چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― عیسائیت

   
تاریخ: 
۲۰۱۸ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علماء کرام! آج آپ سے بات کرنا چاہوں گا عیسائیت، مسیحیت، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیروکاری کا دعویٰ رکھنے، اور انجیل کی بات کرنے والوں کے بارے میں۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ساڑھے پانچ، چھ صدیاں پہلے مبعوث ہوئے اور خاتم انبیائے بنی اسرائیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجیل عطا فرمائی، ان کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور بغیر موت کے زندہ اٹھا لیا۔ یہ ان کے اعزازات و امتیازات میں سے ہے۔ حضرت عیسٰیؑ نے فلسطین میں اپنی دعوت پیش کی، جنہوں نے مان لیا مسیحی کہلائے، جنہوں نے انکار کیا وہ یہودی رہے۔ حضرت عیسٰیؑ کی تشریف آوری سے یہودیت و عیسائیت کی تقسیم ہوئی۔ یروشلم، بیت المقدس، فلسطین کے علاقے پر یہودیوں کا کنٹرول تھا، یہ یہود کا مرکز تھا۔ آہستہ آہستہ حضرت عیسٰیؑ کے پیروکار بڑھتے گئے، روم کے لوگ اور ان کا بادشاہ عیسائی ہو گئے تھے، روم عیسائیوں کا مرکز بن گیا اور تقریباً پون صدی یہ سلسلہ رہا۔ جبکہ یروشلم بدستور یہودیوں کا قبلہ اور مرکز تھا۔ حضرت عیسٰیؑ کے ”رفع“ کے پون صدی بعد روم کے عیسائی بادشاہ طیطس نے حملہ کر کے یروشلم کو تاراج کیا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت پانچ چھ صدیاں چلتی رہی۔

نبی اکرمؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تک عیسائیت حق مذہب تھا، اس دور میں جنہوں نے بھی عیسائیت قبول کی ہے وہ اہل حق تھے۔ حضورؐ کی تشریف آوری سے مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے عیسائیت کا دور ختم ہو گیا اور اسلام کا دور شروع ہوا۔ اس کے بعد عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کیسے رہے؟ جناب نبی کریمؐ کے دور میں یہ تعلقات کیسے تھے، حضورؐ کے بعد کن مراحل سے گزرے، اس وقت کن مراحل میں ہیں، اور ہمارے تنازعات کیا ہیں، اس پر مفصل بات کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ کا واسطہ اہلیہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓکے ذریعے ایک عیسائی عالم سے پڑا۔ بخاری کی روایت کے مطابق آپؐ نے غار حرا کا واقعہ ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ سے ذکر کیا اور فرمایا ”خشیت علی نفسی“ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا ہے۔ حضورؐ کو تشویش تھی، آپؐ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو ام المومنینؓ نے تسلی دی کہ ”لن یخزیک اللّٰہ ابدًا“۔ اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ”لانک تصل الرحم و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق“۔ یہ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی سماجی خدمات کا ذکر کیا۔ وہ عیسائی عالم حضرت خدیجہؓ کے چچازاد بھائی تھے۔ ورقہ بن نوفل جو عیسائیت کے عالم تھے، عبرانی زبان جانتے تھے اور انجیل کا عربی میں ترجمہ کر کے لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔

حضرت خدیجہؓ نے حضورؐ کو تسلی دی اور آپؐ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں کہ وہ پرانے بزرگ اور عالم ہیں، اس کیفیت کا ذکر ان سے کرتے ہیں، ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا معاملہ ہوا ہے، کیا خدشات ہیں۔ وہاں جا کر حضورؐ نے ان کو غار میں پیش آنے والا اپنا واقعہ سنایا، ورقہ بن نوفل چونکہ پرانی آسمانی کتابوں کے عالم تھے، وہ سمجھ گئے کہ یہ نبوت اور وحی ہے۔ کہا، یہ تو وہی ناموس ہے جو حضرت موسٰیؑ پر نازل ہوا تھا۔ اور پھر خدشے کا اظہار کیا کہ ایک وقت آئے کہ لوگ آپ کو پریشان کریں گے اور قوم کے لوگ آپ کو مکہ سے نکال دیں گے۔ اور اس حسرت کا اظہار کیا کہ اے کاش! میں اس وقت موجود ہوں، طاقتور ہوں، تو میں آپ کا ساتھ دوں گا، آپ کی مدد کروں گا۔ اس پر حضورؐ کو تعجب ہوا کہ یہ قوم تو مجھ سے بڑی محبت کرتی ہے، مجھے صادق و امین کہتی ہے، مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، میرے پاس فیصلے لاتے ہیں۔ ”او مخرجی ھم؟“ کیا وہ مجھے مکہ سے نکال دیں گے؟ ورقہ بن نوفل نے کہا آپ جیسی بات جس نے بھی کی ہے اس کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ چونکہ اس وقت تک حضورؐ نے اسلام کی دعوت کا آغاز نہیں کیا تھا تو ورقہ بن نوفل کے ان جذبات کے اظہار پر محققین ان کو اہل حق میں سے شمار کرتے ہیں۔

میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جناب نبی کریمؐ اور وحی کو سب سے پہلے ایک عیسائی عالم سے واسطہ پیش آیا جس نے آپؐ کی تائید کی۔ جیسے قرآن کریم نے کہا ”الذین اتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم“ (البقرہ ۱۴۶)۔ اہل کتاب حضورؐ کو پہچانتے ہیں۔ یہ اہل کتاب کا حضورؐ کو پہچاننے کا سب سے پہلا اظہار تھا۔ ورقہ بن نوفل اس سے کچھ عرصہ بعد ہی فوت ہو گئے لیکن ان کی تصدیق، ان کے جذبات، ان کا ایمان تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔

اس کے بعد جناب نبی کریمؐ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی جس پر مخاصمت، مخالفت، طعن و تشنیع، اذیت، تکلیفیں اور رکاوٹیں شروع ہوئیں۔ تیرہ سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہ بڑا صبر آزما مرحلہ تھا کہ اپنے ہی خاندان، برادری کے لوگ دشمن بن گئے تھے اور جان کے دشمن بن گئے تھے۔ رسول اللہؐ کی پشت پناہی کرنے والے آپ کے چچا ابو طالب اور عباسؓ تھے، باوجودیکہ ایمان نہیں لائے تھے مگر دونوں بھائیوں نے بڑی مضبوطی سے حضورؐ کی پشت پناہی کی۔ حضرت عباسؓ نے ایمان تو بہت بعد میں قبول کیا لیکن حضرت ابوذر غفاریؓ کے ایمان قبول کرنے کا واقعہ بخاری میں مذکور ہے کہ جب انہوں نے ایمان قبول کیا تو مکہ والے ان پر ٹوٹ پڑے، ان کو بچانے والے حضرت عباسؓ تھے جنہوں نے ایک دفعہ نہیں، تین دفعہ بچایا۔ جبکہ بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کے وقت بھی اگرچہ وہ ایمان نہیں لائے تھے لیکن انصار مدینہ کے ساتھ مذاکرات میں حضورؐ کے ساتھ تھے۔ اور تاریخی واقعہ ہے کہ جب انصار کے سرداروں نے حضورؐ سے کہا کہ آپ مدینہ تشریف لائیں، ہم آپ کی حفاظت کریں گے، آپ کا ساتھ دیں گے، تو وہاں حضرت عباسؓ بھی ان خفیہ ترین مذاکرات میں حضورؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں کہا تھا بات سنو! یہ میرا بھتیجا ہے، ہم اس کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ سن لو میرے بھتیجے کو مکے سے لے جانے کا مطلب پورے عرب سے لڑائی مول لینا ہے، اگر پورے عرب سے لڑائی لڑ سکتے ہو تو لے جانے کی بات کرو، ورنہ ہم اس کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ایمان قبول کرنے سے پہلے وہ بطور چچا کے مذاکرات میں شریک تھے۔

حضورؐ کو ذاتی طور پر تمام تکلیفوں کے باوجود اپنے ان دو چچاؤں کی پشت پناہی حاصل تھی، لیکن جو حضورؐ کے باقی ساتھی تھے ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ بالخصوص حضرت بلالؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت خبابؓ وغیرہ کا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔

جب مظالم حد سے بڑھ گئے تو یہ فکر ہوئی کہ کہیں ہجرت کر کے چلے جانا چاہیے۔ چنانچہ مشورہ میں حبشہ طے ہوا کہ وہاں پناہ ملے گی۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ عیسائی تھے، ان سے مسلمانوں کو توقع تھی کہ شاید حمایت کریں گے۔ چنانچہ ایک بڑی تعداد نے حضورؐ کی اجازت سے حبشہ کی ہجرت کی۔ وہاں اصحمہ نجاشیؓ جو بعد میں مسلمان ہو گئے، انہوں نے ان کو پناہ بھی دی، حفاظت بھی کی، بلکہ قریش کا وفد مسلمانوں کو واپس لینے کے لیے شاہ حبشہ کے پاس گیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ تاریخی طور پر یہ ہمارا دوسرا واسطہ تھا اس وقت کے عیسائیوں کے ساتھ۔

تیسرا واسطہ عیسائیت کے ساتھ صلح حدیبیہ کے بعد پیش آیا۔ جناب نبی کریمؐ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور اردگرد کے ماحول میں کوئی عیسائی آبادی نہیں تھی، یہودیوں کی آبادیاں اور قبائل تھے۔ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے ساتھ معاملات پیش آتے رہے۔ لیکن عیسائیوں کی کوئی بڑی آبادی قریب نہیں تھی، ان کے ساتھ کوئی معاملہ براہ راست پیش نہیں آیا۔

البتہ صلح حدیبیہ کے بعد جب آپؐ نے ماحول کو سازگار دیکھ کر اردگرد کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت کے خطوط لکھے اور وفود بھیجے، کسریٰ، قیصر اور مقوقس وغیرہ کو خطوط لکھے۔

  • فارس کے بادشاہ کسریٰ نے رسول اللہ کے نامہ مبارک کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، فرعونیت کا اظہار کیا اور بحرین کے گورنر کو حکم دیا کہ اس شخص کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کرو۔
  • لیکن قیصر نے پورے پروٹوکول اور احترام کے ساتھ آپؐ کا نامہ گرامی پڑھا، اس کی مکمل تفصیل بخاری میں حدیث ابی سفیان میں ہے۔ ایمان اور دعوت کے حوالے سے میں اسے بنیادی احادیث میں شمار کیا کرتا ہوں۔ اس کے چند جملے عرض کرتا ہوں۔ قیصر نے قریش کے افراد کو بلایا کہ مدعی نبوت کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ ابوسفیان اپنے ساتھیوں سمیت اس کے دربار میں گئے۔ قیصر نے حضورؐ کے خاندان، آپؐ کی دعوت، آپؐ کے معاشرتی طرز عمل اور آپؐ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیل سے انٹرویو کیا۔ آخر میں اس نے دو تین باتیں کہیں وہ توجہ طلب ہیں۔ اس نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائی ہیں اگر یہ سچ ہیں ”انہ لنبی“ تو بے شک وہ نبی ہے۔ اور اس نے کہا میں بھی اس نبی کی آمد کا منتظر تھا، میں نے خواب بھی دیکھے تھے اور اہل علم نے ان کی تعبیر یہی بتائی تھی کہ نبی آخر الزمان آنے والے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ یہ وہی ہے۔ اب دیکھیے نبی بھی کہہ رہا ہے، تصدیق بھی کر رہا ہے، اپنے انتظار کی بات بھی کر رہا ہے، لیکن کانٹا یہاں سے بدلا کہ وہ کہنے لگا مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ تم بدوؤں میں آجائے گا۔
  • مقوقسِ مصر کے پاس نامہ مبارک پہنچا تو اس نے بھی پروٹوکول دیا تھا، اگرچہ اسلام قبول نہیں کیا، اور ہدیے میں دو باندیاں بھیجی تھیں۔ ان میں سے ہی حضرت ماریہ قبطیہؓ سے آپؐ کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ ہوئے تھے۔ اور دوسری باندی سیرین، امام التابعین محمد بن سیرین کی والدہ تھیں۔ ماریہ اور سیرین دونوں بہنیں مقوقسِ مصر کا ہدیہ تھیں۔ آج بھی مصر میں قبطی عیسائی موجود ہیں جو کہ باقی دنیا سے مختلف ہیں، اب بھی ان کے پادری پرانی وضع قطع کے ساتھ رہتے ہیں۔

قرآن کریم نے اہل کتاب کی اسی کیفیت کو یوں بیان فرمایا ”حسدًا من عند انفسھم من بعد ما تبین لھم الحق“ (البقرہ ۱۰۹) کہ اہل کتاب نے رسول اللہ اور قرآن کا انکار اس وجہ سے نہیں کیا کہ ان کو پہچاننے میں مغالطہ لگا ہے، پہچانتے تو ایسے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، لیکن حسد کی وجہ سے انکار کیا۔ حسد اس بات کا کہ یہودیوں اور عیسائیوں دونوں کو توقع تھی کہ نبی آخر الزمان ہم میں سے آئیں گے، ان کے ذریعے ہمارا دنیا پر غلبہ ہو گا۔ چنانچہ یہود کی نفسیات بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے کہا ”وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا“ (البقرہ ۸۹) یہودی آنحضرتؐ کا نام لے کر اپنے دشمنوں پر رعب جتایا کرتے اور فتح کی دعا کیا کرتے تھے، ایسے ہی جیسے آج کل ہم مسلمان سارے معاملات امام مہدی کے حوالے کر کے کہہ دیتے ہیں وہ آنے والے ہیں، دیکھ لیں گے، تم سب سے نمٹ لیں گے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، وہی جو کریں گے آ کر کریں گے، ہم نے کچھ نہیں کرنا۔

درمیان میں ایک غیر متعلقہ بحث عرض کرتا ہوں جو آج کل ہمارے بعض اہل فکر و دانش کے ہاں چل رہی ہے کہ حکومت اور خلافت حکم ہے یا وعدہ ہے؟ ان کا کہنا ہے کی خلافت کا اللہ نے وعدہ کیا ہے، حکم تو نہیں دیا کہ خلافت قائم کرنی ہے۔ اور دلیل یہ آیت ہے ”وعد اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم“ (النور ۵۵)۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بطور انعام کے وعدہ کر رکھا ہے کہ اگر تم دین پر چلتے رہے تو میں تمہیں زمین کی خلافت و حکومت دوں گا۔ حکم تو نہیں دیا۔ ایک دوست نے مجھ سے پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کرنا میں تمہیں جنت دے دوں گا۔ جب اللہ کا جنت کا وعدہ ہے تو کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اسی قسم کی بات ہے کہ خلافت کا تو اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔

جس طرح آج ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ ساری باتیں امام مہدیؒ اور حضرت عیسٰیؑ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، اسی طرح یہود کا مزاج تھا کہ نبی آخر الزمان آنے والے ہیں، ان کے آنے سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں بتا یہ رہا ہوں کہ یہود بھی اور عیسائی بھی حضورؐ کو پہچانتے تھے، حق ان پر واضح ہو چکا تھا، انہوں نے انکار جو کیا تو حسد کی وجہ سے۔ اور حسد اس بات کا تھا کہ نبیؐ ان کی توقعات کے برعکس بنی اسماعیل میں مبعوث ہوگئے تھے جبکہ ان کو توقع تھی کہ بنی اسرائیل میں سے ہوں گے۔ اسی کو قیصر نے یہ کہہ کر بیان کیا کہ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ تم بدوؤں میں آجائے گا۔ یہ ہمارا تیسرا واسطہ تھا عیسائیوں کے ساتھ۔

آنحضرتؐ کی حیاتِ مبارکہ میں مسلمانوں کی عیسائیوں کے کسی طبقہ کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے تو وہ ہوئی ہے بنو طے سے۔ یہ عرب قبیلہ تھا، حاتم طائی کے زمانے میں عیسائی ہو گیا تھا، ان سے جو جنگ ہوئی اس میں بنو طے کو شکست ہوئی۔ عدی بن حاتم جنگ کے بعد روپوش ہو گئے تھے اور ان کی بہن سفانہ قیدی بن گئی تھیں۔ سفانہ جب آنحضرتؐ کے سامنے آئیں تو آپؐ نے ان کو چادر پیش کی، سر ننگا تھا، چادر مرحمت فرمائی۔ کسی نے کہا حضور! یہ کافر کی بیٹی ہے۔ فرمایا، بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے چاہے کافر کی ہو۔ سفانہ نے آپؐ کارویہ دیکھ کر عدی کو پیغام بھیجا کہ کہاں بھاگے پھرتے ہو یہاں تو رحمت ہی رحمت ہے، نرمی ہی نرمی ہے، معافی ہی معافی ہے۔ تو سفانہ کے کہنے پر عدیؓ واپس آئے اور اسلام قبول کر لیا، بلکہ یہ پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا تھا۔

اس کے بعد عیسائیت کے ساتھ معاملات کا وہ مذاکرہ و مکالمہ ہے جو مدینہ میں ہوا، جس کا قرآن کریم نے بھی ذکر کیا ہے۔ اس زمانے میں نجران میں عیسائی اکثریت کی آبادی تھی، یہ تقریباً مسیحی ریاست تھی۔ نجران سعودیہ اور یمن کی سرحد پر ہے۔ اس وقت یہ سعودیہ کا صوبہ ہے، جبکہ یمن کا نجران پر دعویٰ ہے۔ حوثیوں اور سعودیوں کی جنگ میں نجران کا مسئلہ بھی ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے نجران کے عیسائیوں کو بھی اسلام کی دعوت کا پیغام بھیجا۔

