عرب اسرائیل جنگ

   
۱۲ اکتوبر ۱۹۷۳ء

نہر سویز کے مغربی کنارے پر اسرائیلی فوج کے حملہ کے نتیجہ میں اسرائیل اور مصر و شام کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ تادمِ تحریر مصر و شام کی بہادر افواج دشمن کو دھکیلتے ہوئے اور اسے بھاری جانی نقصان پہنچاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔

اسرائیل جب سے سامراجی سازشوں کے نتیجہ میں قائم ہوا ہے اس نے عرب عوام کے خلاف ننگی جارحیت کے ارتکاب کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ خود اس کا وجود ہی عرب عوام کے خلاف کھلم کھلا جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو گھر سے بے گھر کر کے اس ’’ملک‘‘ کی بنیاد رکھی گئی اور یہ فلسطینی آج تک کھلے آسمان کے نیچے کیمپوں میں پڑے ہیں۔ لیکن تہذیب و انسانیت کے کھوکھلے نعرے لگانے والے نام نہاد علمبردارانِ امن ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کے مصداق نہ صرف اس ڈھٹائی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں بلکہ اسرائیل کو تمام تر کاروائی میں ان کی عملی پشت پناہی حاصل ہے۔

۱۹۶۷ء کی جنگ میں مظلوم عربوں کو جس قدر سفاکی کا نشانہ بنایا گیا، اس کی تمام تر منصوبہ بندی اور تیکنیکی فریب کاری سامراجی آقاؤں کی چابکدستی کی غمازی کر رہی تھی، ورنہ تنہا اسرائیل کبھی عربوں کے لیے چیلنج نہیں رہا، اسرائیل کوئی طاقت نہیں اور نہ عربوں نے اس طاقت کو تسلیم کیا ہے۔ آج بھی اسرائیل کی وہی حیثیت ہے، وہ سامراج کے کھونٹے پر ناچ رہا ہے۔ اگر امریکی سامراج ایک دن کے لیے اسرائیل کی حمایت سے دستکش ہو جائے تو دوسرے دن کے لیے کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ اس لیے عربوں کی یہ جنگ کھلم کھلا سامراج کے ساتھ ہے۔ اور صدر سادات نے درست کہا کہ یہ دنوں یا ہفتوں کی نہیں بلکہ طویل اور جانگسل جنگ ہے۔

اسرائیل کا مسئلہ تنہا عربوں کا نہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اس جنگ میں ہم اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ ہمیں اپنے تمام تر وسائل عرب بھائیوں کے لیے وقف کر دینے چاہئیں۔ ہم حکومتِ پاکستان سے گزارش کریں گے کہ اس مقدس جنگ میں پاکستانی مجاہدین کی عملی شرکت کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں اور عرب بھائیوں کی مؤثر عملی امداد کی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter