امارت اسلامی افغانستان کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کے مقاصد دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں اور جوں جوں مقاصد سے پردہ اٹھ رہا ہے آنکھیں بند کر کے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے والے مسلم حکمرانوں کی آنکھیں بھی کھلتی جا رہی ہیں۔ اس کا تازہ ترین اظہار امریکہ سے حکومت پاکستان کے اس ”دوستانہ احتجاج“ سے ہوتا ہے جو بھارت میں متعین امریکی سفیر کے اس حالیہ بیان کے حوالے سے کیا گیا ہے، جس میں امریکی سفیر نے کہا ہے کہ امریکہ اور بھارت کو درپیش دہشت گردوں کے خاتمہ تک جنگ جاری رہے گی اور امریکہ نے کشمیری تنظیموں کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔
اس سے قبل کابل میں شمالی اتحاد کے داخلہ اور پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شمالی اتحاد کی کوششوں پر حکومت پاکستان کا رد عمل بھی سامنے آ چکا ہے، جس میں جنرل پرویز مشرف اپنے امریکی دوستوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان پر امریکہ کی طرف سے مسلط کی جانے والی مبینہ حکومت میں شمالی اتحاد کو کارنر کرنے کی صورت اختیار نہ کی گئی تو اس سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ مگر امریکہ نے رمضان المبارک میں افغانستان پر بمباری بند کرنے کے بارے میں صدر پرویز مشرف کی اپیل کا جو جواب دیا تھا اس کے آئینے میں شمالی اتحاد کے بارے میں حکومت پاکستان کے تحفظات پر امریکی رد عمل کا چہرہ بھی بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
ادھر دولت قطر کے امیر نے متحدہ عرب امارات کی شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی اور جدوجہدِ آزادی میں فرق قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور امریکہ کی طرف سے فلسطین میں مسلح کارروائیاں کرنے والی تنظیم ”حزب اللہ“ کو دہشت گرد قرار دینے کی مخالفت کی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی توجہ کی مستحق ہے کہ امریکی صدر بش نے فلپائن کے صدر کو واشنگٹن میں ملاقات کے دوران یہ پیش کش کی ہے کہ فلپائن کے مسلم اکثریتی علاقے ”مورو“ میں آزادی کی جنگ لڑنے والی تنظیم کو کچلنے کے لیے امریکہ کی حکومت فلپائن کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔
ہم ایک عرصہ سے یہ گزارش کر رہے ہیں کہ ”دہشت گردی“ سے امریکہ کی مراد ”دہشت گردی“ نہیں ہے، بلکہ عالم اسلام کی وہ مسلح تحریکات ہیں جو اسلام کے نام پر اپنے وطن کی آزادی اور اپنے دینی تشخص کے تحفظ کے لیے جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ تحریکیں پہلے بھی موجود تھیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی تحریکاتِ آزادی کام کر رہی تھیں، مگر امریکہ کو ان سے کوئی زیادہ شکایت نہیں تھی۔ لیکن جہاد افغانستان اور طالبان کی اسلامی حکومت کے قیام کے بعد انہی تحریکات میں اپنے رجحانات کا فیصلہ ہوا ہے اور آزادی کے ساتھ ساتھ اسلام کی سربلندی اور نفاذ اسلام کا پروگرام ان تحریکات کے اہداف میں شامل ہوا ہے تو امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں اور اسے دنیا میں موجود تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان سے نمٹنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے گزشتہ دنوں کہا ہے کہ ”تہذیب کے مکمل طور پر محفوظ ہونے تک امریکہ کی جنگ جاری رہے گی۔“ اس طرح انہوں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ جنگ دراصل دہشت گردی کے خاتمہ کی نہیں، بلکہ تہذیب کے تحفظ کے لیے ہے۔
اصل بات یہی ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے سرد جنگ میں جہاد افغانستان کے ذریعہ سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد اسلام کو اپنا اگلا ہدف قرار دے کر ”سولائزیشن وار“ کا آغاز کر دیا تھا۔ افغانستان کی موجودہ جنگ اسی تہذیبی کشمکش کا حصہ ہے اور اب دنیائے اسلام اس دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے کہ اسے قرآن و سنت کے ساتھ وابستگی اور مغربی تہذیب و ثقافت کو مکمل طور پر قبول کرنے میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ امریکی کیمپ نے عملاً ثابت کر دیا ہے کہ وہ دنیا کے کسی حصے میں کسی ایسی حکومت یا ریاست کا وجود برداشت نہیں کرے گا جس میں قوانین اور نظامِ حکومت کے لیے قرآن و سنت کو بنیاد بنایا گیا ہو اور جس میں موجودہ عالمی تہذیب اور ورلڈ سسٹم کے خلاف بغاوت کا راستہ اختیار کیا گیا ہو۔
اسی پس منظر میں ترکی کی پارلیمنٹ کا ایک حالیہ فیصلہ بھی خصوصی توجہ کا مستحق ہے، جس میں خاندانی قوانین میں مزید ترمیم کر کے خاندانی نظام میں مرد کی بالاتری کے قواعد کو ختم کر دیا گیا اور خبر کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ گویا ترکی نے خود کو یورپی ممالک میں شامل کرنے کے لیے خلافت کا نظام ختم کرنے سے لے کر ملک میں عملاً سیکولر نظام نافذ کرنے، نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی قوانین ختم کر کے اٹلی کے قوانین اپنانے اور اسلامی شعائر پر پابندی لگانے کے جو اقدامات پون صدی کے دوران مسلسل کیے ہیں اور جن کی فوج کے ذریعہ مکمل پاسداری کی جا رہی ہے، وہ سب کچھ ترکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے کافی نہیں ہیں اور اسے خاندانی قوانین میں مزید ترامیم کر کے انہیں یورپی ممالک کے معیار کے مطابق مکمل طور پر تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے بعد بھی یہی معاملہ مشکوک ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کا ممبر بنایا جاتا ہے یا اس کے بعد ایک مطالبہ ابھی باقی ہے کہ ترکی اسلام سے عملی برأت کے ساتھ ساتھ اس سے زبانی برأت کا بھی اعلان کرے، تب اسے ایک یورپی ملک تصور کیا جائے گا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم ممالک سے امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے تقاضے کیا ہیں؟ اور جس عالمی برادری میں شامل ہونے کے لیے مسلمان حکومتوں نے افغانستان کی اسلامی حکومت اور مظلوم طالبان کو قربانی کا بکرا بنایا ہے، اس عالمی برادری کا حصہ قرار پانے کے لیے انہیں ابھی اور کیا کچھ کرنا ہے؟
بلاشبہ یہ دو تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے، جس کا ایک چھوٹا سا عملی مظاہرہ اس جنگ میں بھی دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ طالبان نے افغانستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والی جاسوس خاتون مغربی صحافی کو رہا کر دیا اور افغانستان میں مسیحیت کی تبلیغ کے الزام میں گرفتار این جی اوز کے آٹھ کارکنوں کو کابل خالی کرتے وقت اپنے ساتھ لے جا کر ان کی محفوظ رہائی کو یقینی بنایا، جن میں سے دو خواتین نے رہائی کے بعد کھلم کھلا کہا کہ انہیں طالبان نے بہنوں کی طرح رکھا اور وہ دوبارہ افغانستان جانے کی خواہش رکھتی ہیں۔
اس تہذیبی جنگ میں ایک طرف قوت و طاقت ہے، دجل و فریب ہے، دہشت و تشدد ہے، وحشت و بربریت ہے اور دوسری طرف ایمان و کردار اور اخلاقی روایات و اقدار ہیں۔ تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ایمان اور طاقت کی جنگ میں اور اخلاق اور دہشت کی کشمکش میں کبھی ایمان و اخلاق اور کردار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہو، اس لیے ہمیں یقین ہے کہ مشکلات بلکہ شدید و سنگین ابتلا کے ایک اور جان گسل دور سے گزرنے باوجود آخری فتح بالآخر ایمان و کردار ہی کی ہوگی، البتہ چھانٹی ضرور ہو جائے گی کہ ایمان و کردار کے ساتھ سچی کمٹمنٹ رکھنے والے کون ہیں اور وقتی مفادات کے لیے ایمان، اخلاق اور مذہب و ثقافت تک کی قربانی دے کر مغرب کے دجل و فریب کا پرچم اٹھانے کی بدبختی کن لوگوں کے حصے میں آتی ہے؟