دلچسپ واقعہ ہے، امام ترمذی نے ذکر کیا ہے کہ نجران کے عیسائیوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے آپؐ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو بھیجا۔ وہ کہتے ہیں میں نے جا کر ان کو قرآن سنایا، وہ اہل علم تھے، عیسائی علماء نے اعتراض کر دیا کہ ہمیں کیا قرآن سناتے ہو، قرآن کو تو تاریخ کا پتہ نہیں ہے، تمہارا قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت مریم ؑ گود میں عیسٰیؑ کو اٹھا کر قوم میں آئیں تو قوم نے کہا مریم! بچہ کہاں سے لے آئی ہو؟ ”یا اخت ھارون“ تیرا باپ بھی برا آدمی نہیں تھا، تیری ماں بھی بدکار نہیں ہے، یہ تو کنواری لڑکی بچہ کہاں سے لے آئی؟ انہوں نے کہا اسی سے پوچھو کہاں سے آیا ہے۔ اور پھر اس بچے نے بتایا بلکہ پورا خطبہ ارشاد فرمایا۔ نجران کے عیسائی علماء نے اعتراض کیا کہ قرآن میں مریم کو ”یا اخت ھارون“ کہا گیا ہے جبکہ ہارونؑ تو موسٰیؑ کے بھائی تھے اور مریم ماں ہیں عیسٰیؑکی، درمیان میں صدیاں حائل ہیں، تو یہ بہن بھائی کس طرح بن گئے؟ مغیرہ بن شعبہؓ ان کے اس اعتراض کا جواب نہیں دے سکے۔

جواب ذہن میں نہ آنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کا جواب ہے ہی نہیں، بعض اوقات جواب ہوتا ہے لیکن بروقت ذہن میں نہیں آتا۔ واپس مدینہ منورہ آ کر رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ وہاں کے عیسائی علماء نے تو یہ اعتراض کر دیا، میں ان کو کوئی جواب نہیں دے سکا۔حضورؐ نے فرمایا،:خدا کے بندے! سادہ سی بات تھی تمہارے ذہن میں نہیں آئی۔ تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ بنی اسرائیل میں یہ رواج تھا کہ اپنے بچوں کے نام پیغمبروں کے نام پر رکھا کرتے تھے، یہ ہارون کوئی اور تھے، یہ حضرت موسٰیؑ کے بھائی نہیں ہیں۔ اور انبیاء کے ناموں پر نام رکھنے کا رواج تو آج ہمارے ہاں بھی ہے۔ ممکن ہے اس مجلس میں بھی کوئی ہارون نام کا شخص بیٹھا ہو، کوئی موسٰی، کوئی عیسٰی بیٹھا ہو۔

پھر نجران کے عیسائی علماء کا وفد مدینہ منورہ آیا، جناب نبی کریمؐ کے ساتھ مجادلہ، مناظرہ، مکالمہ ہوا جو کئی دن تک جاری رہا، اس کی تفصیلات زیادہ تو نہیں ملتیں لیکن تثلیث اور توحید اس کا بنیادی موضوع تھا۔ مگر گفتگو کسی نتیجے پر نہیں پہنچی، اس پر جناب نبی کریمؐ نے مباہلہ کی دعوت دے دی۔ ”تعالوا ندع ابنائنا وابنائکم ونسائنا ونسائکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین“ (آل عمران ۶۱)۔ روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے مباہلہ کی دعوت قبول نہیں کی، کیونکہ ان کو علم تھا کہ آپؐ سچے نبی ہیں، ان کے مقابلے میں آ کر خوامخواہ مرنا ہے، اس لیے مباہلہ کے لیے نہیں آئے۔ پھر اس کے بعد معاہدہ ہوا جو ”معاہدہ نجران“ کے نام سے مشہور اور کتب سیرت میں موجود ہے۔

قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے ”قل یا اھل الکتاب تعالوا الٰی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللّٰہ“ (آل عمران ۶۴)۔ اس حوالے سے میں ایک اور بات کہا کرتا ہوں کہ یہ جو نجران کے عیسائی علماء سے حضورؐ کا مناظرہ یا مکالمہ ہوا، پھر مباہلہ کی بات آئی جس کی نوبت نہیں آئی، اور پھر معاہدہ ہوا، یہ تین مرحلے تھے۔ اس سے معلوم ہوا مذاہب کے درمیان مکالمہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

قرآن کریم نے اہل کتاب کے ساتھ مکالمے کی ہمیں بنیاد فراہم کی ہے ”قل یا اھل الکتاب تعالوا الٰی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللّٰہ“ (آل عمران ۶۴)۔ اہل کتاب سے جب بات کریں گے اس بنیاد پر کہ دو باتیں تو ہم میں قدرِ مشترک ہیں، ان پر بات نہیں ہو گی، ”سواء بیننا وبینکم“ ان پر تو تم کو آنا ہی پڑے گا۔

  1. پہلی بات ”ان لا نعبد الا اللّٰہ و لا نشرک بہ شیئا“۔ اللہ کی عبادت اور شرک کی نفی تورات اور قرآن کا مشترک موضوع ہے۔ علماء کرام کبھی کبھی بائبل بھی دیکھ لیا کریں، توحید جس لہجے میں قرآن بیان کرتا ہے آج کی تحریف شدہ بائبل بھی تمام تر تحریفات کے باوجود اسی لہجے میں توحید بیان کرتی ہے۔ تورات بھی، انجیل بھی، زبور بھی اسی لہجے میں توحید کی بات کرتی ہیں۔ اور یہ تو طے شدہ بات ہے کہ انبیاء کرامؑ کی بنیادی دعوت یہی تھی ”یا قوم اعبدوا اللّٰہ مالکم من الٰہ غیرہ“ (الاعراف ۶۵)۔ حضرت نوحؑ سے یہ دعوت شروع ہوئی اور جناب نبی کریمؐ تک یہ دعوت قدر مشترک کے طور پر چلتی رہی۔ اور قدر مشترک پر مباحثے نہیں ہوا کرتے۔ توحید تمام آسمانی مذاہب میں قدر مشترک ہے۔ غیر آسمانی اور خود ساختہ مذاہب سے ہم توحید کے موضوع پر بات کریں گے، مناظرہ کریں گے، لیکن آسمانی کتاب والوں سے توحید پر بات نہیں ہو گی۔
  2. جبکہ دوسری قدر مشترک یہ فرمائی ”ولا یتخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللّٰہ“ کہ آپس میں ایک دوسرے کو خدا نہیں بنائیں گے۔ اس کا آسان ترجمہ یہ کرتا ہوں کہ انسان پر انسان کی حاکمیت اور خدائی تسلیم نہیں ہو گی۔ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اور یہ بات میں اپنے طرف سے نہیں کہہ رہا ”اربابًا من دون اللّٰہ“ سے کیا مراد ہے؟ بخاری شریف کی روایت ہے حضرت عدی بن حاتمؓ کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوا، قرآن کریم پڑھا۔ قرآن کریم میں مجھے ایک مقام پر الجھن ہوئی کہ ”اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابًا من دون اللّٰہ و المسیح ابن مریم“ (التوبہ ۳۱) ان عیسائیوں نے اپنے احبار اور رہبان (علماء و مشائخ) اور عیسٰیؑ کو اپنا رب بنا لیا تھا۔ حضرت عدیؓ سابقہ عیسائی تھے، ان کو اشکال یہ ہوا کہ ہم تو احبار اور رہبان کو خدائی کا درجہ نہیں دیتے تھے، قرآن نے یہ ہمارے ذمے کیوں لگا دیا؟ کہتے ہیں میں نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ قرآن نے ہمارے بارے میں یہ کہا ہے جبکہ یا رسول اللہ! ہم تو اپنے احبار و رہبان کو خدا کا درجہ نہیں دیتے تھے۔ حضورؐ نے ان سے پوچھا، کیا تمہارے ہاں احبار و رہبان کو حلال و حرام میں ردوبدل کی اتھارٹی حاصل تھی؟ حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال کرنے کی اتھارٹی حاصل تھی؟ اور یہ تو آج بھی پوپ کو حاصل ہے۔ انہوں نے کہا، جی حاصل تھی۔ فرمایا بس یہی مطلب ہے ”اربابًا من دون اللّٰہ“ بنا لینے کا۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے اختیارات خدائی اختیارات ہیں۔ بات سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ حلال و حرام میں اور جائز و ناجائز کے اختیارات میں کسی کو شریک کرتے تو کس کو کرتے؟ جناب نبی کریمؐ سے زیادہ کسی کا استحقاق ہو سکتا تھا؟ نہیں۔ جبکہ حضورؐ نے اپنی ذات کے لیے شہد کے حرام ہونے کی بات کی تھی تو قرآن نے کس لہجے میں بات کی۔ فرمایا ”یا ایھا النبی! لم تحرم ما احل اللّٰہ لک تبتغی مرضات ازواجک واللّٰہ غفور رحیم o قد فرض اللّٰہ لکم تحلۃ ایمانکم“ (التحریم ۱، ۲)۔

میں بات یہ کر رہا تھا کہ نجران کے عیسائیوں نے بالآخر معاہدہ کر لیا کہ بطور ذمی کے رہیں گے اور نجران اسلامی ریاست میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن قرآن کریم نے ہمیں قیامت تک کے لیے اصول بتا دیا کہ اہل کتاب سے بات تورات اور قرآن کے مشترکات پر نہیں ہو گی، وہ تو ماننا ہی پڑیں گے، مکالمہ بین المذاہب میں بات اس سے اگلے درجے میں ہو گی۔

آج بھی مکالمہ بین المذاہب ہر سطح پر چل رہا ہے۔ گفتگو، مذاکرے، سیمینار، کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے اہل کتاب کے ساتھ مکالمے کا ایجنڈا قیامت تک کے لیے طے کر دیا ہے، لیکن اس سے پہلے آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہوں گا۔

عیسائی دنیا کے ایک بڑے پادری ہیں بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز، جو کہ برطانیہ کے سب سے بڑے پادری ہیں، پروٹسٹنٹ فرقے کے عالمی سربراہ ہیں، جس طرح کیتھولک کے سربراہ پاپائے روم ہیں جو کہ فرانسس ہیں۔ کنٹربری ان کا سب سے بڑا چرچ ہے، اس کے سب سے بڑے بشپ ڈاکٹر روون ولیمز ہیں۔ بات سمجھانے کے لیے عرض کرتا ہوں، ایسے سمجھیں کہ ان کی عیسائی دنیا میں ویسی ہی حیثیت ہے جیسے ہمارے ہاں دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث کی ہے۔

شوکت عزیز صاحب اور پرویز مشرف صاحب کا زمانہ تھا۔ ڈاکٹر روون ولیمز پاکستان تشریف لائے کہ میں علماء سے مکالمہ کرنا چاہتا ہوں۔ صاحبِ علم و دانش آدمی ہیں، شوکت عزیز صاحب اس زمانے میں پرائم منسٹر تھے، ان کے ساتھ ان کی گفتگو ہونی۔ بہت سے حضرات کو بلایا گیا، مجھ سے پوچھا گیا کیا آپ اس گفتگو میں شریک ہوں گے، اگر آپ شریک ہوں تو ہم آپ کو بلائیں۔ میں نے پوچھا کون کون ہیں؟ بتایا گیا کہ ادھر سے ڈاکٹر روون ولیمز ہیں اور ادھر سے شوکت عزیز صاحب ہیں۔ میں نے کہا کوئی عقل کی بات کرو، وہ عیسائی مذہبی فرقے کے سربراہ ہیں، اپنے مذہب کی عالمی سطح پر نمائندگی کرتے ہیں، شوکت عزیز صاحب کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ دیوبندیوں کی؟ بریلویوں کی؟ اہلحدیثوں کی؟ شیعوں کی؟ میں نے کہا اگر دو شرطیں منظور ہوں تو میں گفتگو اور مکالمے کے لیے حاضر ہوں گا۔

  1. پہلی شرط یہ کہ مکالمہ اصل فریقوں میں ہونا چاہیے۔ شوکت عزیز کی کیا پوزیشن ہے، جبکہ دوسری طرف عیسائی دنیا کے مسلّمہ عالم ہیں۔ مجھ سے پوچھا گیا، اچھا پھر کیا کریں؟ میں نے کہا شیخ ازہر کو بلا لیں، یا امام کعبہ کو بلا لیں، یا انڈیا سے ندوہ یا دیوبندکے سربراہ کو بلا لو۔ کسی ایسی شخصیت کو بلاؤ جو کسی فرقے کی نمائندگی کرتی ہو۔ وہ کہنے لگے، پاکستان سے کس کو بلائیں۔ میں نے کہا حاجی عبد الوہاب صاحب کو بلا لو کہ وہ ایک عالمی تحریک کی نمائندگی کرتے ہیں۔
  2. دوسری شرط میں نے یہ کہی کی ایجنڈا بیلنس کریں۔ گفتگو کا ایجنڈا تھا کہ ”مذہب اس وقت دہشت گردی کا سبب بن رہا ہے اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ مذہب کے نام پر دہشت گردی کو کیسے روکا جائے؟“ میں نے کہا ہمارے ہاں مناظرے کا معروف اسلوب ہے کہ دو فریق آپس میں مناظرہ کرتے ہیں، ایک فریق چیلنج کرتا ہے دوسرا قبول کرتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ دونوں طرف سے ایک ایک موضوع ہوتا ہے۔ ایک موضوع ایک فریق پیش کرتا ہے اور دوسرا موضوع دوسرا فریق پیش کرتا ہے کہ میں آپ کے موضوع پر بات کروں گا، لیکن آپ کو میرے موضوع پر بات کرنی ہوگی۔ اور دونوں پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ مناظرے کی روایات میں سے ہے۔ دنیا میں کہیں مذہب دہشت گردی کا ذریعہ بن رہا ہے یا نہیں، اگر بن رہا ہے تو اسے کنٹرول کیسے کیا جائے۔ میں نے کہا کہ کسی بھی دائرے میں کسی سطح پر گفتگو کرنا چاہیں، ہم پوری تسلی اور اطمینان کے ساتھ بات کریں گے، لیکن ایک موضوع ہمارا بھی ساتھ شامل کر لیں کہ مذہب سے انحراف کر کے انسانی سوسائٹی نے فائدہ اٹھایا ہے یا نقصان اٹھایا ہے؟ انقلاب فرانس کے بعد سوسائٹی نے جو مذہب کو معاشرتی زندگی سے نکال دیا تھا، اس کا مجموعی طور پر نسل انسانی کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان ہوا ہے؟ اس پر بھی ہم بات کریں گے۔ اس طرح پہلے ایجنڈا بیلنس کریں، پھر مکالمہ ہو گا۔

میں نے کہا مجھے زیادہ مکالموں میں جانے کا شوق نہیں ہے لیکن اگر کرنا ہے تو میری یہ دو شرطیں ہیں کہ (۱) مکالمہ اصل فریقوں میں ہونا چاہیے اور (۲) ایجنڈا بیلنس ہونا چاہیے۔

گوجرانوالہ کے ایک بڑے عیسائی پادری تھے فادر روفن جولیس۔ بییپٹسٹ فرقے کے پاکستان کے بڑے بشپ تھے، ایم این اے رہے ہیں اور وفاقی منسٹر رہے ہیں، ان کی اہلیہ محترمہ ایم پی اے رہی ہیں اور شہباز شریف کی پچھلی کابینہ میں صوبائی منسٹر رہی ہیں، فادر روفن جولس مرکزی وفاقی وزیر رہے ہیں۔ ایک دفعہ ان کا مجھے اور دوسرے علماء کو پیغام آیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب گستاخانہ خاکوں اور توہین رسالتؐ کا مسئلہ زور پر تھا۔ پیغام تھا کہ میں آپ سے ہیومن رائٹس کے بارے میں مکالمہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے لیکن ہم آپ سے بات ہیومن رائٹس پر نہیں کریں گے کہ آپ ہیومن رائٹس کے نمائندے نہیں ہیں۔ آپ بائبل کے نمائندے ہیں۔ ہیومن رائٹس پر اگر بات کرنی ہے تو عاصمہ جہانگیر سے یا ایس اے رحمان سے کریں گے، جو اُن کے نمائندے ہیں۔ آپ ہیومن رائٹس کے نمائندے کب سے بن گئے ہیں؟ آپ تو بائبل کے نمائندے ہیں، ہم آپ سے کسی مذہبی گفتگو کے لیے تیار ہیں، بائبل اور قرآن درمیان میں رکھیں گے اور آج کے مسائل پر گفتگو کریں گے۔ آپ کا ٹائٹل ”فادر“ کا ہے ہیومن رائٹس پر بات آپ سے کیوں کریں؟

آج میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عیسائیت کے ساتھ پیش آنے والے معاملات کا ذکر کیا ہے اور عیسائی مسلم تعلقات پر بات کی ہے اور آپؐ حیاتِ مبارکہ میں مسلم عیسائی تعلقات کی جو نوعیت تھی اس کا ہلکا سا خاکہ پیش کیا ہے:

  1. ہمارے عیسائیوں سے تعلقات کا آغاز وحی کے فورًا بعد ورقہ بن نوفل سے ہوا۔
  2. اس کے بعد حبشہ کے شاہ نجاشی اصحمہؒ کے ساتھ ہمارا دوسرا معاملہ ہوا، انہوں نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اور اسلام قبول کر لیا تھا۔
  3. قیصر روم کو خط لکھا گیا اس نے ریمارکس دیے۔ مقوقس مصر عیسائی بادشاہ تھا، اسے خط لکھا گیا، اس نے جو پروٹوکول دیا وہ میں نے عرض کیا تھا کہ اس نے اپنی دو باندیاں حضورؐ کی خدمت میں پیش کیں۔
  4. بنو طے کی لڑائی اور حضرت عدیؓ بن حاتم کے ساتھ ساتھ ان کے قبیلہ کا قبولِ اسلام۔
  5. پھر نجران کا وفد آیا تھا، اس کے ساتھ مناظرہ اور مباہلہ کی بات اور پھر معاہدہ ہوا۔

