو ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس دوران برطانوی فوج کے ایک ذہین افسر ٹی اے لارنس جو بعد میں کرنل لارنس اور لارنس آف عریبیہ کے نام سے متعارف ہوئے، ایک عرب اور مسلمان دانشور کے روپ میں اردگرد کے قبائل اور سرداروں کو اس بغاوت میں شرکت پر آمادہ کر چکے تھے۔ جس کے نتیجے میں شام، عراق اور فلسطین میں بھی بغاوت کے آثار نمودار ہوئے۔ اس بغاوت کو کامیاب بنانے کے لیے امداد کے نام پر برطانوی فوج عراق، شام اور فلسطین میں داخل ہوگئی اور فلسطین پر برطانیہ نے مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر آباد کرنے اور ایک یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی گئی۔

برطانوی وزیرخارجہ بالفور ۱۹۱۷ء میں ہی یہودیوں کے ساتھ تحریری طور پر یہ معاہدہ کر چکے تھے کہ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ اور اس کے حلیفوں کو مالی امداد مہیا کرنے کے صلے میں برطانیہ فلسطین میں اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ کرتا ہے۔ چنانچہ برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں ایک ہی وقت میں دو الگ الگ معاہدے کیے۔ عربوں سے کہا کہ خلافت عثمانیہ کے خلاف کامیاب بغاوت کی صورت میں عربوں کی آزاد ریاست قائم ہوگی، اور یہودیوں سے یہ معاہدہ کیا کہ فلسطین میں ان کی ریاست اسرائیل کے قیام میں برطانیہ پورا پورا تعاون کرے گا۔ ان دو معاہدوں کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔

یہودیوں کے ساتھ معاہدے کو پورا کرنے کے لیے برطانوی فوجوں نے خود فلسطین پر قبضہ کیا۔ لیگ آف نیشنز میں، جو اس وقت کی اقوام متحدہ تھی، مقدمہ لے جا کر ۲۲ جولائی ۱۹۲۲ء کو فلسطین پر برطانوی حکومت اور تسلط کے جواز اور استحقاق کا ریزولوشن پاس کرایا۔ اس کے بعد مئی ۱۹۴۷ء تک برطانیہ نے فلسطین کو اپنے قبضے میں رکھ کر دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں بسایا۔ اور ۲۹ مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی قرارداد پاس کرا کے یہودیوں کے ساتھ اپنے وزیرخارجہ کے وعدے کو پورا کر دیا۔ ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا اور ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین سے دستبرداری اختیار کی جب یہودیوں کی ایک بڑی تعداد دنیا کے مختلف ممالک سے آکر وہاں آباد ہو چکی تھی۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم اور یہودیوں کے مستقل ملک کے قیام کا استحقاق تسلیم کر لیا تھا، جبکہ اسی دوران امریکہ اور روس سمیت دنیا کے بڑے ملک اس صورتحال کو قبول کر کے اس کے تحفظ کی ضمانت دے چکے تھے۔

دوسری طرف عربوں کے ساتھ برطانیہ نے کیا سلوک کیا؟ اس کی تلخ داستان تاریخ کے صفحات میں اس طرح مرقوم ہے کہ مکہ مکرمہ کے گورنر حسین ہاشمی کے ذریعے ترکوں کی خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرائی اور اس سے آزاد عرب ریاست کے قیام کا وعدہ کیا۔ مگر جب بغاوت کامیاب ہوگئی بلکہ پہلی جنگ عظیم میں شکست کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا وجود ہی ختم ہوگیا تو حسین ہاشمی کو عرب ریاست دلانے کی بجائے اس کے ایک بیٹے کو عراق کا اور دوسرے بیٹے کو اردن کا والی بنا کر انہیں الگ الگ ریاستوں کی حیثیت دے دی۔ جبکہ حجاز مقدس پر حسین ہاشمی کا حق تسلیم کرنے کی بجائے نجد کے آل سعود کے ساتھ معاہدہ کر کے اس خطے کا اقتدار ان کے حوالے کر دیا۔ یہ معاہدہ بھی ۱۹۱۵ء کے دوران ۲۲ نومبر کو ہوا۔ اس پر برطانوی نمائندے زیڈ بی کاکس اور آل سعود کے سربراہ ملک عبد العزیز بن سعود نے دستخط کیے۔

ادھر ہندوستان میں برطانیہ کے وائسرائے لارڈ چیمس فورڈ نے ملکہ برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت سے ۱۸ مئی ۱۹۱۶ء کو شملہ میں اس معاہدے پر دستخط کر کے اس کی توثیق کی۔ اس معاہدے میں، جو مطبوعہ شکل میں تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے، ایک طرف برطانوی حکومت نے اس خطے پر، جو آج سعودی عرب کہلاتا ہے، آل سعود کا خاندانی طور پر حق حکمرانی تسلیم کیا اور اسے سیاسی اور فوجی دفاع کی ضمانت دی۔ جبکہ دوسری طرف ملک عبد العزیز مرحوم نے برطانیہ سے وعدہ کیا کہ وہ اس خطے میں برطانوی حکومت کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے اور اس کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ معاہدے کی ایک مستقل شق یہ ہے کہ اس خطے میں آل سعود ہی کے افراد کو نسل در نسل حکمرانی کا حق حاصل ہوگا مگر شرط یہ ہوگی کہ حکمران بننے والے شخص کی برطانیہ کے ساتھ وفاداری مشکوک نہ ہو۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برطانیہ عالمی معاملات سنبھالنے کی پوزیشن میں نہ رہا تو اس نے اپنی یہ ذمہ داری تازہ دم نئے استعمار امریکہ کے حوالے کر دی اور خود اس کے معاون کی حیثیت اختیار کر لی۔ چنانچہ اس کے بعد سے امریکہ مشرق وسطیٰ میں جو کچھ کر رہا ہے اسی حیثیت سے کر رہا ہے۔

اس لیے ہم لندن کے میئر جناب کن لیونگ سٹون کی اس حقیقت پسندانہ نشاندہی پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور برطانوی وزیراعظم جناب ٹونی بلیئر سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ برطانیہ کا پرامن ماحول اور لندن کے شہریوں کی زندگی ان کی طرح ہمیں بھی عزیز ہے، لیکن آگ کے اصل مرکز کو نظر انداز کر کے صرف شعلوں پر پانی پھینکنے سے آگ نہیں بجھا کرتی، اگر وہ آگ بجھانے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس کے اصل مرکز کو ٹھنڈا کرنا ہوگا اور آگ کے ایندھن پر قابو پانا ہوگا، ورنہ:

گر یہ نہیں ہے بابا پھر سب کہانیاں ہیں
   
2016ء سے
Flag Counter