حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ تحریک آزادی کے سرگرم رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا، اور پاکستان بننے کے بعد سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو کر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک کو منظم کرنے میں مگن ہو گئے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا منظم اور مختلف ممالک تک وسیع نیٹ ورک انہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ بہت معاملہ فہم اور زیرک رہنما تھے اور پبلک جلسوں میں مشکل سے مشکل مسئلہ کو آسان ترین انداز میں پیش کرنے اور سمجھانے کے فن میں مہارت رکھتے تھے۔
گزشتہ روز ایک دوست کے ہاں پرانے رسالوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے ماہنامہ لولاک ملتان کا دو سال پہلے کا ایک پرچہ نظر سے گزرا تو حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی ایک تقریر سامنے آ گئی جو انہوں نے کسی دور میں پکالاڑاں ضلع رحیم یار خان میں کی تھی اور ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے اسے مرتب کیا گیا تھا۔
تقریر میں انہوں نے سندھ کی معروف خانقاہ امروٹ شریف کا ذکر کیا اور حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ کے ایک دو واقعات بیان کیے ہیں۔ حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ ایک تاجدار بزرگ، مجاہد عالم دین اور ممتاز روحانی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کے سرگرم مجاہد بھی تھے۔ ان کا روحانی تعلق بھرچونڈی شریف کے حضرت حافظ محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھا جو اپنے دور میں مرجع خلائق تھے اور سلسلہ عالیہ قادریہ کی روحانی عظمتوں کے امین تھے۔ مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی انہی کے فیض یافتہ تھے اور انہی کی صحبت نے اس نومسلم نوجوان کو فکری روحانی اور اخلاقی بلندیوں سے روشناس کرایا تھا۔ جبکہ امروٹ شریف کا فکری اور سیاسی رابطہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریک سے تھا اور حضرت شیخ الہندؒ نے برطانوی استعمار سے جنوبی ایشیا کی آزادی کے لیے جو تحریک منظم کی تھی امروٹ شریف اس کے اہم مراکز میں سے تھا۔
حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کا بیان کردہ واقعہ یہ ہے کہ ایک روز کسی عقیدت مند نے حضرت امروٹیؒ سے دریافت کیا کہ حضرت! آپ جو آزادی کی جنگ کے لیے اس قدر تگ و دو کر رہے ہیں اور اپنے رفقاء سمیت اتنی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، اس کی بجائے آپ اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کیوں نہیں کرتے کہ یا اللہ! ان ظالم انگریزوں سے دنیا کا اقتدار واپس لے لے۔ حضرت امروٹیؒ نے فرمایا کہ میں نے کئی بار عرض کیا ہے، مگر ادھر سے جواب آتا ہے کہ ’’ان سے تو اقتدار واپس لے لوں مگر دوں کس کو؟‘‘
اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ عالم اسباب میں مسلمان ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ وہ دنیا کا اقتدار سنبھال سکیں۔ اس واقعہ کو اندازاً پون صدی گزر چکی ہے اور اس دوران عالمی قیادت کا تاج انگریزوں کے سر سے منتقل ہو کر امریکیوں کے سر کی زینت بن چکا ہے، مگر عالم اسلام کے حوالے سے یہ سوال اسی طرح قائم ہے اور اس میں کسی بھی حوالے سے کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ نے اسباب کے حوالے سے چلا رکھا ہے اور اس کا ضابطہ و قانون یہ ہے کہ دنیا میں ساری باتیں اسباب و و سائل ہی کے حوالے سے طے پاتی اور چلتی ہیں۔ کبھی کبھار اللہ تعالی اپنی قدرت کے اظہار کے لیے اسباب سے ہٹ کر کوئی بات ظاہر فرما دیتے ہیں، لیکن اسے قانون اور ضابطے کا درجہ حاصل نہیں ہے کہ اس کی ہر وقت توقع رکھی جائے اور محض اس کی امید پر اجتماعی فیصلوں اور پروگراموں کی بنیاد قائم کر دی جائے۔ اسباب کی کمی بیشی کا خلا تو اللہ تعالیٰ پر کر دیتے ہیں اور محض اس وجہ سے اہلِ حق کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو تو اللہ تعالیٰ دستِ غیب سے سہارا دے دیتے ہیں، لیکن اسباب اور عدمِ اسباب کے خلا کو پر کرنا اللہ تعالیٰ کے ضابطے کے خلاف ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توکل کی یہی تعریف فرمائی ہے کہ اپنے امکان و استطاعت کی حد تک اسباب مہیا اور اختیار کرنے کے بعد نتائج کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ دست گیری فرماتے ہیں۔