اس کے بعد عیسائیوں کے ساتھ باقاعدہ کشمکش کب شروع ہوئی؟ جناب نبی کریمؐ نے حدیبیہ کے بعد مختلف علاقوں کے بادشاہوں کی طرف اور مختلف قبائل کے سرداروں کی طرف خطوط لکھے۔ شام کے علاقے میں مختلف قبائل اور سرداریاں تھیں لیکن کنٹرول قیصر روم کا تھا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ قبائل قیصر روم کی نوآبادیاں تھیں یا ان کے صوبے تھے۔ ان میں سے ایک سردار نے جناب نبی کریمؐ کے قاصد کو شہید کر دیا جو خط لے کر گیا تھا، غالبًا ان کا نام شرحبیلؓ تھا۔

رسول اللہ نے اس کا بدلہ لینے کے لیے زید بن حارثہؓ کی قیادت میں تین ہزار کی فوج بھیجی۔ اس فوج نے موتہ میں جا کر جنگ لڑی، ان کے بارے میں حضورؐ نے فرما دیا تھا کہ زیدؓ شہید ہوئے تو جعفرؓ امیر ہوں گے، جعفرؓ شہید ہو گئے تو عبد اللہ بن رواحہؓ امیر ہوں گے۔ ان کی وہاں عیسائیوں سے جنگ ہوئی۔ یہ عیسائیوں کے ساتھ ہماری پہلی باقاعدہ جنگ ہے، اس میں ہمیں غلبہ نہیں ملا تھا۔ یہ تینوں امراء یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے تو اس افراتفری سے نکالنے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ خود آگے بڑھے اور لشکر کی کمان سنبھالی۔ اور ان کی سب سے بڑی کامیابی جس پر انہیں ”سیف من سیوف اللّٰہ“ کا خطاب ملا، وہ ان کا یہ کارنامہ تھا کہ تین ہزار کے لشکر کو بڑی مہارت کے ساتھ اس جم غفیر سے نکال کر بحفاظت مدینہ لے آئے تھے اور اپنے لشکر کو بچا لیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ مدینہ والوں نے ان کا استقبال جوتوں سے کیا تھا کہ ”انتم الفرارون“ تم فرار ہو کر آئے ہو، میدان چھوڑ کر آئے ہو، بھاگ کر آئے ہو۔ تو نبی کریمؐ نے فرمایا کہ نہیں! تم کہو ہم فرارون نہیں کرارون ہیں، ہم دوبارہ حملے کی تیاری کرنے کے لیے آئے ہیں، ہم دوبارہ جائیں گے۔

چنانچہ اسی جنگ کے تسلسل میں جناب رسول اللہ نے اپنے وصال سے پہلے موتہ کی طرف لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر عرب قبائل کی روایات کے مطابق حضرت زید بن حارثہؓ کے بیٹے اسامہ کو بنایا کیونکہ غزوہ موتہ میں وہ امیر جنگ تھے اور شہید ہوئے تھے۔ تو ان کے بیٹے اسامہ کو امیر بنایا جو نوعمر تھے، انیس بیس سال عمر ہوگی۔ اس پر اعتراض بھی ہوا تھا کہ ایک لڑکے کو امیر بنا دیا ہے، تو آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اس کے باپ پر بھی اعتراض کیا تھا ”وانہ لخلیق بالامارۃ“ حالانکہ وہ امارت کا اہل تھا۔ اب اس پر اعتراض کر رہے ہو، یہ بھی امارت کا اہل ہے۔ اس لشکر کو حضورؐ نے تیار کر کے روانہ کر دیا تھا۔ ابھی ایک آدھ دن ہی گزرا تھا کہ حضورؐ کا وصال ہو گیا، یہ لشکر قریب ہی تھا وہیں رک گیا۔ حضرت صدیق اکبرؓ خلیفہ بنے، ان سے پوچھا گیا اس لشکر کا کیا کرنا ہے؟ چونکہ عمومی افراتفری مچ گئی تھی، بہت سے قبائل باغی ہوگئے تھے اور مرتدین منکرین ختم نبوت اور منکرین زکوٰۃ کا بڑا ہجوم ہو گیا تھا، تو بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس لشکر کو روک لیا جائے کہ انہوں نے شام جانا ہے، عرب کی حدود سے باہر جانا ہے، ملک کے حالات جب ٹھیک ہوں گے تو پھر ان کو بھیج دیجیے گا۔ تو حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ جس لشکر کو جناب نبی کریمؐ نے خود روانہ کیا، میں اس کو واپس نہیں بلا سکتا، یہ لشکر جائے گا، چنانچہ وہ لشکر گیا۔

موتہ کے بعد دوسرا معرکہ تبوک کا تھا۔ تبوک میں لڑائی نہیں ہوئی لیکن پھر بھی بہت بڑا معرکہ ہے، جو جیش عسرۃ کہلاتا ہے، جس کے تذکرے سے سورہ توبہ بھری پڑی ہے، جس طرح سورہ انفال میں غزوہ بدر کے واقعات کا تذکرہ ہے۔ اس پر میں عرض کیا کرتا ہوں کہ بدر ہماری پہلی جنگ تھی اور تبوک حضورؐ کی زندگی کا آخری بڑا معرکہ تھا۔ قرآن کریم نے ایک سورہ میں پہلے غزوہ کی اور دوسری سورہ میں آخری غزوہ کی تفصیلات بیان کیں۔ اول و آخر دونوں کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے جہاد کے احکام بیان فرمائے۔

تبوک کا پس منظر یہ ہے کہ چونکہ قیصر روم کے علاقے میں جنگ ہوئی تھی، موتہ شام کے اندر ہے اور شام روم کا علاقہ تھا۔ تو قیصر روم نے اس تناظر میں فیصلہ کیا کہ میں موتہ کی جنگ کے جواب میں شام کی فوجوں کو اکٹھا کر کے مدینہ پر چڑھائی کروں گا۔ اطلاع یہ ملی کہ وہ خود شام آیا ہوا ہے، فوجیں اکٹھی کر رہا ہے اور مدینہ منورہ پر چڑھائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ جناب نبی کریمؐ کو جب یہ اطلاع ملی تو حضورؐ نے بڑی حکمت و فراست کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ میں خود جاؤں گا اور یہ لڑائی مدینہ میں نہیں ہو گی بلکہ شام کی سرحد پر ہو گی۔ ایک کمانڈر کے لیے سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ میدان جنگ کون سا ہونا چاہیے۔ سمجھدار کمانڈر میدان جنگ اپنی مرضی کا منتخب کرتے ہیں جو کہ آدھی کامیابی ہوتی ہے۔ بدر میں بھی ایسے ہی ہوا تھا فرمایا ”و لو تواعدتم لاختلفتم فی المیعاد“ (الانفال ۴۲) تم آپس میں جگہ طے کرتے تو تمہارا آپس میں اتفاق نہیں ہونا تھا کہ کہاں لڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ان کو اُدھر سے لایا، اِدھر سے تمہیں لایا اور بدر میں اکٹھا کر دیا۔ تبوک سعودی عرب کا شام کی طرف آخری شہر ہے، گویا شام اور سعودیہ کی جزیرۃ العرب کی سرحد ہے۔

تبوک کے لیے بڑی عجلت سے لشکر تیار کیا گیا۔ حالات یہ تھے فصلیں پکی ہوئی تھیں اور شدید گرمی کا موسم تھا۔ زمیندار جانتے ہیں کہ فصل پکی ہوئی ہو اور زمیندار کو کہیں جانے کو کہا جائے تو یہ اس کے لیے بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ طویل سفر تھا، ایک مہینہ جانے میں لگا تھا، ایک مہینہ واپسی پر لگا۔ حکم آگیا ”انفروا خفافا وثقالًا وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللّٰہ“ (التوبہ ۴۱) ہلکے ہو یا بوجھل ہو، نکلو۔ صحابہ کرامؓ کے ایثار و قربانی کا کمال یہ ہے کہ وہ نکل پڑے۔ منافقین پیچھے رہ گئے ”یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیھم“ (التوبہ ۹۴) تین مسلمان بھی غلطی کا شکار ہوئے ”وعلی الثلٰثۃ الذین خلفوا“ (التوبہ ۱۱۸)۔ تبوک پہلی باقاعدہ محاذ آرائی تھی جو روم اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی۔ بنو طے کے بعد موتہ اور تبوک سے ہماری عیسائیت کے ساتھ کشمکش کا آغاز ہوا۔ رسول اللہؐ نے اسی موقع کے لیے فرمایا تھا ”نصرت بالرعب مسیرۃ شھر“ ایک مہینے کی مسافت تھی، رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ یہ تبوک ہی کی بات ہے۔ آپؐ مدینہ سے چلے، قیصر روم کو جب پتہ چلا کہ محمد خود لشکر کی کمان کرتے ہوئے شام کی طرف بڑھ رہے ہیں، قیصر تھا تو وہی جس نے ابو سفیان کے سامنے ”انہ لنبی“ کہہ کر اقرار کیا تھا اور اچھی طرح جانتا تھا کہ آپؐ اللہ کے پیغمبر ہیں، تو اس کو حوصلہ نہیں ہوا، وہ شام میں ہی رہا۔ ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ کا لشکر اس نے اکٹھا کیا تھا لیکن آپؐ کا سن کر ایک طرف دبک گیا۔ جناب نبی کریمؐ سرحد پر تبوک میں آ کر بیٹھ گئے تھے، آگے نہیں بڑھے تھے۔ ایک مہینہ وہاں قیصر روم کے انتظار میں بیٹھے رہے کہ ہمارے علاقے میں آئے گا تو ہم حملہ کریں گے، ادھر جا کر حملہ نہیں کریں گے، کیونکہ تبوک جزیرۃ العرب کا آخری شہر تھا اور آگے شام تھا۔

یہاں ایک ضمنی بات عرض کرتا ہوں۔ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اسلامی ریاست کی سرحدیں ہوتی ہیں؟ میں عرض کرتا ہوں کہ ہوتی ہیں۔ اسی لیے حضورؐ تبوک جا کر رک گئے کہ یہاں جزیرۃ العرب کی سرحد تھی۔ جب ایک مہینہ انتظار کے باوجود قیصر مقابلے پر نہ آیا تو آپؐ واپس چلے آئے۔ اس طرح غزوہ تبوک میں تین مہینے لگے تھے، ایک مہینہ جاتے ہوئے، ایک مہینہ وہاں انتظار میں، اور ایک مہینہ واپسی پر۔ تبوک میں لڑائی ہوئی نہیں تھی لیکن لڑائی کا ماحول بن گیا تھا۔

فارس اور روم دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھیں۔ رومہ بڑی عیسائی سلطنت تھی، قسطنطنیہ (استنبول) اس کا دارالحکومت تھا۔ اس طرح دنیا کی سب سے بڑی عیسائی سلطنت کے ساتھ مسلمانوں کا جنگ کا ماحول تبوک کے موقع پر بن گیا تھا، خود جناب نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ میں اور حضورؐ کی قیادت میں۔ اس سے واپسی کے کچھ عرصہ ہی بعد آنحضرتؐ کا انتقال ہو گیا۔ جناب صدیق اکبرؓ نے خلافت سنبھالی تو حضرت ابوبکرؓ کی زیادہ توجہ داخلی انتشار پر قابو پانے کی رہی اور بحمداللہ بڑی محنت، ثابت قدمی اور استقلال سے انہوں نے داخلی انتشار پر قابو پایا۔ حضرت ابوبکرؓ کو گھر سے ہی بغاوتوں کا سامنا تھا، مسیلمہ کذاب کی بغاوت، طلیحہ کی بغاوت، اسود عنسی کی بغاوت، مالک بن نویرہ کی بغاوت، مرتدین اور منکرین زکوٰۃ وغیرہ سے نمٹنا تھا۔ اور کل اڑھائی سال ان کو ملے خلافت کے، اس طرح ان کا زمانہ داخلی خلفشار پر قابو پاتے ہوئے گزر گیا، یہ بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی استقامت اور جرأت عالم اسباب میں مدینہ کی ریاست کو بچا گئی تھی۔ اگر وہ تھوڑے سے ڈھیلے پڑ جاتے تو عالم اسباب میں ریاست مدینہ کے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ حالات اتنے خوفناک ہوگئے تھے کہ حضرت صدیق اکبرؓ سے حضرت عمرؓ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ حضرت! ایک دو محاذ ابھی روک دیں، منکرین زکوٰۃ کے ساتھ لڑنے کی ابھی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اگر مدینہ منورہ پر حملہ ہو جائے تو کوئی بچانے والا نہیں ہے، ہمارے پاس نفری ہونی چاہیے، ساری فوجیں باہر چلی گئی ہیں، دارالحکومت کی حفاظت کے لیے کوئی نفری موجود نہیں ہے۔ کسی نے حضرت صدیق اکبرؓ کے جذبات کو ابھارنے کے لیے کہا حضرت! ازواج مطہرات یہاں بیٹھی ہیں اگر مدینہ پر حملہ ہوا تو کیا ہوگا؟ یہ بات حضرت ابوبکرؓ ہی کر سکتے ہیں، ہمیں تو نقل کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ امام سیوطیؒ نے ان کا یہ جملہ نقل کیا ہے۔

حضرت ابوبکرؓ کے دو جملے تاریخی جملے ہیں:

  1. ایک منکرین زکوٰۃ کے حوالے سے ”اینقص الدین و انا حی؟“ دین میں کمی ہوگی اور میں بھی زندہ ہوں گا، یہ نہیں ہو سکتا۔
  2. اور دوسرا جملہ انہوں نے یہ فرمایا تھا ”لوجرت الکلاب بارجل ازواج النبیؐ“۔ اگر بھیڑیے ازواج نبیؐ کو پکڑ کر گھسیٹتے پھریں اور بچانے والا کوئی نہ ہو، یہ صورتحال مجھے قبول ہے، لیکن کوئی محاذ بند کر دوں، یہ بات میرے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ جواب دیا تھا اور حضرت عمرؓ کو ڈانٹا تھا ”اجبار فی الجاھلیۃ و خوار فی الاسلام“ آپ جاہلیت میں تو اتنا بہادر تھے کہ حضورؐ کو شہید کرنے چلے تھے، اب اتنے کمزور پڑ گئے ہو؟

حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو قیصر روم کے ساتھ کیفیت صلح کی رہی۔ روایات میں آتا ہے کہ قیصر روم کی ریاست بھی موجود تھی، مدینہ کی ریاست بھی موجود تھی، آپس کے تعلقات بھی تھے۔ حضرت عمرؓ کے عدل و انصاف سے متعلق ایک روایت میں ذکر ہے کہ قیصر روم کی اہلیہ نے حضرت عمرؓ کی اہلیہ کو خوشبو تحفے میں بھیجی۔ مطلب یہ کہ آپس میں تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا تھا، سفیروں کا تبادلہ بھی ہوتا تھا۔ مگر ساتھ ساتھ شام کے علاقے میں لڑائی بھی جاری تھی، شام میں بڑے بڑے معرکے ہوتے رہے اور آہستہ آہستہ شام کا علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔ شام کے فاتحین تین ہیں:

(۱)ابوعبیدہ عامر بن الجراحؓ (۲) خالد بن ولیدؓ (۳) اور یزید بن ابی سفیانؓ۔

یہ یزیدؓ حضرت معاویہؓ کے بڑے بھائی ہیں، بڑے صحابہ میں سے ہیں، بڑے کمانڈر تھے، شام کے فاتحین میں ہیں۔ اسی میں بیت المقدس کا معرکہ ہوا۔ بہت بڑا معرکہ تھا۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ بیت المقدس پہنچے، وہاں کا محاصرہ کیا، بیت المقدس پر عیسائی اہل علم کا کنٹرول تھا، انہوں نے کتابوں میں جو نشانیاں پڑھ رکھی تھیں انہیں دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہم صلح کرتے ہیں اور بیت المقدس تمہارے حوالے کرتے ہیں، لیکن ہماری شرط یہ ہے کہ کہ تمہارا امیر خود آئے گا، ہم چارج تمہیں نہیں دیں گے، تمہارے امیر کو دیں گے۔ اس پر حضرت عمرؓ خود سفر کر کے تشریف لے گئے اور بیت المقدس کا کنٹرول حاصل کیا۔

ادھر دمشق میں بھی اسلامی فوجیں داخل ہوئیں اور دمشق فتح ہو گیا۔ اللہ کی قدرت کہ حضرت ابوعبیدہؓ اسی دوران انتقال فرما گئے، ورنہ وہ ابھی امیر تھے۔ اور باقی دو کمانڈروں میں سے حضرت عمرؓ نے شام اور دمشق کا گورنر یزیدؓ بن ابی سفیان کو مقرر کیا۔ وہ شام کے پہلے مسلمان گورنر ہیں، یہ کچھ عرصہ گورنر رہے، پھر بیمار ہوئے اور ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی جگہ پھر ان کے بھائی حضرت معاویہؓ کو شام کا امیر بنایا گیا جو نصف صدی کے لگ بھگ شام کے امیر رہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں، حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں، پھر پانچ سال کا متنازعہ زمانہ بھی، اس کے بعد بیس سال کا عرصہ امارت کا۔

اس پر ایک دلچسپ واقعہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ذکر کیا ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ دمشق کی فتح کے بعد ریٹائرمنٹ لے کر حمص چلے گئے تھے، اس کے بعد معرکوں میں حصہ نہیں لیا تھا۔ ان کی قبر حمص میں ہے، یہ شام کا علاقہ ہے۔ تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ ایک دن حضرت خالدؓ نے اپنے دوستوں میں بیٹھے ہوئے معاصرانہ شکوہ کے طور پر کہا کہ لڑ لڑ کر ہم مر گئے، ہم نے لڑائیاں لڑیں، شام فتح کیا، اور جب دمشق پر کنٹرول ہو گیا اور شام نے اپنا شہد اور گندم مدینہ بھجوانا شروع کر دیا ہے تو اب کسی اور کو (یزیدؓ کو) یہاں کا امیر بنا دیا ہے اور مجھے کہتے ہیں غزوہ ہند کی تیاری کرو۔ حضرت عمرؓ نے کہیں اشارہ دیا ہو گا کہ اب آپ کو ہندوستان بھیجنا ہے۔ مجلس میں ہر طرح کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، کسی نے کہا حضرت! آپ انکار کر دیں۔ ایک اور آدمی بولا انکار کریں گے تو فتنہ پیدا ہوگا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ حکم دیں اور یہ انکار کر دیں۔ یہ سن کر حضرت خالدؓ سیدھے ہو کر بیٹھے اور فرمایا ”اما فی عھد عمر، فلا“۔ گھبراؤ نہیں عمرؓ کے ہوتے ہوئے کوئی فتنہ نہیں کھڑا ہو گا۔ یہ بڑا زبردست خراج عقیدت ہے حضرت عمرؓ کو۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شام کا علاقہ مکمل طور پر رومیوں سے، اور عراق کا سارا علاقہ ایرانیوں سے مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔ ایران کی ریاستوں میں سے بحرین تو حضورؐ کے زمانہ ہی میں قابو آگیا تھا۔ علاء بن حضرمی کو حضورؐ نے گورنر مقرر کر دیا تھا۔ جس طرح بحرین بڑا گڑھ تھا فارس (ایران) کا، شام بڑا گڑھ تھا روم کا۔ بہرحال یہ معرکہ شام کا ہمارا عیسائیوں سے تھا۔

اس کے بعد مصر میں معرکہ آرائی ہوئی۔ مصر بھی عیسائی ریاست تھا۔ مقوقس مصر کو آپؐ نے اسلام کی دعوت کا خط لکھا، اس نے بڑے احترام اور پروٹوکول سے جواب دیا لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔ مصر کا علاقہ فتح کیا ہے حضرت عمرو بن العاصؓ نے، آپؓ فاتح مصر ہیں اور مصر کے گورنر بھی رہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں یہ تین بڑے خطے قابو آئے مصر، شام اور عراق۔ عراق ایرانیوں سے اور شام و مصر عیسائیوں سے۔

دور خلافت راشدہ کے بعد بھی یہ لڑائیاں چلتی رہیں۔ چھوٹے چھوٹے معرکے تو ہوتے رہے، بیسیوں جنگیں ان معرکوں میں ہوئی ہیں۔ تیسرا بڑا معرکہ ہمارا عیسائیوں کے ساتھ اندلس کا ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی دی۔ طارق بن زیاد لشکر لے کر جا رہے تھے۔ جب افریقہ سے یورپ میں داخل ہوئے، اندلس میں۔ مراکش افریقی شہر ہے اور اس کے درمیان میں سمندر کی سولہ سترہ میل کی پٹی ہے، دوسری طرف اندلس ہے۔ مراکش اور اندلس آمنے سامنے ہیں۔ طارق بن زیاد وہ سمندر کی پٹی عبور کر کے گئے تھے اور دوسری طرف جا کر ساری کشتیاں جلا دیں۔ یہ اندلس کا معرکہ عیسائیوں کے ساتھ ہوا جو بڑے معرکوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ کشمکش چلتی آرہی تھی، اس دوران عیسائیوں نے اپنی شکست پر پھر کروٹ لی اور مسلمانوں کے ساتھ محاذ آرائی کا بازار گرم کیا۔

ایک دور ہے آنحضرتؐ کا۔ دوسرا دور عیسائیوں کے ساتھ کشمکش کا ہے جس میں شام، مصر اور وقفہ کے بعد اندلس کی جنگ ہے۔ اس کے بعد جو نیا محاذ صلیبی جنگوں کا بنا، اس کا سبب بیت المقدس تھا۔ میں نے بتایا تھا کہ بیت المقدس ہمارا تو ہے ہی، یہودی اور عیسائی بھی دعویدار ہیں بیت المقدس کے۔ مسلمانوں کے ہاتھ آنے پر عیسائیوں کو بہت تکلیف تھی اور ہونی چاہیے تھی، فطری بات ہے جیسے بیت المقدس یہود کے ہاتھ جانے پر ہمیں تکلیف ہے۔ کوئی بھی مسلمان اس صورتحال پر خوش نہیں ہے، بڑے اضطراب کی کیفیت ہے۔

عیسائیوں نے بیت المقدس کو ٹارگٹ بنا کر پلاننگ کی تھی کہ ہم نے اپنا شہر یروشلم واپس لینا ہے۔ یہ پلاننگ پاپائے روم پوپ اربن ثانی نے کی تھی، اس زمانے میں عیسائی دنیا پر پادریوں کی حکومت ہوتی تھی۔ انقلاب فرانس کے بعد حکومتوں پر پادریوں کا کنٹرول ختم ہوا، اس سے پہلے پاپائے روم کو حکومتوں کے سب سے بڑے سرپرست کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ یہ صلیبی جنگیں دو سو سال جاری رہیں۔ مذہب اور صلیب کے نام پر اور یروشلم کی واپسی کے نام پر رہی ہیں۔ اس دوران نوے سال بیت المقدس عیسائیوں کے پاس رہا، پھر صلاح الدین ایوبیؒ نے ان سے واپس لیا۔ یہ صلیبی جنگیں کیا تھیں، اس میں عیسائیوں کے کون کون سے لوگ شریک تھے اور ہمارا کیا کردار تھا، اس پر ان شاء اللہ العزیز اگلی نشست میں تفصیل سے گفتگو ہو گی۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علماء کرام! ہمارا یہ موضوع چل رہا ہے کہ اس وقت جو مختلف مذاہب انسانی سوسائٹی میں موجود ہیں، ان کے ساتھ ماضی، حال اور مستقبل میں ہمارے معاملات اور تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ عیسائیت پر بات چل رہی ہے۔ آج اندلس کے حوالے سے بات ہوگی۔ اگلی نشستوں سے ان شاء اللہ دیگر مذاہب پر گفتگو ہو گی۔

اندلس یورپ کا ایک حصہ ہے، آج کل اس کو اسپین کہتے ہیں۔ اندلس اس دور کے ہسپانیہ کا ایک حصہ تھا۔ مراکش جو اقصی مغرب کہلاتا ہے، اس سے آگے یورپ شروع ہوتا ہے جس میں اندلس ہے۔

افریقہ کی فتوحات حضرت عثمانؓ کے زمانے میں شروع ہو گئی تھیں۔ مراکش افریقہ کا حصہ ہے۔ افریقہ سے یورپ کی طرف بنو امیہ کے دور میں طارق بن زیاد، مسلم بن نصیر وغیرہ جرنیلوں نے پیشرفت کی۔ یہ وہاں حملہ آور ہو کر علاقوں پر قبضہ کرتے تھے۔ یہ کام تقریباً ۹۲ھ سے شروع ہو گیا تھا، یعنی جناب نبی کریمؐ کی رحلت کے ۸۰ سال بعد یورپ میں ہمارا داخلہ براستہ اندلس شروع ہو گیا تھا۔

بنو امیہ کی خلافت کے خلاف بنو عباس کی مہم ایک عرصے سے چل رہی تھی۔ یہ پرانی کشمکش تھی، بنو ہاشم بھی بنو امیہ کے خلاف لگے رہے، امام زید اور امام نفس زکیہ نے بھی خروج کیا، لیکن اس میں بنو عباس کا دائرہ اپنا تھا اور بنو علی کا دائرہ اپنا تھا۔ بنو علی کو باوجود خروج کے حکومت پر کنٹرول حاصل نہیں ہوا۔ بنو عباس بالآخر بنو امیہ کو گرانے میں اور ان کی جگہ اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ابو عبداللہ سفاح پہلے عباسی خلیفہ ہیں، ان کو سفاح اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت زیادہ خون ریزی کی تھی۔ اور جب ایک اقتدار گرا کر دوسرا اقتدار جگہ لیتا ہے تو یہ فطری بات ہے، ایسے ہوتا ہے۔ اور یہ بھی واضح بات ہے کہ سب سے زیادہ قتل عام حریف کا ہوتا ہے۔ ملکہ سبا بلقیس نے جو کہا تھا ”ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ وکذلک یفعلون“ (النمل ۳۴) بادشاہوں کا سب سے پہلا ٹارگٹ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اشرافیہ حکمران طبقات کو نیچے لانا۔

ضمناً کہہ دوں کہ یہاں بھی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار سنبھالا اور پھر ۱۸۵۷ء کے بعد برطانوی اقتدار آگیا تو چونکہ اقتدار مسلمانوں سے لیا تھا، اس لیے سب سے زیادہ نشانہ مسلمانوں کو ہی بنایا گیا۔ یہی بات بنو امیہ کے ساتھ ہوئی کہ بنو عباس نے بنو امیہ کے افراد کو چن چن کر قتل کیا، البتہ ان میں سے ایک شہزادہ سمجھدار نکلا، اس نے مزاحمت نہیں کی۔ اندلس کا علاقہ بنو امیہ کے ہی زمانہ میں فتح ہوا تھا، تو اس نے مزاحمت کرنے کی بجائے ایک طرف ہو کر یہ علاقہ سنبھال لینے کو ترجیح دی۔ وہ شہزادہ تھا عبد الرحمن بن معاویہ بن ہشام بن عبد الملک بن مروان۔ یہ چپکے سے وہاں سے نکلا، ظاہر بات ہے ہر آدمی کے کچھ حمایتی بھی ہوتے ہیں۔ تو یہ بچتا بچاتا اندلس جا پہنچا۔ اس کا یہ اندازہ صحیح تھا کہ چونکہ اندلس کا سارا انتظام انہی کے دور میں ہوا تھا تو وہ اس کی قدر کریں گے۔ اس نے اندلس کے ساحل پر اترتے ہی اپنی خلافت کا اعلان کر دیا کہ میں خاندان خلافت کا فرد ہوں اور خلیفہ کا پوتا ہوں، یہاں میں اپنی امارت کا اعلان کر رہاہوں۔ وہاں مقامی حکمرانوں سے مزاحمت ہوئی لیکن عبدالرحمن نے بڑھتے بڑھتے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس کو عبدالرحمن الاول اور عبدالرحمٰن الداخل بھی کہتے ہیں۔ یہ اندلس میں بنو امیہ کی سلطنت کا بانی ہے۔ ۱۳۸ھ میں یہ اندلس میں داخل ہوا، جس اموی کو علم ہوا کہ عبدالرحمٰن الداخل نے اندلس میں حکومت قائم کر لی ہے، وہ وہاں جمع ہوتے چلے گئے اور ایک مستحکم حکومت قائم ہو گئی۔ ایک عرصہ تک انہوں نے حکومت کی، ۳۹۹ھ تک بنو امیہ کی وہاں حکومت رہی۔ دس خلیفہ گزرے ہیں، یہ بھی خلافت بنو امیہ کہلاتی ہے۔ فرق یہ تھا کہ خلافت بنو امیہ دمشق سے منتقل ہو کر اندلس چلی گئی اور بنو عباس نے خلافت قائم کر کے بغداد کو اپنا مرکز بنا لیا۔

اس کے بعد بنو امیہ خلفشار کا شکار ہوئے۔ مختلف خاندان قبضہ کرتے رہے، حکومتیں کرتے رہے۔ مثلاً بنو حنوط، پھر بنو عباد، پھر مرابطین، پھر موحدین، پھر بنو ہود۔ طوائف الملوکی ہو گئی۔ اموی دور میں اندلس کی حکومت مستحکم تھی، اس نے بڑی ترقی کی اور اس دور کے اندلس کو آج بھی دنیا یاد کرتی ہے۔ اندلس تہذیب کا مرکز تھا۔ اِدھر مسلم تہذیب کا مرکز بغداد تھا اور اُدھر مسلم تہذیب کا مرکز غرناطہ اور قرطبہ تھا۔ اور تاریخ مانتی ہے کہ یورپ کو تہذیب و تمدن، حقوق اور تعلیم سے روشناس کرانے والا غرناطہ اور قرطبہ تھا۔ انہوں نے تقریباً تین سو سال وہاں حکومت کی۔ پھر غرناطہ الگ ہو گیا، قرطبہ الگ ہو گیا۔ چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنتی گئیں لیکن مجموعی طور پر یہ اقتدار مسلمانوں کے ہی پاس رہا۔ عیسائیوں کے ساتھ بھی جنگیں ہوتی رہیں اور آپس میں بھی جنگیں ہوتی رہیں۔ چلتے چلتے ۸۹۷ھ میں مسلمانوں کو وہاں سے مکمل شکست ہوئی۔ غرناطہ میں ابو عبد اللہ جو ہمارا آخری حاکم تھا، اس کا عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ ہوا، بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے ساتھ، اور ابوعبداللہ وہاں سے نکل گیا۔

اس طرح ۹۲ھ سے شروع ہو کر ۸۹۷ھ تک تقریباً آٹھ سو سال مسلمانوں کی وہاں حکومت رہی، جس میں سے تین چار سو سال تو ہماری مستحکم حکومت تھی، پھر ہم وہاں سے رخصت ہوئے اور رخصت ہی ہو گئے۔ اس دوران یورپ پر اثرات کیا ہوئے اور ہم پر اثرات کیا ہوئے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ اندلس پر بنو امیہ کی خلافت قائم ہونے کے بعد باقی علاقہ بنو عباس کے لیے آزاد ہو گیا تھا تو یہاں بنو امیہ نے بنو عباس سے مزاحمت نہیں کی۔ ساری معاصرت وہاں منتقل ہو گئی تھی۔ پھر بنو عباس سے ہلاکو خان نمٹا ہے۔ تاتاری آئے لیکن بنو امیہ سمندر پار دوسرے علاقے میں بڑی دلجمعی کے ساتھ حکومت کرتے رہے۔

اس دوران کے تاریخی حقائق یہ ہیں۔ یورپ کی مجموعی صورتحال یہ تھی کہ نہ وہاں تعلیم تھی، نہ ہنر تھا، نہ ہی حقوق تھے، مکمل جاہلیت کا منظر تھا۔ عرب جاہلیت سے بھی بدتر۔ یورپ میں حکمران (۱) بادشاہ تھا (۲) جاگیردار تھا (۳) پاپائے روم تھا۔ جاگیرداروں کے مزارعین جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے تھے۔ بادشاہ مطلق العنان ہوتا تھا، جو کہہ دیا وہی قانون ہے، اور پاپائے روم ان کے پشت پناہ ہوتے تھے۔ مذہبی قیادت ان کا ساتھ دیتی تھی۔ وہاں جا کر علم کی بات سب سے پہلے مسلمانوں نے کی ہے۔

یورپ کے مؤرخ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن مسلمان کی بجائے عربوں کا ذکر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں تعلیم، تہذیب، تمدن اور ثقافت سے روشناس عربوں نے کرایا۔ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کی پہچان عربوں نے کروائی۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت کی بنیاد عربوں نے رکھی۔ یہ بات وہ مانتے ہیں کہ یہاں کی تعلیم گاہیں پورے یورپ کی تعلیم کام مرکز تھیں۔ تقریباً تین چار صدیاں یہ ماحول رہا ہے کہ جس طرح آج ہمارے ہاں لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ، فرانس اور امریکہ وغیرہ جاتے ہیں، اس زمانے میں پورے یورپ سے اعلیٰ تعلیم کے لیے غرناطہ، اندلس کا رخ کیا جاتا تھا۔ یہ مہذب اور تعلیم یافتہ ملک شمار ہوتا تھا۔ یورپ میں علم و دانش اور حقوق کا شعور داخل کرنے کا سبب اندلس بنا ہے۔

میں ایک اور حوالے سے بات کرتا ہوں کہ یہ دور تھا جب ہماری چاروں فقہیں مرتب ہو کر مروج ہو چکی تھیں۔ اللہ کی قدرتِ تقسیم یہ ہوئی کہ حنفی فقہ کو عباسیوں نے اپنا لیا تھا۔ عباسیوں نے سب سے پہلے دستور مرتب کیا۔ ہمارے ہاں ایک بحث چلتی ہے کہ آیا دستور سازی جائز ہے؟ نہ معلوم کہاں سے ہم یہ تصورات لے لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں عباسیوں کے دور میں باقاعدہ دستور سازی اور قانون سازی ہوئی ہے۔ ہارون الرشید نے اپنے چیف جسٹس امام ابو یوسفؒ سے فرمائش کر کے کہا کہ میرے لیے نظم مملکت، مالیات وغیرہ کے قواعد و ضوابط مرتب کر دیں تاکہ میں ان کو نافذ کر دوں۔ چنانچہ امام ابو یوسفؒ نے ”کتاب الخراج“ لکھی جو بنیادی طور پر مالیات کے نظام پر ہے۔ اردو، عربی، انگلش بلکہ فرانسیسی میں اس کا ترجمہ موجود ہے۔ کتاب الخراج پڑھنے سے پہلے میں بھی یہی سمجھا کرتا تھا کہ اس میں کافروں سے خراج لینے کے متعلق مسائل ہوں گے لیکن اس میں پورا نظام معیشت ہے، بیت المال کا پورا سسٹم ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ عامل کا تقرر کیسے کرنا ہے، خلیفہ کیسے منتخب ہو گا، دستور، ایڈمنسٹریشن، مالیات اور عدالتی نظام پورے کا پورا اس میں موجود ہے۔

