جمعرات ۱۳ فروری کا سارا دن کراچی یونیورسٹی کے ماحول میں گزرا۔ جامعہ کراچی کی سیرت چیئر نے صوبائی وزارت مذہبی امور اور شیخ زاید اسلامک سنٹر کے تعاون سے ۱۲ و ۱۳ فروری کو دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں پاکستان، عراق، بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ سے ممتاز اصحابِ دانش نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ کانفرنس کا عمومی عنوان ’’سیرتِ نبویؐ اور عصرِ حاضر‘‘ تھا۔ اس عنوان کے تحت مقررین نے اپنے اپنے ذوق اور خیال کے مطابق سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور خراج عقیدت پیش کیا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامیات کے ڈین اور سیرت چیئر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی سرکردگی میں اساتذہ اور سینئر طلبہ کی پوری ٹیم متحرک رہی اور بہت اچھے طریقہ سے کانفرنس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں صدر پاکستان جناب ممنون حسین، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر سہیل حسن، مولانا مفتی محمد زاہد، مولانا ولی رازی، شاہ مصباح الدین شکیل، جناب خورشید احمد ندیم، پروفیسر عبد الغفار عراقی، پروفیسر حافظ محمد عمار خان ناصر، ڈاکٹر عامر طاسین، جناب علی طارق، پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمن اور علی گڑھ سے تشریف لانے والے ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب محترم کے ساتھ ملاقات میرے لیے نعمت غیر مترقبہ تھی، ان کی علمی خدمات بالخصوص سیرۃ النبیؐ اور ولی اللّٰہی علوم پر ان کے وقیع کام سے متعارف تھا اور ایک عرصہ سے ملاقات کی تمنا تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس سفر میں پوری فرما دی۔ مجھے جمعرات کی صبح دس بجے شروع ہونے والی نشست میں مہمان خصوصی کا اعزاز بخشا گیا جبکہ صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین جناب ڈاکٹر خالد مسعود نے کی۔ میری گفتگو کا عنوان تھا ’’رائے عامہ کی اہمیت سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں‘‘۔ وقت کی کمی کے باعث اس کا خلاصہ پیش کر سکا جبکہ تفصیلی مضمون کانفرنس کی کاروائی میں ان شاء اللہ العزیز شائع ہو جائے گا۔ البتہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کانفرنس کے عمومی موضوع کے حوالہ سے مختصراً جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے حوالہ سے آج کے دور میں ہمارا عمومی رویہ یہ ہوگیا ہے کہ ہم قرآن کریم کی تلاوت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت کا تذکرہ ایمان کی تازگی کے لیے، ثواب و برکت کے حصول کے لیے، محبت و نسبت کے اظہار کے لیے اور روحانی سکون و اطمینان کی طلب کے لیے کرتے ہیں۔ یہ چیزیں بلاشبہ حاصل ہوتی ہیں لیکن راہنمائی کی نیت سے نہ قرآن کریم پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جبکہ ہماری سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔ اس لیے میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوہ کے حوالہ سے دو باتوں کا بطور خاص تذکرہ کرنا چاہوں گا جو دورِ حاضر کے تناظر میں ہم سب کی توجہ کی طالب ہیں۔
ایک یہ کہ ہمیں سب سے زیادہ زور اس بات پر دینا چاہیے کہ آج کے عصری مسائل اور تقاضے کیا ہیں اور ان میں ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے کیا راہنمائی ملتی ہے؟ آج کے مسائل سے میری مراد ہمارے شخصی اور خاندانی مسائل بھی ہیں، قومی اور ملی معاملات بھی ہیں اور پوری نسل انسانی کو عالمی سطح پر درپیش امور بھی ہیں۔ ہمیں اس وسیع تناظر میں سیرۃ النبیؐ کا مطالعہ کر کے انسانی سوسائٹی کے مسائل کے حل کے لیے اولاد آدمؑ کی راہنمائی کرنا ہوگی۔ مثال کے طور پر آج دنیا کو معاشی ناہمواری کے سنگین مسئلہ کا سامنا ہے، قانون کی بالادستی اور مساوات کا معاملہ درپیش ہے، رفاہی ریاست کے تقاضے دامن گیر ہیں، مخلوق کا اپنے خالق کے ساتھ رابطہ کمزور ہونے بلکہ منقطع ہو جانے کا ماحول پیدا ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں ہمیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح راہنمائی نہ ملتی ہو۔ اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انسانی سوسائٹی کے مسائل کی نشاندہی کریں اور قرآن و سنت میں ان کا حل تلاش کر کے نسل انسانی کو اس سے متعارف کرائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا کوئی واقعہ پڑھتے ہوئے یا بیان کرتے ہوئے موجودہ حالات میں اس کی تطبیق کی صورتیں بیان کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور دنیا کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آج کے ماحول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد یا سنت کو عملی شکل کس طرح دی جا سکتی ہے اور سوسائٹی پر اس کا اطلاق اور تطبیق کس طرح ہو سکتی ہے؟ اگر ہم سیرۃ النبیؐ پڑھتے ہوئے، پڑھاتے ہوئے یا بیان کرتے ہوئے ان دو باتوں کو اپنے معمول کا حصہ بنا لیں اور اس کا ذوق پیدا کر لیں تو یہ نسل انسانی کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
کراچی جاتے ہوئے لاہور میں بدھ کی شام کو مولانا قاری جمیل الرحمن اختر اور ڈاکٹر عبد الماجد ندیم کے ہمراہ میں نے جمعیۃ علماء پاکستان نیازی گروپ کے راہنماؤں مولانا پیر سید محفوظ احمد مشہدی ایم پی اے اور سردار محمد خان لغاری سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور مختلف مکاتبِ فکر کے راہنماؤں کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ کے ساتھ ساتھ ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کے عملی پروگرام کے سلسلہ میں بات چیت ہوئی، دونوں راہنماؤں نے اس مہم میں بھر پور تعاون و شرکت کا یقین دلایا۔ انہیں بتایا گیا کہ ۲۱ فروری کو پورے ملک میں ’’یوم انسداد سود‘‘ اس طور پر منایا جا رہا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے خطباء اس روز جمعۃ المبارک کے خطبات میں حکومت سے سودی نظام کے خاتمہ اور اسلامی نظام معیشت کے نفاذ و فروغ کا مطالبہ کریں گے جبکہ اس سے قبل ۱۸ فروری کو تمام مکاتب فکر کے راہنماؤں کا مشترکہ اجلاس ۴ بجے دن دفتر جماعت اسلامی منصورہ لاہور میں منعقد ہوگا جس میں سودی نظام کے خلاف مہم میں پیشرفت کا پروگرام ترتیب دیا جائے گا۔
اسی سفر میں متحدہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف ملک سے بھی انسداد سود کی مہم کے سلسلہ میں تبادلۂ خیالات کا موقع ملا، انہوں نے بتایا کہ متحدہ علماء کونسل کے زیر اہتمام ۲۰ فروری جمعرات کو نماز ظہر کے بعد آسٹریلیا مسجد بالمقابل ریلوے اسٹیشن لاہور میں ’’انسداد سود سیمینار‘‘ کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے زعماء خطاب کریں گے اور اسلامی نظام معیشت کی برکات و ثمرات بیان کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