نظریۂ پاکستان کے خلاف کالم لکھنے پر ملک کے معروف صحافی ایاز میر کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے مسترد کیے جانے کے بعد سیکولر اخبار نویسوں کے ہاتھ میں نظریہ پاکستان کے بارے میں اپنے منفی جذبات کا اظہار کرنے کا ایک اور موقع آگیا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے میں پوری مستعدی دکھا رہے ہیں۔
ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کیا جا رہا ہے کہ ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کیا ہے؟ اور اس کی تعبیر و تشریح کیا ہے؟ یہ بات ایسے لہجے میں کہی جا رہی ہے جیسے ان دوستوں کو سرے سے نظریۂ پاکستان کے بارے میں کچھ علم ہی نہ ہو۔ حالانکہ یہ سب کچھ جانتے ہیں، انہیں بخوبی معلوم ہے کہ برصغیر یعنی متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی سیاسی اور تہذیبی وجوہ کیا تھیں، وہ مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے بارے میں سرسید احمد خان مرحوم کی جدوجہد سے بے خبر نہیں ہیں، انہیں اس حوالہ سے چودھری رحمت علی مرحوم اور علامہ اقبالؒ کے افکار اور ان کی طرف سے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کی تحریک و تجویز کا پوری طرح علم ہے، اور تحریک پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے وہ اعلانات اور خطبات بھی انہوں نے پڑھ رکھے ہیں جن میں انہوں نے پاکستان کو اسلام کے نظریہ اور مسلمانوں کی جداگانہ تہذیبی شناخت کے تحفظ و بقا اور فروغ و نفاذ کی بنیاد قرار دیا تھا، مگر وہ ’’تجاہل عارفانہ‘‘ سے کام لیتے ہوئے نئی نسل کی اس سلسلہ میں بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ نئی نسل کی یہ ’’بے خبری‘‘ بھی محض اتفاقی نہیں بلکہ ملک کے تعلیمی نظام و نصاب سے اسلام اور نظریہ پاکستان کے بارے میں معلومات و مواد کو دھیرے دھیرے خارج کر کے اس بے خبری کا ماحول پیدا کیا گیا ہے اور اس خود ساختہ ماحول میں آج کی نسل کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ نظریہ پاکستان آخر کیا چیز ہے؟
ان حضرات سے کچھ عرض کرنے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے البتہ آج کے نوجوانوں کے لیے چند باتیں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ نظریہ جس کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور پھر اسی حوالہ سے دنیا کے نقشے پر اس نئی ریاست کا وجود عمل میں آیا تھا اس کے بارے میں خود تحریک پاکستان کے راہ نماؤں کے اعلانات کیا تھے اور قیام پاکستان کے بعد اسے دستوری طور پر کیا شکل دی گئی تھی؟
۱۹۴۴ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے انڈین کانگریس کے راہ نما گاندھی کے نام اپنے مکتوب میں کہا تھا کہ:
’’قرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے، اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں، مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے، لہٰذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور ما بعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔‘‘
یہ وضاحت تو قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان سے تین سال قبل اپنے سیاسی حریف گاندھی جی کو خطاب کر کے کی تھی جبکہ قیام پاکستان کے گیارہ ماہ بعد یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ:
’’مغرب کے نظام معاشیات نے متعدد مسائل پیدا کر رکھے ہیں، میں اسلامی تعلیمات کے مطابق آپ کے یہاں نظام معیشت دیکھنے کا متمنی ہوں، مغرب کا معاشی نظام ہی دو عظیم جنگوں کا موجب بنا ہے، ہمیں اپنے مقاصد اور ضروریات کے لیے کام کرنا ہے اور ہمیں انسانوں کے لیے معاشرتی اور معاشی انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔‘‘
پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے مولوی تمیز الدین مرحوم کی صدارت میں قرارداد مقاصد منظور کر کے نظریہ پاکستان کو دستوری طور پر اس طرح واضح کیا تھا کہ:
- حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی۔
- حق حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو ہوگا۔
- اور حکومت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی پابند ہوگی۔
اس موقع پر دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ:
’’میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے ملت قائد اعظم نے اس مسئلہ کے متعلق اپنے جذبات کا متعدد بار اظہار کیا تھا اور قوم نے ان کے خیالات کی تائید غیر مبہم الفاظ میں کی تھی، پاکستان اس لیے قائم کیا گیا کہ برصغیر کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات و روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے، اس لیے وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے کہ آج حیات انسانی کو جو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں ان سب کے لیے اسلام اکسیر اعظم کا حکم رکھتا ہے۔‘‘
نظریۂ پاکستان کے اس واضح تصور کے بعد اس سلسلہ میں کسی مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی لیکن اس کے باوجود ۱۹۷۳ء کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تو اسٹیٹ بنام ضیاء الرحمن کے عنوان سے ایک کیس میں چیف جسٹس جناب جسٹس حمود الرحمن، جسٹس ایس انوار الحق، جسٹس محمد یعقوب احمد، جسٹس وحید الدین احمد اور جسٹس صلاح الدین احمد نے اپنے متفقہ فیصلے میں یہ صراحت کی تھی کہ:
’’پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا نظریہ ۷ مارچ ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد میں درج ہے جسے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا جس میں منجملہ دیگر امور کے اعلان کیا گیا ہے کہ مسلمان اس مملکت میں اجتماعی اور انفرادی معاملات میں اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق عمل کریں گے جو قرآن و سنت میں درج ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی اس فیصلہ میں جسٹس سجاد احمد خان کے ایک سابقہ فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ:
’’مملکت پاکستان ایک اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں لائی گئی تھی اور یہ لازماً اسی نظریے کی بنیاد پر چلائی جائے گی۔ ماسوائے اس کے کہ خدانخواستہ اس کی تشکیل ہی از سر نو کی جائے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان ختم ہوگیا، قرارداد مقاصد کوئی محض ضابطے کا دیباچہ نہیں ہے بلکہ اس میں پاکستان کی روح اور بنیادی قوانین اور آئینی تصورات محفوظ ہیں۔‘‘
ان صریح اور دو ٹوک وضاحتوں کے بعد بھی اگر کسی کے ذہن میں ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے بارے میں کوئی ابہام موجود ہے یا یہ نظریہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تو ہم اسے کسی ’’ماہر نفسیات‘‘ سے رجوع کرنے کے علاوہ اور کیا مشورہ دے سکتے ہیں؟