اس کو اگر سامنے رکھا جائے تو آج کی زبان میں وہ دستور ہی کہلائے گا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ اگر اس زمانے میں کوئی پارلیمنٹ بنائی جاتی کہ دستور مرتب کر دو، تو وہ یہی دستور مرتب کرتی جو اکیلے امام ابویوسفؒ نے کر دیا۔ میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ سسٹم کے حوالے ہماری کلاسیکل کتابیں امام ابو یوسفؒ کی کتاب الخراج، ابو عبید قاسم بن سلام کی کتاب الاموال اور ماوردی اور قاضی ابویعلیٰ کی الاحکام السلطانیہ (دونوں کی الاحکام السلطانیہ الگ الگ ہے)۔ ان میں قانون و دستور بھی ہے اور مالیات و عدلیہ بھی ہے۔ جبکہ لائبریریوں میں موجود ہوتے ہوئے بھی یہ چاروں کتابیں ہمارے مطالعے سے باہر ہیں۔ کہیں کوئی مضمون لکھنا پڑ جائے اور کوئی صفحہ کھول کر دیکھ لے تو الگ بات ورنہ ہم ان کتابوں کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔ اور دنیا بھر میں یہ پروپیگنڈہ سنتے رہتے ہیں کہ اسلام کے پاس کوئی سسٹم نہیں ہے، لیکن پڑھیں گے تو پتہ چلے گا۔

خلافت عباسیہ نے فقہ حنفی کو اپنا لیا، پوری خلافت عباسیہ میں فقہ حنفی ملک کا قانون رہی ہے۔ اس کے بعد ترکوں کی خلافت عثمانیہ آئی اس نے بھی فقہ حنفی کو ہی ریاستی قانون کا درجہ دیا۔ ہندوستان میں مغل حکومت تھی، ان کی فقہ بھی فقہ حنفی تھی۔ تین بڑے ایمپائر: عباسی ایمپائر، عثمانی ایمپائر اور مغل ایمپائر، ان میں فقہ حنفی قانون رہی ہے ۱۸۵۷ء تک۔ فقہ حنفی کے بہت سے امتیازات کی وجہ یہ ہے کہ عملاً قانون رہی ہے۔ جو قانون صرف کتابوں میں ہو اور سوسائٹی میں عملاً نہ ہو وہ قانون اور ہوتا ہے۔ اور جس قانون کو پریکٹیکل تجربات، مشاہدات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے وہ قانون اور ہوتا ہے۔ جس قانون نے سوسائٹی میں عمل کرنا ہے اس کو رکاوٹیں بھی پیش آئیں گی، اس کو حل بھی نکالنا پڑے گا۔ فقہ حنفی پر سب سے بڑا الزام حیلہ کا ہے، حالانکہ قانون کو راستہ نکالنا پڑتا ہے، قانون میں ڈیڈلاک کبھی نہیں ہوا کہ چار دن قانون نہ سہی۔ یہ بات نہیں ہوتی، قانون کوئی نہ کوئی ہوگا۔

مشرق سارا فقہ حنفی پر عمل پیرا ہے۔ مغربی افریقہ میں فقہ مالکی نے حکمرانی کی ہے، اب بھی مراکش، لیبیا، تیونس میں فقہ مالکی ہے۔ جبکہ بمبئی سے آگے ملائیشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے آخر تک سارے شافعی ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق پچیس تیس کروڑ شافعی ہیں اس خطے میں۔ بمبئی سے شوافع شروع ہوتے ہیں، بمبئی میں بھی شوافع بہت ہیں بڑی مضبوط کمیونٹی ہے شوافع کی۔ دہلی میں حنفی ہیں اور لکھنؤ میں شیعہ۔ یہ تکون صدیوں سے چلی آرہی ہے۔

فقہ کی درس نظامی میں ابتدائی کتاب ”ما لا بد منہ“ حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ کی لکھی ہوئی ہے۔ میں ایک دن لندن کی ایک مسجد میں تھا، مغربی ماحول میں ہوتا یہ ہے کہ جہاں لوگ کہیں جا کر بستے ہیں، ان کے پاس جو اپنی کتابیں ہوتی ہیں اگلی نسل کے لیے وہ کتابیں بیکار ہوتی ہیں، زبان کے لحاظ سے بھی اور ذوق کے اعتبار سے بھی، ان کے کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ وہ اول تو پھینک دیتے ہیں یا بہت زیادہ احترام کریں گے تو قریب کی مسجد میں چھوڑ آئیں گے۔ میں نے بہت سی کتابیں مسجدوں سے اٹھائی ہیں۔ مجھے لندن کی مسجد میں ”ما لا بد منہ شافعی“ ملی۔ میں چونکا کہ ما لا بد منہ تو حنفیوں کی ہے، یہ شافعیوں کی کدھر سے آگئی۔ وہ بالکل اسی ضخامت کی، اسی زمانے کی، اسی لہجے میں، اسی انداز و ترتیب سے فارسی زبان میں تھی، اس میں شافعی فقہ بیان کی گئی تھی۔ میں نے ہدیہ مسجد میں شامل کر کے وہ کتاب لے لی۔ میرے لیے یہ بالکل نئی چیز تھی۔

ہم حنفی، مالکیہ اور شوافع کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔ مغرب میں مالکیہ اور مشرق میں شوافع ہیں، درمیان میں ایک چھوٹی سی پٹی حنابلہ کی ہے، سعودیہ اور عرب امارات۔ مصر میں بھی زیادہ شوافع ہیں۔ اندلس نے بڑے بڑے علماء پیدا کیے ہیں مثلاً امام قرطبی اور ابن خلدون وغیرہ۔

علم کا تعارف مغرب کو مسلمانوں نے کرایا ہے۔ سائنس اور صنعت و حرفت کی بنیاد بھی مسلمانوں نے فراہم کی ہے، اور حقوق کا تعارف بھی مسلمانوں نے کروایا۔ مغرب اس کا اعتراف کرتا ہے۔ جب کسی قوم کا دور ہوتا ہے تو ابتدائی ایک سو سال اس کے ارتقا کا زمانہ ہوتا ہے، اور آخری سو، سوا سو سال تنزل کا زمانہ ہوتا ہے۔ عروج کا زمانہ درمیان کا ہوتا ہے۔ جیسے بنو امیہ کے اس آٹھ سو سال کے دور میں عروج کا دور تین سو سال کا تھا۔

علم، تہذیب، تمدن، فلسفہ کے لیے طاقت کی پشت پناہی ضروری ہوتی ہے، ورنہ ختم ہو جاتا ہے۔ صرف علم، صرف تہذیب، صرف فلسفہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہم نے اگر دنیا پر ہزار سال حکومت کی ہے تو ہماری بنیاد علم اور اخلاقیات پر تھی، لیکن پشت پناہ طاقت و حکومت تھی۔ آج اگر دنیا پر مغرب کا فلسفہ حکمرانی کر رہا ہے، ہماری خواہشات کے علی الرغم کر رہا ہے، ہمارا ایک لمحہ کے لیے بھی جی نہیں چاہتا کہ ہم مغربی فلسفے کو قبول کریں لیکن ہمیں قبول کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ اس کی پشت پناہی طاقت کر رہی ہے۔ مغرب کا فلسفہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود، تمام تر اعتراضات کے باوجود، دنیا کی مختلف قوموں کے تمام تر تحفظات کے باوجود دنیا کا حکمران ہے، جس کے سامنے چین بھی بے بس ہے۔ چین معیشت کے میدان میں ٹکر لے رہا ہے، فلسفے اور تہذیب و تمدن کے محاذ پر وہ وہیں کھڑا ہے جہاں مغرب کھڑا ہے۔ یہ سب کچھ طاقت کے بل بوتے پر ہو رہا ہے۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے ؎

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

نبوت کے ساتھ بھی طاقت ضروری ہے، حضرت داؤد علیہ السلام طاقت کے ذریعے ہی خلیفہ بنے۔ خلیفہ بننے کے لیے جالوت کو قتل کرنا پڑا تھا ”وقتل داوود جالوت واٰتاہ اللّٰہ الملک والحکمۃ وعلمہ مما یشاء“ (البقرہ ۲۵۱)۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں پہلے انہوں نے جالوت کو قتل کیا پھر میں نے ان کو حکومت، نبوت اور خلافت دی تھی۔ دنیا کا مذہب، دین، عقیدہ آسمان سے آتا ہے، دنیا میں طاقت ملتی ہے تو نظام چلتا ہے۔ اور ہم آج مار کھا رہے ہیں طاقت نہ ہونے کی وجہ سے کہ طاقت کا توازن ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جس قوم کے پاس طاقت کا توازن نہیں ہے وہ خود اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی، دوسروں پر حکومت کیا کرے گی! قرآن کریم کے ایک نکتے کی طرف اشارہ کروں گا، قرآن کریم نے طاقت کا معیار بتایا ہے ”واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللّٰہ وعدوکم واٰخرین من دونھم“ (الانفال ۶۰)۔ قوت کا ترجمہ حضورؐ نے کیا تھا ”الا ان الق وۃ ھی الرمی“ قوت رمی کا نام ہے۔ رمی کا معنی پھینکنا، رمی سے مراد ہتھیار پہنچانے اور پھینکنے کی صلاحیت۔

آج کی دنیا میں سب سے بڑی دوڑ اس بات میں ہے کہ میرے میزائل کی چھ ہزار میل تک رسائی ہے، دوسرا کہتا ہے میرے میزائل کی رسائی آٹھ ہزار میل تک ہے۔ میزائل کی رینج کس کی کتنی ہے، آج کی قوت یہ ہے۔ آج کی جدید ترین سائنس بھی قوت کا معیار میزائل کی رینج کو قرار دیے ہوئے ہے۔ اور رباط الخیل سے مراد لاجسٹک سورسز (نقل و حرکت کے ذرائع) ہیں۔ اس زمانے میں گھوڑے، خچر اور اونٹ ہوتے تھے، اس لیے رباط الخیل کہا۔ آج طیارے ہیں، بحری جہاز ہیں۔ اب میزائل کی رینج اور لاجسٹک سورسز کے ساتھ ایک اور طاقت کا اضافہ ہو گیا ہے، وہ ہے معلومات تک رسائی اور معلومات کا پھیلاؤ۔ یعنی انٹرنیٹ، کہ آپ معلومات کے حصول اور پھیلاؤ پر کتنی جلدی اور کتنی مکمل رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

دشمن کے خلاف کتنی طاقت مہیا کرو، اس کا معیار یہ بتایا ”ترھبون بہ عدو اللّٰہ وعدوکم“ اتنی طاقت کہ تم دہشت پھیلا سکو، جس کے ساتھ تم دشمن کو رعب میں رکھ سکو۔ ارہاب دہشت کو کہتے ہیں، دہشت گردوں کو ارہابیین کہتے ہیں۔ اس آیت کا سادا سا ترجمہ یہ کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جتنے تمہارے پاس وسائل ہیں سارے خرچ کرو، قوت پیدا کرو، لاجسٹک سورسز پیدا کرو۔ اتنے کہ طاقت کا توازن تمہارے ہاتھ میں ہو۔ جب طاقت کا توازن ہمارے ہاتھ میں تھا ہم نے حکمرانی کی ہے۔ ہم نے طاقت کا توازن کھو دیا اب جس کے پاس ہے وہ حکمرانی کر رہا ہے۔

  • ہماری حکومتوں میں سے دو حکومتوں نے اس طرف کوئی توجہ دی ہے۔ ایک نے بالکل ابتدائی درجے میں یعنی عباسیوں نے۔ سائنسی ایجادات، سائنسی مطالعہ کا آغاز عباسیوں کے دور میں ہوا۔ انہوں نے رسدگاہ بنائی۔ رسدگاہ کیا تھی؟ ہمارے ہاں ستاروں وغیرہ کے علوم عقلیات کے دائرے میں تھے، اس کو مشاہدات کے دائرے میں لانے کے لیے سب سے پہلا کام عباسیوں نے کیا ہے۔ ادھر اندلس میں بنو امیہ تھے۔ دونوں معاصر تھے ان دونوں نے اس طرف توجہ دی۔
  • پھر ہماری دو حکومتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی جس کی ہم مار کھا رہے ہیں۔ نہ خلافت عثمانیہ نے اس کو اپنا ایجنڈا بنایا، نہ مغلوں نے بنایا۔ یورپ نے انگڑائی لی اندلس کی وجہ سے، لیکن اس کے متبادل جو ہماری حکومت یورپ کے ایک حصے ترکی میں بنی یہ بے خبر رہی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پر کوئی توجہ نہ دی، ادھر مغلوں نے بھی یہی کیا۔

میرا تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر ایک موقف ہے اور بے بنیاد نہیں ہے کہ یورپ کو حقوق، عمرانیات اور سماجیات سے اندلس نے متعارف کرایا، سائنس اور ٹیکنالوجی سے بھی اندلس نے متعارف کروایا۔ یہ تو ہمارا کریڈٹ ہے، کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ جب بنیادیں فراہم کر کے عمارت شروع کرنے کا وقت آیا تو ہم اندلس سے بے دخل ہو گئے کہ ہماری سیاسی قوت نہیں رہی تھی، عسکری قوت شکست کھا گئی تھی۔ اور جس فلسفے اور نظام کے پیچھے سیاسی اور عسکری قوت نہ ہو اس کا حال وہی ہوتا ہے جو ہمارا اندلس میں ہوا۔ بنیادیں ہم نے قائم کیں، عمارت یورپ نے کھڑی کر دی۔ اصول ہم نے فراہم کیے، ڈھانچہ انہوں نے بنا لیا۔آج جو بھی چیز دیکھیں گے اس کے پیچھے اندلس، غرناطہ اور قرطبہ نظر آئے گا۔ لیکن جب ہم اپنی سیاسی و عسکری قوت برقرار نہیں رکھ سکے تو وہی ہونا تھا جو ہوا۔

بغداد میں ہلاکو خان نے ہماری تباہی کا سامان کیا اور اندلس میں فرڈیننڈ اور ملکہ ازبیلا نے کیا۔ جب ابو عبداللہ غرناطہ کی پہاڑیوں سے رخصت ہوئے، جلاوطن کر دیے گئے تو پھر ازابیلا ملکہ تھی اور بادشاہ فرڈیننڈ تھا۔ ان میاں بیوی نے ہم پر فتح پائی تھی، انہوں نے باقاعدہ نوٹس دے دیا، اعلان کر دیا کہ یا عیسائی ہو جاؤ یا ملک چھوڑ دو ورنہ قتل کر دیں گے۔ یہ مہذب ملکوں کی بنیاد ہے، لاکھوں لوگ قتل کیے، لاکھوں بھاگے، لاکھوں عیسائی ہوئے۔ امریکہ میں جانے والے کالوں کی اور اسپینش کی ایک بڑی تعداد مسلمان تھی جو وہاں جا کر عیسائی ہوئے۔ ہم پر یہ اثرات ہوئے کہ ہم نے علم کی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف اور قرآن کریم کے اس ارشاد ”واعدوا لھم ما استطعتم من ق وۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللّٰہ وعدوکم“ کی طرف جو قدم بڑھانا شروع کیا تھا، ادھر ہلاکو خان نے اور ادھر فرڈیننڈ اور ازابیلا نے ہمیں تہس نہس کر دیا اور ہمارے قدم وہیں رک گئے۔ اور ایسے رکے کہ ابھی تک رکے ہوئے ہیں۔ ابھی تک اجارہ داری انہی کی ہے، ابھی تک وہی ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں۔

امریکہ کی دریافت اس دوران ہوئی جب اندلس میں ہمیں شکست ہو گئی تھی۔ یہ ۱۴۹۰ء کے دور تھا، شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا اسپین کے بادشاہ اور ملکہ نے اندلس میں ہمیں شکست دے کر اندلس کو خالی کرا لیا تھا۔ امریکہ کو دریافت کرنے والا کولمبس شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کا نمائندہ تھا، اس کے خرچے اور اجازت سے ہند کو دریافت کرنے نکلا تھا لیکن اس کا رخ ادھر ہو گیا اور وہ امریکہ جا پہنچا۔ اس کا تو اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ بھی دنیا میں کوئی براعظم ہے۔

پرانے زمانے میں سمندری سفر اسی طرح ہوا کے رخ پر ہوتا تھا، ہوا کا رخ بدل گیا تو سفر کا رخ بھی بدل گیا۔ جیسے بخاری کی روایت میں ہے، ابو موسٰی اشعریؓ کہتے ہیں کہ ہم سمندری راستے سے مدینہ کی طرف چلے تھے، ہوا کا رخ بدلا تو ہم حبشہ جا پہنچے، کافی عرصہ وہاں رہنا پڑا۔ اسی طرح کولمبس امریکہ جا پہنچا۔

تاریخ یہ کہتی ہے کہ کولمبس سے پہلے عرب وہاں پہنچے تھے۔ یہ ایک تاریخی تنازعہ ہے کہ امریکہ عربوں نے دریافت کیا یا کولمبس نے دریافت کیا۔ لیکن یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جب کولمبس وہاں پہنچا تو اسپینش عرب وہاں موجود تھے۔ امریکہ میں دوسری بڑی نیشنلٹی اسپینش کی ہے، دوسری سرکاری زبان اسپینش ہے۔

یہ کہا جاتا ہے اور شواہد بھی موجود ہیں کہ اندلس پر قبضہ کرنے کے بعد جب شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے وہاں جبراً لوگوں کو عیسائی بنایا تھا اور یہ آرڈر دیا تھا کہ ایک ماہ کے اندر

  • اسپین چھوڑ دو،
  • عیسائی ہو جاؤ،
  • یا پھر قتل ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

اندلس کی غالب اکثریت کو انہوں نے عیسائی بنا لیا تھا، بڑی تعداد کو قتل کر دیا تھا، بہت سے لوگ بھاگ گئے تھے۔ بھاگنے کا راستہ سمندر ہی تھا۔ اس کی ایک جھلک روہنگیا ارکان کی کشمکش میں دکھائی دیتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسپین والے کیسے بھاگے تھے، لیکن روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ دیکھ کر بات سمجھ میں آگئی۔ برما والے انہیں دھکیل رہے تھے، بنگلہ دیش والے انہیں قبول نہیں کر رہے تھے، بہت سے لوگ سمندر میں ڈوب گئے، کچھ کو کہیں پناہ مل گئی۔ ایسے ہی اسپین کے مسلمان ایمان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ نکلے، بہت سے لوگ سمندر میں ڈوب گئے اور بہت سے امریکہ پہنچ گئے۔ اکثر وہ ہیں جن کو اس زمانے میں اسپین سے نکال دیا گیا تھا۔ آج کے اسپینش انہی کی اولاد ہیں لیکن اکثر مسلمان نہیں ہیں، غالب اکثریت عیسائی ہو گئی ہے۔