ہمارے استاد محترم اس کی مثال اس طرح دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ ان کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر ہو گا اور وہاں سے وہ مسجد کے صحن میں کھڑے لوگوں کو آواز دیں گے کہ سیڑھی لائی جائے تاکہ وہ نیچے اتر سکیں۔ چنانچہ سیڑھی لائی جائے گی اور وہ نیچے تشریف لائیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ کے جو فرشتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں سے جامع مسجد دمشق کے مینار تک پہنچائیں گے ان کے لیے نیچے صحن میں ان کو اتارنا مشکل نہیں ہو گا، لیکن چونکہ زمین کا نظام اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اسباب کے دائرہ میں چل رہا ہے، اس لیے زمین تک پہنچنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی سیڑھی کا سبب اختیار کرنا پڑے گا اور غیبی فرشتے انہیں اسباب کے دائرہ تک پہنچا کر واپس چلے جائیں گے۔
اس پس منظر میں آج کے عالمی تناظر میں حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ کے اس ارشاد کو دیکھا جائے تو یہ سوال بدستور اپنی اصلی کیفیت میں قائم ہے کہ عالمی قیادت امریکہ کے ہاتھوں سے چھین تو لی جائے مگر دی کس کو جائے؟ کیا آج عالم اسلام موجودہ معروضی حالات میں دنیا کی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ سوال بہت تلخ ہے اور ہمارے بہت سے دوستوں کو ہضم نہیں ہو گا، لیکن اس سے سوال کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
اتفاق کی بات ہے کہ جس روز میں نے حضرت امروٹیؒ کا یہ واقعہ پڑھا اسی روز گوجرانوالہ میں اہلحدیث دوستوں کی ایک تنظیم نے اس موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا کہ عالم اسلام کی موجودہ صورتحال میں علم اور تعلیم کی اہمیت اور کردار کیا ہے؟ میں نے اپنی گفتگو میں یہی واقعہ بیان کر کے سیمینار کے شرکاء سے مذکورہ سوال کیا تو وہ تعجب اور پریشانی سے میرا منہ دیکھنے لگے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور! ہمارا حال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ پون صدی کے دوران ہمیں تیل کی عظیم اور بے پناہ دولت سے مالامال کیا مگر اسے سنبھالنے کی اہمیت و صلاحیت نہ رکھنے کی وجہ سے ہم اسے دوسروں بلکہ دشمنوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جب عالم اسلام میں تیل کے وسیع ذخائر کی موجودگی کا انکشاف ہوا تو ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں تھی کہ ہم خود کھدائی کر کے تیل نکال سکتے، تیل نکال کر اس کی ریفائنری کا اہتمام کر سکتے اور اسے قابلِ استعمال حالت میں لا کر دنیا میں اس کی مارکیٹنگ کے تقاضے پورے کر سکتے۔ ان تینوں صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے ہمیں تیل کے چشموں کی کھدائی، ریفائنری اور مارکیٹنگ کا پورا نظام مغربی کمپنیوں کے سپرد کرنا پڑا اور انہی کے ذریعے ہم اپنی تمام تر دولت، معیشت اور سیاست سمیت مغربی استعمار کے آہنی شکنجے میں جکڑے جا چکے ہیں۔ جو قوم اپنے گھر کی دولت کو سنبھالنے، اسے اپنے مصرف میں لانے اور اس پر کنٹرول قائم رکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو، وہ اگر دنیا کی قیادت کے خواب دیکھنے لگے تو اسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’خوش فہمی‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
ہمیں اسلام کے روشن مستقبل اور دنیا پر ملتِ اسلامیہ کی دوبارہ قیادت کا اتنا ہی یقین ہے جتنا کل صبح سورج طلوع ہونے کا یقین ہے، لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی پختہ یقین ہے کہ یہ موجودہ حالات میں نہیں ہو گا اور موجودہ سیاسی، علمی اور دینی قیادتوں کے ہاتھوں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عالم اسلام میں ایک نئے علمی و فکری دور کی شمع جلانا ہوگی، نئی نسل کو ایمان و اخلاق کی مستحکم بنیادوں کے ساتھ عالمی قیادت کے لیے تمام تر ضروری صلاحیتوں اور استعداد سے بہرہ ور کرنا ہو گا، اور نسل انسانی کو اس کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے اسلام کی فطری تعلیمات اور عادلانہ نظام کی افادیت و ضرورت کا احساس دلانا ہو گا۔ یہ اس جدوجہد کے ناگزیر اسباب ہیں اور اس سفر کا ضروری زادِ راہ ہے۔ ہمارے ارباب علم و دانش اس زادِ راہ کا جس قدر جلد اہتمام کر لیں گے، دنیا پر اسلام کے غلبے اور ملت اسلامیہ کے روشن مستقبل کی منزل قریب تر ہوتی جائے گی۔