نحمدہ تبارک و تعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلی آلہ واتباعہ اجمعین۔
تحریک ختم نبوت کے ساتھ تعلق بحمد اللہ تعالیٰ بچپن سے ہی استوار ہے اور اس میں تسلسل کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی توفیق کو اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نعمت اور اپنے لیے نجات کا باعث سمجھتا ہوں۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں میری عمر صرف پانچ برس تھی مگر والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی گرفتاری اور رہائی کے مناظر ابھی تک ذہن میں محفوظ ہیں اور اس دوران چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھڑ کی گلیوں میں تحریک ختم نبوت کے اس وقت کے چند معروف نعرے لگاتے ہوئے گھومنا بھی یاد ہے۔
دورِ طالب علمی میں تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے حوالہ سے ہفت روزہ چٹان کے ڈیکلریشن کی منسوخی اور آغا شورش کاشمیری علیہ الرحمۃ کے چٹان پریس کی ضبطی پر گوجرانوالہ میں استاذ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی کی قیادت میں احتجاجی مہم کا ایک متحرک کارکن کے طور پر حصہ رہا ہوں۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں تمام مکاتب فکر اور طبقات پر مشتمل آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت میں گوجرانوالہ شہر کی مجلس عمل کا سیکرٹری جنرل ہونے کا اعزاز مجھے حاصل رہا ہے۔ جبکہ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں مرکزی مجلس عمل کے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر خدمات سر انجام دینے کا شرف بھی اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمایا تھا۔
۱۹۸۵ء میں لندن کے ویمبلے سنٹر میں پہلی عالمی ختم نبوت کانفرنس کے انتظامات میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ اور حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے ساتھ شریک کار رہنے کی سعادت سے بہرہ ور ہوا ہوں اور ۱۹۸۷ء کے دوران حضرت مولانا ڈاکٹر میاں محمد اجمل قادری زید مجدھم کے ساتھ امریکہ کے پہلے سفر کا مقصد بھی تحریک ختم نبوت ہی تھا جس کے تحت بروک لین نیویارک کی کی مسجد میں کئی روز تک تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں تربیتی دروس کی توفیق اللہ تعالی نے عطاء فرمائی تھی۔ جبکہ یہ محض توفیق ایزدی ہے کہ ۱۹۷۴ء سے اب تک ملک میں اور بیرون ملک اس عظیم مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر سینکڑوں اجتماعات سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور متعدد جرائد و رسائل میں بھی سینکڑوں مضامین لکھنے کی سعادت بارگاہ ایزدی نے عنایت فرمائی جو گذشتہ چار عشروں کے بہت سے اخبارات و جرائد کی فائلوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان کے بعض مختصر مجموعے اس سے قبل شائع ہو چکے ہیں۔
برادرم مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر نے محنت اور تگ و دو کے ساتھ ان میں سے میسر آ جانے والے کچھ مضامین اور خطابات کو زیر نظر کتاب کی صورت میں مرتب کر کے شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے جس پر وہ صد تشکر و تبریک کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبولیت سے نواز میں اور ہم سب کے لیے ذخیرہ آخرت بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین۔