اسپینش نسل کی دو چھوٹی چھوٹی شہادتیں میرے سامنے بھی ہیں:

  • ۱۹۸۷ء کی بات ہے جب میں پہلی بار امریکہ گیا، نیویارک میں گوجرانوالہ کے ہمارے ایک دوست تھے ڈاکٹر زاہد، ان کا وہاں کلینک تھا، ایک دن کہنے لگے لوگ تو یہاں سفر کر کے چیک اپ کرانے کے لیے آتے ہیں، آپ آئے ہوئے ہیں تو میرے کلینک پر چیک اپ کرا لیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کر لیں۔ انہوں نے مجھے دوسرے دن دس بجے کا وقت دے دیا کہ آپ آ جائیں اور عملے سے کہہ دیا کہ مولوی صاحب آئیں گے، ان کا چیک اپ کرنا ہے۔ چیک اپ کے لیے میرا خون لینے والی لڑکی اسپینش تھی، اس نے ٹیسٹ کے لیے میری رگ سے خون نکالنا تھا۔ جب اس نے سوئی چبھوئی تو میں نے کوئی قرآنی دعا پڑھی۔ اب مجھے یاد نہیں کون سی دعا پڑھی تھی۔ اس نے خون شیشی میں لیا، میں اٹھ کر چلا گیا۔ دوسرے دن ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا آپ نے خون نکالنے والی لڑکی کو کیا کہا تھا۔ میں نے کہا میں نے تو اسے کچھ نہیں کہا۔ کہنے لگے آپ نے کچھ کہا تھا۔میں نے کہا نہ میں اس کی زبان سمجھتا ہوں، نہ وہ میری زبان سمجھتی ہے، میں نے اسے کیا کہنا تھا۔ انہوں نے کہا، وہ کہہ رہی ہے کہ مولوی صاحب سے پوچھیں جب میں نے سوئی چبھوئی تھی تو مولوی صاحب نے کیا کہا تھا۔ میں نے بتایا کہ میں نے تو دعا پڑھی تھی۔ اس نے کہا، جو الفاظ مولوی صاحب نے بولے تھے ویسے میری دادی مجھے گود میں لے کر بولا کرتی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کی دادی مسلمان تھی۔
  • دوسرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ شکاگو (امریکہ) میں فیصل آباد کے ایک اہل حدیث بزرگ تھے حافظ محمد صدیق انور، ہمارے دوست تھے، ایک اردو اخبار ”پاکستانی“ کے نام سے شکاگو سے نکالتے تھے۔ ۱۹۹۰ء کی بات ہے میں شکاگو میں ان کے پاس ٹھہرا ہوا تھا کہ ان کے پڑوس سے ایک لڑکا آیا۔ انہوں نے کہا اس کا نام علی ہے۔ وہ عیسائی لڑکا تھا، اب ظاہر بات ہے مجھے تردد ہوا کہ عیسائیوں میں علی کہاں سے آگیا۔ میں نے کہا اسے بلائیں۔ اس کو بلایا، اس کا نام پوچھا اس نے بتایا علی۔ میں نے پوچھا علی کس کے نام پر نام رکھا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ اس کے پردادا کا نام علی تھا۔

عیسائیوں کے ساتھ ہمارا یہ معاملہ بھی چلتا رہا۔ مسلمان اسپین سے نکل کر امریکہ وغیرہ جا کر آباد ہوئے۔

حضرات علماء کرام! بڑی تلخ داستانیں ہیں، دل بہت کڑھتا ہے لیکن واقف تو ہونا ہی پڑتا ہے۔ آج میں نے اندلس کے حوالے سے بات کی ہے۔ ایک بات میں شہزادہ چارلس کی نقل کرنا چاہوں گا۔ شہزادہ چارلس برطانیہ کے ولی عہد ہیں، ستر پچھتر سال کے ہو گئے ہیں۔ اب حکمرانی کیا کریں گے، لیکچر دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ اندلس ہمارا استاد ہے، ہم نے جو سیکھا ہے اندلس سے سیکھا ہے، ہمیں جو علم اور روشنی ملی ہے اندلس سے ملی ہے۔ لیکن ہم مسلمان دوسروں کو روشنی دے کر خود اندھیروں میں بھٹک گئے، یہ ہمارا ایک المیہ ہے۔ عیسائی مسلم تعلقات کا یہ بھی حصہ ہے۔ اندلس میں یہ کشمکش چلتی رہی، بالآخر وہ غالب آگئے اور ایسے غالب آئے کہ ہر چیز تبدیل کر دی۔ غرناطہ اور قرطبہ میں ابھی تک علی اسٹریٹ، عمر روڈ موجود ہیں۔ میرا وہاں جانے کو جی نہیں چاہتا کہ میں اندلس میں عمر روڈ پر کیسے چلوں گا، میرا حوصلہ نہیں ہے۔ میں وہاں عائشہ اسٹریٹ میں کیسے چلوں گا کہ وہاں کوئی عائشہ نظر نہ آئے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علماء کرام! مسیحیت کے بارے میں بات چل رہی ہے۔ یہ فرق ذہن میں رہنا چاہیے کہ ہم انہیں عیسائی کہتے ہیں تو وہ اس بات کو ناپسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں مسیحی کہا کریں۔ ہمیں ان کو مسیحی کہنے میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ مسیحی بھی ہیں۔ دور نبویؐ میں مسلم مسیحی تنازعات جس کی ابتدا موتہ اور تبوک سے ہوئی، پھر دور خلافت راشدہ میں اور دور بنو عباس میں، جبکہ یہ مسلم مسیحی تنازعات ابھی تک چل رہے ہیں۔ بعض حضرات اسے فائنل راؤنڈ کہہ رہے ہیں، میں اسے سیمی فائنل راؤنڈ کہتا ہوں کہ یہ آخری راؤنڈ سے پچھلا راؤنڈ ہے، اس کے بعد پھر اگلا مرحلہ ہوگا۔

ایک اصطلاح ہمارے ہاں چلتی ہے صلیبی جنگوں (Crusades) کی، یہ کیا تھیں؟ آج اس حوالے سے بات کرنا چاہوں گا کہ صلیبی جنگوں کا پس منظر، مقاصد اور نتائج کیا تھے۔

صلیب ”کراس“ کو کہتے ہیں جو اُن کے ہاں مقدس مذہبی علامت ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سولی پر چڑھ گئے تھے، ان پر موت آگئی تھی، تین دن قبر میں رہے، اس کے بعد قبر پھٹی اور وہ قبر سے نکل کر آسمانوں پر چلے گئے۔ ہمارے اور عیسائی دونوں کے عقیدے میں یہ بات ہے کہ اس وقت حضرت عیسٰیؑ زندہ آسمانوں پر موجود ہیں، قیامت سے پہلے تشریف لائیں گے، اس عقیدے میں دونوں متفق ہیں۔ لیکن ہمارے اور ان کے عقیدے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ:

  • ان کا کہنا ہے حضرت عیسٰیؑ سولی پر چڑھ گئے تھے، ان پر موت آگئی تھی، تین دن قبر میں رہے تھے، تین دن بعد قبر پھٹی، وہ قبر سے نکلے اور دوبارہ زندگی کے ساتھ آسمانوں پر چلے گئے۔
  • جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ”وما قتلوہ وما صلبوہ ولٰکن شبہ لھم“ (النساء ۱۵۷) ان پر نہ موت آئی، نہ قتل ہوئے، نہ سولی چڑھے ”بل رفعہ اللّٰہ الیہ“ (النساء ۱۵۷) بلکہ پہلی زندگی کے ساتھ ہی آپؑ زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے، یہودیوں کو شبہ میں ڈال دیا گیا۔

صلیب سولی کا نشان ہے، اس زمانے میں سولی پر لٹکایا جاتا تھا۔ یہ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسٰیؑ کی صلیب (سولی) کی علامت ہے، اور یہ ان کا سب سے مقدس نشان ہے، اس کی حرمت پر وہ سارے کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب بیت المقدس مسلمانوں کی تحویل میں آگیا تھا اور عیسائیت دو حصوں میں تقسیم تھی: مغربی یورپ (اٹلی،فرانس وغیرہ) اور مشرقی یورپ (ترکی،یونان وغیرہ)۔

  1. مغربی یورپ میں پاپائے روم کی حکمرانی تھی۔ کیتھولک پیشوا، سیاسی بھی، مذہبی بھی۔ مغربی یورپ کا مرکز روم اور پاپائے روم تھا۔
  2. مشرقی یورپ میں قسطنطنیہ (استنبول) کا علاقہ مشرقی رومہ کہلاتا تھا۔ اس کی قیادت قسطنطنیہ کے چرچ کے پاس تھی اور قسطنطین ان کا عیسائی بادشاہ تھا جس نے شہر کو ترقی دی تھی اور اسے اپنا مرکز بنایا۔ یہ اسلام کے دور سے پہلے کی بات ہے، اس بادشاہ کے نام سے قسطنطنیہ ہے۔ یہ ایک عرصہ سے دارالحکومت چلا آ رہا ہے۔ مشرقی یورپ کا یہ مرکز تھا۔

ان کی آپس میں چپقلش چلتی رہتی تھی۔

بغداد خلافت عباسیہ میں دارالحکومت تھا، ایک دور میں اس کو دنیا کے سیاسی مرکز کی حیثیت حاصل تھی، تمدن، تعلیم، ثقافت اور سیاست ہر لحاظ سے۔ لیکن عباسی خلفاء معاملہ سنبھال نہ سکے اور بغداد کا علاقہ تاتاریوں کے ہاتھوں تاراج و برباد ہو گیا۔

اس کے بعد بغداد پر ترک سلجوقی حکمرانوں کی حکومت رہی۔ اس زمانے میں جب عباسی خلافت ختم ہو گئی تو خلافت کا ٹائٹل مصر کے بنو فاطمہ نے اختیار کر لیا تھا۔ یہ حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے اہل تشیع تھے۔ مصر پر ان کی حکومت کافی عرصہ تقریباً دو سو سال تک رہی ہے، یہ دولت بنی فاطمہ کہلاتی تھی۔ ایک دور میں بنو فاطمہ کی حکومت حجاز، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ پر بھی رہی ہے۔ خلافت عباسیہ کے بعد مصر میں بنو فاطمہ اور بغداد میں سلجوقی حکمران تھے۔ سلجوقیوں کی لڑائی ادھر بنو فاطمہ سے رہتی تھی اور ادھر مغربی یورپ کے عیسائیوں کے ساتھ بھی رہتی تھی۔

  • مؤرخین صلیبی جنگوں ایک کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ جب سلجوقیوں نے دولت بنی فاطمہ سے ان کی حکومت چھینی، صلاح الدین ایوبیؒ انہی کی طرف سے تھا، اور صلاح الدین ایوبیؒ کے ہاتھوں دولت بنی فاطمہ ختم ہوئی تو ان کے باقی ماندہ لوگوں نے پاپائے روم سے مدد کی درخواست کی۔ اِدھر سے سلجوقیوں نے ترکی کا دائرہ تنگ کر رکھا تھا اور مشرقی یورپ کے عیسائی بھی ان سے تنگ تھے، انہوں نے بھی پاپائے روم سے مدد کی درخواست کی۔ قسطنطنیہ اور پاپائے روم آپس میں حریف اور مقابل تھے لیکن سلجوقی حکمرانوں کے سامنے خود کو بے بس پا کر مشرقی یورپ نے مغربی یورپ کی پاپائیت سے ہاتھ ملا لیا کہ ہماری مدد کرو۔ ادھر سے بنی فاطمہ مدد کی درخواست کر رہے تھے، اُدھر سے مشرقی یورپ والے عیسائی مدد کی درخواست کر رہے تھے۔ اس سے پاپائے روم کو مداخلت کا موقع مل گیا، مغربی یورپ کا حکمران تو وہ تھا ہی۔ صلیبی جنگوں کا ایک سبب تو یہ ہے۔
  • دوسرا سبب مؤرخین یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیت المقدس جب مسلمانوں کی تحویل میں آیا تو مسلمانوں نے عیسائیوں کو یہ آزادی دی تھی کہ یہاں آئیں، عبادت کریں اور اپنے مقدس مقامات کی زیارت کریں، لیکن رہ نہیں سکتے۔ بیت اللحم عیسائیوں کا قبلہ ہے جو بیت المقدس سے چند کلو میٹر بتاتے ہیں۔ عیسائیوں کے لیے بہت مقدس مقام ہے اور اس لحاظ سے کہ حضرت عیسٰیؑ کی جائے ولادت ہے ”مکانًا شرقیا“ کہہ کر قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اس لحاظ ہمارے لیے بھی قابل احترام مقام ہے۔ بیت اللحم ہمارا قبلہ تو نہیں ہے لیکن قابل احترام تو ہے کہ اس کی نسبت حضرت عیسٰیؑ کی طرف ہے۔ اسی طرح صہیونیت (صہیون ازم) یہودیوں کا ٹائٹل ہے۔ صہیون بیت المقدس کی ایک پہاڑی کا نام ہے جو حضرت داؤدؑ کی عبادت گاہ تھی، آج بھی اس کے آثار ملتے ہیں۔ یہودیوں نے اپنی تحریک کی نسبت صہیون کی طرف کی۔ اگر وہ حضرت داؤدؑ کی عبادت گاہ تھی تو ہمارے لیے بھی قابل احترام ہے، ہم اس لیے اس کی توہین نہیں کر سکتے کہ یہودیوں نے اس کو اپنا ٹائٹل بنا لیا ہے۔ حضرت داؤدؑ کو ہم بھی اللہ کا پیغمبر مانتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں۔

بیت اللحم عیسائیوں کا قبلہ ہے اور بیت المقدس بھی ان کا پرانا قبلہ ہے کہ یہ یہودیت سے نکلے ہیں۔ اس حوالے سے عیسائی زیارت کے لیے آیا کرتے تھے۔ ایسے ہی سمجھ لیں کہ اسرائیل کو ہم نے تسلیم نہیں کیا، جبکہ بہت سے مسلم ممالک نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ بیت المقدس اسرائیل کے کنٹرول میں ہے لیکن جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے ان کے لوگ بیت المقدس کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ترکی کے صدر طیب اردگان کا بیان ہمیں تو عجیب سا لگا لیکن ان کی بات ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ بیت المقدس جانا چاہیے تاکہ مسلمانوں کی نسبت اس سے نمایاں ہو۔ ہمیں اس لیے سمجھ نہیں آیا کہ ہم اسرائیل جا نہیں سکتے۔ بہرحال اسی طرح عیسائی وہاں آتے جاتے تھے۔ سلجوقیوں نے بنو فاطمہ کے بعد اس پر کنٹرول کیا تو انہوں نے کچھ پابندیاں لگا دیں کہ آنے جانے کی اجازت تو تھی مگر راستوں کی پابندی تھی کہ فلاں راستے سے آؤ جاؤ گے۔ سکیورٹی کے طور پر یا جیسے بھی، بہرحال کچھ پابندیاں لگا دیں۔ وہ پابندیاں عنوان بن گئیں کہ ہمیں بیت المقدس جانے سے روکا جا رہا ہے اور پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ یہ دو تین معاملے اکٹھے ہو گئے۔

یہ پانچویں صدی ہجری کے آخری عشرہ کا دور تھا اور میلادی سن کے لحاظ سے گیارہویں صدی عیسوی کا آخر تھا۔ ۱۰۹۴ء، ۱۰۹۵ء کی بات ہے۔ اس وقت پاپائے روم تھے پوپ اربن ثانی، فرانسیسی تھے، ان سے قسطنطنیہ والوں نے، بنو فاطمہ والوں نے اور پادریوں نے بھی درخواست کی کہ ہمارے راستے بند کیے جا رہے ہیں۔ تو اربن ثانی نے اس ٹائٹل سے کہ ہمارے بیت المقدس آنے جانے پر رکاوٹیں نہیں ہونی چاہئیں، انہوں نے صلیب کے نام پر تحریک شروع کی۔ بعد میں دعویٰ یہ ہو گیا کہ فلسطین ہماری زمین ہے، ہم نے وہاں واپس جانا ہے اور فلسطین پر قبضہ کرنا ہے۔

اس کا اعلان اربن ثانی نے فرانس میں کلیئر ماؤنٹ کے مقام پر ۱۰۹۵ء میں کیا تھا۔ بہت بڑا عالمی اجتماع کیا اور اس میں صلیب اٹھا کر اعلان کیا کہ اس صلیب کے تقدس اور اس کی بالادستی کے لیے ہم ان کافروں (یعنی مسلمانوں) کے خلاف جہاد کریں گے، اور کہا کہ یہ مقدس صلیبی جنگ ہے۔ اور مشرقی و مغربی تمام یورپ کے بادشاہوں سے کہا کہ میں جہاد کا فتویٰ دیتا ہوں اور تمہیں حکم دیتا ہوں کہ مشترک ہو کر جہاد کے لیے چلو اور اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرو۔ اس کے اعلان کا اردو انسائیکلو پیڈیا سے ایک جملہ نقل کرتا ہوں۔ اس نے کہا:

”بیت المقدس کو بہانہ بناؤ اور سرزمین مقدس مسلمانوں سے چھین کر خود اس کے مالک بن جاؤ، یہ سرزمین تمہاری ہے، ان کافروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس مقدس سرزمین کے بارے میں تورات کا کہنا ہے کہ اس میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری ہیں“۔

اس پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے حکمران اکٹھے ہوئے، ان کی مشترکہ فوج تیار ہوئی۔ انہوں نے ۱۰۹۶ء میں پوپ کے اعلان کے اگلے سال پہلا حملہ کیا جو بہت بڑی یلغار تھی۔ پہلے حملہ میں ہی انہوں نے اس علاقے میں اپنی چار ریاستیں بنا لیں: انطاکیہ، طرابلس، الریحاء اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ادھر یہ حال تھا کہ عباسیہ خلافت ختم ہو چکی تھی، ہماری قوتیں متفرق تھیں اور کوئی مضبوط قوت سامنے نہیں تھی۔ شام میں کوئی اور، مصر میں کوئی اور، عراق میں کوئی اور۔ ہماری مختلف حکومتیں تھیں زنگی، سلجوقی وغیرہ۔ یہاں سے پھر شام والے جاگے ہیں، نور الدین زنگی، عماد الدین زنگی، پھر صلاح الدین ایوبی رحمہم اللہ تعالیٰ۔ یہ شام کے علاقائی حکمران تھے، ان کو خیال آیا تو انہوں نے مقابلے کی تیاری کی۔

صلیبی جنگیں دو سو سال چلتی رہی ہیں۔ پہلی صلیبی جنگ ۱۰۹۶ء میں ہوئی، دوسرا حملہ جرمنی کے بادشاہ کورنر ثالث اور فرانس کے لوئی ہفتم نے ۱۱۴۷ء میں کیا۔ تیسری جنگ میں جرمنی اور فرانس کے بادشاہ نے حملہ کیا، ان میں بادشاہ بھی اور شہزادے بھی شریک رہے۔ جنگیں چلتی رہیں، کبھی جرمنی آجاتا کبھی فرانس آجاتا۔ لیکن صلیبی جنگوں کی زیادہ تر قیادت فرانس نے کی، اعلان بھی فرانسیسی پوپ نے کیا تھا۔ دو سو سال انہوں نے جنگی میدان میں مسلمانوں کو مکمل شکست دینے کی کوشش کی اور شکست دیتے بھی رہے۔ بیت المقدس نوے سال ہمارے ہاتھوں سے باہر رہا۔ نوے سال کے بعد صلاح الدین ایوبی نے ان سے بیت المقدس کو آزاد کرایا۔ پھر ایک موقع پر بیت المقدس چند سالوں کے لیے ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تھا، پھر واپس لیا۔آخری صلیبی جنگ ۱۲۹۲ء میں ہوئی جس میں صلیبی فیصلہ کن شکست کھا کر ناکام ہو گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ واپس تو آئے ہوئے ہیں لیکن دوسرے راستے سے آئے ہیں۔

میں نے صلیبی جنگوں کا مختصر تعارف یہ کرایا ہے کہ بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی ان جنگوں میں گزری ہیں۔ یہ مذہبی جنگ تھی، صلیب کے نام پر تھی، فلسطین پر قبضے کے لیے تھی، بیت المقدس پر کنٹرول کرنے کے لیے تھی۔ ان دو صدیوں میں نوے سال وہ غالب رہے ہیں، پھر صلاح الدین ایوبیؒ نے، اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرمائے، بیت المقدس آزاد کرایا۔ صلیبی جنگیں ۱۲۹۲ء تک چلتی رہیں۔

صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد انہوں نے رخ بدلا اور دو راستے اختیار کیے:

  1. ایک محاذ علمی و فکری تھا جسے استشراق کہتے ہیں، اس کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس سے مراد مشرق کا مطالعہ ہے، یعنی مسلمانوں کے علوم میں مہارت پیدا کر کے ان کے اندر شکوک کی فضا پیدا کرنا۔
  2. اور دوسرا محاذ نوآبادیاتی نظام تھا۔ یورپ میں ایک دور میں یہ شوق پیدا ہو گیا تھا کہ سمندر پار کے ملکوں کو دریافت کرو اور تجارتی تعلقات بنا کر وہاں تجارتی مراکز بناؤ۔

نوآبادیاتی دور یہ تھا کہ دوسرے براعظموں کی تلاش کے دوران تجارت کے نئے نئے مراکز تلاش کرنے کے لیے یورپی ملکوں کے نمائندے اور قافلے بحری بیڑے لیے گھومتے پھرتے تھے۔ ہندوستان میں سب سے پہلے واسکوڈے گاما آیا، امریکہ میں پہلے کولمبس پہنچا۔ یہ بھی ایک مقابلہ تھا اسپین، برطانیہ اور فرانس وغیرہ کے درمیان کہ کون زیادہ تجارتی مراکز دریافت کرتا ہے۔ جہاں جاتے تھے،ان کا بنیادی عنوان تجارت ہوتا تھا۔ ہندوستان کے ساتھ ان کی لمبا عرصہ تجارت رہی ہے، یہاں سے سامان لے جاتے تھے، وہاں سے سامان یہاں لاتے۔ اس کے لیے باقاعدہ کمپنیاں بنیں۔ ہماری طرف پرتگال، فرانس اور برطانیہ نے رخ کیا۔ ہالینڈ ہمیں کراس کر کے انڈونیشیا چلا گیا۔ یہ تجارت کے نام پر آئے اور تجارتی اڈے قائم کیے۔ ہندوستان میں دو ایسٹ انڈیا کمپنیاں آئی ہیں، ایک فرانس کی اور ایک برطانیہ کی۔ یہاں مغلوں کا دور تھا، ان سے تجارت کی اجازت لی اور تجارت شروع کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اکبر بادشاہ کے دربار میں پیش ہوئے اور تجارت کی اجازت مانگی، اس نے اجازت دے دی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی فرانس کی اور ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کی، دونوں کا یہاں آنا جانا شروع ہو گیا، ان کا آپس میں مقابلہ تھا اور ہم سے مراعات حاصل کرنے کا سلسلہ تھا۔

یہ لوگ آہستہ آہستہ حکمران کیسے بنے؟ یہ تاجر لوگ تھے، تجارت کے لیے آئے تھے، ٹائٹل بھی تجارت کا تھا۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں اپنے تجارتی مرکز قائم کیے، کلکتہ، بمبئی، لکھنؤ، دلی وغیرہ میں۔ سامان رکھنے کے لیے تجارتی مراکز تو چاہیے تھے۔ جب مرکز مستحکم ہو گئے تو انہوں نے اجازت مانگی کہ ہمیں اپنے تجارتی مراکز کی حفاظت کے لیے مقامی فورس بھرتی کرنے کی اجازت دی جائے۔ مغلوں نے اجازت دے دی۔ اگر بیس پچیس مراکز ہوں اور ہر مرکز کی حفاظت کے نام پر دو دو سو آدمی ہوں تو یہ کافی تعداد بن جاتی ہے۔ اس طریقے سے یہ چھوٹی چھوٹی فوجیں بناتے گئے۔

ادھر مغلوں میں انتشار پھیل گیا۔ حیدر آباد دکن الگ ہو گیا۔ ادھر سکھوں نے بغاوت کر دی۔ ادھر مرہٹوں نے بغاوت کر دی۔ مغل آپس میں لڑ پڑے۔ شاہ جہاں کے بعد اقتدار پر قبضے کے لیے اورنگزیب، داراشکوہ اور شجاع کے درمیان خوفناک جنگیں ہوئیں۔ انگریز اس سے دوہرا فائدہ اٹھاتے تھے۔ پنجاب پر سکھوں نے مغلوں کی کمزوری کی وجہ سے قبضہ کر لیا۔ صرف پنجاب ہی نہیں، موجودہ صوبہ خیبرپختونخوا بھی ان کے اقتدار میں چلا گیا۔ ملتان سے لے کر پشاور تک رنجیت سنگھ کی حکومت تھی۔ ادھر مرہٹے بڑھ رہے تھے جن کے مقابلے کے لیے احمد شاہ ابدالیؒ آیا تھا۔ مغلوں کی خانہ جنگی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور مغلوں کی طاقت گھٹتی گئی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے پہلے بنگال پر قبضہ کیا۔ ۱۷۵۷ء میں چھوٹی چھوٹی فوجیں ملا کر انہوں نے اپنی ایک طاقت بنا لی تھی۔ بنگال میں نواب سراج الدولہؒ حکمران تھے۔ انگریزوں نے اس بنا پر قوانین کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی کہ ہم طاقتور ہیں، فوج ہمارے پاس ہے، جو معاہدات تجارتی طور پر کر رکھے تھے، ان معاہدات کی خلاف ورزی شروع کر دی، سراج الدولہ نے ٹوکنا شروع کیا۔

اس سے پہلے کا ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ مغل حکمران نظر رکھتے تھے اور جہاں خلاف ورزی زیادہ ہوتی وہاں کنٹرول بھی کر لیتے تھے۔ ہمارا ایک بڑا علمی حلقہ ہے فرنگی محلی علماء کا۔ ملا نظام الدین فرنگی محلی کا اپنے علاقے کے لوگوں سے جھگڑا ہو گیا اور اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا۔ لکھنؤ آئے جہاں ایک تجارتی مرکز تھا جو فرنگی محل کہلاتا تھا، فرنگیوں کا محل۔ تجارتی مرکز تھا، اورنگزیب عالمگیر نے اپنے دور میں کسی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ محل ان سے ضبط کر لیا تھا اور ان کو وہاں سے نکال دیا تھا۔ یا کہا جاتا ہے کہ اس کا مالک مر گیا تھا اور کوئی اس کا وارث نہیں تھا، تو ان کے قبضہ کرنے کی وجہ سے یا مالک کے مر جانے کی وجہ سے وہ مغلوں کے قبضے میں آ گیا۔ ملا نظام الدین سہالوی جب اپنے علاقے سے لٹ پٹ کر آئے، ان کی شیعوں سے لڑائی ہوئی تھی جنہوں نے علاقے سے نکال دیا تھا۔ اورنگزیب عالمگیر نے وہ لکھنؤ کا فرنگی محل ان کو دے دیا کہ مدرسہ بناؤ۔ وہ فرنگی محل کا مدرسہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ فقہ اور معقولات کا مرکز تھا۔

جس طرح اورنگزیب نے انگریزوں کا محل ضبط کر لیا تھا اسی طرح سراج الدولہ نے ان پر کچھ پابندیاں لگائیں تو بنگال کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سراج الدولہ کے احکامات کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں جنگ ہوئی، سراج الدولہ کی فوج کو شکست ہوئی، سراج الدولہ شہید ہوئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے بنگال پر قبضہ کر لیا۔ اور نواب سراج الدولہ کو شکست خود ان کے وزیراعظم میر جعفر کی غداری کی وجہ سے ہوئی۔ یہ ان کا پہلا اقتدار تھا جو انہوں نے ۱۷۵۷ء میں حاصل کیا۔ بنگال کی شکست کے بعد انگریز کو بیس مل گئی اور وہ آگے بڑھنے لگے، مختلف شہروں میں ان کی کمپنیاں تو پہلے ہی تھیں، تجارتی اڈے اور حفاظت کے لیے فوجیں بھی تھیں۔

انگریز کے ابتدائی دور میں بنگال ایک ہی تھا۔ اس میں کلکتہ بھی تھا، ڈھاکہ بھی تھا۔ اب کلکتہ مغربی بنگال کا دارالحکومت ہے اور ڈھاکہ مشرقی بنگال کا دارالحکومت ہے۔ جب پاکستان بنا تو مشرقی بنگال ہمارے حصہ میں آیا، مغربی بنگال میں ہندو اکثریت تھی۔

میں نے ان کا طریق کار آپ کو بتایا ہے کہ اس طریقہ سے یہ طاقت پکڑتے پکڑتے بغاوت پر آئے اور سب سے پہلی ریاست انہوں نے بنگال میں قائم کی۔ اس سے ان کے پاؤں وہاں جمے اور پھر آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے تقریباً ستر سال میں دہلی پہنچ گئے تھے۔

چنانچہ اس طریقے سے یہ آگے بڑھتے گئے اور نوآبادیاتی بناتے گئے۔ ان کا نوآبادیاتی نظام یہ تھا کہ مسلمان ممالک میں تجارت کے نام سے جا کر وہاں اثر و رسوخ بڑھاؤ اور آہستہ آہستہ ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر قبضہ کر لو۔ اس کی میں نے ابتدا بیان کی ہے کہ ہمارے ہاں اس کی ابتدا بنگال سے ہوئی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کو سمجھنے کے لیے آج کی ملٹی نیشنل کمپنیاں دیکھ لیں جو مختلف اقوام کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہیں، کسی ملک میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، تجارت پر اجارہ داری حاصل کرتی ہیں، پھر سیاست دانوں کو قابو کرتی ہیں، اور حکومتی نظام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کا جدید ایڈیشن ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے نام پر آئی اور اثر و رسوخ حاصل کیا اور پھر یہاں کے حکمرانوں کی کمزوریوں کو دیکھ کر بغاوت کر دی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کی دوسری بڑی لڑائی سلطان ٹیپو شہیدؒ سے ہوئی۔ ۱۷۹۹ء میں میسور کی جنگ ہوئی۔ میسور ایک آزاد ریاست تھی، انگریزوں کو قبول نہیں کرتی تھی، اس جنگ میں سلطان ٹیپو شہید ہو گئے اور میسور پر بھی انہوں نے قبضہ کر لیا۔

سلطان ٹیپو کے والد سلطان حیدر علی نے سلطنت خداداد میسور قائم کی تھی۔ یہ جنوبی ہند میں ہے، وہاں اکثریت ہندوؤں کی تھی، تب بھی اور اب بھی۔ حیدر علی کے بعد ٹیپو سلطان آیا، یہ بڑا مجاہد آدمی تھا۔ حیدر علی بھی ایک غیور مسلمان تھا۔ سلطان ٹیپو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ میں انگریزوں کا راستہ روکوں گا۔ اس زمانے میں ماحول کیا تھا اور سلطان ٹیپو کے عزائم کیا تھے؟ اس پر میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

ماحول یہ تھا کہ اُدھر ترکی میں خلافت عثمانیہ قائم تھی، اِدھر ہند میں مغل حکومت قائم تھی، لیکن ہمارے پاس کہیں بھی اسلحہ سازی کے کارخانے نہیں تھے۔ میں یہ بات عرض کیا کرتا ہوں کہ ہماری دو بڑی سلطنتیں جو اپنے وقت میں عظیم سلطنتیں تھیں لیکن دونوں نے، خلافت عثمانیہ نے بھی اور مغل حکومت نے بھی، سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں اور خدا جانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔

جبکہ اندلس کی مسلمان حکومت نے سائنس، ٹیکنالوجی اور جغرافیہ پر صرف توجہ ہی نہیں دی بلکہ اس کی بنیاد ہی اندلس کی مسلم حکومتوں نے قائم کی۔ ہمارے ہاں عباسی دور میں ہی یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا، مامون کے دور میں کہ فلسفہ، سائنس اور حکمت کا دور شروع ہو گیا تھا۔ جبکہ بنو امیہ نے اندلس میں بیٹھ کر نہ صرف خود بلکہ یورپ کو بھی راستہ دکھایا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سائنس ٹیکنالوجی کی بنیاد اندلس کی مسلمان حکومتوں نے رکھی لیکن بدقسمتی کہ جب ہم بنیاد رکھنے کے بعد تعمیر کی پوزیشن میں آئے تو شکست کھا گئے تھے، اندلس ہمارے ہاتھ سے چھن گیا تھا۔ ہماری بنیادوں پر یورپ نے سائنسی ترقی کی بنیاد رکھی اور آج تک سائنس ٹیکنالوجی میں اسی کی اجارہ داری ہے۔ آج سائنس،جغرافیہ میڈیکل سائنس کے پیچھے دیکھیں تو آپ کو کوئی نہ کوئی مسلمان سائنسدان محنت کرتا ہوا دکھائی دے گا۔ یہ اندلس کی مسلمان حکومتوں کی توجہ تھی جس کے نتیجے میں صرف یورپ کو نہیں دنیا بھر کو سائنس اور ٹیکنالوجی ملی ہے۔

لیکن خلافت عثمانیہ اور مغل حکومت کا سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی کردار نہیں ہے، جبکہ اپنے دور کی یہ بڑی عالمی حکومتیں تھیں۔ تقریباً پانچ صدیاں دنیا میں ان کی طاقت کا لوہا مانا جاتا رہا ہے، لیکن انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف توجہ نہیں دی جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس کی ایک ہلکی سی مثال دیتا ہوں۔ تیل کو دریافت ہوئے سو، سوا سو سال گزرے ہیں، اس زمانے میں سب سے پہلے عراق میں تیل کے چشموں کا سراغ لگا تھا۔ یہ سلطان عبد الحمید ثانی کا زمانہ تھا۔ اب سے ۱۱۰ سال پہلے اس کا دور بیسویں صدی کا پہلا عشرہ تھا۔ سلطان موصوف نے خود اپنی یادداشتوں میں بیان کیا ہے کہ ہم کہاں کھڑے تھے اور ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ اس زمانے میں ہماری جرمنی کے ساتھ صلح تھی، عالمی محاذ پر جرمنی اور خلافت عثمانیہ اکٹھے تھے۔ پہلی جنگ عظیم ان دونوں نے مل کر مغربی یورپ سے لڑی، جس میں دونوں کو شکست ہوئی، اس کے بعد جرمنی نے خود کو سنبھال لیا جبکہ ہمارا بیڑا غرق ہو گیا۔

سلطان عبد الحمید ثانی اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں مجھے اپنے اداروں کی طرف سے رپورٹ ملی کہ عراق کی زمین کے نیچے تیل ہے لیکن ہمارے پاس تو تیل نکالنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ تیل نکالنا، پھر اسے ریفائن کر کے قابل استعمال بنانا، اور پھر مارکیٹنگ ایک مستقل مسئلہ ہے۔ تیل نکلنا عراق سے ہے اور ضرورت ماسکو کو ہے، تو وہاں تک تیل پہنچانا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ تین مستقل کام تھے تیل نکالنا، اسے ریفائن کرنا اور مارکیٹنگ۔ جبکہ ہم میں ان تینوں کاموں کی کوئی صلاحیت نہیں تھی، اور اب بھی یہ صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہے۔ اب بھی ہم نے پاکستان میں تیل نکالنا ہوتا ہے تو چائنہ کو بلاتے ہیں، وہ نہ معلوم زمین کا تیل نکالتا ہے یا ہمارا تیل نکالتا ہے۔ جرمنی کی حکومت خلافت عثمانیہ کی دوست حکومت تھی، جیسے اب امریکہ ہمارا دوست سمجھا جاتا ہے۔ جرمنی والوں نے خلافت عثمانیہ سے کہا کہ وہاں پینے کا اچھا پانی ہے، ہمیں کنویں کھودنے کی اجازت دیں تاکہ لوگوں کو پینے کا اچھا پانی ملے۔ سلطان عبد الحمید نے اجازت دے دی، مختلف جرمن کمپنیاں آئیں اور وہاں کنویں کھودنے شروع کر دیے۔ کچھ عرصہ بعد سلطان کو اطلاع ملی کہ وہ وہاں سے پانی بھر بھر کے باہر لے جاتے ہیں۔ ان کو پانی باہر لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ تحقیق پر پتا چلا وہ پانی نہیں تیل ہے جو وہ وہاں سے بھر بھر کے خفیہ طور پر لے جاتے ہیں۔ اس پر سلطان نے کمپنیوں کے وہ ٹھیکے منسوخ کروا دیے بلکہ کنویں ہی بند کروا دیے، کنویں اس لیے بند کروا دیے کہ ہمیں نکالنے کا طریقہ نہیں آتا تھا۔

اس زمانے میں امریکہ نیا نیا ظاہر ہوا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں امریکہ فریق نہیں تھا، دوسری جنگ عظیم میں آیا اور اس کا پہلا دھماکہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرا۔ امریکہ نے عالمی جنگ میں شرکت دو ایٹم بموں کے ذریعے کی ہے، اس سے پہلے امریکہ ایک نیا ترقی یافتہ ملک تھا۔ سلطان کہتے ہیں پھر ہم نے تیل نکالنے کے لیے امریکی کمپنیوں کو بلایا۔ اتنے میں سلطان عبد الحمید نظر بند ہو گئے اور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا۔

اس کے بعد یورپ کی کمپنیاں آئیں تب سے وہ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پہلے کمپنیاں آئیں، پھر ان کی حفاظت کے لیے عسکری دستے بنے، جیسے یہاں بنے تھے، پھر فوجیں آئیں، پھر بینک آئے۔ اب وہاں فوجیں بیٹھی ہوئی ہیں اور وہ بیٹھے ہمارا تیل نکال رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے تھے، اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے معاملہ میں ہم ان کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ اوتومان ایمپائر (سلطنت عثمانیہ) کا حال بھی یہی تھا اور مغل ایمپائر کا حال بھی یہی تھا۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ افراد کی غلطیاں معاف کر دیا کرتے ہیں لیکن قوموں کی غلطیاں کبھی معاف نہیں کرتے، قوموں کو اپنی غلطیاں بھگتنا پڑتی ہیں، جو ہم بھگت رہے ہیں۔ اقبالؒ نے یہی بات اس طرح کہی ہے:

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

سلطان ٹیپو کو اس کا احساس تھا۔ اس وقت خلافت عثمانیہ میں سلطان سلیم اول کا دور تھا، یہ بڑے باجبروت حکمران تھے۔ سلطان ٹیپو نے سلطان سلیم اول کے پاس وفد بھیجا کہ میں آپ کا ایک خادم ہوں، میسور کے علاقے میں میری ریاست ہے، اگر مجھے اپنی سرپرستی میں قبول فرما لیں تو میں آپ کا نمائندہ بن کر حکومت کروں۔ اس زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ درخواست کرتے تھے اور کچھ ٹیکس وغیرہ دیتے تھے تو بادشاہ خلعت عطا فرماتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت تو تھی کہ ہمارا مذہبی و روحانی اور سیاسی مرکز ہے:

  • اس پر ایک درخواست سلطان سلیم سے کی کہ ایک کام آپ کریں کہ میں اپنی سلطنت میں اسلحہ سازی کے کارخانے بنانا چاہتا ہوں تاکہ ہم مقابلہ کر سکیں۔ خرچ سارا میرا ہوگا، آپ سائنسدان فراہم کریں اور سرپرستی فرمائیں۔
  • دوسری درخواست سلطان ٹیپو نے سلطان سلیم سے یہ کی کہ عدن جو کہ یمن کا بڑا شہر اور مشہور بندرگاہ ہے، یہ خلافت عثمانیہ کے پاس تھی، عدن کا جغرافیائی محل وقوع ایسا زبردست ہے کہ جو عدن پہ بیٹھا ہو وہ ناکے پر بیٹھا ہے، گویا اس نے پورے علاقے میں ناکہ لگا رکھا ہے، اس کی مرضی کے بغیر کوئی نہیں گزر سکتا۔ اب تو ہوائی جہاز ہیں، اس زمانے میں بندرگاہ ہی ہوتی تھی۔ سلطان ٹیپو نے یہ درخواست کی کہ آپ عدن کی بندرگاہ مجھے لیز پر، ٹھیکے پر دے دیں، میں انگریزوں کا راستہ روک لوں گا۔ انگریز ہمارے ملک پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں، بنگال پر کر لیا ہے، اب ہماری طرف بڑھ رہے ہیں، میں ان کا راستہ روکوں گا۔

خلیفہ عثمانی سلطان سلیم اول نے خلعت تو عطا فرما دی کہ آپ ہمارے نمائندے ہیں، ہم آپ کے سرپرست ہیں، لیکن یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ نہ سائنسدان مہیا کیے نہ عدن کی بندرگاہ دی۔ یہ سلطان ٹیپو کی سوچ بتا رہا ہوں کہ اس ماحول میں اس آدمی کا عزم اور سوچ کیا تھی۔ لیکن وہ کچھ نہ کر سکا، پھر جنگ ہوئی جس میں سلطان ٹیپو کو شکست ہوئی، اس کے وزیراعظم میر قاسم کی غداری کی وجہ سے۔ میسور پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ یہ دوسری بڑی پیشرفت تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کو حاصل ہوئی۔

یہاں ایک طرف کشمکش ایسٹ انڈیا کمپنی فرانس اور ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کی ہمارے ساتھ تھی، اور ایک کشمکش دونوں کی آپس میں بھی تھی۔ دونوں علاقے قبضہ کرنے آئے تھے، جہاں موقع ملتا ہمارے ساتھ بھی مل جاتے تھے۔ چنانچہ سلطان ٹیپو کے ساتھ جو جنگ ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کی ہوئی اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی فرانس سلطان ٹیپو کے ساتھ تھی۔ اور سلطان ٹیپو کی فوجوں کا کمانڈر فرانسیسی تھا۔ جبکہ حیدرآباد دکن جو ہماری بڑی ریاست تھی ان کو ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کا تعاون حاصل تھا، یہ سلطان ٹیپو کے خلاف تھی۔ میسور جب فتح ہو گیا تو اس کے بعد یہ آگے بڑھے اور بڑھتے گئے۔

پھر ان کا تیسرا بڑا معرکہ بکسر کا ہوا، لکھنؤ کے علاقہ روہیل کھنڈ کے علاقہ میں حافظ رحمت خان روہیلہ قبائل وغیرہ کے کچھ خاندان سامنے کھڑے ہو گئے، کچھ ریاستیں کھڑی ہوگئیں۔ اس زمانے میں دہلی پر حکمران تھے شاہ عالم ثانی۔ پالم، دہلی کا بین الاقوامی ایئرپورٹ ہے، دہلی شہر سے دس پندرہ میل ہو گا۔ پالم اس وقت ایک الگ بستی تھی۔ شاہ عالم ثانی کو انہوں نے محدود کر دیا کہ آپ کا دائرہ اختیار دہلی سے پالم تک ہے۔ باقی سارا انتظام ایسٹ انڈیا کمپنی نے سنبھال لیا تھا، ایک محاورہ مشہور تھا: ”سلطنت شاہ عالم، از دہلی تا پالم“۔

تیسری جنگ ۱۸۲۲ء کے لگ بھگ شاہ عالم ثانی کے ساتھ ہوئی، یہاں بھی انگریزوں کو فتح ہوئی اور شاہ عالم ثانی نے ان کے ساتھ صلح کی۔ صلح میں ان کا آپس میں معاہدہ تھا کہ نام بادشاہ کا ہی رہے گا، حکومت بادشاہ کے نام سے چلے گی، لیکن عملاً حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہو گی۔ انتظامی، عدالتی اور مالیاتی اختیارات و کنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہو گا،جبکہ مہر بادشاہ کی ہو گی۔ ان کا یہ معاہدہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ اعلان تین جملوں کا تھا:

”زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا“۔

کمپنی سے مراد ایسٹ انڈیا کمپنی کہ نظام وہ چلائے گی۔ ان کا نمائندہ دہلی آکر بیٹھ گیا، اس نے سارا نظام سنبھال لیا۔ آخری مہر بادشاہ کی لگتی تھی، بادشاہ کا شوق پورا کرنے کے لیے دہلی سے پالم تک کا علاقہ دے دیا گیا کہ یہاں آپ جو مرضی کریں، باقی پورے انڈیا میں کنٹرول ہمارا ہوگا۔

اس اعلان پر حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے، جو اس وقت علماء کے سرخیل تھے، ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا مشہور فتویٰ دیا جو ”فتاویٰ عزیزی“ میں موجود ہے۔ اس فتویٰ کی بنیاد دو چیزوں پر تھی:

  1. نصاریٰ کا تغلب ہو گیا ہے یعنی کنٹرول ان کے ہاتھ میں چلا گیا ہے،
  2. اور شرعی قوانین کی جگہ نئے انگریزی قوانین آگئے ہیں۔

اس لیے اب یہ ملک دارالاسلام نہیں رہا، دارالحرب ہو گیا ہے اور آزادی کے لیے جہاد فرض ہو گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی بحث ہے کہ ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ سب سے پہلے کس نے دیا تھا۔ ہمارے ہاں اب تک معروف ہے کہ سب سے پہلے یہ فتویٰ شاہ عبد العزیزؒ نے دیا تھا لیکن تاریخی بحث یہ بھی ہے کہ ایک فتویٰ اسی عنوان کا اور اس سے زیادہ تفصیلی حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ کا موجود ہے۔ یہ شاہ عبد العزیزؒ کے معاصر اور شاہ ولی اللہؒ کے شاگرد ہیں۔ میں نے قاضی صاحبؒ کا وہ قلمی فتویٰ کاندھلہ میں دیکھا ہے جب ہم دو سال پہلے دیوبند شیخ الہند سیمینار میں گئے تھے، میں اور مولانا اللہ وسایا، مولانا نور الحسن راشد کے ہاں گئے تھے۔ مولانا نور الحسن راشد نے اس پر ریسرچ کی ہے، انہوں نے بتایا کہ قاضی صاحبؒ کا فتویٰ مقدم ہے۔ اب تو انہوں نے اس کو نیٹ پر بھی جاری کر دیا ہے۔ بہرحال جس کا فتویٰ بھی مقدم ہو، ہمارے لیے دونوں قابل احترام ہیں۔

ابھی ایک نئی بحث چلی ہے۔ ”پیغامِ پاکستان“ ایک قومی بیانیہ ہے، میں اس کے لیے ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں شریک تھا۔ میں اس کی ایک شق پر بحث کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست کا حق ہے، کسی فرد یا گروہ کا حق نہیں ہے۔ میں نے اپنے کالم میں ایک سوال اٹھایا کہ اگر آپ پہلے مجھے اس کی تشکیل میں شریک کرتے تو میں ایک تجویز دیتا، کیونکہ جو فتویٰ اجتماعی ہوتا ہے اس میں مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا چاہیے۔ شخصی فتویٰ کسی ایک جز کے بارے میں دیا جا سکتا ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ ایک مسلّمہ مسلم ریاست کے ہوتے ہوئے جہاد کا اعلان ریاست ہی کا حق ہے، فرد یا گروہ کو نہیں ہے۔ لیکن اگر خود ریاست ختم ہو جائے تو پھر کون اعلان کرے گا؟ اگر غیر ملکی تسلط، غیر مسلم اقتدار ریاست ہی کو ہیک کر لے، ریاست کا انتظامی ڈھانچہ ختم ہو جائے، دوسروں کے قبضے میں چلا جائے، تب اس اعلان کی اتھارٹی کس کے پاس ہو گی؟ کیا اس صورتحال کو ہم قبول کر لیں گے، یا کوئی کھڑا ہو گا اور مزاحمت کا اعلان کرے گا؟

اس کی مثال میں نے یہ دی کہ جب ۱۸۲۲ء میں شاہ عالم ثانی کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی کا اقتدار اپنے کنٹرول میں لے لیا اور اعلان کر دیا کہ اب نظم و نسق اور عدالت و مالیات ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں ہوں گے، اور شاہ عالم ثانی کی صرف مہر چلے گی۔ تو شاہ عبد العزیزؒ نے فتویٰ دیا تھا۔ اب خدانخواستہ ایسی کوئی پوزیشن دوبارہ پیدا ہو جائے اور یہ غیر متوقع نہیں ہے، ہمارے اردگرد ہمارے سروں پر سینکڑوں ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی ہی کی شکل میں ایسے منڈلا رہی ہیں جیسے گدھ منڈلا رہے ہوتے ہیں کہ کوئی جانور مرنے کے قریب ہو اور اسے جا کر دبوچ لیں۔

اس کی میں ایک اور فقہی مثال دیتا ہوں۔ احناف کے ہاں جمعہ کے انعقاد کی شرائط میں ہے کہ سلطان اونائبہ، امیر المؤمنین یا اس کا نمائندہ جمعہ پڑھائے گا۔ ہمارے ہاں جب تک مغل حکومت تھی اس کے حکمران یا نمائندے جمعہ کی امامت کرتے رہے، لیکن جب ہمارا سلطان ختم ہو گیا تو پھر جمعہ کا پڑھنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ شرائط تو نہیں پائی جاتیں۔ فقہاء احناف کے ہاں کافی عرصہ یہ بحث رہی کہ اب جمعہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ تو ہم جمعہ کو تعطل سے بچانے کے لیے ”سلطان اونائبہ“ کا متبادل لائے کہ مسجد کے نمازی جس پر متفق ہو جائیں، جس کو امام بنا لیں۔ یہ اصل نہیں ہے، متبادل ہے۔ اس پر بھی ابھی بحث جاری ہے، ہمارے بہت سے فقہاء جو اس متبادل پر مطمئن نہیں تھے، ان کے ہاں اس طرح جمعہ پڑھنے کے ساتھ احتیاطی ظہر بھی پڑھنے کا کہا جاتا ہے۔ اور اس میں مولانا احمد رضا خان تو بہت سخت تھے کہ جمعہ کے ساتھ ظہر بھی پڑھو۔ ظہر احتیاطی کے پیچھے یہی فلسفہ ہے کہ شرط موجود نہیں ہے، جمعہ کیسے ہوگا۔

درمیان میں ایک لطیفہ کی بات کہ میں نے ایک دفعہ علماء کرام کی ایک محفل میں تفنن طبع کے طور پر کہا کہ آپ اسلامی نظام اور اسلامی ریاست اور خلافت کے قیام کے حق میں ہیں۔ انہوں نے کہا، بالکل حق میں ہیں۔ میں نے کہا اگر آج صحیح معنوں میں اسلامی ریاست قائم ہو جائے، خلافت قائم ہو جائے تو آپ کے جمعے خلیفہ کی اجازت پر موقوف ہوں گے یا ویسے ہی جائز ہو جائیں گے؟ خلیفہ کا نائب ہی جمعہ پڑھائے گا۔ سب سے پہلے تو آپ کو منبر چھوڑنا پڑے گا۔ اور پھر زکوٰۃ بیت المال وصول کرے گا یا مدرسے وصول کریں گے؟ منبر بھی گیا، مدرسہ بھی گیا۔ میں نے کہا اب اسلامی نظام کے قیام کا نعرہ لگاؤ۔ یہ میں نے تفنن طبع کے طور پر کہا تھا لیکن یہ امر واقع ہے۔ میں نے یہ مثال اس لیے دی ہے کہ جس طرح جمعے کو تعطل سے بچانے کے لیے ہم نے اس شرط کا متبادل اختیار کیا، میرا سوال مفتیان کرام سے یہ ہے کہ اگر ریاست کا انتظامی ڈھانچہ ہی ختم ہو جائے اور دشمن کا قبضہ ہو جائے تو جہاد کا اعلان کون کرے گا؟ اس صورتحال کو قبول کر لینا اسلام کا تقاضا ہو گا یا کوئی مجاز اتھارٹی ہو گی جو مزاحمت کا اعلان کرے گی؟ مجھے ”پیغامِ پاکستان“ سے پورا اتفاق ہے لیکن یہ ایک پہلو تشنہ رہ گیا ہے، اس پر بھی جواب آنا چاہیے۔ ظاہر بات ہے اگر جمعے میں علماء متبادل ہیں تو یہاں بھی علماء ہی متبادل ہوں گے۔

جب شاہ عبد العزیزؒ نے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا تو یہ فتویٰ ہی پوری جنگ آزادی کی بنیاد بنا ہے۔ اس فتوے کے بعد جو پہلا معرکہ انگریزوں اور سکھوں کے ساتھ اس فتوے کی بنیاد پر ہوا وہ شہداء بالاکوٹ کا ہوا۔

2016ء سے
Flag Counter